رمضان کا دھندہ

امر سندھو

Aamir_liaquat_hussain_image_20136

لوگ مجھے چاہتے ہیں اسی لیے تو دیکھتے ہیں۔

اگر وہ یہ کہتا ہے تو جھوٹ تو نہیں کہتا، اور آپ سب بھی یہی مانتے ہیں کہ اس کا پروگرام جہاں ریکارڈ ہوتا ہے وہاں ریکارڈنگ کے وقت لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے سڑک بھی کئی گھنٹوں تک بند رہتی ہے۔ پھر آپ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس کا پروگرام پاکستان میں کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں۔

اب اگر اس کی ڈگری جعلی ہے تو کیا ہوا، پاکستان بھر میں بیسیوں ایسے سیاسی نمائندگان ہیں جنہوں نے اپنی ڈگری کے بارے میں جھوٹ بولا پھر پکڑے بھی گئے مگر مجال کہ کسی نے ذرا بھی شرمندگی کا اظہار کیا ہو ۔

یہ بندہ روزگار جس کے خلاف ایک طوفان سا کھڑا ہوگیا ہے، یہ بچارا تو پھر بھی اک اینکر اور انٹرٹینر ہے۔ بس رمضان کے تیس روزوں تک اپنی روزی روٹی حلال کرے گا پھر دوسرا رمضان یا نصیب۔ ہاں؛ البتہ بیچوں بیچ اگر کبھی بارہ ربیع الاول، محرم یا شبِ معراج کے کسی نئے آئٹم کے ساتھ حاضری لگا لی تو ٹھیک ہے ورنہ اسے کونسا ہفتے کے چار دن مائیک پکڑ کر طرح طرح کے سیاستدانون کے کپڑے اتارنے کا کام کرنا ہے۔ ساری دنیا اس غریب کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور تو اور غضب خدا کا غیر ملکی میڈیا جیسے کہ سی این این اور بی بی سی والے بھی ھماری دیکھا دیکھی، اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ان کے پاس اپنے مسخرے کم ہیں کیا؟

مان لیا؛ بات کرتے وقت اس شخص کا اپنی زبان پہ کنٹرول کچھ کم رہتا ہے، چرب زبانی کی بھی اسے پرانی عادت لگتی ہے لیکن ہفتے کے چار دن ٹی وی پہ سیاسی سرکس لگا کے بیٹھنے والے دوسرے جو اینکزر ہیں کیا انکی زبانیں کبھی کنٹرول میں آئی ہیں؟ حضور! ذرا ان پہ بھی انگلی اٹھا کر تو دیکھیئے۔ ان کے سرے تو آبپارہ سے لے کر پنڈی کے جوانوں تک ملتے ہیں۔ آخر کو سرپرستی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ زبانوں کی لگام صرف مسخرے پن کے لیے تو ڈھیلی نہیں کی جاتی، بس ذرا دیکھتے جائیں کہ کس کی زبان کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے، اس میں اکیلے عامر لیاقت حسین کو بدنام کرنا کچھ جچتا نہیں۔

چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دینی معاملات میں احتیاط ضروری ہے اور یہ حضرت وہاں پہ اوور سمارٹ بننے کی کوشش میں اصل حقائق کو مسخ کردیتے ہیں۔ بھلا دین کے معاملے میں ان سے کیونکر رعایت برتی جائے۔

درست، مگر بھائی دیکھیں، وہ حضرات جن کی دنیا مدرسے کی چار دیواری سے شروع ہو کر وہیں تک ختم ہو جاتی ہے، وہ بھی تو دنیاوی مسائل سیاست و سائنس وغیرہ پہ دھڑلے سے فتوے جاری کرتے پھرتے ہیں۔ کبھی ان کا نام آپ کی زباں پہ آیا ہے؟ یہی دیکھ لیں آجکل اک باریش مولوی کا فتویٰ سوشل میڈیا میں بڑا مقبول جا رہا ھے۔ حضرت کا فتویٰ ہے کہ شام کے خون آشام فسادات میں غیر سنی عورتوں کا ریپ جائز ہے۔

ارے شام تک بھی بھلا دور کیوں جائیں یہ اپنا لاڈلا محمد اسحاق تھا نا جس کو اس پاک وطن میں شیعہ کا وجود ہی ناپاک لگتا تھا اس لیے ان کے لیئے شیعہ نسل کشی نہ صرف حلال مگر باعثِ ثواب ہے۔ خودکش بمبار بھی بہت سوں کے لیئے عین شریعت کے مطابق ہیں، کیا ہوا گر ان دھماکوں میں سینکڑوں معصوم و بے گناہ بچے و بوڑھے نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ آپ اس قسم کے فتووں کے خلاف بات کر کے تو دیکھیں کہیں حرمین شریف ہی سے نہ وارننگ آ جائے۔ مذہب کا غلاف چڑھا ہو تو، قتل و ریپ، چھیننا، لوٹنا جہاد و مالِ غنیمت کے کھاتے میں ڈال کر سب جائز بنا لیئے جاتے ہیں۔

لمبی داڑھی ہو تو بھونڈے سے بھونڈا مذاق بھی بڑی سنجیدگی سے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ دیکھ لیجئے پچھلے سال یہ حضرت اپنی تمام تر اداکاری کے باوجود چل گئے مگر بچاری وینا ملک پہ واویلا کچھ زیادہ ہوگیا۔ بس بچاری داڑھی نہ ہونے کی وجہ سے مار کھا گیءں ورنہ تو اس سے بھی بڑی داڑھی والے جنید جمشید وغیرہ تو دوبارہ رمضان کی نشریات میں واپس آگئے۔

کیا یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ اس خاتون پہ فحاشی کا الزام تھا مگر اس کے خلاف چیخنے والے لوگ زیاہ تر باریش مولوی حضرات تھے۔ کسی نے پوچھنے کی جرات کی کہ میاں تم نے اسے فحاشی پھیلاتے کہاں دیکھا۔ ان مولویوں کی وجہ سے بچاری توبہ کرنے سے بچ گئی، اور پچھلے رمضان میں اپنی بخشش کا کوئی سامان نہ کرسکی۔آپ تلملا رہے ہیں کہ یہ حضرت اپنے پروگرام کی ریٹنگ کے لیئے معصوم بچوں تک کی بھی بولی لگا کر بچے بانٹتے پھر رہے ہیں اور ان کو کچھ کہنے والا کوئی نہیں۔ دیکھیں آپ سکون سے بیٹھیں، غصہ تھوک دیں اور چیزوں کو انکی اصل شکل میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ مانا کہ ریٹنگ کے چکر میں یہ بندہ بنیادی اخلاقیات کا سبق بھی بھلا بیٹھا ہے کہ جس کی بولی لگانے جا رہا ہے وہ کوئی جاپانی گڑیا نہیں ایک جیتا جاگتا بچہ ہے!

آپ کا اعتراض درست مگر جناب کیا منافع کے اصول پہ کھڑے اس میڈیا کی پوری صنعت کی اپنی بھی کوئی اخلاقیات ہے؟ ممتاز قادری کا ہی قصہ یاد کر لیجئے، اس وقت تھر تھر کانپتی یہ میڈیا انڈسٹری ڈر کے مارے اک قاتل کو مذہبی ہیرو بنا گئی اور وہ بچارہ جو بیچ سڑک کے اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں ان گنت گولیان کھا کر گرا تو سڑک سے لحد تک جاتی خون کی لکیر دکھانا بھی اسی میڈیا کے لیے گناہ کبیرہ ٹھہرا۔ اب اس میڈیا کی اخلاقیات لکھنے کا قلم اس اہل جبہ کے ہاتھ آچکا ہے جو خود بھی سر تا پا خون کے دھبوں کی بہار لیے ہوئے ہے۔

اک بچہ جاپانی گڑیا کی طرح کسی کی جھولی میں ڈال دینا بیشک اک ناقابلِ تلافی جرم ہے مگر انگلی ان کی طرف اٹھتے ہوئے کیوں کانپتی ہے جو سینکڑوں بچوں کو انکی مرضی پوچھے بغیر مدرسوں سے اٹھا کر خودکش بمبار کی ٹرینگ کے لیے پہاڑوں میں بھیج دیتے ہیں کہ اب یہ بچے بھی ہماری وہ جنگ لڑیں جو ہمارے پیشے کے اعتبار سے ہم پہ فرض تھی۔

چھوڑیئے جناب؛ پہاڑوں پہ دہشت گردی کی تربیت پاتے ان بچوں کے بھی کوئی حقوق ہوتے ہونگے جو اک ایسی پراکسی کا ایندھن بنائے جا رہے ہیں جو شکست و جیت کی دونوں صورتوں میں ان کی اپنی نہیں۔

آپ کا یہ اعتراض بھی بجا کہ یہ شوبز کا بندہ ہے اور مذہبی اسکالر اور مسیحا بن کر ان غریب و مساکین کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کرے۔ اسے یہ بھی اقرار کر لینا چاہیے کہ وہ صرف اشیاء کی اشتہار بازی والی مہم کا اک بے ضرر سا کارندہ ہے جس کے ہاتھ میں مائیک پکڑا کر یہ انڈسٹری دراصل اپنی اشیا کی فروخت کو فروغ دے رہی ہے۔

معذرت کے ساتھ اگر ہم ان فقیروں، بھکاریوں، بھوکوں، ننگوں اور تلاشِ سکوں میں مارے مارے پھرنے والے حاضرین و ناظرین کو اگرہم بتا بھی دیں کہ یہ دارصل مذہبی لبادہ اوڑھے اک مداری کا شو ہے جس میں وہ نقلی داڑھی لگا کر اپنے ساتھ ملے ہوئے دوسرے اداکاری کا شغل رکھنے والے مذہبی علماء کے ساتھ ایک کھیل کھیلتا ہے تو کیا وہ اس کے پروگرام میں جانا بند کردیں گے۔ ہم اگر انہیں کہیں کہ اس کھیل میں شعبدے بازی کے نایاب نمونوں سے وہ مختلف مصنوعات بیچنے کے لیے آپ کی اور ھماری محرومیوں سے کھیلتا، ان کا مذاق اڑاتا ہم سب کو بے وقوف بنا رہا ہے اور یہ کہ، دراصل یہ مذہبی پروگرام نہیں بلکہ مذہب سے وابستہ آپ کی سستی جذباتیت کو تسکین پہنچاتا، چینل کی ریٹنگ بڑھانے والا ایک ڈرامہ ہے جس میں اس مذھبی چغے میں ملبوس مداری سمیت آپ سب کے کردار پہلے سے طے شدہ ہیں تو کیا ہوگا۔

اگر اس پروگرام کے یا اس جیسے تمام پروگرامز کے حاضرین و ناظرین کو سب کچھ بتا بھی دیا جایے، تو کیا یہ مذہبی سرکس بند ہو جائے گا؟سچ تو یہ ہے کہ جب تک مذہب آپ کے سیاسی و سماجی دھندھے کا حصہ بنا رھے گا تب تک یہ مداری پن چلتا رہے گا۔

امر سندھو، سندھ یونیورسٹی جامشورو میں فلسفے کی استاد ہیں بشکریہ ڈان

2 Comments