پاک بھارت مذاکرات : ایک بار پھر تعطل کا شکار

محمد شعیب عادل

Handshake_between_Narendra_Modi_and_Nawaz_Sharif
تئیس اگست کو ہونے والے پاک بھارت مذاکرات ایک پھر منسوخ ہوگئے ہیں۔ دونوں ممالک کا میڈیا اس تعطل کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا چلا رہا ہے کہ بھارت مذاکرات سے بھاگ رہا ہے اور وہ پاکستان کے اصولی موقف یعنی کشمیر کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔ بھارتیحکام کاکہنا ہے کہ مذاکرات میں کوئی تیسرا فریق نہیں ہونا چاہیے اور پاکستان کو کوئی حق نہیں کہ وہ حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملے۔پچھلے سال بھی 25اگست کو ہونے والے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات ، بھارت نے اس وجہ سے منسوخ کردیئے تھے کہ مذاکرات سے چند دن پہلے پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کرلی تھی۔

پاکستانی میڈیا کے ’’غیر جانبدار‘‘ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مذاکرات میں تعطل کی ذمہ دار مودی سرکار ہے جس نے کانگریس کی نسبت زیادہ سخت رویہ اپنایا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو مگر تجزیہ نگاروں کو اس با ت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب پچھلے دس سال تک کانگریس برسر اقتدار رہی ہے اور بی جے پی کی نسبت اس کا رویہ بھی پاکستان سے نرم رہا تو پھر بھی معاملات درست کیوں نہ ہو سکے۔ مذاکرات کے تعطل کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا تعین کرنا مشکل ہے۔ اگر کوئی پاکستانی لکھاری اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے تو لازمی طور پر اس کی حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے۔

پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ دونوں ملکوں کی دوستی کی راہ میں کیا رکاوٹ درپیش ہے۔ اگردونوں ملکوں کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان انتہائی اہم اور بنیادی فرق جمہوریت کا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جبکہ پاکستانی عوام ڈکٹیٹر شپ تلے پس رہے ہیں ۔ پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا جاتا اورفیصلے کرنے کا اختیار جرنیلوں کے پاس ہے۔

بھارت کی طرح پاکستان میں بھی اگر جمہوریت پنپ جاتی اور اہم بنیاد ی پالیسیوں اور فیصلوں کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا تو شاید دونوں ممالک آج امن و شانتی سے رہ رہے ہوتے اور باہمی تجارت کی بدولت اس خطے کے عوام یورپین یونین کی طرح خوشحال ہوتے۔ مگر پاکستانی ریاست پر قابض جرنیلوں نے پاک بھارت باہمی اختلافات کو فوجی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی اور ہر دفعہ منہ کی کھانی پڑی۔

بدقسمتی سے پاکستانی ریاست نے اول روز سے ہی جمہوری رویے اپنانے کی بجائے دہشت گردی کا رستہ اپنایا۔ 1948 میں ریاست نے کشمیر پر حملے کے لیے جنگجو بھیجے مگر یہ پالیسی بری طرح ناکام ہوئی اگر سویلین قیادت ہوتی تو شاید اس سے سبق حاصل کرتے مگر جرنیلوں نے ایک بار پھر آپریشن جبرالٹر کے نا م پر ہندوستان پر چڑھائی کی اور بری طرح ناکام ہوئے یہی پالیسی 1971 میں مشرقی پاکستان میں دہرائی گئی اور مذاکرات کی بجائے طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور کشمیر لیتے لیتے آدھا ملک گنوا دیا مگر اس کے باوجود جرنیل محب وطن قرار دیئے گئے اور ملبہ سیاست دانوں پر گرایا گیا۔

پھرانہی جرنیلوں نے اسلام کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا اور نام نہاد جہاد کا آغاز کیا۔ اس جہاد کی بدولت محب وطن جرنیلوں کا نام دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل تو ہو گیا مگر عوام کے حصے میں کلاشنکوف ، فرقہ وارانہ فسادات، بم دھماکے اور ہیروئن ہی آئے۔ افغان جہاد سے فارغ ہونے کے بعد ایک بار پھر بھارت (کارگل) پر چڑھائی کر دی اور اپنے سینکڑوں جوانوں اور افسروں کو مروا کر محب وطن قرار پائے اور ملبہ حسب معمول سیاستدانوں پر گرادیا۔

افغان جہاد کے لیے جو دہشت گرد تیار کیے گئے تھے انہیں کشمیر کا رستہ دکھایا اور مذہب کے نام پر اندرون و بیرون ملک ہزاروں افراد کو مروا کر آج بھی وہ محب وطن ہیں اور سیاست دان غدار ، چور اور ڈاکو ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جب بھی عوام کی منتخب حکومت نے اقتدار سنبھالا تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی حد تک پیش رفت ہوئی جسے ایسٹیبشلمنٹ نے سبوتارژ کیا ۔

ماضی میں بے نظیر اور نواز شریف دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھائے تو اس کے عوض انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے کڑی مخالفت کے باوجود بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے معاملے پر کافی پیش رفت کر لی تھی مگر ممبئی حملے ہو گئے یا لائن آف کنٹرول پر گولہ باری۔

یہی حال اب نواز شریف حکومت کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔ اگر نواز شریف مسکرا کر بھارتی قیادت سے ہاتھ ملا لیں تو پاکستانی میڈیا کی بھنوئیں تن جاتی ہیں اور ساتھ ہی لائن آف کنٹرول پر گولہ باری۔ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کو بھی اچھی نظروں سے نہ دیکھا گیا۔ پچھلے ماہ روس کے شہر اوفا میں نواز مودی ملاقات کو پاکستانی پریس میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس ملاقات میں کشمیر کی بجائے دہشت گردی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اب یہ فیصلہ کرنا پاکستانی ریاست کا کام ہے کہ وہ اختلافات کودو طرفہ مذاکرات سے حل کرنا چاہتا ہے یا دہشت گردی کے ذریعے۔

اگر پاکستان واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے دہشت گردوں کی سرپرستی ختم کرنا ہو گی۔ آپریشن ضرب عضب کے نا م پر دنیا کو بے وقوف بنانے کی بجاے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ایسا تو ہونہیں سکتاکہ آپ مذاکرات بھی کریں اور ساتھ ہی دہشت گردی بھی۔

پاکستانی ریاست نے یہی پالیسی افغانستان کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہے اور افغان صدر اشرف غنی کو آٹھ ماہ بعد بالاخر یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ پاکستان اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ نہیں اور وہ مذاکرات کے نام پر وقت گذارنے کی کوشش کرتا ہے ۔لہذا جب تک دہشت گردی کی سرپرستی جاری رہے گی پاکستان سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔دوسرے لفظوں میں پاکستان مذاکرات کے لیے اپنی اخلاقی حیثیت کھو چکا ہے۔

Comments are closed.