روزنامہ امروز کا پہلہ اداریہ۔۔۔ فیض احمد فیض کے قلم سے

1419425799-122--c_e,g_nw,h_0,w_800,f_none,s_1--82b3148ecdca55e4b9018de3ae6072c1cde92dd7--

چار مارچ ۱۹۴۸ء کو روزنامہ ’’امروز‘‘ کا اجراء عمل میں آیا تھا، اِس وقت ’’پاکستان ٹائمز‘‘ ایک سال سے نکل رہا تھا۔ فیض احمد فیض ؔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ساتھ ’’امروز‘‘ کے بھی چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے اور بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ’’امروز‘‘ کا پہلا اداریہ فیض احمد فیضؔ نے ہی رقم کیا تھا۔
یہی نہیں کہ بس اپنا حساب دینا ہے، مرے دکھوں کا بھی تجھ کو جواب دیناہے

*

پاکستان میں اور آسائشوں کی کمی ہو تو ہو اردو اخبارات کی کمی نہیں شاہد ہی کوئی سیاسی عقیدہ یا سماجی مسلک ایسا ہوگا جس کا کوئی نہ کوئی ترجمان پاکستان کے کسی نہ کسی گوشہ میں موجود نہ ہو ہم نے ان اخبارات کی تعداد میں اضافہ کرنا کیوں ضروری سمجھا، وہ کون سے مسائل یا مباحث ایسے ہیں جو ابھی تک ہماری نظر میں مزید تشریح و تفسیر کے محتاج ہیں، ہمیں یہ کہنے میں تامل نہیں کہ کوئی ایسا اچھوتا مسئلہ ہمارے پیش نظر نہیں ہے جو باتیں ہمارے دل میں ہیں وہی ہر ایک کے دل میں ہیں اور جو مسائل ہمارے سامنے ہیں وہی سب کے سامنے ہیں اگر کوئی بات ہے تو صرف اتنی کہ ہماری قوم اور ہمارے دیس کے لیے ان مسائل کی اہمیت اس نوع کی ہے کہ ان پر بحث اور ذکر، فکر اور محاسبہ کی نہ صرف بہت کچھ گنجائش باقی ہے بلکہ ہمیشہ باقی رہے گی۔

ہم آزاد پاکستان کے آزاد شہری ہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہم ایشیائی ہیں، ہم انسان ہیں۔ پچھلے ایک سال میں پاکستان کے رہنے والوں کے لیے ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے نئی نئی سہولتیں اور نئی مشکلیں پیدا ہوئیں، کئی پرانی الجھنیں دور ہوئیں اور نئے مسائل نے جنم لیا۔ کئی امتحان گزرے اور نئی آزمائشیں سامنے آکھڑی ہوئیں۔ آج سے ایک برس پہلے مسلم عوام نے شاہی ایوانوں سے خضر حکومت کا نفرت انگیز جھنڈا نوچ پھینکا اور مسلم لیگ کا سبز علم سرفراز و سربلند نظر آنے لگا۔ اس کے بعد پاگل ہاتھوں نے ہیر رانجھا کی محبت بھری سرزمین میں کشت و خون اور قتل و غارت کی طرح ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور پاکستان کی دھرتی خون سے لال اور دونوں ملکوں کی فضا ظلم اور خوف سے مسموم اور تاریک ہوگئی۔

پاکستان کی تشکیل کا دن آیا۔ ایک سمت ایک نیا ملک آزادی کی ترنگ میں چراغاں کا اہتمام کررہا تھا تو دوسری طرف لاتعداد گھروں میں مسرت اور اطمینان کے چراغ گل ہورہے تھے۔ ایک طرف فخرو مباحات سے ہرشخص کا سراونچا تھا تو دوسری طرف غم اور ذلت کے احساس سے سب کی نگاہیں زمین دوز اور پھر شرق و غرب سے ان گنت خانہ ویراں، سوختہ اختر مخلوق کے کارواں روانہ ہوئے جن کا سلسلہ ابھی ٹوٹنے نہیں پایا۔ ہمارا نیا آزاد ملک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے پایا تھا کہ اس پر یکے بعد دیگرے کئی پہاڑ ٹوٹے لاتعداد مہاجرین کو بسانے کا کڑا کام سر پڑا۔ مشترکہ اموال و املاک کی تقسیم میں بے پناہ خسارہ اٹھانا پڑا کشمیر کی خوبصورت زمین کو ہتھیانے کے لیے اغیار نے دستِ غصب بڑھایا بسے ہوئے شہر اجڑ گئے، چلے ہوئے کاروبار رک گئے، ہمسایہ ملک سے تعلقات کبھی بگڑے کبھی سنورے۔ اسی طرح عالم اسلام، ایشیا اور باقی دنیا بھر میں بھی روشنی اور سائے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے رہے۔

آگے چل کر ہمارے وطنِ عزیز پاکستان اور پاکستان کے رہنے والوں کا کیا ہوگا۔ باقی اسلامی ممالک کا مستقبل کیا ہے، ہم ایشیا کے فلاکت زدہ مظلوم عوام، اجنبی بردہ فروشوں کے چنگل سے کب چھوٹیں گے، دنیا بھر کی مخلوق جنگ اور تباہی کے ڈر سے کب آزاد ہوگی۔ ان گنت مائیں، بچے بیویاں اور شوہر موت اور جدائی، بھوک اور تباہی کے بڑھتے ہوئے سایوں سے بچ کر کب چین اور اطمینان کا سانس لیں گے یہ مسائل ایسے ہیں کہ جن کے متعلق افہام و تفہیم، غوروفکر کی جتنی بھی سہولتیں بہم پہنچائی جاسکیں کم ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پڑھنے والے اپنے دیس اور باقی دنیا کے حالات کا صحیح اور بے لاگ اندازہ کرسکیں اس کے لیے کسی خاص عقیدہ یا نقطہ نظر کو ان پر ٹھونسنے کے لیے خبروں میں طمع اور رنگ سازی سے احتراز کیاجائے ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دنیا کی کوئی قوم اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ چن کر بسراوقات نہیں کرسکتی اس لیے پاکستان کے عوام کو اپنے مسائل اور سیاسی مسالک کو ایک حد تک باقی دنیا کے مسائل اور مسالک سے منطبق کرنا ہوگا۔ اس کے لیے دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی نقشے پر ان کی نظر جمی رہنی چاہیے ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی دولت ہمارے وسیع میدان، اور فلک آشنا پہاڑ ہمارے لہلہاتے ہوئے کھیت، بہتے ہوئے دریا، ہماری مدفون معدنیات یا معلوم دینوی ذخائر نہیں۔ ہماری سب سے بڑی دولت ہمارے عوام ہیں پاکستان کی عظمت اور خوش حالی کے سب سے اہم کفیل وہی ہیں اور اس عظمت اور خوش حالی کا وارث اول بھی انہیں کو ہونا چاہیے۔ اس لیے ہمیں لازم ہے کہ ہر سیاسی و سماجی یا اقتصادی مسئلہ کو ان ہی شاکر اور بے زبان عوام کی نظر سے دیکھیں اور ان کے مسائل لاتعداد ہیں پاکستان کی حکومت ہماری قومی حکومت ہے اس لیے آجکل سب لکھنے والوں کو ایک دہری سفارت سپرد ہے۔ عوام کی سفارت حکومت کے ایوانوں میں اور حکومت کی سفارت عوام کی مجالس میں اس سفارت میں تنقید کا حق بھی شامل ہے کوئی سفیر یا کوئی نقاد اپنی ذات کو اپنے خیالات اور اعتقادات سے الگ نہیں کرسکتا۔ ہمیں بھی یہ دعویٰ نہیں ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ اول پاکستان کے عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کا پورا تحفظ ہو، دوم پاکستان کے مادی ذرائع اور ذخائر کی پوری درآمد اور اکتساب اور منصفانہ تقسیم کی جائے۔ یہ دونوں باتیں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک داخلی اور خارجی طور پر امن و آشتی کی بنیادیں مستحکم اور استوار نہ ہوں اور دنیا کا کوئی حصہ بدامنی اور خوف سے اس وقت تک مصنون نہیں جب تک کہ تمام اقصائے عالم میں امن آزادی اور جمہوریت کے دشمن مغلوب نہیں ہوجاتے۔
*
بشکریہ: عبداللہ ملک کی کتاب ’’لاؤ تو قتل نامہ مرا ‘‘ ۔

3 Comments