قائد اعظم شیعہ تھے یا سنی

خالد احمد

Jinnah-Fashion-Icon

انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان نے یہ پالیسی اختیار کی کہ یہاں سنی اور شیعہ کی کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ مردم شماری کیلئے مسلم اور غیر مسلم کافارمولا اختیار کیا گیا۔ جس میں فرقوں کے تناسب کو نظر اندازکردیا گیا۔ یہ گویا اس عہد کا اظہار تھا کہ حکومت فرقوں کے بنیاد پر امتیاز نہیں برتے گی۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اثناء عشری شیعہ بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے عقیدے میں یہ تبدیلی اپنے آباء کے اسماعیلیہ فرقہ کو چھوڑ کرکی تھی۔ تاہم وہ پبلک میں اس کا اعلان نہیں کرتے تھے کہ وہ سنی ہیں یا شیعہ ہیں اور جو کوئی اُن سے پوچھتا ، تو ان پر الٹایہ سوال کرتے تھے کہ تم بتاؤ رسول کریم صلعم شیعہ تھے یا سنی؟

انیس سو اڑتالیس میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی ہمشیرہ مس فاطمہ جناح کو اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنا پڑا تاکہ اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق اُن کی جائیداد حاصل کرسکیں۔ یادرہے کہ سنی فقہ کے مطابق کلی طور پر اس قسم کی وصیت کی اجازت نہیں۔ جبکہ شیعہ فقہ میں ایسا ہوسکتا ہے۔ مس فاطمہ جناح نے ایک اقرار نامہ سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیا جس پر وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے دستخط تھے کہ جناح شیعہ خوجہ مسلم تھے اور عدالت سے درخواست کی کہ ان کی وصیت کے مطابق شیعہ قانون وراثت پر عمل کیا جائے۔ عدالت نے پٹیشن قبول کرلی۔6فروری1968کو فاطمہ جناح کی موت کے بعد ، ان کی بہن شیریں بائی نے ہائی کورٹ میں یہ دعویٰ داخل کیا کہ مس جناح کی جائیداد شیعہ قانون کے مطابق اسے دی جائے کیونکہ مرحومہ شیعہ تھیں۔

پہلے مس فاطمہ جناح کے احترام میں شیعہ فقہ پر عمل کیا گیا۔ جبکہ سنی ہونے کی صورت میں اُن کو صرف نصف حصہ مل سکتا تھا۔ بعد میں ان کی بہن شیریں بائی ممبئی سے کراچی پہنچیں جو اسماعیلی فرقہ چھوڑکر اثنا عشری ہوچکی تھیں اور اس بنیاد پر بھائی کی جائیداد کا دعویٰ کیا۔

اس موقع پر جناح کا باقی خاندان جو ابھی تک اسماعیلی فرقہ سے منسلک تھا نے جناح کے شیعہ عقیدے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہائی کورٹ پہلے مس جناح کی پیٹشن قبول کرچکی تھی۔ عدالت کیلئے بابائے ملت قائداعظم کواسماعیلی کہنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ اس کیس کو عدالت نے ملتوی کر دیا جبکہ مس جناح کا عمل ہمیشہ یہی رہا کہ وہ شیعہ عقیدے پر عمل کرتی رہیں اور اپنے بھائی کے متعلق بھی اثناء عشری شیعہ ہونے کا یقین دلاتی رہیں۔

جناح کیوں اثناء عشری شیعہ رہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مذہب کی آزادی کیلئے سیکولر اصولوں کے حامی تھے۔ اس بات کے گواہ عدالت میں سید شریف الدین پیرزادہ تھے۔ اُن کے مطابق جناح نے اسماعیلی عقیدہ1901میں چھوڑا تھا۔ جبکہ اُن کی دو بہنوں رحمت بائی اور مریم بائی کے ایک سنی خاندان میں شادی کرنے کا مرحلہ در پیش تھا۔ کیونکہ اسماعیلی فقہ میں اس شادی کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے انہیں یہ فرقہ چھوڑنا پڑا۔ فرقہ کی یہ تبدیلی مسٹر جناح تک محدودرہی۔ اور ان کے بھائی ولجی اورنتھو بدستور اپنے سابقہ مذہب پر رہے۔

عدالت میں جو کارروائی ہوئی یہ مس جناح کے انتقال کے فوراً بعد ہوئی۔ اس میں گواہ سید اُنیس الحسن شیعہ عالم تھے۔ انہوں نے حلفی بیان دیا کہ مس جناح کے کہنے پر انہوں نے قائداعظم کو غٖسل دیا تھا اور گورنر جنرل ہاؤس کے ایک کمرے میں ان کی نماز جنازہ بھی شیعہ دستور العمل کے مطابق ادا کی جاچکی تھی۔ اس میں شیعہ عالم شریک تھے۔ جیسے یوسف ہارون، ہاشم رضا اور آفتاب حاتم علوی حاضر تھے۔ جبکہ لیاقت علی خان بطور سنی کمرے سے باہر کھڑے رہے۔

جب شیعہ رسومات ختم ہوئی تب جنازہ حکومت کے حوالے کیا گیا۔ تب متنازعہ شخصیت مولوی شبیر احمد عثمانی جو دیوی بندی فرقے کو چھوڑ چکے تھے اپنے فرقے کے خیالات کے برعکس جناح کی جدوجہد پاکستان کے حامی تھے۔ انہوں نے دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی۔ یادرہے شبیر احمد عثمانی شیعوں کو مرتد اور واجب القتل قراردے چکے تھے۔ یہ دوسری نماز جنازہ سنی طریق سے پڑھائی گئی۔ اور جنازہ کی جگہ وہی تھی۔ جہاں قائداعظم کا مقبرہ بنا۔ دوسرے گواہان تصدیق کرتے ہیں کہ مس فاطمہ کی موت کے بعد کلام اور پنجہ شیعوں کے دونشان مہتہ پیلس سے برآمد ہوئے تھے۔ جس میں ان کی رہائش بھی تھی۔ آئی ایچ اصفہانی نے یہ گواہی1968ء میں سند ھ ہائی کورٹ میں دی تھی۔ جس میں انہوں نے جناح کے فرقہ کی تصدیق کی تھی۔ وہ جناح فیملی کے دوست تھے اور1936ء میں اُن کے اعزازی سیکرٹری بھی تھے۔اس گواہی میں مسٹر مطلوب حسن سید بھی شامل ہوئے۔ جو قائداعظم کے 1940-44 تک پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔

مسٹر اصفہانی بتاتے ہیں خود جناح نے انہیں1936ء میں بتایا تھا کہ ان کی فیملی اور خود انہوں نے شیعہ مذہب اس وقت اختیار کیا جب وہ1894ء میں انگلینڈ سے لوٹے تھے۔ اور انہوں نے رتی بائی سے شادی کی تھی جو ایک پارسی تاجر کی بیٹی تھی۔ یہ شادی شیعہ رسوم کے مطابق ہوئی۔ ان کے نمائندے راجہ صاحب محمود آباد تھے جو ان کے شیعہ دوست تھے۔ اگرچہ اُن کا عقیدہ جناح سے مختلف تھا۔ لیکن وہ ان کے گہرے دوست تھے۔ وہ اثنا عشری شیعہ تھے۔ اور آزادی کے بعد نجف عراق گئے تھے۔ قائداعظم سے اُن کی دوستی کو بہت لوگوں نے حیرانی کے ساتھ دیکھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جناح اور راجہ صاحب محمود آباد میں دوستی کی وجہ شیعہ ہوناتھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ممبئی سے ایک مرتبہ شیعہ کانفرنس میں ممبئی الیکشن میں جناح کی مخالفت کی تھی۔

جب مس فاطمہ جناح 1967ء میں کراچی میں فوت ہوئیں تو اس موقعہ پر اصفہانی موجود تھے۔ انہوں نے مہتہ پیلس میں اُن کے غٖسل اور نمازہ جنازہ کا اہتمام خود کیا۔ جو شیعہ رسوم کے مطابق تھا۔ جنازہ پڑھانے کے بعد میت حکومت کے حوالے کی گئی۔ تب پولو گراؤنڈ میں سنی طریق سے نماز جنازہ دوبارہ پڑھائی گئی اور بھائی کے مقبرہ میں جو جگہ انہوں نے تجویز کی وہاں اُن کی تدفین ہوئی۔ شیعہ رسم جنازہ کے مطابق میت کو آخری الوداعی نصیحت جسے تلقین(Talgin)کہتے ہیں اس وقت ادا کی گئی جب میت کو لحد میں اتارا گیا۔ رتی بائی کو آخری الوادعی نصیحت یا تلقین خود قائداعظم محمد جناح نے کی تھی جب وہ1929ء کو فوت ہوئی تھیں۔

فاطمہ جناح کی وفات پرجب شیعہ رسوم اداکی گئیں تو مخالفت کرنے والے لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ جس کے بعد میت حکومت کے حوالے کی گئی اور سنی طریقے سے رسوم ادا کی گئیں۔ اس مخالفت کا ذکر فیلڈمارشل جنرل ایوب اپنی ڈائری میں یوں کرتے ہیں۔

۔۔۔جولائی1967ء۔۔ میجر جنرل رفیع میرے ملٹری سیکرٹری تھے۔ وہ میری نمائندگی کیلئے کراچی گئے اور مس جناح کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔اُن کا بیان ہے کہ اہل فہم لوگ اس بات پر خوش ہوئے کہ حکومت نے مس فاطمہ کو ایک عزت کا مقام دیا۔ اس لئے یہ امر حکومت کیلئے بھی خوش کن ہے۔ تاہم وہاں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے بہت برا سلوک کیا۔ اُن کی پہلی نمازہ جنازہ مہتہ پیلس میں شیعہ رسوم کے مطابق ادا کی گئی۔

پھر عوام کیلئے دوسری نماز جنازہ پولوگراؤنڈ میں ہوئی تو یہ سوال کیا گیا کہ امام سنی ہو یا شیعہ؟ تاہم بدایونی کو امامت کیلئے آگے کردیا گیا۔ جونہی امام نے اللہ اکبر کہا آخری صفوں میں کھڑے لوگ چھٹ گے جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ لاش کو بڑی مشکل سے ایک گاڑی میں رکھا گیا اور قائداعظم کے مزارپر لے گئے اور انہیں دفن کیا گیا۔ وہاں ایک ہجوم اکٹھاہوگیا جنہوں نے کہا کہ قبر کی جگہ بدلی جائے، اس پر عمل نہ کیا گیا۔

طلباء کے ہمراہ غنڈے تھے جنہوں نے پتھر برسائے تب پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ غنڈوں کو آنسو گیس کی مدد سے ہٹایا گیا تو جنازہ کا میدان پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ لوگوں نے جس بے حسی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اس پر افسوس ہوتا ہے۔ کہ نماز جنازہ کی جگہ عبرت انگیز ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ اس پہ بھی بازنہ آئے۔*

نوٹ:۔ یہ مضمون خالد احمد کی کتاب
Sectarian war: Pakistan Sunni Shia Violence and its links to the Middle East
سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے شائع کی ہے۔ اس کتاب کا یہ حصہ فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوا۔

6 Comments