۔۔۔کیونکہ وہ جنرل تھے

محمد شعیب عادل

hamid2

شاید امت مسلمہ کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ جب کسی نہ کسی مجاہد اسلام کی شہادت کی خبر نہ موصول ہورہی ہو۔پاکستانی پریس اورالیکٹرانک میڈیا میں ابھی مُلا عمر کے تعزیت نامے ختم نہیں ہوئے تھے کہ قوم سے زیادہ کالم نگاروں کو جنرل حمید گل کی موت کا دھچکا لگ گیا۔ میڈیا میں ایک بار پھر مرحوم کی خدمات کا تذکرہ شروع ہو گیا جو انہوں نے اسلام، پاکستان اور عالم اسلام کے لیے انجام دیں تھیں۔ ہر کسی نے مرحوم کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مرحوم ان کے کالم کتنے غور سے پڑھتے تھے اور پڑھنے کے بعد فون پر ڈسکس بھی کرتے تھے۔میڈیا میں مرحوم کی اتنی خدمات گنوائی جارہی ہیں جن کا تصور بھی ایک عام غریب و بھوکے شخص کے لیے محال ہے۔

انصار عباسی نے انہیں اسلام کا سپاہی قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میرا جنرل حمید گل سے محبت اور احترام کا ایک گہرا رشتہ تھا جس کی بنیاد اسلام تھی۔۔۔ وہ ایک پکے مسلمان اور سچے پاکستانی تھے۔ ان کا مطالعہ انتہائی وسیع اور یاداشت اس قدر قابل دید تھی کہ ان کا بڑے سے بڑا مخالف بحث میں ان کا سامنا نہیں کر سکتا تھا‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ جنرل حمید گل نے آئی جے آئی کیوں بنائی ، تکلیف یہ تھی کہ جنرل حمید گل اسلام، جہاد، نظریہ پاکستان ، مسلم امہ وغیرہ کی بات کیوں کرتے تھے ۔۔۔۔چونکہ وہ کھلے عام اللہ اور اس کے نظام کے نفاذ کی بات کرتے تھے جس کی بنا پر دیسی لبرلز کا ایک مخصوص طبقہ ایک ایسا بغض و عناد رکھتا تھا جس کی ایک گھناؤنی جھلک ان کے فوت ہونے کے بعد سوشل میڈیا میں نظر آئی‘‘۔

خورشید احمد ندیم نے لکھا کہ ایک نجیب آدمی دنیا سے رخصت ہوا۔’’ ان کے عہد ساز ہونے میں تو خیر کوئی کلام نہیں ۔۔ تاریخ ساز لوگ کم ہو تے ہیں مگر ان میں نجیب بہت ہی کم۔ ہمارا معاشرہ جن خوبیوں سے تیزی کے ساتھ خالی ہو رہاہے ان میں ایک نجابت بھی ہے۔ اہل علم کا اٹھنا علم کے رخصت ہونے کا اعلان ہے کہ ہمارے ہاں ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں‘‘۔جنرل صاحب ان کے کالم بھی بڑے شوق سے پڑھتے تھے جب خورشید صاحب ان سے اختلاف کرتے تو وہ انتہائی شفقت سے انہیں اپنا نقطہ نظر کی وضاحت کرتے۔

خورشید احمد ندیم نے لگے ہاتھوں اور مجاہد اسلام اور آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے کرتا دھرتا میجر عامر کی بھی عالم اسلام کی خدمات کا تذکرہ کر دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ آج بھی میجر عامر سے جنگ کے واقعات سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معرکہ صرف امریکی امداد کے مرہون منت نہیں تھا ۔ یہ انسانی جذبے کی ایک ناقابل فراموش داستان بھی ہے۔ جنرل حمید گل اسی داستان کے ایک ہیرو ہیں۔ یہ داستان کامیابیوں اور المیوں کا مجموعہ ہے ۔ ہیرو دونوں صورتوں میں ہیرو ہی رہتا ہے۔۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت سے نوازے‘‘۔

حسن نثار نے بھی حمید گل کی تعزیت کی ہے اور حسب معمول اپنی تعریفیں زیادہ کی ہیں اور حمید گل کی کم ۔’’میرا جنرل صاحب کے ساتھ اک ایسا رشتہ تھا جو آج تک میری سمجھ میں نہ آسکا۔ ہم کسی بات پر کبھی متفق نہ تھے لیکن عجیب بات ہے کہ محبت بہت تھی۔ وہ میرے لیے سرتاپا شفقت تھے اور میری محبت میں احترام کا غلبہ تھا وہ مثالیت پسندی کی انتہا تھے۔۔ وضع داری رکھ رکھاؤ سجھاؤ اور مینرز میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ہر مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں ایک کال لازمی تھی ۔ میرا ، بچوں کا حال پوچھتے ، ملکی حالات پر کچھ تبصرہ، غصہ کم کرنے کی ہدایت اور بس‘‘۔

حامد میر لکھتے ہیں کہ ’’ حمید گل صاحب کے بارے میں بہت سے لوگوں کو بہت سی غلط فہمیاں رہتی تھیں اور حمید گل صاحب بھی کئی مر تبہ کئی لوگوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے لیکن ان میں ایک خوبی تھی کہ سیاسی و نظریاتی اختلاف کو نفرت بنا کر دل میں نہیں پالتے تھے۔ ۔۔وہ کبھی غصے میں آجاتے کبھی میں کوئی سخت بات لکھ دیتا لیکن وہ ان تلخیوں کو ایک مصافحے اور ایک مسکراہٹ میں اڑا دیتے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی ایسی مسکراہٹیں میرے لیے حسین یادیں بن چکی ہیں‘‘۔ حامد میر ایک کاریگر کالم نگار ہیں وہ اپنا کالم اس خوبی سے لکھتے ہیں کہ کوئی بھی ان سے ناراض نہ ہو اور میسج بھی ڈلیور ہو جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حمید گل نے کبھی ان کے بارے میں تنقیدی الفاظ استعمال نہیں کیے۔ بلکہ انہیں ایک بہادر اور محب وطن لیڈر قرار دیا ۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی ۔ حمید گل صاحب کی موت کے بعد ان کی یہ اعلیٰ ظرفی ایک حسین یاد میں تبدیل ہو چکی ہے‘‘۔

نذیر ناجی نے بھی انہیں ایک مدبر قرار دیا ہے لکھتے ہیں کہ’’ وہ ایک تھنکنگ جنرل تھے ، سپاہی بھی کمال کے تھے اور مدبر بھی اعلیٰ پائے کے۔۔۔ جنرل حمید گل کی تمام سوچوں کا مرکز صرف پاکستان اور عالم اسلام تھا وہ اپنے لیے ملک کے لیے ہی نہیں اسلامی دنیا کے لیے بھی سوچا کرتے تھے۔۔ اگران کے سوچے ہوئے منصوبے حقیقت میں ڈھل جاتے تو اسلامی دنیا ایک بڑی طاقت بن سکتی تھی ۔۔۔ وہ انتہائی ایماندار تھے کبھی امانت میں خیانت نہیں کی۔ افغان جہاد میں ڈالر بانٹنے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کی ہوتی جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو مجاہدین میں بانٹنے کے لیے ڈالروں سے بھرے سوٹ کیس آتے اور انہوں نے پوری کی پوری رقم نہ صرف ایمانداری سے تقسیم کی بلکہ اس کا حساب کتاب بھی رکھا‘‘۔

سلیم صافی نے بھی مرحوم کی کافی صفات گنوائی ہیں مگر انہوں نے بھی انتہائی نرم الفاظ میں ان کے مدبر پن پر اظہار خیا ل کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جب جنرل محمد ضیاء الحق کئی جرنیلوں سمیت ایک سازش کے نتیجے میں مارے گئے۔ جنرل حمید گل خود بھی اسے سازش اور امریکیوں کی سازش قرار دیتے تھے لیکن کبھی مجرموں کو بے نقاب نہ کرسکے ۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جب اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہوا ۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جب جلال آباد پر حملے کا ناقص ترین منصوبہ بنایا گیا ۔ انہوں نے آئی جے آئی بنا کر بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنا چاہا لیکن راستہ نہ روک سکے اور وہ وزیر اعظم بن گئیں۔ انہوں نے تحریک احتساب کی صورت میں اپنی جماعت بنانے کی کوشش کی لیکن وہ کوشش بری طرح فلاپ ہوگئی۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود وہ خود بھی اپنے آپ کو اسٹریٹجسٹ سمجھتے تھے اور مولانا سمیع الحق جیسے سینکڑوں لوگ بھی ان کے در پر مشورے اور رہنمائی کے لئے حاضر ہوتے تھے ۔ وہ ان کو بڑا سٹریٹجسٹ اور منصوبہ ساز سمجھتے ۔ اس لئے کہ وہ جنرل حمید گل تھے ‘‘۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں جس کے پاس بندوق کی طاقت ہے، وہ مدبر بھی ہے اور بڑا مفکر بھی اور تھنکنگ جنرل بھی۔ آج قوم انہی کی مدبرانہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ انہوں نے نہ صرف دہشت گردی کی حمایت کی بلکہ اسے ہرممکن حد تک فروغ دیا۔انہوں نے جمہوری عمل کو ہر ممکن حد تک سبوتارژ کرنے کی کوشش کی۔ جمہوریت کی بجائے دہشت گردوں کا ساتھ دیا۔ کیونکہ وہ جنرل تھے۔

یہاں صرف سیاستدان کو ہی اس کے جرم کی سزا دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ جنرل نہیں ہے بلکہ عوام کا نمائندہ ہے۔ یہ لکھاری سیاستدانوں کی کرپشن کی بات تو کرتے ہیں مگر جنرل صاحب نے سرکاری خزانے کو جس بے دردی سے جمہوریت کو سبوتارژ کرنے کے لیے رقوم تقسیم کیں اس پر سب خاموش ہیں کیونکہ وہ جنرل تھے۔انہوں نے قانون اور عدلیہ کا سرعام مذاق اڑایا اور کہا کہ کسی میں جرات ہے جو مجھ پر مقدمہ چلائے۔لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے ہیرو ہیں کیونکہ وہ جنرل تھے۔

جنرل صاحب دفاع پاکستان کونسل کے ہر اجلاس میں شرکت کرتے اور تمام دہشت گردوں اور پاکستانی عوام کے قاتلوں کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ان کے مشن کی حمایت کرتے رہے کیونکہ وہ جنرل تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ہمسایہ ممالک ، افغانستان اور بھارت، کے ساتھ امن قائم کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کوششیں کیں اور انہی ممدوح کالم نگاروں کے ذریعے نفرت انگیز پراپیگنڈہ کروایا کیونکہ وہ جنرل تھے۔

اور حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں نے قومی سیاست کے ساتھ ساتھ جو بھی پیشہ وارانہ فیصلے کیے ان کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔ ہر بار ہمسایہ ممالک پر جارحیت کی لیکن شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پاک فوج جسے دنیا کی بہترین فوج ہونے کا زعم ہے اگر اس کی کارگردگی دیکھی جائے تو وہ صفر ہے۔دفاع کے نام پر پاکستان کے وسائل کو دیمک کی طرح چاٹنے کے بعد بھی وہ اعلیٰ ترین ہیں۔ایک ایسا جنرل جس کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں دہشت گرد ریاست کے طور پر جانا جاتا ہو وہ ہمارا ہیرو ہے کیونکہ وہ جنرل تھے۔

پروفیسر امین مغل نے سوشل میڈیا پر ان کالموں پر اپنا کمنٹ دیا کہ ’’ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ نظریاتی طور پر گمراہ شخص ذاتی زندگی میں جتنا اجلا ہو گا اتناہی سیاست میں جرائم پیشہ ہوگا‘‘۔