مسلمان اور سائنس

وسیم الطاف

20130126_ird001_0

ہمارے ہاں یہ فکری مغالطہ بہت عام ہے کہ ماضی میں مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں قابل رشک ترقی کی تھی اور اس وقت جو دنیا میں سائنسی ترقی ہورہی ہے اس کے بانی مسلمان سائنس دان ہی تھے ۔ اس ضمن میں بہت سے مسلمان سائنس دانوں کے نام بھی گنوائے جاتے ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جدید سائنس انہی کی علمی کوششوں اور سائنسی تجربات کا ثمر ہے لیکن جب اس دعوے کا جائزہ تاریخ اور حقائق کی روشنی میں لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض مبالغہ آرائی ہے اور اس میں صداقت نام کی چیز نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اور ہم جنھیں مسلمان سائنس دان کہتے ہیں ان کی اکثریت اپنے دور کے ’منحرفین ‘ میں شمار ہوتی تھی ۔ ویسے تو سائنس کا کوئی مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں جسے ’مسلم سائنس ‘ کا نام دیا جاتا ہے اس میں بھی اوریجنل مواد بہت کم ہے اور جس بات پر ہم خوش ہوتے اور بغلیں بجاتے ہیں وہ ہما ری نہیں بلکہ مستعار کی چیز ہے ۔

عباسی خلفا بالخصوص مامون الرشید نے باب الحکمت (عقل و دانش کا مرکز) کے نام سے ایک علمی ادارہ قائم کیا تھا ۔ اس ادارے سے وابستہ مسلمان سکالرز نے ارسطو کی فکر کے تتبع میں کلاسیکی یونانی ادب کے تراجم کئے ۔ اپنے اس کام کے حوالے سے ان مسلمان اہل علم کا بہت زیادہ انحصار فارسی اور ہندوستانی ماخذوں پر تھا ۔ انھوں نے اوریجنل کام کرنے کی بجائے یونانی فلسفیوں کی کتابوں کی عربی میں طویل شرحیں لکھیں ۔ با ب الحکمت میں ترجمے کرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد گو بہت کم تھی لیکن ان میں علمی اور فکری تجسس بہت زیادہ تھا ۔یونانی کلاسیکی ادب کے نناوے فی صد تراجم با ب الحکمت سے وابستہ مسیحی اور یہودی مترجموں نے کئے تھے ۔یہ بات دل چسپ ہے کہ جسے’ اسلامی ‘ جیومیٹری کا کہا جاتا ہے وہ پلوٹومی کے سسٹم پر مبنی ہے اور اس سسٹم میں کائنات کا مرکز زمین کو سمجھا جاتا تھا ۔اسی طرح الجبرا بنیادی طور پر یونانی علم تھا اور اس میں جن ’عربی ‘ اعدادکے اضافے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ اپنی اصل میں ہندوستانی ہیں ۔

تاہم اُن عظیم مسلمان مفکرین اور اہل علم ،جو تعدا دمیں اگرچہ بہت قلیل ہیں ،کا ذکر نہ کرنا زیادتی اور ناانصافی کے مترادف ہوگا جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ابتدائی سائنس، طب اور علم فلکیات کے شعبوں میں کام کیا تھا ۔۔یہ وہ افراد تھے جنھوں نے سائنس اور فلسفے کومذہب کی جکڑ بندیوں سے آزاد کروانے کی کوشش کی اور مختلف علوم کی ترقی اور نشوو نما میں اہم رول ادا کیا تھا۔

الرازی 865-925)) : محمد بن زکریا الرازی کا تعلق ایران کے شہر تہران سے تھا مگر وہ بغداد منتقل ہو گیا تھا ۔ وہ نہا یت آزاد خیال اور روشن فکر سائنس دان تھا ۔ البیرونی اس کی 56 تصنیفات کا ذکر کرتا ہے لیکن اس کی کتابوں اور مضامین کی تعداد 184 ہے (23نیچرل سائنس پر ،22کیمسٹری پر ،17فلسفے پر،14 الہیات پر ،10ریاضی پر ،8منطق پر 6ما بعد الطبعیات پر اور باقی متفرقات )۔مسلمان اطبا ، فلسفیوں اور کیمیا دانوں میں اس کا مقام سب سے اونچا ہے ۔ وحی کے بارے میں پائے جانے والے عمومی تصور سے وہ متفق نہیں تھا۔ وہ مذہب کے سماجی استعمال کو بنی نوع انسان کے لئے ضرر رساں خیال کرتا تھا۔الرازی کو توہین مذہب کے الزام میں سزا دی گئی اور اس کی کم و بیش سبھی کتابوں کو جلا دیا گیا تھا۔ رازی اسلاف پرستی کے سخت خلاف تھا۔وہ منقولات کی حاکمیت کو نہیں تسلیم کرتا بلکہ عقل و تجربے کو علم کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے ۔


اس کی سوچ کا انداز عوامی تھا ۔وہ کہتا تھا کہ عام لوگ بھی اپنے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سائنسی سچائیوں کے ادراک کے اہل ہیں ۔ اس کا قول تھا کہ ہم کو فلسفے اور مذہب دونوں پر تنقید کرنے کا پورا حق ہے۔وہ معجزوں کا منکر تھا کیونکہ معجزے قانون قدرت کی نفی کرتے ہیں اور خلاف عقل ہیں ۔ وہ مذاہب کی صداقت کا بھی چنداں قائل نہیں کیونکہ مذاہب عموما حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اور لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرتے ہیں ۔وہ معاشرے کے بارے میں افلاطون کی کتاب ’تماوس‘کے ارتقائی تصور سے اتفاق کرتا ہے اور اقتصاری پہلو کو اہمیت دیتے ہوئے تقسیم کار کی افادیت پر زور دیتا ہے ۔

رازی ارسطو کا پیرو نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو ارسطو سے بڑا مفکر سمجھتا ہے۔وہ ارسطو کی طبیعات کو رد کرتا ہے اور دیمراطیس اور ایپی قورس کے ایٹمی فلسفے کے حق میں دلیلیں دیتا ہے ۔ اس کے خیال میں تمام اجسام ایٹموں پر مشتمل ہیں اور خلا میں حرکت کرتے رہتے ہیں ۔ ارسطو کے برعکس وہ خلا کے وجود بالذات کو تسلیم کرتا ہے ۔وہ کہتا تھا کہ سائنس میں حرف آخر کو ئی نہیں بلکہ علوم نسل در نسل ترقی کرتے رہتے ہیں لہذا انسان کو لازم ہے کہ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھے اور منقولات کے بجائے حقیقی واقعات پر بھروسہ کرئے ۔


ان سینا اور ایوی سینا (980-1037):یہ بھی بہت بڑا طبیب،فلسفی اور سائنس دان تھا ۔ وہ ازبک تھا ۔ایوی سینا فلسفے کو الہیات سے برتر تسلیم کرتا تھا۔ اس کے فلسفیانہ خیالات مین سٹریم دینی عقائد اور صحائف سے متصادم تھے۔وہ روز حشر انسانوں کے دوبارہ موجودہ شکل وْ صورت میں جی اٹھنے پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔اس کے نظریات کی بدولت غزالی نے سب سے زیادہ تنقید اسی پر کی ہے اور اسے مرتد قرار دیا ہے۔
ابن رشد (1126-1198): سپین سے تعلق رکھنے والا فلسفی اور سائنس دان ابن رشد ، ارسطو کی فکر سے متاثر تھا ۔ یورپ میں اس کی شہرت کی وجہ فلسفہ تھا بالخصوص ارسطو کی شرحیں۔ ابن رشد بارہویں صدی سے سولہویں صدی تک یورپ میں سب سے غالب مکتبہ فکر تھاحالانکہ مسیحی پادری اس کے سخت خلاف تھے ۔ ابن رشد کی تعلیمات کا لب لباب یہ تھا کہ کائنات اور مادہ ابدی اور لافانی ہیں ، خدا دنیاوی امور میں مداخلت نہیں کرتا ،عقل لافانی ہے اور علم کا ذریعہ ہے ۔


ارسطو کی تصانیف بالخصوص ’طبعیات ‘ اور’ مابعد الطبیعات ‘ کی شرحیں پیر س پہنچیں تو کلیسائی عقائد کے ایوان میں ہل چل مچ گئی ۔معلم اور متعلم دونوں مسیحی عقیدہ تخلیق، معجزات اور روح کی لافانیت پراعلانیہ اعتراض کرنے لگے۔ حالات اتنے تشویشناک ہوگئے کہ 1210 میں پیرس کی مجلس کلیسا نے ارسطو کی تعلیمات اور ابن رشد کی شرحوں کی اشاعت ممنوع قرار دے دی مگر کسی نے پرواہ نہ کی اور پابندی کی وجہ سے ابن رشد کی کتابوں کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔


ابن رشدنے قر آن کی جو تفسیر لکھی اس پر ارسطو کی فکر کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔ اُس عہد کے بنیاد پرست علما نے ابن رشد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کئے اور اسے’ لادین ‘ اور’ منکر ‘ قرار دے کر مطعون کیاگیا ۔ ریاستی حکام نے اس کو گرفتار کر کے تفتیش کے نام پر تشدد کا نشانہ بنا یا ۔ بالآ خر اس کو اس کے نظریات کی پاداش میں جلاوطن کر دیا گیا تھا ۔


ابن رشد سے منسوب جن مقولوں سے مسیحی کلیسا بہت خائف تھا ان میں سے بعض یہ ہیں :سب انسانوں کے دماغ کی ساخت یکساں ہے ۔ دنیا لافانی ہے ،آدم کی تخلیق افسانہ ہے۔انسان اپنی مرضی میں آزاد ہے اور اپنی ضرورتوں سے مجبور ،خدا کو روزمرہ کے واقعات کا علم نہیں ہوتا اور انسان کے اعمال میں خدا کی مرضی شامل نہیں ہوتی ۔ اس کے بعض مقولے تو ایسے تھے جن کی بنا پر اسے زندیق تک کہا گیا مثلا تخلیق محال ہے، مردے کا جسم دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا، قیامت کا اعتقاد فلسفیوں کو زیب نہیں دیتا ،فقہاے مذہب کی باتیں قصہ کہانیاں ہیں،دینیات سے ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ، دین مسیح حصول علم میں حارج ہے ، مسرت اسی دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے نہ کہ آخرت میں ۔

البیرونی (973-1084) :جس علم کو آج ہم انڈو لوجی ( ہندوستان سے متعلق علوم ) کہتے ہیں البیرونی اس کے بانیوں میں سے ہے ۔بے پنا ہ صلاحیتوں کے مالک البیرونی کا نقطہ نظر تھا کہ قرآن کا اپنا دائرہ کار ہے اور سائنس کا اپنا ۔ وہ مذہب اور سائنس کی باہمی جڑت کا قائل نہیں تھا۔اس کے نزدیک مذہبی عقیدہ اور سائنس دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ ان دونوں کے اختلاط سے فکری انتشار پیدا ہوتا ہے ۔
الخوارزمی (780-850) :یہ بھی ایرانی النسل ریاضی دان ، ماہر فلکیات اور جغرافیہ دان تھا ۔مورخ الطبری ا سے آتش پرست خیال کر تا تھا جب کہ دیگر مورخین کے مطابق وہ مسلمان تھا ۔ تاہم جہاں تک اس کی تحریروں کا تعلق ہے تو اس نے کہیں بھی اپنا اسلام سے تعلق ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اپنے علمی اور سائنسی کام کو اسلام یا کسی دوسرے دینی عقیدے سے جوڑا ہے ۔

عمر خیام1048-1131)) : اس کا شمار عظیم ریاضی دانوں، ماہرین فلکیات اور شعرا میں ہوتا ہے ۔ عمر بھر مذہب بالخصوص روایت پرست اسلام کا شدید ترین ناقد رہا ۔ عمر خیام نے اس تصور کہ دنیا میں ہونے والا ہرکام من جانب اللہ ہوتا ہے ،پر شدید ترین تنقید کی ہے اور انسان کے خود مختار ہونے کے نقطہ نظر کی وکالت کی تھی ۔اس کے نزدیک اگر دنیا میں سب کچھ من جانب اللہ ہوتا ہے تو جزا و سزا کے نظریے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔

الفارابی872-950) (: عظیم مسلمان فلسفی ارسطو کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھا ۔ الفارابی کے نزدیک علم کی بنیاد دلیل ہے ۔ دلیل اور منطق کے سوا علم کے کسی ماخذ کو تسلیم کرنے سے وہ انکاری تھا
ابو موسیٰ جابر بن حیان یا جیبر(721-815):حیان بلا شبہ اپنے عہد کا بہت بڑا کیمیا دان اور حکیم تھا ۔ صوفیانہ فکر کا حامل حیان سائنسی کاوشوں میں تجربے اور مشاہدے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا تھا ۔ وہ تجربے اور مشاہدے سے ماورا کسی علم کو تسلیم نہیں کرتا تھا ۔

ابن الہیثم یا ہیزن 965-1040)):ایک قد آور ریاضی دان،کیمیا دان اور ماہر فلکیات تھا ۔فاطمی خلیفہ الحکیم نے ابن الہیثم کو حکم دیا کہ وہ کچھ ایسا انتظام کرے جس سے دریائے نیل میں آنے والے سیلاب پر قابو پایا جاسکے۔ابن الہیثم جانتا تھا کہ سائنسی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ وہ پاگل ہو گیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی اس نے اپنے گھر میں زیر حراست گذاری۔

جب ہم ان عظیم مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں کی زندگی اور کام کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکری طور پر یونانی ،اہل بابل اور ہندوستانی اہل علم نے سائنس اور فلسفے کے میدان میں جو کام کیا تھا، وہ اس سے حد درجہ متاثر تھے ۔ وہ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے روشن خیال اور منطقی ذہن کے مالک تھے ۔انھیں ان کے اپنے عہد میں بھی انتہا پسند ’اچھا مسلمان ‘ خیال نہیں کرتے تھے اور ان پر طرح طرح کے فتوے لگاتے اور انھیں’ دہریہ ‘کہتے تھے ۔ان میں بہت سے تو ایسے بھی تھے جو انتہا پسندوں کے ڈر سے اپنے عقائد کا برملا اظہار کرنے سے بھی گریز کرتے تھے ۔انھوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کی علمی کاوشیں اور سائنسی تجربات اسلام یا الوہیت کے مر ہون منت ہیں ۔وہ ناقدانہ ذہن کے حامل اور فکری و علمی آزادی پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ تجربے اور مشاہدے پر اپنے علم و فکر کی بنیاد رکھتے تھے نہ کہ مذہبی صحائف پر ۔ مذہبی عقائد فکری آزادی پر قدغن لگاتے اور اس کوحتی الامکان محدود کرتے ہیں ۔

اسلامی ‘ سائنس اور سائنس کی ترقی اور ارتقا میں ’مسلمان ‘ سائنس دانوں کے رول کے حوالے سے ہمارے ہاں جو پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اگر اس کا جائزہ تاریخ کی روشنی میں لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض لفاظی ہے اور حقائق سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ان مسلمان اہل علم نے اپنی سائنسی ایجادات اور فلسفیانہ فکر کی بنیاد نہ تو اسلامی عقائد پر رکھی تھی اورانھوں نے کبھی ایسا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنسی میدان میں جو تھوڑ ی بہت ترقی مسلمان اہم علم سے منسوب کی جاتی ہے وہ ’نامکمل‘ اور ’منحرف ‘مسلمانوں کی علمی کاوشوں کی مرہون منت ہے ۔

ان ’نامکمل ‘ مسلمانوں کے برعکس یہ ’مکمل ‘ اور’راسخ العقیدہ ‘مسلمان تھے جنھوں نے بارہویں صدی میں غزالی (1111۔1058)کے زیر اثر سائنس اور فکری جدیدیت کے خلاف پرچم بلند کیا تھا ۔ سائنس اور خرد افروزی کے خلاف یہ جنگ ہنوز جاری ہے ۔غزالی اشعری فکر کے علم بردار تھے ۔ انسانی جدو جہد اور تدبیر کی بجائے تقدیر کی اولیت پر یقین رکھتے تھے ۔ انھوں نے معتزلہ کے خلاف بھر پور مہم چلائی ۔یہ غزالی کی عقل دشمن فکر ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان آج تک روشن خیالی اور آزادی فکر و نظر کے مخالف ہیں ۔

یہ غزالی ہی تھے جنھوں نے عقیدہ پرستی اور تقلید ی ذہن کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا اور خرد افروزی اور سائنسی فکر کے خلاف مہم چلائی ۔ یہ غزالی کی فکر کا نتیجہ ہے کہ سنی اسلام کے چاروں مکتبہ ہائے فکر ’اجتہاد ‘ جسے ہم مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے فکری آزادی اور اختلاف رائے کا نام دے سکتے ہیں ،کو مسترد کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عصر اسلام میں جدیدیت اور فکری تشکیل نو کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے اور اگرکوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ا سے زندیق اور ملحدکہہ کر قابل گردن زدنی قرار دے دیا جاتا ہے ۔

جب یورپ جدید مشین سازی کے بل بوتے پر صنعتی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اس وقت مسلمان ممالک کے حکمران مشینوں سے اجتناب کی پالیسی پر عمل پیرا تھے ۔ پندرہویں صدی میں جب پرنٹنگ پریس مسلمان ممالک میں پہنچا تو اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کاپریس میں چھپنا توہین کے زمرے میں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں پرنٹنگ پریس کہیں اٹھارویں صدی میں پہنچا ۔

یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ سائنس کی نمو ایک سیکولر اور جمہوری معاشرے ہی میں ہوسکتی ہے اور ایک ایسا سماج جو مذہبی عقید ہ پرستی کی گرفت میں جکڑا ہو ہو اس میں سائنس اور سائنسی فکر کا پنپنا محال ہی نہیں ناممکن ہے ۔ سائنس انہی معاشروں اور ریاستوں میں پھلتی پھولتی ہے جہاں ریاستی امور میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہوتا ۔چنانچہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سائنس کی ترقی اور مذہبی عقیدہ پرستی میں تعلق معکوس ہے ۔

مسلمانوں نے تیر ہویں صدی سے لے کر آج تک سائنس کی ترقی اور نشوو نما میں بہت تھوڑا کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان سائنسی ایجادات اور ترقی سے مستفید توضرور ہوئے ہیں لیکن ان کا اپنا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مسلمان چونکہ فکری طور پر پسماندہ ہیں اس لئے وہ خود یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ ماضی میں مسلمان سائنس دانوں نے بہت کار ہائے نمایاں انجام دیئے تھے اور ’جدید سائنس ہمارے مسلمان سائنس دانوں کے کارناموں ہی کی مرہون منت ہے‘ ۔


ویو پوائنٹ آن لائن ترجمہ :لیاقت علی ایڈووکیٹ

2 Comments