اسلامی نظریاتی کونسل

عبید اللہ عبید

550f80450270d

وہ دن لد گے، جب کہا جاتا تھا، پاکستان کا قیام ایک جدید مسلم ریاست کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ پاکستان بنتے ہی ، پاکستانی اشرافیہ، ریاست، اور عوام ،دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔۔۔کے مصداق سبک رفتاری سے چل پڑے۔ اس کے بعد اب تک مڑ کر نہیں دیکھا۔ ماشااللہ پاکستان نے اسلام کی چمک اور ’دھمک‘ سے خود کو لہولہان اور دنیا کو لرزاں کیا ہواہے۔ سیاسی اور ریاستی اشرافیہ نے پورے دل و جان سے کوشش کی ہے، پاکستانی عوام دین کے نام پر نفرت، جہالت، ذ ہنی پس ماندگی سے بچ کر نہ نکل سکیں۔

ہندو نفرت سے لہولہان تقسیم ہندکا آغاز کیا۔پھر قرارداد مقاصد لائی گئی۔ پھر جہاد اسلام کے نام پر قبائلیوں کو (طالبان انہی کی ہی اولاد ہیں) کشمیر فتح کرنے بھیج دیا گیا، جہاں بربریت کے علاوہ کشمیری خواتین کی عزتیں لوٹنا جہادی سرگرمیوں میں شامل تھی۔ پھر جہادی اور ہندو نفرت سے بھرے ترانوں کے جلو میں ہندوستان کے ساتھ خود کش جنگیں کروائی گئی، پھر ایک ’سیکولر، لبرل، ترقی پسند‘ سیاست دان کے ہاتھوں۔۔آئین پاکستان کو اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا گیا۔ تاکہ قوم ملائیت کے شکنجے سے کبھی باہر نکلنے کا تصور نہ کرسکے۔ باقی رہی سہی کسر جہادی جنرل ضیاالحق نے پوری کردی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام یکم اگست1962 کو آئین(1962) کی شق 199کے تحت عمل میں آیا۔ اس ادارے نے عوام کے منتخب نمائندوں کے بنائے ہوئے قوانین کا جائزہ لینا تھا، ان میں کونسے غیر اسلامی ہیں، اور ان کو اسلامی بنانے کی تجاویز دینا تھی۔ سنا ہے، 2007 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ کام مکمل کرکے ایک ضخیم دستاویز کی شکل میں حکومت وقت کو پیش کردی۔ ضابطے کے مطابق اس عمل کے بعد مذکورہ کونسل کو تحلیل کردینا چاہئے تھا۔ لیکن چونکہ اسلامی جمہوریہ میں اسلام کے نام پر جب ایک قدم اٹھا لیا جائے تو اس میں ترمیم و تنسیخ ۔۔ ’سر تن سے جدا‘ کے ضمن میں آجاتا ہے۔

پاکستان میں مذہب ایک ایسی گہر ی کھائی ہے، جس کے اندر آپ مزید گرتے چلے جائیں گے۔۔وہاں سے نکل نہیں سکتے۔ نفاذ اسلام کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ یہ کبھی مکمل نہیں ہوتا۔اس کا کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ اور پھر اس ’باقی‘ رہ جانے والے حصے کی عمل درآمد کی کوششیں اور مطالبے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ طالبان کی مہربانی ہے، کہ انہوں نے ’اصلی اسلام‘ کی مکمل عملی تعبیر اپنے زیر کنٹرول علاقے میں کرکے دکھا دی ہے۔ طالبان، اسلامی نظریاتی کونسل ، لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز،ا نصار عباسی، اوریا مقبول، جماعت اسلامی ، مولانا سمیع الحق ، مولانا فضل اللہ وغیرہ کی جائز خواہش ہے کہ پاکستان میں اسلام کو’مکمل ‘ کردیا جائے۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کے عوام کی اکثریت شرعی نظام کی طلب گار ہے۔ پاکستانی حکمرانوں اور عوام کی شرعی نظام کی اس پیاس کو جب تک مکمل طور پر بجھایا نہیں جائے گا۔۔پاکستان میں اور اسلام اور اسلام کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ پاکستان کے آئین میں لکھا گیا ہے، کہ اقتدار اعلیٰ آسمانوں پر بیٹھے اللہ میاں کے پاس ہے۔ چنانچہ اللہ میاں کے بتائے ہوئے قوانین اور ضابطہ حیات لاگو ہونا چاہئے۔۔۔ہماری ریاست کی یہ چال بازی ہے، جنہوں نے پاکستان کو ’آدھا تتر آدھا بٹیر‘ بنا رکھا ہے۔

اصولا مُلاؤں کا موقف اور مطالبہ صحیح ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے جرنیل، فیوڈل سیاست دان اقتدار پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔تاکہ ان کی زر اور اقتدار کی ہوس چلتی رہے۔وہ اسلام کا اتنا ہی ’استعمال ‘ چاہتے ہیں۔جس میں ان کی عیاشی اور زر پرستی محفوظ رہے۔ مکار مقتدر طبقہ اسلام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتاہے۔ لیکن ’اسلام‘ کوئی ایسی چیز نہیں۔۔جس سے یہ خود محفوظ رہ سکیں۔ چنانچہ دھیرے دھیرے آئینی ، قانونی، اور زمینی سطح پر۔۔بنیاد پرست اسلامی گروہ ،ریاست ، حکومت اور عوامی سطح پر اپنے لئے وسیع جگہ بنا چکے ہیں۔ان کی طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔

اب ہمارے پاس مڑ کے واپس ہونے کا وقت ختم ہورہا ہے۔ یہ بات بڑی ہی غیر متعلقہ اور فضول ہو چکی ہے، کہ عوام نے کبھی سیاسی مولویوں کو ووٹ نہیں دیا۔ان کو ووٹ کی ضرورت بھی نہ تھی ’سیکولر لبرل جنرل اور سیاسی اشرافیہ‘ کی موقع پرستی ہی ان کے لئے کافی تھی۔ پاکستان میں اسلامی قوتوں نے عوامی ووٹوں کے بغیر ہی جنرلوں اور سیاست دانوں سے زیادہ قوت اور جگہ حاصل کر لی ہے۔

ہمارے خیال میں نظریاتی کونسل صحیح راہ پر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں مسلمان عورت کا مسلمان مرد کے ہاتھوں ریپ ہو جائے ، تو ڈی این اے کا جدید ٹیسٹ قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ زنا، ریپ، چوری وغیرہ یہ سب ’شرعی ‘ جرائم ہیں۔ چودہ سوسال پہلے ان جرائم کے بارے میں اللہ ، رسول اور صحابہ کرام ، فقہا، اماموں نے اپنے احکامات اور طریقہ کار متعین کررکھے ہے۔ اصل میں زنا اور ریپ کے جرائم اسلامی معاشرے میں اس لئے ہوجاتے ہیں، کہ عورت کا جسم اور حسن فتنہ ہے۔ یہ عورت کی ذمہ داری ہے، کہ وہ زنا اور ریپ سے بچے۔ اگر نہیں بچ پاتی، تو ظاہر ہے، قصور اور صفائی کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔

مومن مرد اللہ اور رسول کے قریب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی جنسی ضروریات کا بہرحال بہت خیال رکھا گیا ہے۔ عبادت اس وقت تک یکسوئی سے نہیں ہوسکتی ، جب تک جنسی تسکین سے ذہن آزاد نہ ہوجائے۔ چنانچہ نظریاتی کونسل کا کہنا ہے، کہ اسلام میں ’نابالغ‘ بچیوں کی شادی جائز ہے۔ ظاہر ہے، مومن مردوں کی یہ بھی ضرورت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے، کہ جدید سیکولر تہذیب اور سماجی و طبی سائنس بالغ ہونے کا جو معیار رکھتی ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

اسلام جو کہ اللہ اور رسول کا فرمان ہے۔ اس کے مطابق بچی پہلا حیض آنے پر بالغ یعنی جنسی ملاپ کے قابل ہوجاتی ہے۔ یہ شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس سے درگزر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ کونسل کا کہنا ہے۔ کہ ماں باپ کو اجازت ہے کہ وہ پہلے حیض کا بھی انتظار نہ کریں اور کسی بھی عمر کے مرد کے ساتھ بچیوں کا نکاح پڑھا دیں۔ بوڑھے دولت مند مرد یہاں کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ شریعت مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے اس نے ہر چیز کا خیال رکھا ہے۔ چنانچہ اسلامی کونسل کہتی ہے کہ بچی کی حجلہ عروسی کے لئے رخصتی پہلا حیض آنے پر کر دی جائے۔ یاد کرانے کی ضرورت نہیں، کہ بچی کو پہلا حیض نو دس سال کی عمر میں آجاتا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے مزید فرمایا ہے، کہ مومن مرد کو حق حاصل ہے، کہ وہ مومنہ عورت کو تین منٹ میں تین طلاق دے کر اسے گلی کوچے کے حوالے کردے۔۔کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی نے (جو مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کے رہنما ہیں جن کی سیاست کا محور ہی موقع پرستی ہے) ’ظالمانہ ‘ سیکولر قانون کی طرف نشاندہی کی ہے جس میں مومن مرد پر دوسری ،تیسری ، چوتھی شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت ضروری ہے۔ اسلام دین فطرت ہے، وہ مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیتا ہے۔اب سربراہ گھر میں بکری، لائے، بھینس لائے، یا ایک اور بیوی لائے۔۔اس کی مرضی۔ ہم سب کو پتا ہے، کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دے رکھے ہیں، جو تاریخ میں کبھی کسی نے نہیں دیئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ تجاویز اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں پورا پورا اسلام نافذ کیا جائے۔ پاکستانی عوام اسلام کے اندر پورے کا پورے داخل ہونے کے لئے بے تاب ہیں۔ جو بے پردہ خاتون نظر آئے۔۔اسے فوری کوڑے لگا دیئے جائیں۔ حکمت اسلام میں عبرت کا نشان بنانا بہت ضروری عنصر ہے۔ پاکستان کے شہروں اور بازاروں میں چند ہزار یا چند لاکھ عورتوں کو کوڑے لگ گئے۔۔تو دیکھئے گا۔ پاکستانی معاشرہ چند دنوں میں پاکیزگی کی معراج پر پہنچ سکتا ہے۔*

Comments are closed.