ڈس انفارمیشن

raja anwar3

پاکستان میں ڈس انفارمیشن کی سونامی سے ابھرنے والا طوفان مکمل طغیانی پر ہے۔ ڈس انفارمیشن کے لئے ہماری ذہنی آمادگی کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کرسکتی۔ آج کے وہ سارے معاشی اور بین الاقوامی مسلمہ حقائق، جن کی بنیادوں پر امروزہ ڈپلومیسی کی بلند وبالا عمارت استوار ہے، ہمارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے۔ نہ ہمیں بیرونی دنیا سے کوئی غرض ہے اور نہ اُس کی سیاست سے کوئی مطلب ! گزشتہ 65 سالوں کے جھوٹ اور افترانے ہمارے اذہان کو اس قدر مسموم کررکھا ہے کہ ہم کسی قسم کی کوئی منطقی بات سُننے، دیکھنے، سوچنے یا جاننے کے لئے تیار نہیں۔ ہماری ذہنی ژولیدگی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ آج ہم خود ہی افواہیں تخلیق کرتے ہیں، خود ہی اُنہیں پھیلاتے ہیں، خود ہی اُن پر تبصرے کرتے ہیں او رپھر خود ہی اُن پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

وہ بزرگ، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے1947ء کا پُر آشوب زمانہ دیکھا، بتایا کرتے تھے کہ بٹوارے کے دوران، یہ افواہ پھیل گئی کہ ماجھے کے نہنگ سکھ پاکستان پر چڑھ دوڑے ہیں۔ اس جھوٹی خبر کا پھیلنا تھا کہ خوف سے ڈسے ہوئے لوگ، اپنے اپنے گھروں سے بھاگ نکلے۔ اُن بے چاروں کا بھی کیا قصور کہ اُن کی پوری تاریخ پشتون او رترک لشکروں کے حملوں یا سکھ جتھوں کی قتل وغارت سے بچتے اور بھاگتے گزری تھی۔ چنانچہ انہوں نے افواہ کو حقیقت سمجھا اور اُسے جنگل کی آگ کی مانند پورے پنجاب میں پھیلا دیا۔ اٹک اور راولپنڈی کے دُورافتادہ دیہات میں بسنے والوں نے یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ راوی کے اُس پارسے سکھ کیا ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر اُن کے گاؤں میں آن اُتریں گے؟ کیا چار سومیل کے راستے میں انہیں کوئی روکنے والا نہ ہوگا؟ لیکن پھر وہی بات کہ افواہوں کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔

پنسٹھ کی جنگ شروع ہوئی تو اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا کہ اگر لوگ کسی افواہ کے پیش نظر، خوف کے عالم میں اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے لگے تو فوج کی نقل وحمل میں شدید رکاوٹیں او رمشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس افتاد سے بچنے کی خاطر، جی ایچ کیو میں نفسیاتی جنگ کا ایک سیل بنایا گیا۔ اسی سیل کاکام ایسی افواہیں پھیلانا تھا، جس سے عوام کا حوصلہ بلند رہ سکے۔ پروفیسر ڈاکٹر اجمل اس سیل کے سربراہ تھے۔

ڈاکٹر اجمل کو خدا بخشے، وہ بڑے خوشگوار موڈ میں بتایا کرتے تھے کہ ہم نے عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کی خاطر، پہلی افواہ یہ پھیلائی کہ ہماری سرحدوں پر سبز پوش درویش پہرہ دے رہے ہیں؛ چنانچہ جونہی انڈیا سے کوئی گولہ یا بم ہماری جانب آتا ہے، وہ اُسے پھٹنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھ میں تھام کر واپس انڈیا کی جانب پھینک دیتے ہیں۔ ایک دو اخبارات میں ایسے فرضی لوگوں کے بیانات شائع کئے گئے، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ان صاحب کشف وکرامات سبز پوش بزرگوں کو دشمن کے گولے اپنے ہاتھوں میں تھامتے او رپھر انہیں ہندوستان کی جانب پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم میں سے کس کسی کو1965ء کی جنگ یاد ہے، اُسے ڈاکٹر اجمل کے تخلیق کردہ سبزپوش بزرگوں کی یہ کرامات بھی یاد ہوں گی۔

ہم اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ عبور کرچکے ہیں۔ آج ہمیں ڈس انفارمیشن پھیلانے اور واہمے بکھیرنے کے لئے نہ کسی سیل کی ضرورت ہے او رنہ اُن واہموں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ڈاکٹر اجمل ایسے کسی ماہرِ نفسیات کی! گزشتہ 65سالہ افواہ سازی کی مسلسل مشق نے ہم میں سے ہر ایک کا دماغ از خودافواہیں تراشنے، انہیں عام کرنے اور انہیں حقیقت ثابت کرنے کے ایک خود کفیل کارخانے میں ڈھال دیا ہے۔

آج کسی حکومت یا ادارے کو جھوٹ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہم سب اپنے اپنے مقام پر اس کام میں ہمہ تن مصروف بھی ہیں اور مشغول بھی! ہمارے پرنٹ میڈیا کی تحقیقاتی جرنلزم کا یہ عالم ہے کہ وہ کوچہ وبازار میں زیرِ گردش افواہوں کو نامہ نگارِ خصوصی کے زیرِ عنوان نمک مرچ لگا کر، ہر صبح عوام کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ ہمارے عوام انہی خبروں سے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں او ردن بھر ایک دوسرے کو اُن کی صداقت پر قائل کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔

دفاعی واہمے اور جذباتی افواہیں پھیلانے کے میدان میں ہمارے دو سابق جرنیلوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وہ آج تک عوام کو گمراہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے لے کر آج تک یہ حضرات افغانستان کو اپنی ایک دست نگر کالونی فرض کرتے ہوئے، اُسے اپنی جنگی حکمت عملی کی گہرائی قرار دیتے چلے آرہے ہیں۔

ہماری افواہ ساز فیکٹریاں، بیرونی قرضوں کے بارِگراں تلے، لرزتے، کپکپاتے او رکشکول لئے گلی گلی صدائیں دیتے، پاکستان پر آج بھی رحم کرنے کو تیار نہیں! ہم نے جہاد کے نام پر باہمی کشت وخون او رقتل وغارت سے پاکستان کا یہ حشر کردیا کہ آج نہ کہیں امن ہے او رنہ جائے امان۔۔۔ نہ کہیں قانون ہے او رنہ اُن کا نفاذ۔۔۔ نہ کہیں وژن ہے او رنہ کوئی پلان۔۔۔ نہ بجلی میسر ہے او رنہ گیس۔۔۔ نہ منزل او رنہ منزل کی جانب سفر۔ افواہوں کے اس سیلاب میں عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہید ہیں یا امریکی ڈرون طیاروں کے میزائلوں سے مارے جانے والے؟ یارلوگوں کا کمال دیکھئے۔۔۔ کہ وہ اس حال میں بھی اپنے اپنے مقام پر ڈِس انفارمیشن پھیلانے کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔

Comments are closed.