صنعتی معاشرہ اور ملائیت

سویڈن سے آمنہ اختر


article-1384353-0BF00EA300000578-955_634x376
انسانی دماغ میں سوچ اور خیالات کا اُبھرنا اور اُن کو عملی جامہ پہنانا کوئی عجیب بات نہیں ہے ہر انسانی ذہن اپنے معاشرے سے ہی اپنی نشونما پاتا ہے اُس معاشرے کی اقدار روایات، رسم رواج ہی اس کی پرورش کرتے ہیں۔

اگر ذکر پاکستان کا ہوتو اس کے سترہ کروڑعوام مذہبی تعصب، ناخواندگی، سماجی او نچ نیچ، قدامت پسندی، جنسی تفریق ، انسانی تشدد اور بے روز گاری جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کاری کی تعلیم ترقی یافتہ ملکوں سے حاصل کردہ ہے جو کہ بچھڑے ہوئے سماج میں موجودہ مسائل سے نبٹنے کے لئے ناکافی ہے۔ باقی رہی سہی کسر ملائیت نکال رہی ہے ان کا زور ملک کی آدھی آبادی کو چار دیواری میں قید رکھنا اور عام انسان کو ان کے مسائل کا حل غیر مرئی طاقتوں کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ مُلا حضرات پاکستانی شہریوں کی زندگیوں کو مفلوج کرنے میں بھرپور کردار اداکر رہے ہیں۔ ان کے مطابق انسان کے معاشی اور سماجی مسائل کا حل روحانی عمل میں مضمرہے۔

مذہبی تعصب کا شکار یہ مُلا مغربی ممالک کے صنعتی معاشرے میں مذہب کو زندہ کرنے آتے ہیں اور شاید بھول جاتے ہیں کہ اُن کے اپنے ملک میں مذہب انسانی زندگیوں پر کیسے اثر انداز ہورہا ہے۔ ان کی ٹخنوں سے اونچی شلواریں اور سروں پر فہم و ادراک سے عاری پگڑیاں جب جدید ٹیکنالوجی سے لیس ٹرینوں میں سفر کرتی نظر آتی ہیں تو ایک فکر مند انسانی ذہن سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا یہ بھی جدید ٹیکنالوجی کا حصہ ہیں؟ یا پھر پہیے کی ایجاد سے پہلے کی انسانی مخلوق جن کی لوٹ مار کے سامان کا عورت بھی حصہ ہوتی تھی۔ کیا اُن کی آنکھیں اور ذہن صنعتی معاشرے کی عورتوں کے مضبوط ذہن اور طاقت ور جسموں کو سورج کی سفید روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟اور کیا وہ صنعتی معاشرے میں موجود عورتوں کی طرح آٹھ گھنٹے ذہنی اور جسمانی مشقت کرنے اور اپنے خانگی مسائل اور خوشیوں سے نبردآزماہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

میرے خیال میں یہ سوالات اُن کی زندگی کے کا حصہ ہی نہیں ہیں۔

ملائیت انسانی سماج میں ایک آلودگی کی مانند ہے اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے یہ صنعتی معاشرے کی جدید ٹیکنالوجی اور جمہوریت کا بھر پور مزہ تو لیتے ہیں لیکن ان کے لئے شخصی آزادی اور انسانی برابری قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کا ایسے معاشروں میں وجود پاکستانی خاندانوں پر اثر انداز ہونا ظاہری سی بات ہے۔ ان کا وجود پاکستانی لوگوں کی مذہبی کمی کو پورا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے جس سے بچے۔ بچیاں نہ صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لئے والدین کی قدر کے آگے مجبور ہیں ہلکے لڑکیوں کو حجاب بھی زبر دستی پہنائے جاتے ہیں۔چونکہ حجاب ایسے معاشروں کی علامت ہے، جہاں مرد عورت پر حاوی ہے اور وہاں کی تہذیب میں عورتیں اپنیدماغ اور جسم کی خود مالک ہوہی نہیں سکتیں۔

ان لڑکیوں کو کھیل کود اور جنسی تعلیم وغیرہ کے لئے خاندانی نظام اور پابندیوں کی پاسداری کرنا سیکھناہوتا ہے۔ ورنہ ان کے لئے خاندان میں نفرت کا پیدا ہونا، زبر دستی شادی یا ان کو موت کے گھاٹ پر چڑھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ سفید لمبے لبادوں والے اپنے ساتھ کالے برقعوں میں ملبوس شرعی بیویاں بھی ساتھ لاتے ہیں جن کی سوائے دو آنکھیں نظر آنے کے باقی سارا جسم سترپوشی کا عملی نمونہ ہے۔ یہ اندھیروں میں رہنے والی غلام ان ملاؤں کی نہ صرف جسموں کی بھوک پوری کرتی ہیں۔بلکہ ان کے لئے بچوں کی تعداد اپنے خاوندوں کے نطفے ختم ہونے تک جاری رکھتی ہیں۔

یہ مذہبی شہادت کے مطابق خود کو تو کم عقل مانتی ہی ہیں اور معاشی طور پر مضبوط عورت کو جہنمی بھی کہتی ہیں۔ یہ مذہبی اور شخصی آزادی کو برقعوں میں لپیٹنا چاہتی ہیں۔ اسی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے سیکولر معاشروں میں اپنے جداگانہ لباس، خیالات اور عقائد کو برقرار رکھتے ہوئے، تعلیمی نظام میں تبدیلی اور کام کرنے کی جگہ پر(برقعوں میں ملبوس ہوکر) خصوصی امتیاز برتے جانے کی ڈیمانڈ کرتی ہیں۔

جب ان کے مقاصد پورے نہیں ہوپاتے تو یہ مذہبی تنظیمیں سیکولر صنعتی معاشروں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیتی ہیں۔یورپ، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا وغیرہ میں مقیم پاکستانی مسلمان اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دیتے ہیں ان کے گھروں میں ویسیہی خاندانی مسائل موجود ہیں جیسے پاکستان میں بستے ہوئے گھروں میں ہیں۔انہی لوگوں کی ذہنی کشمش یہاں موجود ملاؤں کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا باعث ہیں۔ یہ مُلا ہر انسانی مسئلے کو حضرت محمدؐ کی نبوت کو چیلنج کے الزام میں مذہبی رنگ دیتے ہوئے دو مختلف معاشروں میں بگاڑ کاسب بنتے ہیں۔

یہ لمبے لبادوں والے ہوں یا برقعوں والیاں ان کی صنعتی معاشروں اور پاکستان میں انسانی زندگیوں کو چلانے کے لئے کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسانی ذہن اور جسم کو درپیش مسائل اور تکلیفوں کا حل سائنسی علم کے ذریعے ہی ممکن ہوسکا ہے۔ رہا انسانوں کے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل کا حل تو اس کے لئے ایک صحت مند تعلیمی نظام اور سیاسی عمل کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ملائیت کی تنظیموں میں کام کرنے والوں کے پاس ہونا ناممکن ہے۔

اسی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں ایک بہتر جمہوری سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو کہ عام شہریوں کی زندگیوں میں موجودہ مسائل کی حقیقت کو واضح کرسکے۔ اور شہریوں کو مسائل سے اجتماعی طور پر نبٹنے کی طاقت اور انفرادی طور پر اپنی زندگیوں کے فیصلے کرنے میں فہم دے سکے تاکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست کی بجائے ایک آزاد جمہوری اور سیکولر ریاست کے طور پر نظر آئے۔ جبکہ مذہب پاکستانیوں کا ذاتی عقیدہ ہونہ کہ زندگیوں کے لائحہ عمل کانام۔

Comments are closed.