۔۔۔۔ شور اٹھا

ملک سانول رضا

poverty
شور اٹھا کہ ایک خاتون نے ریاستی اختیار سے دارالخلافے کے بڑے بڑے ریسٹورنٹ بند کرا دئیے ہیں اس لئے کہ ان میں تیار ہونے والا کھانا صحت و صفائی کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔
چاروں طرف تعریف و تحسین کے کلمات میں حیرانی نے ڈیرے ڈال لئے کہ ایک عورت ایک خاتون ایک حوازادی۔۔۔

ارے ہم نے تو اس دیس میں عورت کو بھائیوں کی چٹی میں قربان ہوتے دیکھا ہے
تم نے تو تحفوں میں بانٹا ہے مستورات کو۔۔۔
شاہ سے لیکر جرنیل تک نے ایک دوسرے کو گھوڑوں کے ساتھ ساتھ حسین چہرے بھی تو غنیم کے مال کی صورت میں بانٹے ہیں۔۔
برادری کے جھگڑوں میں بھی اسی آدم زادی نے کفارے ادا کئے ہیں

تو پھر کیا ہے یہ۔۔۔
تو چلئے اسی افسر خاتون کو بتاتے چلیں کہ بی بی۔۔۔

روجھان مزاری کی بہشتی پٹی میں رحیمن جت مکھیاں ملے دودھ میں رنگ زدہ پتی ڈال کے جو چائے بنا رہا ہے۔۔ اسے بھی تو بند کرادے نا۔
ہزار گنجی کے اڈے پہ حمل بگٹی اپنے معذور ہاتھوں سے پالش کرتے اپنے گندے ہاتھوں سے چھولے بھی بنا رہا ہے۔۔۔
یہ کھوکھا بھی تو کسی صورت نہیں چلنا چاہیے۔۔

سیف الملوک جھیل کنارے ایک بچی جو پاپڑ فروخت کرتی ہے اسے تو ٹراؤٹ بھی نہیں کھاتی چہ جائیکہ اسے سیاح کھائیں۔
اس کو کسی دادوغہ زنداں کے حوالے کریں ۔

درجنوں گاڑیاِں سینکڑوں مسافر
قافلے رکنے لگے تو ہم بھی ٹھہر گئے
پوچھا
کیا مذہبی فریضے کی ادائیگی میں خاک نشینی اختیار کئے ہوئے ہیں اشرف انسان
زمین پہ پڑی مجبور و مقہور کتابوں کی حد تک افضل مخلوق۔
جیسے وقت تھم گیا ہو۔۔۔
ساکن فضا میں سانس لیتے وردی ٹھیک کرتے ہوئے بولا

صاب
سبی ٹول پلازے پر دو گھنٹے تک صبح کا اجالا ہو جائے گا پھر قافلہ چل پڑے گا۔
ہم سوچنے لگے بلوچستان میں اتنا جلد سویر ہونے والی ہے کیا
اس نے کہا سامنے جاؤ چائے بوتل پیو۔۔

وہیں جس کو وہ بوتل کہہ رہا تھا اسے رنگ ملا پانی ہی کہہ سکتے ہیں
لاہور میں بس رکی تو ہم نے کہا کہ آپ کے دارالسطنت میں تو ہوٹلوں میں اب تو معیاری اشیاء ملتی ہیں
تو
جواب ملا
بکتا ہے حرامی سالا
اپنے طبقے کے کھانے ٹھیک کرارہا ہے
آپ کے باداموں کے باغ میں پھیکا پتہ نہیں کس کے سر اور پیر پکا رہا ہے ۔ایک چھاپا ادھر بھی ہو جائے میری بھولی ممتاز

آپ کی درس گاہوں کے نصاب نے محمود
غوری
قاسم
زیاد
پیدا کرنے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے مستقبل کے غازیوں اور غوریوں کو تفریح کے وقت درس گاہوں کے گیٹ پر فروٹ چاٹ سے لیکر سموسوں تک اور پکوڑوں سے لیکر چھولوں تک کیا کھلایا جا رہا ہے۔

آپ کے مجاہدوں اور شہیدوں کو جنہوں نے اندھیروں میں آپ کی عظمت کے گھوڑے دوڑانے ہیں جس خوراک پر پالا جا رہا ہے وہ آپ کے کتے بھی نہیں کھاتے۔
جانوروں سے بھی بد تر خوراک کھلا کر آپ دنیا کو تسخیر کرنے چلے ہیں۔

Comments are closed.