پاکستانی بمقابلہ بھارتی فلم انڈسٹری

وسیم الطاف

th

پاکستانی فلم انڈسٹری اور بھارتی فلم انڈسٹری کا کلچر اور بیک گراؤنڈ تقریباً ایک جیسا ہے۔آج بالی ووڈ ( جس میں علاقائی فلمیں بھی شامل ہیں) عالمی سطح پر اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں جبکہ لالی ووڈ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ دنیا میں اس وقت بالی ووڈ میں سب سے زیادہ فلمیں بن رہی ہیں۔2010 میں بننے والی فلموں کی تعداد 1288 تھی جبکہ پاکستان میں 10 فلمیں بنیں۔ بھارتی فلمیں دنیا کے 90 ممالک میں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں جبکہ پاکستانی فلم کی اپنے ہی ملک میں مارکیٹ نہیں ہے۔ دہلی میں درجنوں سینما گھر ہیں جبکہ اسلام آباد میں ایک بھی سینما ہال نہیں ہے۔ہمارے سینما گھر گرادئے گئے ہیں اور فلمی سٹوڈیو تباہ ہو چکے ہیں ۔

آج بھارتی فلمیں عالمی سطح پر ایوارڈ لے رہی ہیں اور ان کے اداکار پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے اداکاروں کو کوئی جانتا تک نہیں ، بھارت میں وزارت اطلاعات کے تحت فلم ڈویژن ہے اور سرکاری سطح پر فلم اینڈ ٹیلی ویثرن انسٹیٹوٹ ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسے کسی ادارے کا وجود نہیں۔ہمارے ہاں سید نور اور سنگیتا (اب سنگیتا بیگم) مسلسل بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف راگ الاپتے رہتے ہیں۔ زمینی حقائق سے کٹے ہوئے ان لوگوں کی آواز اب ہوا میں گم ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو تفریح کہاں سے مہیا کریں۔

2013 میں بھارتی فلم انڈسٹری کے قیام کے سو سال ( 1913 میں دادا صاحب پھالکے نے پہلی ہندوستانی فلم’’راجہ ہری چندر‘‘ ریلیز کی تھی) مکمل ہونے پر بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔لیکن کسی کو یہ علم نہیں کہ 2024 کی لالی ووڈ میں کوئی اہمیت ہے کہ نہیں ۔

1913 میں دادا صاحب پھالکے کی فلم کی ریلیز کے گیارہ سال بعد1924میں لاہور میں پاکستان ریلوے ایک افسر جی کے مہتا نے پہلی خاموش فلم’’ ڈاٹر آف ٹوڈے ‘‘بنائی۔ 1925 میں بھارتی اداکار ہمنسو رائے نے جرمنی کی ایملک فلم کمپنی کے ساتھ جائنٹ وینچر شروع کیا۔ اس کمپنی کو سرمایہ لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج موتی ساگر نے فراہم کیا۔ اس ادارے نے ’’لاء آف ایشیا‘‘ فلم پروڈیوس کی جس میں ہمنسو رائے اور کلکتہ کی سیتا دیوی نے مرکزی کردار ادا کیے۔ فرانز اوسٹن اور جوزف ورشنگ ، جو کہ جرمن تھے، نے کیمرہ ورک کیا ۔ یہ فلم بدھا کی زندگی پر بنائی گئی ۔ اس کمپنی نے بعد میں سید امتیاز علی تاج کے مشہور کھیل انارکلی کو اپنی فلم کے لیے چنا۔ اس فلم کا نام ’’لو آف مغل پرنس‘‘ رکھا گیا جس میں امتیاز علی تاج ، حکیم احمد شجاع اور ایم ایس ڈار نے بھی اداکاری کی۔ اس فلم کو چھوررائے نے ڈائریکٹ کیا۔

تقسیم سے قبل لاہور میں بے شمار اداکار کام کر رہے تھے جن میں نذیر،ہیرا لال، لالہ یعقوب، شیام سندر، رفیق غزنوی، اوم پرکاش، ماسٹر غلام محمد ، اے آر کاردار ، دلسکھ پنجولی روپ کے شوری نما یاں تھے۔لاہور میں جب فلم انڈسٹری کا آغاز ہوا تو اس میں ہندو ،مسلم ،پارسی،سکھ، مسیحی ، یہودی، بنگالی، مراٹھی ، پٹھان، گجراتی اور جرمن لوگ کام کر رہے تھے ان سب کا تعلق مختلف ملکوں اور مذاہب سے تھا مگر ان سب کا واحد مقصد اچھی فلمیں بنانا تھا اور انھوں نے اچھی فلمیں بنائیں بھی۔

14مارچ1931 میں پہلی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ ریلیز ہوئی یہ فلم مووی ٹون کے بینر تلے بنی تھی جس میں ایک پارسی اردشیر ایرانی اور مسلمان عبدل علی یوسف بھائی پارٹنر تھے۔ اس فلم کے ہیرو ماسٹر وتھل ، ہندو، ہیروئین زبیدہ ، مسلمان، تھی جبکہ باقی کاسٹ میں پرتھوی راج ، جلو بھائی، یعقوب، جگدیش سیٹھی اور وزیر محمد خان تھے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ارد شیر، ایرانی تھے جبکہ میوزک ڈائریکٹر فیروز شاہ مستری بھی ایرانی تھے۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والے یہودی، ارزا مئیر، اس فلم کے ڈائیریکٹر تھے۔شاید یہ بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ اداکارہ زبیدہ کی والدہ انڈین سینما کی پہلی خاتون ڈائریکٹر تھی جس نے خاموش فلم ’’بلبلِ پرستان‘‘ ڈائریکٹ کی تھی۔

’’عالم آراء‘‘ کے ہیرو ماسٹرو تھل جو کہ ہندو تھے ، پر دوسری فلم کمپنی نے مقدمہ دائر کر دیا کہ انھوں نے کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’’عالم آراء‘‘ میں کام کیا ہے۔ بمبئی کے ایک نامور وکیل نے ان کا مقدمہ لڑا اور وہ مقدمہ جیت گئے۔ وکیل محمد علی جناح، مسلمان، تھے ۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی پنجابی فلم شیلا ( پنڈ دی کڑی) کلکتہ میں کے ڈی مہرہ نے پروڈیوس کی تھی ۔ لتا منگیشکر جو کہ ہندو تھی کو مسلمان میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر نے جبکہ مسلمان گلوگار محمدرفیع کو ہندو موسیقار شیام سندر نے متعارف کرایا۔اس دور میں گلاب ، گوہر، زبیدہ ، سلوچنا، رام پیاری، اور للیتا پروار جبکہ وتھل بلی موریابرادر، ایلڈی اینڈ ڈنشا نے خیل اور مبارک کے ساتھ کام کیا۔یعنی فلمی دنیا میں مختلف رنگ نسل مذہب کے لوگ کسی تعصب کے بغیر کام کرتے تھے اور مذہب ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہوتا تھا۔

تقسیم کے بعد بھارت کی فلم انڈسٹری میں یہ صورتحال برقرار ہے۔اس نے بے پناہ ترقی کی اور ہر دور میں مسلمان ہیروز کی بڑی تعداد غالب رہی ہے۔ جبکہ پاکستان تقسیم کے بعد ایک نظریاتی ملک بن گیا اور نتیجتاً بتدریج تنگ نظری غالب آتی گئی۔ لاہور میں فلم انڈسٹری پر روشن لال شوری اور روپ کے شوری ، دلسکھ پنجولی اور پران اپنے ساتھیوں سمیت ہندو ہونے کی وجہ سے لاہور چھوڑ گئے ۔ اسی طرح شہنازبیگم کو بھی لاہور چھوڑنا پڑاکیونکہ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اور اس کی مادری زبان بنگالی تھی۔موسیقار اوپی نئیر لاہور میں ہی تھے جب فسادات کا آغاز ہوا۔ ماڈل ٹاؤن لاہور کے قاضی ثنا ء اللہ نے ان کو اپنے گھر میں چھپا کر ان کی جان بچائی۔ سی آئی ڈی ، کشمیر کی کلی، میرے صنم اور بے شمار فلموں کی بے مثال موسیقی دینے والے کو مذہب کے نام پر بھگا دیا گیا۔

چودہ اگست 1947 کو رواداری برداشت کا دور ختم ہو گیا ہمارے فلمسازوں نے حکومت پر زور ڈالا کہ وہ بھارتی فلموں پر پابندی لگا دے جبکہ ڈسٹری بیوٹر نے مخالفت کی ، سردار عبدالرب نشتر جو کہ وزیر صنعت تھے نے نوٹیفیکشن جاری کیا کہ ’’ اصولی طور پر مسلمانوں کو فلم سازی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے چونکہ اس کا تعلق زن اور زر سے ہے اس لیے یہ کام کافروں کو زیب دیتا ہے‘‘ نوٹیفیکشن میں ڈسٹری بیوٹرز کو کچھ نہ کہا گیا کیونکہ ان کا کام مسلمانوں کو کافروں کی فلمیں دکھانا تھا۔

1954 میں ڈبلیو زیڈ احمدکی فلم ’’روحی‘‘ پر اس لیے پابندی لگا دی گئی کہ اس میں سوشلسٹ معاشرے کی عکاسی کی گئی تھی ۔ کئی دہائیوں تک سنسر بورڈ نے ایسے موضوعات پر پابندی عائد کیے رکھی جس مین بھوک اور غربت کو نمایاں کیا جاتا تھا۔ اسی سال فلمی دنیا کے لوگوں نے صحافیوں کے ساتھ مل کر بھارتی فلم ’’جال‘‘ کی ریلیز کو رکوایا اور نتیجتاً یہاں بھارتی فلموں کے چربے بننے شرو ع ہو گئے۔

انیس و پچپن میں دو بھارتی اداکارائیں شیلارحمانی اور مینا شوری پاکستان آئیں ۔ شیلا جلد ہی واپس بمبئی چلی گئی جبکہ مینا شوری یہیں رہی اور 1989 میں اس کاانتقال ہوا۔ اس کے کفن دفن کے پیسے چندے سے اکٹھے کیے گئے۔

ضیاء الحق کے مارشل لاء نے ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا اور فنون لطیفہ کی تباہی کو تیز تر کر دیا۔ لاہور میں شدت سے گلیمر اور ماردھاڑ سے بھرپورفلمیں بننے لگیں۔وحشی گجر، مولا جٹ اور جٹ دا کھڑاک جیسی بے شمار فلمیں بنیں۔

1979 میں جنرل ضیاء الحق نے پچھلے تین سال میں بننے والی فلموں پر پابندی عائد کر دی جس سے فلم سازی کا شعبہ متاثر ہوا اور چھوٹے چھوٹے فلمسازوں نے سستی قسم کی فلمیں تیار کرنے شروع کر دیں۔ نئی فلم پالیسی بنائی گئی اور موشن پکچرز آرڈیننس 1979 نافذ کردیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ فلم میں مذہبی اور قومی جذبات کا خاص خیال رکھا جائے۔ ڈانس کو قومی امنگوں کے مطابق ہو۔ اس آرڈیننس میں اتنی پابندیاں لگا دی گئیں کہ فلم میں کسی نئے آئیڈیا پر کام کرنا ناممکن ہوگیا۔ سینما میں ماردھاڑ سے بھرپور فلمیں لگنی شروع ہو گئیں۔

ضیاء الحق کے دور میں جب سیاسی مخالفین اور مجرموں کو سر عام کوڑے مارے جارہے تھے مولا جٹ پر صرف اس لیے پابندی عائد کر دی گئی کہ اس میں بہت زیادہ تشدد ہے ۔ پروڈیوسر نے ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا اور فلم چلتی رہی۔ جنر ل ضیاء جب فلم انڈسٹری اور سینما پر مذہب کے نام پر پابندیاں لگا رہا تھا وہیں دوسری طرف اس کی فیملی پائریٹڈ انڈین فلمیں دیکھتی رہی ۔ شترو گہن سنہا ان کا ذاتی مہمان بنتا رہا۔ شترو گہن سنہا فلمی دنیا کا واحد شخص تھا جو ضیاء الحق کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے سینما گھر گرانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی جبکہ ضیاء الحق نے اس پابندی کو نرم کر دیا اور کئی سینما گھر گر کر پلازوں اور ہوٹلوں میں تبدیل ہوگئے۔یہ سعودی عرب کی اخلاقیات کے عین مطابق تھا جہاں پورے ملک میں ایک بھی سینما گھر نہیں ہے۔

یہ بھی ایک دلچسپ معاملہ ہے کہ ایوب خان نے1962 میں اپناآئین منظور کروانے سے پہلے 1961 میں سٹیٹ فلم ایوارڈ منعقد کرایا اسی طرح ضیاء الحق نے 1984 کے ریفرنڈم سے پہلے دسمبر1983 میں پہلا نیشنل فلم ایوارڈ کی تقریب منعقدکرائی۔

پاکستان میں ضیاء الحق کے دور سے سعود ی عرب کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور فلم انڈسٹری تباہ ہو رہی تھی جو شاید اب بحال نہ ہو سکے۔ پاکستان میں فلموں کا خلا بھارت کی فلموں نے پورا کیا۔ بھارتی فلموں میں تمام رنگ و نسل کے افراد مل جل کر کام کر رہے ہیں۔ میں جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو مائی نیم از خان کا گانا’’اللہ ہی رحمن ‘‘ ہے کا گانامیرے دل و دماغ کو مسحور کر رہا تھا یہ گانا نریجن لینگر کا لکھا ہوا ہے جبکہ موسیقی شنکر احسان لوئے نے ترتیب دی ہے۔ **

3 Comments