دل دروازہ

نیلم احمد بشیر

dil

ہماری یونیورسٹی کی اسلامک ایسوسی ایشن کی صدرنجیبہ نے بتایا کہ پاکستان سے آئی ہوئی ایک بہت بڑی اسلامک سکالر آج یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ہمیں لیکچر دیں گی۔ یہ ماہ رمضان میں ہونے والی سپیشل اسلامک ایجوکیشن سیریز کا پہلا لیکچر تھا۔ جس کے لئے بہت عرصے سے ایڈورٹائزنگ کی جارہی تھی اور ہم منتظر تھے کہ دیکھیں یہ ہمیں کیا نیا سکھاتی ہیں کونسا روشن راستہ سمجھاتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا جیون سہل رہے او رہم خدا تعالیٰ کے انعام واکرام کے بھی حقدار ٹھہریں۔

ہم یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کی وہ طالبات ہیں جو یہاں امریکہ میں ہی پیدا ہوئیں، پلیں بڑھیں ہیں مگر ہمارے والدین نے ہمیں مذہب اسلام کے بارے میں اچھی طرح بتایا اور سمجھایا ہے کہ دین کی راہ پر چلیں گے تو ہی ہمیں ہدایت اور فلاح حاصل ہوگی ورنہ یہ امریکی معاشرہ ہماری اقدار اور روایات کو نگل جائے گا او رہم اپنی پہچان کھو بیٹھیں گی۔ ہم اپنے والدین کی بات کا احترام کرتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے کی کوشش ضرور کرتی تھیں۔ اُسی لئے وہ ہم سے مطمئن رہتے ہیں۔ میں اور میری سہیلی رابعہ وقت سے پہلے ہی آڈٹیوریم پہنچ گئیں کیونکہ ہم اگلی سیٹوں پر بیٹھنا چاہتی تھیں۔ رابعہ دراز قد چلبلی رنگ رنگیلی، رومانٹک طبیعت والی لڑکی ہے، اس لئے وہ فوراًہی ہال میں بیٹھے ہوئے نوجوان لڑکوں کو دیکھ کر مسکرانے ہاتھ ملانے اور ان سے مل کر ہیلو ہائے کرنے میں مصروف ہوگئی۔ کئی لڑکے لڑکیاں ہمارے کلاس فیلوز تھے اور اس لئے ہماری ان سے دوستی بھی تھی۔ ہم سب آپس میں ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے تھے۔ لہٰذا بڑا آرام دہ سا ماحول بن گیا تھا۔

وہ دیکھو وہ عربی لڑکا منان بیٹھا ہے۔ یاد ہے میں نے تمہیں اس کے بارے میں بتایا تھا۔ ہائے، کتنا ہینڈسم ہے۔ رابعہ نے اشارے سے مجھے بتایا تو میری نظریں بھی اس کی جانب اُٹھ گئیں واقعی بڑا پیارا لڑکا تھا مگر وہ اکیلا نہیں تھا۔ ساتھ اس کی امریکی گوری گرل فرینڈ بھی تھی جس کو دیکھ کر رابعہ ناک بھوں چڑھارہی تھی۔ بہت سے امریکی سٹوڈنٹس بھی ہال میں موجود تھے جنہیں مذہب اسلام کے بارے میں تجسس تھا کہ آخر یہ ایسا کونسا مذہب ہے جس کے پیروکار دہشت گرد مانے جاتے ہیں مگر اُس کے کنورٹ کرنے والوں میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ امریکہ میں اسلام کے اتنی تیزی اور استقامت سے پھیلنے کی وجہ اور محرکات امریکہ والوں کو سمجھ میں نہیں آرہے مگر وہ جاننا ضرور چاہتے ہیں۔ یہ تجسس انہیں چین نہیں لینے دے رہا۔

ہماری مہمان سپیکر سٹیج پر آئیں تو سوائے آنکھوں کے ان کی ہر چیز پس نقاب تھی۔ آنکھیں ڈھونڈنا بھی خاصہ مشکل تھا۔ اس لئے ان کی تقریر بس مائک پر ہی سنی گئی، ان سے نظریں نہ ملائی جاسکیں۔ انہوں نے اسلام میں جو ممنوعات پر بات شروع کی تو بس ہر چیز سے منع ہی کرتی چلی گئیں۔ اسلام میں یہ منع ہے، وہ منع ہے وغیرہ وغیرہ کی لسٹ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اسلام میں بے وجہ ہنسنا مذاق کرنا، بھی منع ہے تو میرے پہلو میں بیٹھی رابعہ بے اختیار ہنسنے لگ گئی میں نے اُسے ٹھوکا دیا تو وہ ذرا سنبھل گئی مگر عجیب عجیب نظروں سے معلمہ کو دیکھنے لگی جیسے نقاب کے پیچھے چھپی اصل عورت کو ڈھونڈنا چاہتی ہو۔

معلمہ اب موضوع بدل کر ایک دوسرے نکتے پر بات کرنا شروع کرچکی تھیں۔ انہوں نے امریکی معاشرے میں موجود برائیوں اور خرابیوں ذکر کرتے کرتے یہ نکتہ پیش کیا کہ امریکہ میں تمام برائیاں اسی لئے پروان چڑھتی ہے کہ یہاں مرد وزن کم لباس کے عالم میں بے حجابانہ آپس میں ملتے جلتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کی تحریک اور شر پیدا ہوتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ڈیٹنگ جیسا قسم کام نہیں کرنا چاہئے بلکہ جوان ہوتے ہی ایک دوسرے سے نکاح کرلینا چاہئے تاکہ گناہ سے بچ سکیں۔ شادی ہی میں عورت کو تحفظ ملتا ہے ورنہ وہ ہر طرح سے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ یوں عورتیں ایک پناہ میں آجاتی ہیں اور ان کی زندگی میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔یہ ننگے پھرنے والے لوگ سیدھا جہنم میں جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ

اس بات کو سنتے ہی ایک امریکی لڑکی سامعین میں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے سوال کردیا۔
But what about Love?
آپ نے شادی کا ذکر تو کیا لیکن محبت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

ایک لمحے کو تو معلمہ گھبراسی گئیں مگر پھر انہوں نے اپنے حواس مجتمع کرکے کہا:لویعنی محبت تو ایک وقتی جذبہ ہوتا ہے اس میں، پائیداری ہوتی نہ تیقن آپ کالوآپ کو کبھی بھی چھوڑ کر جاسکتا ہے جبکہ شادی کا راستہ طاقتور، پائیدار اور تحفظ دینے والا ہوتا ہے۔ محبت ایک سراب ہے اس جوار بھاٹے میں بہہ جاؤ تو درد اور وقتی تسکین ضرور حاصل ہوجاتی ہے مگر عزت یا ذاتی نہیں ملتی۔

جسمانی تقاضوں کا اُبال ہوتا ہے۔ اس میں لمبے عرصے کی کمٹ مٹ ڈھونڈنا غلط ہے۔ ہال میں ایک گرما گرم بحث شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے پرجوش دلائل دےئے جانے لگے۔ اتنی دیر میں وقت ختم ہوگیا اور ہم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ہاسٹل کے کمرے میں پہنچتے ہی رابعہ بیڈ پر دراز ہوگئی۔ کوک کے کین سے بڑا سا گھونٹ بھر اور بولی۔

’’میں تو اس اسلامک سکالر صاحبہ کی بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتی کہ محبت بے کار جذبہ ہے اور اس میں فریقین ایک دوسرے کو ڈگنٹی، سیلف رسپکٹ نہیں دے سکتے۔ پھر یہ کہ گوری قوم چونکہ نقاب نہیں پہنتی،کم کپڑے پہنتی ہے تو سیدھی جہنم میں جائے گی۔ عام امریکن تو بہت محنتی، فرض شناس، ایماندار اور سچ بولنے والا انسان ہے۔ ان میں منافقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ لوگ بھلا جہنم میں کیوں جائیں گے۔‘‘

ارے بھئی ہم سب بھی جانتے ہیں کہ لباس کا تعلق کلچر، موسم اور زمین سے ہوتا ہے ہم نے اپنی اینتھراپالوجی کی کلاس میں کتنی ہی فلمیں دیکھی ہیں جس میں ننگے رہنے والے افریقی قبائلی دکھائے گئے ہیں۔ توبھلا کیا وہ سب دوزخ میں جائیں گے؟ مگر کیوں؟ خدا کے نزدیک انسانیت زیادہ اہم ہے دنیا میں یا انسانوں کے کپڑے پہننے کے طریقے؟ میں نے بھی رابعہ سے کہا اور کافی میکر میں کافی بنانے لگی۔

اگر جنت میں صرف نقاب پوش ہی جائیں گی تو بھئی میں تو مرنے کے لئے تیار نہیں۔’’رابعہ ہنسنے لگی مگر مدرٹریساتو نقاب نہیں پہنتی تھیں۔ رابعہ بولی۔

بلقیس ایدھی بھی۔۔۔ اور یہ دونوں میرے نزدیک جنتی عورتوں ہیں۔ اچھا رابعہ اگر وہاں وہ عربی لڑکا منان تمہیں مل جائے تو بھی جنت میں نہ جاؤ گی۔‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔ وہ یکدم کسی پھول کی طرح کھل اُٹھی اور کہنے لگی۔

ہائے وہ۔۔۔ اتنا ڈیشنگ، ہینڈسم لڑکا اگر وہاں مجھے مل جائے تو میں تو ابھی سے مرنے کے لئے تیارہوں مگر شرط یہ ہے کہ اسے مجھ سے شدید قسم کی محبت ہو اور ہم پیار میں ڈوبے، ہر وقت جنت کی ہواؤں میں انڈین فلموں کے ہیرو ہیروئن کی طرح، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، گانے گاتے پھریں۔

I will do any thing for love
رابعہ نے کچھ ایسے انداز سے انڈین فلموں والی ایکٹنگ کرکے دکھائی کہ میں ہنس ہنس کر دہری ہوگئی۔ ہماری تیسری روم میٹ عراقی لڑکی حرا اندر آئی اور آکر ہماری باتوں میں اپنا حصہ ڈالنے لگی۔ لگتا تھا وہ بھی آڈٹیوریم سے سیدھی ہی کمرے میں آرہی ہے۔

’’خیر سو فیصد پاک صاف معاشرہ تو یہ بھی نہیں ہے۔ یہ تو ہم سب کو ماننا پڑے گا۔ بہت کرائم ہوتے ہیں امریکہ میں۔ معلمہ کی یہ بات تو درست ہے۔ شرسے کسی کو بھی پناہ ممکن نہیں۔بس اللہ کی بندگی کرتے جاؤ، شاید وہ مہربان ہو کر اپنی پناہ میں رکھ لے اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔حرا کمپیوٹر آن کرتے ہوئی بولی۔

’’کرائم تو بلاشبہ ہوتے ہیں مگر ان کی زیادہ تر وجہ نفسیاتی ہوتی ہے، تھرڈورلڈ ملکوں کی طرح معاشی اور معاشرتی نہیں۔ میں نے اپنے پاکستانی والدین سے پاکستان کے بارے میں سنی سنائی باتوں کے حوالے سے اپنا خیال ظاہر کیا۔ مگر عام امریکن شخص کسی کو تنگ نہیں کرتا۔ اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔

لوگوں کو شخصی آزادی بھی حاصل ہے پھر بھی یہاں کا معاشرہ پر سکون نہیں ہے۔’’حرا نے اپنے سر سے حجاب اُتار کر میز پر رکھ دیا۔ وہ سرڈھکتی تھی مگر چہرہ کھلا رہنے دیتی تھی۔

اس ملک میں مادی آسائشیں بہت ہیں، مگر لوگوں کے درمیان روابط اور رشتے کم کم قائم ہوتے ہیں۔ اتنی فراوانی سے بھی تو نا آسودگی پیدا ہوسکتی ہے۔ زندگی کا توازن خراب ہوسکتا ہے۔ سائیکو پرابلمز پیدا ہوسکتے ہے۔ ہماری بحث بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ٹی وی پر ایک فلم دکھائی جارہی تھی جس کے ٹائیٹل ختم ہوگئے تھے او رپہلا سین سکرین پر آچکا تھا۔

’’اچھا چھوڑو بحث کو۔۔۔ فلم دیکھتے ہیں۔‘‘ہم سب نے متفقہ فیصلہ کیا اور ایک دوسرے کوخاموش رہنے کا اشارہ کرکے انہماک سے فلم دیکھنے لگ گئیں۔

ایچ بی او چینل پاکستانی فلم میکرشرمین چنائے کی فلم سیونگ فیس دکھارہا تھا۔ اس کے بارے میں ہم نے سن رکھا تھا کہ یہ پاکستان میں تیزاب سے جھلسائی جانے والی عورتوں کے بارے میں تھی۔ یہ بات بھی قابل فخر تھی کہ شرمین کو اس فلم پر حال ہی میں آسکر ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔ جیسے جیسے ہم دیکھتی جارہی تھیں ہماری روح کانپتی جارہی تھی انتہائی خوفناک موضوع تھا۔ ہم آرزدہ ہوتی چلی گئیں میں نے سوچا جس قسم کی زندگی یہ عورتیں گذاررہی ہیں اس سے تو اچھا ہوتا کہ یہ بے چاری لڑکیاں بن بیاہی ہی رہ جاتیں۔ ایک سین میں مجرم شوہر کو پولیس کی گاڑی میں بیٹھا دکھایا گیا۔ شلوار قمیض میں ملبوس، عام سامرد ملزم باریش اور سرپر ٹوپی جمائے تھا۔ اس سے بیوی کے چہرے پر تیزاب انڈیلنے کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈھٹائی سے بولا۔وہ میری بیوی ہے۔ میری عزت، مجھ سے طلاق مانگتی تھی۔ اسی لئے جو ہونا تھا، ہوگیا۔

اسے ہرگز پچھتا وا تھا نہ کوئی دکھ۔ پاکستانی معاشرے میں میدان کن تنگ نظری ہے وہاں کی عورت محض مرد کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتی؟ کیا وہ ایک بیوی سے پہلے ایک جاندار گوشت پوست کا، محسوسات سے بھرا ہوا انسان نہیں؟ کیا اس کے اندر اپنے لئے کوئی بھی خواہش پیدا نہیں ہوسکتی؟‘‘ رابعہ نے بھولین سے کمنٹ کیا۔ مرد عورت کا رشتہ تو صرف محبت کا ہونا چاہئے۔‘‘ میں بھی سوچنے لگی۔

پاکستانی مردوں کے ہاں بہت جہالت، حاکمیت اور بربریت کے رویے ہیں۔ میں بھی کہے بغیر نہ رہ سکی۔ آپس کا تعلق تومحبت کا ہونا چاہئے۔ مگر لگتا ہے پاکستانی مرد صرف حکومت کرنا جانتے ہیں، شادی کے بندھن میں بندھی عورتیں محبت کو ترستی ظلم سہتے سہتے ختم ہوجاتی ہیں اور ساری زندگی ضائع ہوجاتی ہے۔ تو بھلا یہ کیسی شادی ہوئی؟ ہم تینوں امریکن بارن لڑکیوں کو اس قسم کے حاکمانہ رویے کی سمجھ نہ آرہی تھی۔ اگر آپ کا جیون ساتھی، آپ کا محافظ ہی آپ کا قاتل بن جائے تو ایسی شادی سے تو کوئی تنہاہی اچھا ہے۔

خیر عراق میں تیزاب سے تو عورتوں کو نہیں جھلسایا جاتا لیکن مرد اپنی حاکمیت وہاں بھی ضرور جتاتا ہے۔ حرا نے لقمہ دیا۔
کیا یہ رویہ صرف مسلم ممالک میں ہی ہے۔ ہم تینوں پھر آپس میں ڈبیٹ کرتی چلی گئیں۔ تو پھر آخر مرد عورت کے درمیان اصل تعلق کی بنیاد شادی ہے یا محبت ہم فیصلہ نہ کرپارہی تھیں۔
اچھا چلو چھوڑو۔۔۔ چینل بدلو۔۔۔ میری تو طبیعت ہی مکدرہوگئی ہے۔

رابعہ نے آلو کے چیپس کا بڑا سابیک ایک ہی کوشش میں پورا پھاڑ دیا او رچپس نکال نکال کر کھانے لگی۔

چینل بدلتے ہی میری انگلیاں ایک جگہ رُک گئیں تو بریکنگ نیوز چل رہی تھیں ۔ گذشتہ رات کو ریلیز ہونے والی نئی فلم کے پریمیر شو کے موقع پر کولاریڈوسےئٹ کے شہر آرورا میں ایک عجیب وغریب سانحہ ہوگیا تھا۔ سینما گھر میں کسی نوجوان نے اندر گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور سنیما دیکھنے والوں کو بھوننا شروع کردیا۔ تین قسم کی پستولوں سے فائر کرتے کرتے اس نے بارہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور تقریباً ستر کو زخمی کردیا۔

سارے ملک میں افراتفری سی مچ چکی تھی۔ ٹی وی پر اس نوجوان کو دیکھا تو یقین نہیں آیا کہ ایک عام سا مہذب دکھتا پڑھا لکھا، اچھی فیملی سے تعلق رکھنے والا طالب علم اتنا خوفناک کام کیسے کرسکتا ہے؟ یہ بات سبھی کی سمجھ سے بالا تر تھی۔

آنے والے کتنے ہی دن ٹی وی پر اسی سفید فام امریکی نوجوان طالب علم کے بارے میں خبریں چلتی رہیں۔ تجزئیے ہوتے رہے کہ بظاہر نارمل دکھائی دینے والے نوجوان کا ذہن اتنا قاتلانہ کیسے بن جاتا ہے؟ آخر پہلے کسی کو پتہ کیوں نہیں چل سکا کہ اس کے دماغ میں کیسا فتور مچا ہوا ہے؟ ہم بھی دل گرفتہ ہوکر ٹی وی پر خبریں دیکھتیں تو حیرت اور افسوس سے اپنی انگلیاں دانتوں تلے داب لیتیں۔ کچھ دن گذرے۔ سارا امریکہ غم میں ڈوب گیا۔

پھر مرنے اور بچ جانے والوں کی کہانیاں او رتصویریں ٹی وی پر دکھائی جانے لگیں۔ تین خوبصورت لڑکیاں اپنے بچ جانے کے باوجود ٹی وی پر پھوٹ پھوٹ کر بے اختیار روتی نظر آتی تھیں۔ ہم تینوں روم میٹ دل تھامے ان کی کہانی سننے لگیں۔ تینوں اپنے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ ڈیٹ پر ہی یہ فلم دیکھنی آئی تھیں جب گولیاں چلنی شروع ہوئیں تو ان لڑکیوں کے جسم بھی بوچھاڑ میں آگئے۔ ایک آدھ زخم کھا کر وہ سیٹوں کے بیچ میں گر گئیں۔ تینوں نے اپنی الگ الگ کہانی بیان کی مگرحیرت تھی کہ کہانی ایک ہی تھی۔ لڑکیاں سسکتی ہوئی کہہ رہی تھیں۔

وہ کیسے بندھن میں جکڑ گئے ہیں؟۔۔۔ ہم ان کی محبت سے کبھی آزاد نہیں ہوسکیں گی۔‘‘ ان کی باتوں سے ایسے ہی جذبوں کی خوشبو آرہی تھی۔ انہوں نے تبایا کہ ان کے بوائے فرینڈز ان سے بہت محبت کرتے تھے او رہر قیمت پر انہیں پروٹیکٹ کرنا چاہتے تھے۔ گولیاں چل رہی تھیں، یہ لڑکیاں زخمی ہورہی تھیں مگر ان لڑکوں نے اپنی محبوباؤں کے جسموں پر لیٹ کر انہیں بچالیا اور ان کے حصے کی تمام گولیاں اپنے جسموں پر کھاتے چلے گئے۔

ہائے۔’’ہاؤ ورومنٹک‘‘ رابعہ نے سنا تو اس کی آنکھوں میں رشک سے آنسو آنے لگے۔
کیا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کرسکتا ہے؟ حرا بھی متاثر ہو کر بولی مرد عورت کے درمیان سب سے مضبوط، خوبصورت او راہم تعلق کیا ہوسکتا ہے۔ یکایک مجھے سمجھ میں آنے لگا۔

Comments are closed.