کچی آبادی کے افغانوں کے خلاف پاکستانی ریاست کی آئینی کاروائی

خان زمان کاکڑ

afghan basti

میری نظر میں کچھ بھی اتنا غلط نہیں ہوا۔ اسلام آباد کے آئی ایلیون سیکٹر میں جن کچی آبادیوں کو مسمار کیا گیا اور خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر نکالا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیایہ ریاست کا ’حق‘ تھا۔ ریاست کو یہ’ حق ‘آئین’ نے دیا ہوا ہے۔ ریاست اگر یہ کچھ اپنے شہریوں کے خلاف کرتی تو احتجاج کا تھوڑا اور ذرا سا جواز بنتا تھا یعنی اگر کسی پنجابی یا کسی ٹھیکیدار کے گھرکو مسمار کیا جاتا تو سول سوسائٹی اور لبرل لوگوں کا فرض بنتا کہ وہ اپنا شریف سا نعرہ’’وی وانٹ جسٹس‘‘ لگاتے۔ مگر اس کچی آبادی میں رہنے والے نہ تو پنجابی تھے اور نہ ٹھیکہ دار بلکہ وہ افغان تھے اور ریاست نے بجا طور پر اس کو افغان بستی کا نام دیا تھا۔ یہ فاٹا اور پختونخوا کے رہنے والے پشتون تھے۔

پشتون ڈیورینڈ لائن اور اس پر کھودی ہوئی خندق کے باوجود بھی اپنے آپ کو افغان کہتے ہیں۔ ان کی زمین کی ملکیت کے کاغذات میں، ان کے لوک داستانوں میں اور ان کے ادب میں ان کی قومیت افغان بتایا گیا ہے۔ ان کے سب سے موثر قومی لیڈر عبدالغفار خان کو اسی پشاور، مردان، صوابی اور چارسدے کے پشتونوں نے فخرِ افغان کا لقب دیا تھا۔ انہی اضلاع سے ایسٹبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود وقتاًفوقتاً انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان تقریباً ہر جلسے میں فخر سے کہتے ہیں کہ انہوں نے پرویز مشرف کو خبردار کیا تھا ’’جرنیل صاحب !میں ایک بات واضح کردوں، میں کل بھی افغان تھا، میں آج بھی افغان ہوں اور کل بھی افغان رہونگا‘‘۔

یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس ’سازش ‘کی ایک لمبیتاریخ ہے ۔اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں رہائش کا حق مانگنے کے لیے جتنا بھی کوئی اپنے آپ کو پاکستانی قرار دے اس سے وہ پاکستانی نہیں بن سکتا۔ ان مزدور پشتونوں نے ایک کچا مکان کا حق پانے کے لیے پاکستان تو کیا ایک’ نیا پاکستان ‘کا نعرہ بھی لگایا تھااور’تبدیلی ‘کے لیے ووٹ بھی دیا تھا۔ اور ریاست نے ان کو نیا پاکستان بھی دیا اور تبدیلی بھی۔ جب خواتین کو گھسیٹا جائے، بچوں کو رلایا جائے، بوڑھوں کو بے آبرو کیا جائے او رسرچھپانے کیلئے ساری دنیا میں کوئی مکان نہ رہا جائے تو زندگی اور شعور میں ایک خاص قسم کی تبدیلی تو آتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جو پشتون علاقے پاکستان میں آتے ہیں یا پشتون قوم پرستوں کے بقول جن پشتون علاقوں پر پاکستان نے قبضہ کر رکھا ہے ان میں پاکستان کسی بھی’’افغان ‘‘کو رہنے نہیں دے گا۔ رہنے کیلئے سب سے پہلی شرط: افغان ہونے کا دعویٰ تر ک کرنا پڑے گا اور دوسری شرط :ریاست کے کاروبار، ٹھیکوں اور جہادوں میں کسی نہ کسی طرح شریک ہونا پڑے گا۔ افغان بھی ہو اور غریب بھی اور اوپر سے اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر میں رہنے کا خواہش مندیا ضرورت مندبھی!! اس کو اگر کوئی اور نام دیا بھینہ جائے ، غیرقانونی اقدام تو ہے۔

ا گر یہ لوگ کچھ سرمایہ دار ہوتے تو اسلام آباد میں ان کی رہائش کا جواز بنتا۔ اس لئے کہ ایک تو سرمائے کی کوئی سرحدنہیں ہوتی اور دوسرا یہ کہ ان کی موجودگی سے ریاست کی ’معیشت‘ اور’وقار‘کو کچھ فائدہ تو پہنچتا۔ ریاست اتنی تنگ نظر اور نسل پرست بھی نہیں۔ اس نے راولپنڈی کینٹ میں بھی بہت سارے’ پشتونوں‘کو بسایا ہوا ہے۔ معیشت پر بوجھ بننے والے، شہر کی خوبصورتی کو گندہ کرنے والے اور اوپر سے پشتون بھی جن سے آپ کسی قسم کی ’تخریب ‘کی توقع رکھ سکتے ہیں کسی بھی قانون کی رو سے اسلام آباد میں رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔ قانون اگر لوگوں کو کنٹرول نہ کرسکے تو اس کی ضرورت ہی کیا رہے گی۔ قانون کی رو سے ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔

غربت، بے روزگار ی اور دہشت گردی کی وجہ سے یہ پشتون اپنے علاقوں سے بھاگ کر اسلام آباد میں آباد آ بسے تھے بلکہ برباد ہوئے تھے۔ ان کی بربادی کی وجہ تو ایک ان کی قومیت تھی اور پاکستانی ریاست کی’ بقاء او رقومی مفاد‘کو اس قومیت سے تعلق رکھنے والوں نے ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔ کہا گیا کہ یہ پشتون اپنے علاقوں سے بھاگ کر اسلام آباد میں آئے۔ دراصل ان کو بھگا یا گیا تھا۔

تاریخی طور پر پاکستان کو کبھی بھی لوگوں کی ضرورت نہیں رہی ہے بلکہ اس کو زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان میں بھی زمین کی ضرورت تھی، بلوچستان میں بھی، پختونخوا اور فاٹا میں بھی، سندھ میں تو ابھی فوج کو زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا یعنی صرف نو ہزار ایکڑ کا تحفہ ملا ہے، ریاست کا حق اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ ریاست کو اس کے جغرافیے میں آنے والی ساری زمین پر ملکیت کا حق ہے۔ ریاست یہ حق ہر صورت میں لے گی۔

ریاست نے جب ان پشتون لوگوں سے فاٹا اور پختونخوا میں زمین چھین لی تو یہ آکر بادشاہوں کے شہر اسلام آباد میں ’’آباد‘‘ ہوگئے۔ اسلام آباد کی نہ صرف زمین فاٹا اور پختونخوا سے قیمتی ہے بلکہ اس کی حیثیت بھی بہت مقدس ہے۔ مزدور پشتون جس سے آپ ہر قسم کی ’’تخریب‘‘ (بوٹ پالش، ریڑھی چلانا وغیرہ) کی توقع رکھ سکتے ہیں ان کو اس شہر کا تقدس پامال ہونے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے۔ یہ قوی امکان ہے کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ نے اسی کچی آبادی میں نشانہ بنایا ہو اور پھرفوج کو بدنام کرنے کیلئے ایک گیریزن سٹی ایبٹ آباد کا نام استعمال کیا ہو او ر یہ اندازہ بھی غلط نہیں ہوگا کہ امیرالمومنین ملا محمد عمر آخوند نے بھی یہاں آخری سانس دی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی رینجرز اور پولیس کچی آبادی کے خلاف آپریشن کرنے پہنچ گئے تو ملا عمر آخوند کے فوت ہونے کا اعلان کیا گیا۔

فاٹا میں ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے لوگوں کو وہاں سے نکالنا پڑا تھا۔ اس لئے کہ لوگوں کی موجودگی میں اگر طالبان کے ساتھ ملکی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کچھ معاملہ کرنا پڑتا تو اس کو فوج اور طالبان کا ایک ہونے کا نام دیا جاتا۔ تاریخی طور پر یہ بڑے سازشی لوگ رہے ہیں۔ یہ عجب خان آفریدی او ر فقیرایپی کی قوم ہے ۔ انگریز جب اس خطے کو’ مہذب‘ اور’ ترقی یافتہ‘ بنانے کے لیے آئے تھے تو اس بدنصیب قوم نے انگریز کو اس عظیم مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔ تاریخ میں تو ان کے ’پسماندہ کارنامے ‘بہت ہیں۔

ابھی حال ہی میں جب آپریشن ضربِ عضب کے سلسلے میں پاکستان کی بقاء کیلئے پاکستانی فوج شمالی وزیرستان پہنچنے والی تھی تو ہزاروں کی تعداد میں یہ قبائلی لوگ افغانستان بھاگ گئے اور وہاں ہندو دشمن کی گود میں بیٹھ گئے۔ وہ جو کل کچی آبادی میں چیخ چیخ کر اسمان سر پر اٹھا رہے تھے وہ بھی تو انہی قبائلیوں کے رشتہ دار ہی ہونگے کہیں اسمان سے تو نہیں اترے تھے۔

پشاور، چارسدہ، مردان اور صوابی والوں کا تو بتایا گیا، وہاں تو ان کے فخرِافغان نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ انگریزوں کے دور سے لے کر آج تک۔ پاکستان کی تخلیق کے مخالف تھے۔ مسلم لیگ کے خلاف ہندؤں کی مسلمان دشمن تنظیم کانگریس کو ووٹ دیتے تھے۔ بنوں میں پشتونستان کی قرارداد پاس کی تھی۔ ستر کی دہائی میں سابق وزیراعلی حیدر ہوتی کے باپ اعظم ہوتی پشتونستان بنانے اور پاکستان توڑنے کی سازش میں جلال آباد جاکر وہاں کیمپ چلا رہے تھے۔ عبدالغفار خان بھی اسی جلال آباد میں دفن ہیں۔

روس کے خلاف جہادِ فی سبیل اللہ سے لیکر کالاباغ ڈیم تک، گوادر کاشغر روٹ تک ان سب کو ناکام بنانے کیلئے یہ لوگ فعال رہے ہیں۔ ابھی جو یہ بڑے محب وطن بننے کی کوشش کررہے ہیں یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ ریاست ان کی اس چالاکی کو نہیں سمجھ سکتی ۔ ان کی سرشت میں حبِ وطن نہیں۔ پنجاب کو کبھی انہوں نے اپنا مسلمان بھائی نہیں سمجھاہے۔

افراسیاب خٹک کل کچی آبادی کو مسمار کرنے کے خلاف احتجاج کرنے وہاں پہنچے تھے۔ کیا ریاست کو پتہ نہیں کہ وہ انقلابِ ثور کے دوران افغانستان میں تھے اور ایک جدید اورترقی یافتہ افغانستان بنانے کیلئے انقلابیوں کے سب سے قریبی کامریڈ بنے ہوئے تھے ۔ ریاست ایسے لوگوں پر کبھی اعتماد نہیں کرسکتی۔ ان لوگوں اور ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے بارے میں بھٹوصاحب نے درست فرمایا تھاکہ یہ کبھی بھی پاکستان کے دوست نہیں بن سکتے۔ ان کی بنیاد پاکستان دشمنی پر ہے۔

جن لوگوں نے اسلام آباد میں کچی آبادی کے نام پرجائیدادیں بنائی ہوئی تھیں وہ اسی سازشی طبقے کے بھائی اور رشتہ دار تھے۔ اسی طبقے میں سے جن کو کل گرفتار کیا گیا انہوں نے دہشت گردی کی کوشش کی تھی ۔انہوں نے ریاست کے’ آئینی اقدام ‘ کو چیلنج کیا تھا۔ یہ سب کے سب پشتون تھے اور سب کے سب ریاست کے اس راست اقدام کی مخالفت کررہے تھے۔ ریاست کو ایسے معاملات میں نسل پرست ہونا ہی پڑتا ہے۔ پاکستان کے پاس نسل پرستی کے سوا کوئی اور راستہ بچتا بھی نہیں۔

بعض لوگ بڑی نادانی میں رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ ریاست تاریخی طور پر کہیں بھی اور کبھی بھی ماں جیسی نہیں رہی ہے۔ البتہ اگر کوئی فیمنیسٹ ہو تو ریاست کو باپ سے تشبیہ دے سکتا ہے۔بعض دوست پھرپشتونوں کو بھی ریاست کے ’شہری‘ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ان کو شاید سٹیزن اور سبجیکٹ میں تمیز کرنا نہیں سکھایا گیا ہے۔یہ بھی بتادوں نسلوں سے جو لوگ اپنی پشتون سرزمین پر آباد تھے اگر پاکستانی ریاست ان کو اپنی پشتون سرزمین سے بے دخل کرسکتی ہے تو اپنے دارالحکومت سے تو بڑی آسانی سے باہر پھینک سکتی ہے۔

اسلام آباد مڈل کلاس کا ایک خوبصورت شہرہے۔ کوئی بڑا سے بڑا دہشت گرد بھی اگر اسلام آباد کے کسی سرمایہ دار سیکٹر میں مقیم ہو اور وہاں سرعام تخریبی سرگرمیاں کرتا ہو پھر بھی اس مڈل کلاس کا ایمان ہے کہ غریب بندہ ہی جرائم پیشہ ہوتا ہے۔اسلام آباد فوج کا شہر ہے وہاں پہ خاکی ایمان والا ہی گزارہ کرسکتا ہے۔

اسلام آباد کو شہر کہا جائے یا کچھ اور لیکن پنجابیوں کا کلچر وہاں پہ حاوی اور حکمران ہے اس کلچر میں پشتونوں کے حوالے سے کافی زیادہ ارشادات، فرمودات اور اقوالِ زریں موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت جس پنجابی جماعت مسلم لیگ کی حکومت ہے یہ پنجابی ٹھیکہ داروں اور نوکروں کی جماعت ہے۔ ابھی اگر اسلام آباد میں رہنا ہے تو ٹھیکہ داری شروع کرو یا کوئی نوکری تلاش کرو۔

کچی آبادی کے ٹھکرائے ہوئے بے آسرا افغانوں کی ہم کچھ اورمدد نہیں کرسکتے اپنے افغان وطن میں واپس آنے کا دعوت دے سکتے ہیں۔ ویسے بھی ان کیلئے پنجاب جانے کی اجازت تو نہیں۔ برہمن پنجاب، شیخ صدیقی ، شیخ فاروقی پنجاب اور شریف پنجاب کبھی بھی ان ناپاک،جرائم پیشہ، دہشت گرداور منشیات فروش انسانوں کو برداشت نہیں کرے گا۔

3 Comments