ماچکیں بلوچانی

رزاق سربازی

open-shelter-class-in-naseerabad-balochistan-620x330

بلوچستان کے سرکاری اسکولوں میں ’’پاک سرزمین شاد باد، کشور حسین شاد باد’’ کا ترانہ پڑھانے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے اور سال بہ سال ابتدائی کلاسوں میں داخل ہونے والے طلباء کیلئے ناشناختہ ماضی کا حصہ ہے۔ جہاں تہاں پرائیویٹ اسکول قائم ہیں وہاں استاد مجید گوادری کا لکھا بلوچی ترانہ ’’ما چکیں بلوچانی‘‘ رواج پاچکا ہے

♦♦

’’خود کو پاکستانی لکھنا یا کہلوانا، کسی بھی بلوچ کو پسند نہیں‘‘

بلوچستان سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اپنے ساتھی صحافی کو نصیحت آموز انداز میں آگاہ کیا۔ ایسی سرخی مت جمانا۔

پاکستان سے وابستگی ظاہر کرنے والی یہ سہہ کالمی سرخی دوسرے دن اخبار کے صفحہ اول سمیت ہر صفحہ سے غائب تھی، گویا غیر مطبوعہ ہی رہی۔ ایڈیٹر جو صحافی ہونے کیساتھ ساتھ بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کا ایک شناسا چہرہ بھی ہے، درحقیقت نہیں چاہتا تھا کہ رائے عامہ کی انقلابی جنگ میں وہ کمتر درجے کا ایک ایسا رہنما نظر آئے جو سیاسی بول چال کی آگاہی بھی نہیں رکھتا۔رائے عامہ کی جاری کشمکش کے پس منظر میں کسی انقلابی سے بڑھ کر خود کو انقلابی ظاہر کرنا، کسی تشدد پسند سے بڑھ کر خود کو تشدد پسند ظاہر کرنا۔ کسی انتہا پسند سے بڑھ کر خود کو انتہا پسند ظاہر کرنا، کھیل کا حصہ بن چکا ہے۔ جس کے عقب میں مسلح تصادم کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔

قبل از نیشنل پارٹی، جب بی این پی عوامی، نواب اسلم رئیسانی کی سرکردگی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ تھی۔ اس کے وزراء بلا تکان ہر فورم پر بلوچستان کے معاملات کی گرہ کشائی کیلئے اقوام متحدہ کو مداخلت کی دعوتیں دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ خود کئی سال حکومت کا ناقابل تقسیم جز بھی رہے۔

یہ خبر ہر کس و ناکس کے علم میں ہوگی کہ بلوچستان کے سرکاری اسکولوں میں ’’پاک سرزمین شاد باد، کشور حسین شاد باد’’ کا ترانہ پڑھانے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے اور سال بہ سال ابتدائی کلاسوں میں داخل ہونے والے طلباء کیلئے ناشناختہ ماضی کا حصہ ہے۔ جہاں تہاں پرائیویٹ اسکول قائم ہیں وہاں استاد مجید گوادری کا لکھا بلوچی ترانہ ’’ما چکیں بلوچانی‘‘ رواج پاچکا ہے۔یہ چھوٹی خبریں ہیں یا بڑی؟؟اسلام آباد کے اقتدار کی راہ داریوں میں چہل قدمی کرنے والے سیاسی کاریگروں کیلئے یہ بڑی خبروں کا درجہ نہیں رکھتیں۔کیوں؟

کیونکہ یہ براہ راست ان کے روزمرہ معمولات کو متاثر نہیں کرتیں۔ ان کے ووٹ بینک کی کھاتہ داری کا وزن ان خبروں سے گھٹ نہیں رہا۔ اس جنگ کے نتیجے میں گمشدگیوں کا شکار ہونے والے ان کے رشتہ دار، شناسا یا ووٹرز نہیں۔ جو مسخ لاشیں مل رہی ہیں۔ گویا وہ سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات کا نتیجہ ہیں۔

کچھ سال پہلے کراچی آرٹس کونسل میں مقامی ٹی وی کے اینکر و افغان ثور انقلاب پر توصیفی کتابوں کے مصنف و سابق ناشر مجاہد بریلوی کی کتاب’’بلوچستان: مسئلہ کیا ہے؟‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ بلوچ مسلح رہنما اللہ نذر کے بیس کیمپ مشکے میں ان ہی دنوں بڑے پیمانے کے آپریشن کی اطلاعات تھیں۔ یہ ایسی بڑی خبر تھی کہ بلوچ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کا اس خبر سے لاعلم ہونا یا بلوچستان پر گفتگو میں اس سے صرف نظر باعثِ حیرت تھا لیکن بلوچستان پر فکرمند نظر آنے والے سیاستدان اور تشویش کا اظہار کرنے والے لکھاریوں کی لاعلمی ششدر کر دینے والی تھی۔

دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے نیشنل پارٹی کے نرم گفتار سیکریٹری جنرل طاہر بزنجو نے اپنے خطاب میں اس موضوع کو چھیڑا اور سامعین کو بتایا کہ جس وقت ہم یہاں بیٹھے ہیں، اس وقت بھی مشکے میں اپنی نوعیت کی ایک بڑی کارروائی ہورہی ہے مگر شاید ان کی داستان بیانی کسی کو پسند نہ آئی کیونکہ اس گفتگو کو کسی نے آگے نہ بڑھایا۔کتنے لوگ بلوچستان پر بولنے کو آئے جن میں پارلیمنٹیرین اور دانشور دونوں شامل تھے مگر سب ہی نے کچھ نہ کچھ اپنی پسند کا حفظ کر رکھا تھا۔ لگتا تھا کہ گویا بلوچستان شیخ سعدی و حافظ شیرازی کی تحریر کردہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں گزرے وقتوں کے واقعات ایک ایسی زبان میں پیش کئے گئے ہیں جس کے قانون قاعدے کسی دور قدیم پر ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والے آرکیالوجسٹوں کی علمی حدود میں قید ہیں۔

لگتا تھاکہ بلوچستان کی کہانی کے باامر مجبوری یا لازمی پسندیدگی کے پیشِ نظر پڑھ رکھے ہوئے مختلف پیراگراف میں مشکے جیسا کچھ نیا شامل نہ تھا۔بہرحال وہ آٹھ مہینے تو رفت و گزشت ہوئے، اب ایک اور دسمبر آنے والا ہے۔ مرکز و بلوچستان میں حکمران جماعتیں بدل چکیں۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی جگہ نیشنل پارٹی ہے اور پختونخواہ نیپ اور مسلم لیگ نون شریک اقتدار ہیں۔

بلوچستان میں حکمران جماعت کے سیکریٹری جنرل طاہر بزنجو بلوچ مسئلہ کو قدرے بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ میری ان سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور بات چیت کا موضوع بلوچستان ہی رہا۔ بعض معاملات پر وہ خفاء نظر آئے تو کہیں پرتشویش۔ دلائل و منطق کی سیاست کے قائل طاہر بزنجو اس کی بیسودی پر شاکی بھی تھے۔آخر کیا کیا جائے؟ جن کے ہاتھوں میں سب کچھ ہے وہ معاملات کا ادراک کرنا نہیں چاہتے۔ وہ کون لوگ ہیں؟

آؤ سب آنسو بہائیں۔ دلائل و منطق کی درسی کتابیں شائع کرنے والے درک و ادراک کی حس کھوچکے ہیں۔ بلوچستان میں اب وقت ٹھہرا ہوا لگتا ہے۔ وقت کو کسی خاص سانچے میں ڈھلے ذہن نے اپنی قید میں بلوچ گمشدگان کی طرح محبوس کررکھا ہے۔ستر کی دہائی کے برعکس اس بار بلوچستان کی شورش کا بڑا مرکز کیچ مکران بن چکا ہے جہاں غیر معمولی واقعات کا سلسلہ تیز رفتار ہوچکا ہے۔ اللہ نذر بھی جب کراچی سے گرفتار ہوئے تو ان پر کیچ کے ہی علاقہ بلیدہ زعمران میں ایف سی کانوائے پر حملے کا الزام تھا اور اسی مقدمے میں وہ حراست میں لے کر لاپتہ کردیئے گئے۔ بہرحال چند ہفتوں قبل گویا ان علاقوں میں واقعات کا تانتا بندھ گیا۔سلسلہ صرف یہیں نہیں رکتا۔

گلزار ریاض نامی نوجوان شاعر جو بِٹ بلیدہ کا رہائشی تھا، اچانک قتل ہوجاتا ہے۔ اس کے قتل کا شبہ سابق صوبائی وزیر ظہور بلیدی کے چھوٹے بھائی نور احمد بلیدی پر ظاہر کیا جاتا ہے۔گلزار کے قتل کو چند ہی دن گزرتے ہیں کہ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اور بلوچستان کے وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ایک ترجمان جان محمد بلیدی کا لیویز اہلکار بھتیجا رمضان کے پہلے عشرے میں قتل ہوجاتا ہے۔پھر چند ہی اور دنوں بعد نور احمد بلیدی کو قتل کردیتے ہیں۔ دونوں واقعات کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم ’’بلوچ لبریشن ٹائیگر‘‘ قبول کرلیتی ہے۔ پھر نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والا بلوچستان اسمبلی کا جواں سال رکن اور ایوب بلیدی کا بیٹا، عظیم جان بلیدی کمرہ بند کرکے سورہا تھا جب ایک گولی اس کی زندگی کا خاتمہ کر گئی۔

ایک خاموشی سی چھاگئی ہے۔ انقلابِ ایران سے قبل اور اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں لوگ سیاست پر گفتگو کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ویسے ہی حالات ایران کے اس پار بلیدہ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں تاوقتیکہ کسی کا اعتبار حاصل نہ ہو، آپ کچھ بھی کریدیں، درست معلومات خاکوں کی شکل میں بھی نہ ملیں گی۔بلیدہ تربت کا دور افتادہ وہ پہاڑی علاقہ ہے جس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔ جہاں دوسری طرف سیستان و بلوچستان کے علاقے سرباز و سراوان واقع ہیں۔

کیچ مکران، بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جسے شہرت ملی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بلوچستان کا وہ منطقہ ہے جہاں خدائی اختیارات رکھنے والے سردار و نواب نہیں پائے جاتے۔ غالباً یہ بات حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی البتہ کیچ کا درمیانی طبقہ دیگر علاقوں کے درمیانی طبقہ سے زیادہ وسیع، پڑھا لکھا اور کاروباری ہے جبکہ یہ علاقہ فطری طور پر گوادر سے کرمان تک پھیلا ہوا ہے۔ جس میں گوادر، تربت، پنجگور، چابہار، ایران شہر، سرباز اور سراوان جیسے بڑے بڑے شہر واقع ہیں لیکن انتظامی طور پر اس کی سرحدیں گوادر، پنجگور و مند تک محدود کردی گئی ہیں۔

اب نئی ریاستی طبقاتی انتظام کاری کے تحت کیچ کے علاقہ میں واضح خط بندی کردی گئی ہے۔ مقامی لوگ اس طبقاتی خط بندی کو یوں بیان کرتے ہیں۔ ڈرگ مافیا، فورسز اور پارلیمنٹرین (جو خدائی اختیارات رکھنے والے سرکاری سرداروں سے کم طاقت کے مالک نہیں۔) ایک طرف ہیں۔ شہروں میں ان کی طاقت کہیں کم اور کہیں زیادہ ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق دوسری طرف بلوچ مزاحمت کار ہیں جن کو شہروں کے اطراف کے علاقوں میں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ جو رواں سالوں میں اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ رائے عامہ کی تشکیل کیلئے ان کی جانب سے ایک پمفلٹ گرائے جانا کافی سمجھا جاتا ہے۔

پمفلٹ شناس پارلیمانی رہنماؤں کے مطابق گیارہ مئی کے الیکشن کو روکنے کیلئے جو پمفلٹ تربت اور کیچ کے دیگر علاقوں میں تقسیم ہوئے وہ سادہ سے لفظوں پر مشتمل تھے اور ان کی تحریر پختہ خط میں نہیں تھی۔ اس پر ایک پارلیمانی رہنما نے خیال ظاہر کیا کہ ’’یہ علاقائی سطح پر سرگرم نامعلوم سیاسی کارکنان و اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کے تحریر کردہ تھے اور یہی پمفلٹ موثر ثابت ہوکر الیکشن کو روکنے میں کامیاب ہوئے‘‘۔

کیچ مکران میں حیران کن حد تک کم ووٹ پڑے جبکہ آواران کی نشست پر محض پانچ سو اور کچھ ووٹ لے کر مسلم لیگ کے قدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی پہنچے اور ڈپٹی اسپیکر بن گئے۔ میرے نرم گفتار دوست گرداب میں پھنس گئے ہیں۔ غالباً اللہ نذر اپنے بیس کیمپ میں بیٹھے اپنے سابق سیاسی دوستوں کی عاقبت پر مسکرا رہے ہونگے۔

نوے کی دہائی اللہ نذر اور نیشنل پارٹی کی قیادت کے درمیان فیصلہ کن دہائی تھی۔ جب میڈیکل کالج کا ایک طالب علم عملی سیاست کے بیزارکن پارلیمانی تجربات کی نسبت ہر فیصلہ میں آزاد اور عام لوگوں کے مفادات کی بات کرتا تھا۔ وہ نوجوان لینن کے درس دینے والے اپنے سیاسی رفقاء کو ان کی کرپشن کی نذر ہونے والی سیاست پر کوستا تھا۔ وہ ان کی پارلیمان تک پہنچنے کی بھوک پر ہنستا تھا اور آج وہ مشکے میں بیٹھے مسکرا رہا ہوگا۔ یہ کیسا سودا تھا؟

بہرحال چند ماہ قبل نیشنل پارٹی و مسلم لیگ نون کے درمیان طے پا جانے والا یہ سودا کیسا سودا تھا؟درک و ادراک کی حس سے محروم بادشاہ سازوں نے کیسا جادو دکھایا؟دلیل و منطق کی بیسودگی پر گریہ کناں دوستوں نے کیونکر ان پر اعتبار کیا؟ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، حاصل بزنجو، طاہر بزنجو، جان محمد بلیدی جیسے معاملہ فہم حکومت سازی کی تگ و دو میں سیاسی بالغ نظری سے کیونکر ہاتھ دھوبیٹھے؟

بلوچستان جہاں معاملات ہاتھوں سے نکل چکے ہیں، تشدد پر اب محض ریاست کا اجارہ نہیں، یہ سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر ادارہ فریق بن چکا ہے۔ایسی صورت میں نیشنل پارٹی وہ کون سا سیاسی جادو دکھاسکتی ہے؟بلوچستان میں بے امیدی پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے نیشنل پارٹی کے نظریہ دان مولابخش دشتی کا قتل ہوا، الزام اللہ نذر پر لگا، انہوں نے تردید کردی اور نیشنل پارٹی نے تردید کو قبول کرنے سے انکار کیا۔

نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر نسیم جنگیان کا قتل ہوا، الزام اللہ نذر پر لگا۔ پھر نیشنل پارٹی کی سیاست کو اس کے مرکز کیچ میں عدم مقبولیت حاصل ہوئی تو ذمہ دار مسلح مزاحمت کار قرار پائے۔کیا کیا جائے؟ یہ وہ سیاسی تلخابہ ہے جس نے سیاسی مزاج پر قبائلی اثرات کی تہہ چڑھا دی ہے۔ لگتا ہے میرے دوست ناکام ہوگئے ہیں۔* بشکریہ ڈان