پا گلوں کا سماج

عبدالستار تھہیم

sattar

پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ایک عجیب سا منطر سامنے آتا ہے ۔مسٹر جناح نے ھندوستان میں مذہب اسلام کے نام پر علیحدہ ملک کامطالبہ کیا جو انگریزوں نے تسلیم کر لیا ۔ گیارہ اگست کو نئے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے گورنر جنرل لارڈ موونٹ بیٹن کی موجود گی میں پاکستان کے خدوخال بیان کرتے ہیں کہ ریاست کا عوام کی مذہبی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔ کوئی جہا ں چاہے مسجد ، مندر اور چرچ میں جانے کو آزاد ہو گا ۔ اقربا پروروی سے مکمل پرہیز کیا جائے گا، رشوت ملاوٹ اور قانون شکنی ہرگز برداشت نہیں کی جا ئیگی ۔ جمہوری اصولوں کی پا سداری کی جا ئے گی ۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ 66 سالو ں میں ہر وہ کام ہوا جس کو بانی پاکستان نے منع کیا تھا ۔اسلام کوریاست کا مذہب کا درجہ دیا گیا جس سے مذہبی شدت پسندی اور فرقہ پرستی کی آگ نے عوام کو چاروں طرف اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اقربا پروری ، رشوت اور قانون شکنی ملک کے ریاستی ڈھا نچے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ فوجی اور سول بیوروکریسی نے جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے ۔ عوام جانوروں کی طرح ہانکے گئے ۔ مسلم لیگ جو پاکستان کی بانی جماعت تھی وہ جرنیلوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ۔

اس دوران سعادت حسن منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ لکھا جس میں تقسیم ہندوستان اور قیام پاکستان کے حالات کی منظرکشی کی گئی ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاگلوں کے کردار سامنے لائے گئے ، جو پا کستان کو عجیب و غریب انداز سے دیکھتے ہیں انھیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ۔ آج بھی 66 سال گزرنے کے باوجود وہی پاگل پن اپنے عروج پر ہے ۔ مذہبی شدت پسندی ، مذہبی دہشت گردی میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ جس میں بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں ریاست جس کے ذ مہ مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ تھا وہ خود مذہبی جہاد کو پروان چڑھا نے میں مصروف کا ر ہو گئی ۔

سیاسئ قا ئدین نے موقع پرستی کو اپنا بنیا دی اصول بنا لیا ۔ 70 ء میں فوج کشی کے باعث پاکستان ٹوٹ گیا اور بقیہ پا کستان کا وجود مذہبی جذام کی بیماری میں تعفن زدہ ہو چکا ہے ۔ اس کے با وجود حکمران اس جذام کی بیماری سے چھٹکارہ حاصل کرنے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں ۔ آئین سٹائین نے کہا تھا کہ ایک تجربہ کو بار بار ایک نہج پر گزار کر مختلف نتائج حا صل کر نے کی توقع رکھنا آخری درجہ کی حما قت کے سوا کچھ نہیں۔ کبھی پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا گیا اور کبھی انڈیا کو نیست و نابود کرنےاور کبھی عالم اسلام کا leading model ملک کا اعلان ہوا ۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹر مبارک حید ر کی کتا ب تہذیبی نرگسیت پاکستان کی نفسیاتی برتری خود فریبی کا خوب مکمل نقشہ ہے ۔ فرد قومیں اور ملک ترقی ، کا میابی اور خوش حالی کی طرف اس وقت آ گے بڑھتے ہیں جب وہ اپنی غلطیوں ، کو تا ہیو ں کو تسلیم کر لیتےہیں ۔ جا پان اور جرمنی کی مثا لیں ہما رے سامنے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جا پا نیوں نے فیصلہ کر لیا کہ جنگیں تبا ہی اور بربا دی کے سوا کچھ نہیں لہذا جنگو ں پر لعنت پھیج کر ایک نئے عزم کے سا تھ قومی ترقی ، سا ئنس اور ٹیکنا لوجی میں جست لگائی اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ آج جا پا ن دنیا کی بڑی معا شی طا قت ہے ۔

اسی طرح جرمنی جس نے خود کو دنیا کی بر تر قوم سمجھ کر فا شزم کے کے تحت تقریبا آدھی دنیا کو رو ند ڈا لا اور خود بھی تبا ہ و بربا د ہوا ۔ اس کے بعد جرمنی کے عوا م نے فیصلہ کیا کہ وہ جنگو ں کی بجا ئےساری توجہ قومی ترقی کی طرف گامزن کر ینگے ۔ بلآخر آج جا پان بھی دنیا کی سپر معا شی طا قت ہے ۔ لیکن ہم ابھی تک خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ سا ری دنیا میں پر حکمرانی کریں گے۔ پاکستا ن اسلام کا قلعہ ہے دہلی سے لیکر جلا ل آباد تک اسلام پاکستان کا جھنڈا لہرا ئیں گے ۔ برتری کی کی خود ساختہ نفسیات پاگل پن کی طرح پرہم سوار ہے۔ ہم اپنے متعلق کو ئی بھی با ت سننے کو تیار نہیں جو کہ ھما ری بیما ر ذہنیت کا مظہر ہے ۔

ہما ری ذہنی پسما ند کی کا اند ا زہ اس بات جسے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کا بھوت آج بھی پا کستا ن کے عوا م پر سوار ہے ، ٹی وی پر چلنے وا لے ڈرامہ میرا سلطان جو سلطنت عثما نیہ کے بد کر دار حکمرا نو ں پر مشتمل ہے لیکن پوری قوم اسے بڑے ذوق و شوق سے دیکھتی ہے ۔ ذلت ، خواری ، معا شی بد حا لی ، جہالت اور خو د فریبی کی گٹھڑیا ں سر پر اٹھا ئے پاگلو ں کی طرح ما رے ما رے پھر رہے ہیں بوسیدہ مذہبی جنونیت کے پاگل پن میں گم ہو چکے ہیں ۔

3 Comments