ہندو لڑکیاں اور پیر صاحب بھرچونڈی شریف

سحر بلوچ

rinkle-kumari-a-hindu-girl-from-sindh-pakistanڈھرکی میں خانقاہِ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف کے اندرونی حصے کی فضا میں سکون غالب ہے۔ اس سے آگے مدرسہ ہے، جہاں طالبعلم قرآن کی تلاوت کررہے ہیں۔ مزار کے گدی نشین پیر عبدالخالق وہاں نہیں تھے، لیکن ان کے 29 برس کے بیٹے عبدالمالک جمعرات کے روز موجود تھے۔سر پر مخروطی ٹوپی جمائے اور گھیردار لہراتا ہوا سفید کرتا پہنے ہوئے عبدالمالک کی باتوں سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ وہ چند دن قبل علاقے میں پھیلنے والے اشتعال سے غافل ہیں۔

حال ہی میں رانی نام کی ایک ہندو لڑکی کے والدین نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے اس مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا کہ ان کی لڑکی کو بھرچونڈی شریف کے مزار سے بازیاب کروایا جائے، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کو زبردستی مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا گیا ہے۔جیکب آباد کے علاقے کریم آباد میں رہائش پذیر اس لڑکی کا تعلق بھاگری قبائل سے ہے، جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سندھ کے غریب ترین قبیلوں میں سے ایک ہے۔

مدرسے کے ایک جانب اپنے سجے سنورے دفتر میں جب عبدالمالک داخل ہوئے تو عطر کی خوشبو پورے کمرے میں پھیل گئی۔عبدالمالک نے دمشق یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں گریجویشن کر رکھا ہے، انہوں نے ہمارے سوالوں کو بہت توجہ سے سنا اور جواب میں کہا کہ ’’میرا مقدس مشن ہے انسانیت کی خدمت کرنا۔ اگر کوئی مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے تو ہم اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں۔‘‘ (اس مدرسے کے انتظامی امور کی نگرانی کرنے والے شخص کا کہنا تھا کہ یہ مدرسہ پچھلے تین سالوں کے دوران 150 مردوں اور عورتوں کو اسلام کے دائرے میں لاچکا ہے۔ رانی اس سال اسلام قبول کرنے والی پہلی فرد ہے۔)

میرے اس سوال پر کہ آخر ہر ایک ہندو لڑکی جو اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوچتی ہے تو وہ بھرچونڈی شریف آنے کا ہی فیصلہ کیوں کرتی ہے؟ عبدالمالک نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے مجھے براہِ راست دیکھتے ہوئے بولے:

’’ہمارا کام لوگوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ اگر وہ مسلمان ہونا چاہتے ہیں، ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ کس کے ساتھ شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لڑکیاں خصوصاً اس طرح کے معاملات میں اپنے لیے خود فیصلہ کرتی ہیں۔‘‘

رانی کو جمعرات کی صبح سکھر میں سندھ ہائی کورٹ بینچ کے سامنے لایا گیا، اس کے ساتھ اس کا نکاح نامہ بھی تھا، جو ایک دن پہلے ہی اس کے وکیل نے تیار کیا تھا۔ ہمارے رابطہ کرنے پر رانی نے اپنے شوہر اور اپنے وکیل کے ہمرہ پنوں عاقل کے رہائشی علاقے میں ہم سے بات چیت کی۔ رانی خاتون! یہ اس کا نیا نام ہے، جو اس کے نکاح نامے پر درج ہے۔ اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کی عمر اکیس برس ہے۔ لیکن جب وہ ہمارے سامنے خاموش بیٹھی تھی تو کہیں زیادہ چھوٹی دکھائی دے رہی تھی، اس نے اپنے سر اور ٹھوڑی کے اردگر ڈوپٹہ کس کے باندھ رکھا تھا۔

اس کے نکاح نامے میں اس کا حقِ مہر محض ایک ہزار روپے لکھا تھا۔ رانی کی آنکھیں مستقل جذبات سے خالی نظر آئیں، البتہ جب اس کے سامنے اس کے والدین کا ذکر کیا گیا تو صرف اس وقت اس کی بڑی بڑی براؤن آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔دوسری صورت میں وہ صرف مختصر جواب ہی دیتی رہی، یہاں تک کہ جب اس کی بائیس برس کے محمد سرور کے ساتھ ’محبت کی شادی‘ کے بارے میں دریافت کیا گیا تب بھی اس کا یہی ردّعمل رہا۔

رانی کا شوہر جو اس کے ساتھ بیٹھے ہوا تھا، میرے احترام میں کمرے میں موجود ایک شخص کے کھلے گریبان کو دیکھ کر قمیض کے بٹن بند کرنے کے لیے کہا۔ ایک دوسرے شخص نے تیزی سے موسم کی شدت کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ سرور نے کہا ’’رانی ہمارے گھر کے قریب جانو بھیلو گوٹھ میں کپڑے فروخت کرتی تھی، جبکہ میں ایک مزدور ہوں اور میرے پاس ایک گدھا بھی ہے۔ ایک اس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے اور اسلام سے محبت کرتی ہے، لہٰذا ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔‘‘

جب رانی سے سوال کیا گیا کہ تم تو جیکب آباد میں رہتی ہو تو تمہیں یہ کیسے علم ہوا کہ مزار پر پناہ لی جاسکتی ہے، تو اس نے جواب دیا کہ اس کی ایک دوست نے اسے بتایا تھا۔ اس مختصر سے جواب کے بعد دوبارہ اس کے لبوں پر گویا تالے پڑ گئے تھے۔ جب بھی رانی سے اس کے مسلمان ہونے کے فیصلے کے بارے میں پوچھا، تو وہ قریب بیٹھے ہوئے بھرچونڈی شریف کے ایک کارندے عبدالواحد کی جانب دیکھتی۔ وہ ہر چند منٹ کے بعد اس سے کہتا کہ ’’مسکراؤ‘‘۔جب رانی سے پوچھا کہ تمہارے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ موجود ہے، تو اس نے نفی میں سر ہلادیا۔

رانی کے وکیل میر علی محبوب نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’ہائی کورٹ میں شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں پڑتی، جب عدالت کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک جوڑا شادی کرنا چاہتا ہے تو صرف ایک تصویر کی ضرورت ہوتی ہے، جسے عدالت کا ملازم ہماری دی ہوئی تصویر سے ملاتا ہے۔‘‘

ڈھرکی میں ایک اخبار کے ایڈیٹر نے ہمیں بتایا کہ اس طرح کے بہت سے کسیز سامنے آتے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں اپنی برادری سے باہر شادی کرلیتی ہیں۔ ’’لیکن اب یہ بڑھ کر ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے، جہاں ہر ایک جانتا ہے کہ کیا ہورہا ہے، لیکن نہ تو کوئی رپورٹ کرتا ہے اور نہ ہی اس بارے میں کھلے عام بات کرتا ہے۔‘‘

پنوں عاقل میں بالائی سندھ کی ہندو پنچایت کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ہری لال کہتے ہیں کہ ’’ہماری عدالتوں کو ہائی جیک کیا جاچکا ہے۔ جب تک ہم اس سلسلے میں کچھ کریں گے نہیں یہ نظام اس طرح چلتا رہے گا۔ عدالت کے اندر آخر کوئی کیوں یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ اس لڑکی کا شناختی کارڈ دکھایا جائے یا اس بات کا تعین کیا جائے کہ یہ لڑکی اس فیصلے کی عمر کو پہنچ گئی ہے؟

جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر ایک لڑکی نے اپنی مرضی سے ایک مسلمان کے ساتھ شادی کا فیصلہ کرلیا ہے، تو پھر ایک مسلح شخص اس کے ہمراہ کیوں ہوتا ہے، جو اس کی ہر حرکت پر مسلسل نظر رکھتا ہے۔ جیسا کہ رنکل کماری کے کیس میں ہوا تھا؟ اگر ایک فریق اس معاملے کے حل کے لیے عدالت سے رجوع کرتا ہے تو جیسا کہ رانی کے کیس میں ہوا، تو یہ مزار والے آخر کیوں ہر مرتبہ اعلیٰ عدالتوں میں جاپہنچتے ہیں؟ ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ میں کیوں نہیں جاتے؟

Comments are closed.