مذہبی شعائر کی پابندی یا شریعت کے نفاذ کی کوششیں

محمد شعیب عادل

tahira

طاہرہ احمد بھارتی نثراد امریکی ہیں۔اور شکاگو کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں مسلم چیپلن ہیں۔ یہ عہدہ وہ تعلیمی ادارے طالب علموں کی کی روحانی رہنمائی کے لیے قائم کرتے ہیں جہاں مسلمان طالب علم زیادہ ہوں۔ طاہر ہ احمد کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے امریکی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی کے کنونشن میں قرآن کی تلاوت کی جس کے بعد قدامت پرست مسلمانوں کی جانب سے ان پر سخت تنقید ہوئی کہ عورت کسی بھی عوامی اجتماع میں تلاوت نہیں کر سکتی کیونکہ (طاہر ہ احمد کے مطابق) عورت کی آواز سے شاید مردوں کے جذبات بھڑکتے ہیں۔

مئی 2015 کے آخری ہفتے میں طاہرہ احمد نے اپنے فیس بک پیچ پر لکھا کہ ’’ میں اس وقت تیس ہزار فٹ کی بلند ی پر یونائیٹڈ ائیر لائن کے ذریعے سفر کررہی ہوں اور میری آنکھوں میں آنسو ہیں کیونکہ جہاز کے عملے نے مجھ سے بدتمیزی اور ترجیح سلوک کیا ہے۔ فلائیٹ ایٹنڈنٹ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا لیں گی تو میں نے اسے ڈائٹ کوک دینے کو کہا تو اس نے مجھے ڈائٹ کوٹ کا کھلا ہوا کین دے دیا۔ میں نے اس سے (حفظان صحت کے پیش نظر) بند کین مانگا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو بند کین نہیں دے سکتی لیکن اگلے ہی لمحے اس نے اگلے مسافر کو بئیر کا بند کین دیا تو میں نے اس سے کہاکہ تم نے مجھے بند کینکیوں نہیں دیا تووہ بولی ہمیں اجازت نہیں کہ دوران پرواز بند کین دیا جائے کیونکہ اسے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ میں نے کہا تم مجھ سے زیادتی کر رہی ہوں کیونکہ تم نے اگلے مسافر کو بند کین دیا ہے ۔ اس نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے بند کین لے کر کھول دیا اور کہا کہ اب اسے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے رویے پر احتجاج کرتے ہوئے میں نے اردگرد کے مسافروں سے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ مجھ سے زیادتی کر رہی ہے تو میرے ساتھ والی رو میں بیٹھے ایک شخص نے کہا کہ تم مسلمان اپنی بکواس بند کرو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا کہاتو اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا کہ تم مسلمان اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہولہذا اپنی بکواس بند کرو۔ میں نے اس کی آنکھوں میں غصہ اور انتقام دیکھا ۔ کوئی بھی میری طرفداری کو تیار نہیں تھا سب کندھے اچکا کر اپنے آپ میں مگن ہو گئے لیکن میں رو رہی ہوں‘‘۔

طاہرہ احمد کی طرف سے فیس بک پر یہ سٹیٹس لکھنے کی دیر تھی کہ آناً فاناً یہ پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ امریکی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ترجیح سلوک کی خبر نشر ہونا شروع ہو گئی اور سرگرم مسلمان نوجوانوں کی طرف سے مغرب اور امریکیوں کے ’’دوغلے‘‘ معاشرے پر تنقید شروع ہو گئی جو مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے وغیرہ ۔

کچھ دن بعد اسی فلائیٹ کے ایک مسافر، جو کہ طاہرہ احمدکے ساتھ والی رو میں بیٹھا تھا نے سوشل میڈیا میں لکھا کہ طاہرہ احمد نے جو واقعہ فیس بک پر لکھا ہے وہ صریحاً جھوٹ ہے اصل واقعہ اس طرح ہے کہ ’’ جب فلائٹ ایٹنڈنٹ اس کے پاس آئی تو اس نے اسے ڈائٹ کوک ، گرین ٹی اور سپلنٹا ( ڈائٹ شوگر) دینے کو کہا تو اس نے اسے کوک لا کر دی اور کہا کہ گرین ٹی تھوڑی دیر بعد مل جائے گی۔ خاتون(طاہرہ احمد) نے انتہائی روکھے لہجے اور ڈانٹتے ہوئے کہا کہ میں نے ڈائٹ کوک مانگی تھی مگر تم نے مجھے دوسری کوک دے دی ہے تو فلائٹ ایٹنڈنٹ نے جواب دیا کہ ڈائٹ کوک ختم ہو گئی ہے صرف ایک کھلا ہو ا آدھا کین موجود ہے ۔ جس پر خاتون نے چلانا شروع کردیا کہ تم سمجھتی ہو کہ میں اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کروں گی ؟ مجھے پورا کین کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ تم مجھ سے ترجیح سلوک کر رہی ہو ! ۔۔۔ جس پر ساتھی مسافروں نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی ۔ ایک نوجوان نے اسے کہا کہ تم اپنا منہ بند رکھو صرف ایک کوک کے لیے اتنا ہنگامہ کھڑا نہ کرو۔ کسی بھی مسافرنے اسے مسلمان ہونے کا کوئی طعنہ نہیں دیا۔ فلائٹ ایٹنڈنٹ بار بار اسے کہتی رہی کہ اگر آپ کو کچھ اور چاہیے تو میں دے دیتی ہوں مگر وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی ۔ اس دوران اس نے پرس سے اپنا کریڈٹ کارڈ اور فون نکالا اورکارڈ کے ذریعے انٹرنیٹ کا کنکشن لیا اور لکھنا شروع کر دیا۔ اس کی آنکھوں میں بہرحال کوئی آنسو نہیں تھے‘‘۔

گارڈین لندن کے نمائندے نے جب طاہرہ احمد سے اس واقعے پر بات کرنے کی کوشش کی تو بار بار کے رابطوں کے باوجود کوئی جواب نہ دیا۔ یونائٹیڈ ائیر لائن کے نمائندے نے کہا کہ ہم طاہرہ احمد سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان سے پوچھا جائے کہ دورانِ فلائٹ اصل میں ہوا کیا تھا؟ اگر فلائٹ ایٹنڈنٹ کی طرف سے کوئی زیادتی ثابت ہوجاتی ہے تو اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ لیکن طاہرہ احمد نے کوئی جواب نہ دیا۔ دو روز بعد طاہرہ احمد نے مقامی اخبار کو بتایا کہ فلائٹ ایٹنڈنٹ نے مجھ سے رابطہ کرکے اپنے اور اس شخص ، جس نے مسلمان ہونے کا طعنہ دیا تھاِ کے رویے کی معذرت کر لی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ طاہرہ احمد نے یہ ڈرامہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے رچایا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گارڈین کے نمائندے سے بات کی اور نہ ہی ائیر لائن کے نمائندے کو کوئی جواب دیابلکہ مقامی اخبار کو بتایا کہ فلائٹ ایٹنڈنٹ نے مجھ سے اپنی اور مسافر کے رویے کی معافی مانگ لی ہے ۔ شہرت حاصل کرنے کے اسی شوق کی وجہ سے طاہر ہ احمد نے اپنی ایک ویڈیو بھی یوٹیوب پر لگا رکھی ہے ۔ جس میں وہ ایک دکان پر جاتی ہیں اور کپڑا خریدنا چاہتی ہیں جب اسے مطلوبہ کپڑا نہیں ملتا تو پھر کوئی اور کپڑا لے کر پارکنگ لاٹ کے فٹ پاتھ پر بچھا کر نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔

امریکی میڈیا میں حجاب کا مسئلہ بھی زیر بحث رہتا ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایک مسلمان خاتون ، سمانتھا ایلاف، کے حق میں فیصلہ دیا ہے جس کو ایک امریکی گارمنٹ کمپنی نے صرف اس لیے ملازمت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ دوران ملازمت حجاب اوڑھنے پر بضد تھی۔ سماجی کارکن پامیلا گیلر نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شریعت پر عمل کرنے والی یہ مسلمان خاتون ایک ایسی کمپنی میں ملازمت کیوں کرنا چاہتی تھی جو نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے نیم برہنہ کپڑے بناتے اور فروخت کرتے ہیں۔ اس خاتون نے کمپنی کے بروشر اور وہ اشتہار تو دیکھے ہی ہوں گے جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نیم برہنہ لباس پہنے بوس و کنار کی حالت میں ہیں ۔ تو کیا اس خاتون کو اس کی شریعت نے اس کمپنی میں ملازمت کرنے کی اجازت دے دی تھی؟

پامیلا گیلر کا کہنا ہے کہ مقدمہ بازی کا مقصد امریکہ کے سیکولر اداروں میں انسانی حقوق کے نا م پر اسلامی رسوم و رواج کو متعارف کرانے کی کوشش ہے اور اس کا مقصد محض فساد پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ خاتون پچھلے سات سال سے مقدمہ لڑرہی تھی اور اس کے وکیل کو ، کونسل آن امریکن اسلامک ریلشنز CAIR کی مدد حاصل ہے اور کئیر کو حماس کی مدد بھی حاصل ہے جسے کویتی حکومت نے دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

مسلمان انتہا پسندوں کی حالت بالکل اس اونٹ جیسی ہے جو سیکولر ازم کے خیمے میں میں آہستہ آہستہ داخل ہورہا ہے۔ حجاب کے بعد اب شلوار قمیض بھی مذہبی لباس بن گیا ہے۔ حال ہی میں امریکی ریاست مزوری کی ایک عدالت نے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو وردی کی بجائے شلوار قیمض پہن کرٹیکسی چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ راجہ نعیم کا عدالت میں کہنا تھا کہ مجھے میرا مذہبی لباس پہننے سے روکا گیا ہے۔ کیا شلوار قمیض مذہبی لباس ہے؟ کیا لباس کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟

نائن الیون کے بعدجہاں ایک طرف ا لقاعدہ اور طالبان نے افغانستان اور پھر عراق پر امریکی حملوں کا انتقام لینے کے لیے مغربی ممالک میں دہشت گردی کی کاروائیاں شروع کیں تو دوسری طرف ان ممالک میں موجود اسلامی تنظیموں نے اپنی عبادات کی ادائیگی اور رسوم و رواج پر عمل کرنے میں بھی سختی کرنی شروع کر دی۔ اور نتیجتاً مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے انتہا پسندانہ رویوں سے اسلامو فوبیا کی اصطلاح عام ہوتی جارہی ہے۔

مغربی ممالک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آبادہے جو بہتر زندگی اور روزگار کی تلاش کے لیے یہاں آن بسے ہیں۔جہاں انہیں اپنے ممالک کی بہ نسبت نہ صرف عبادت کا حق حاصل ہے بلکہ تبلیغ کی بھی آزادی ہے۔ لیکن انتہا پسند مسلمان ا س کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع ہو گئے ہیں اور انسانی حقوق کی آڑ میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں جو کہ صریحاً ایک سیکولر معاشرے کو بنیاد پرست بنانے کی کوششیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو اپنے ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر تو کوئی دکھ نہیں ہوتا مگر مغرب میں ذرا سی بات پر طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔

اگر کوئی مغرب میں دہشت گردی یا تنگ نظر ہونے کا طعنہ دے دے تو مسلمان بھائیوں کی حرکتوں پر شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے اسے اپنے خلاف سازشسمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نائن الیون سے پہلے حجاب کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر اب اسلامی تنظیمیں اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ کچھ تنظیمیں زبردستی اور کچھ ’’پیار‘‘ سے اپنی کمیونٹی میں پردے جیسے احکامات پر عمل کراتی ہیں۔

کچھ مسلمان تنظیمیں یا گروہ(خاص کر عرب) تو یہ مطالبہ کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ انہیں اپنے علاقوں میں شرعی قوانین نافذ کرنے کی اجازت دی جائے۔ یورپی ممالک، خاص کر برطانیہ،جرمنی، فرانس اور سویڈن ، میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی وجہ سے بنیاد پرست قوتیں طاقتور ہوتی جارہی ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ مسلمان ہمارے سیکولر معاشرے اور ثقافت کو تباہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لہذا ان کو واپس بھیجا جائے ۔ توہین آمیز کارٹون بھی اسی ردعمل کا حصہ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کے سماج کا پرامن ہونا اور اس کے ترقی کرنے کی بنیادی وجہ آزادی اظہار رائے اور سیکولر طرز معاشرت ہے جو ایک جمہوری نظام میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مگر مسلمان اس سیکولر ازم کا فائدہ اٹھا کر شریعت نافذ کرنے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں اوران معاشروں کو اپنے ممالک کی طرح جہنم بناناچاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام اتنا پرامن مذہب ہے کہ تمام دنیا کو قبول کر لینا چاہیے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا مذہب اسلام اتنا تنگ نظر ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور مذہب یا ثقافت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں؟ اسلام کو ماننے والے اپنے آپ کو دنیا کا اعلیٰ ترین فرد سمجھتے ہیں اور باقیوں کو بے وقوف یا راہ سے بھٹکے ہوئے ۔ احسا س برتری کا یہ عالم ہے کہ وہ تمام اچھائیوں کو اسلام سے منسوب کردیتے ہیں حالانکہ کسی ایسے اسلامی سماج کی نشاندہی نہیں کر سکتے جہاں تمام رنگ و نسل یا مذاہب کے افراد آزادنہ طور پر رہ سکتے ہوں یا کبھی چودہ سو سال میں رہ چکے ہوں۔

مسلمان اس حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں کہ دنیا میں جتنی رنگینی نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ مختلف الخیال لوگوں کی موجودگی ہے اور انہیں اتنا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے کہ ہمارے علاوہ بھی دنیا میں کوئی بستا ہے جن کی اپنی تہذیب و ثقافت ہے جو بہرحال عرب کی تہذیب وثقافت اور رسوم ورواج سے بہت بہتر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ جوق در جوق ان ممالک میں بسنے کے لیے آرہے ہیں۔ ہاں اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو پھر آپ کو اس جگہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں اور اپنی شاندار تہذیب میں لوٹ جانا چاہیے۔

Comments are closed.