ہمارا مستقبل فکر سے امکان تک

ارشد لطیف خان
Tiffany_Education_(center)

گذشتہ سے پیوستہ۔۔ قسط دوم
آج کے دور میں خلائی طبیعیات میں ہونے والی جدید تحقیقات کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ چاند پر قدم رکھنے کی بات تو پرانی ہو گئی ہے؟ بلکہ اب تو سائنس دان ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق تلاش و جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اور خلاء کی وسعت اور پہنائیوں میں کسی دوسری مخلوق کی تلاش میں مصروف ہیں۔ الحاد اور لادینی میں مبتلا سائنس دان اگر ایسی سعی و جستجو کریں تو ایک علیحدہ امر ہے کہ وہ انسان کو زمین پر خدا کا نائب اور خلیفہ نہیں مانتے اورآدم و حوا کے قصے کو ماسوائے ایک تمثیل اور کوئی رنگ نہیں دیتے۔ مگر جب محکم عقائد والے مسلمان ایسی سعی کرتے ہیں توتعجب ہوتا ہے۔

مغرب میں ایچ جی ویلز وار آف ورلڈز یا ایرک فان ڈنکن شاریٹ آف گاڈز لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ماضی بعید میں بین السیاراتی مخلوق اس زمین پر آتی رہی ہے اور یہاں کے لوگوں کو اپنے سائنسی کمالات اور فوق البشری قوتوں کے اظہار سے اپنا فرمانبردار اور مطیع بنا چکی ہے تو جیسا کہ بتایا گیا کہ وہ خلافت انسانی کے عقیدے پر یقین نہیں رکھتے (حالانکہ خلافت کا تصور تقریباً تمام مذاہب میں ایک جیسا ہی ہے)۔ مگر اس عقیدے پر یقین رکھنے والے جب بین السیاراتی وجود کو ثابت کرنے کے لئے دلائل و براہین دیتے ہیں تو اس کو ایک عاقبت نااندیشانہ فعل قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایک لمحے کے لیے یہ فرض کر لیجئے کہ خلاء کی عظیم وسعتوں میں کسی سیارے پر انسان جیسی مخلوق دریافت ہو بھی جاتی ہے تو کیا ہو گا؟ ہو گایہ کہ بہت ساری ’’بنیادی باتیں‘‘ تہہ و بالا ہو جائیں گی اور ان کی بنیاد نئے سرے سے نئے تصور پرقائم کرنی پڑے گی۔ان بنیادی باتوں میں خلافت انسانی کا تصور‘ پیغمبر و مذاہب کا ظہور‘ وغیرہ جیسی اہم باتیں شامل ہوں گی۔ یہاں مجھے فرانسیسی مفکر ڈیکارٹ کے الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ سب کچھ جو میرے ذہن میں تھا‘ میں یہاں نہیں لکھ پایا‘‘۔

فیروز سنز سے شائع ہونے والی ایک کتاب ’’حکمت و دانائی کا سفر‘‘ ایسی ہی کتابوں کے قافلے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف جناب جاوید طوسی صاحب حکومت پنجاب میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور موصوف بین السیاراتی زندگی کے آثار و شواہد کی تلاش میں کافی ممالک کا سفر کر چکے ہیں جس کا ثبوت وہ تصاویر ہیں جو کتاب میں موجود ہیں۔ موصوف نے پوری کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلاء کی مخلوق زمین پر آتی جاتی رہی ہے اور انہوں نے مختلف زمینی تعمیرات (اھرام مصر وغیرہ) میں حصہ لیا ہے کیونکہ ایسی مدد کے بغیر ان کا تعمیر ہونا امر محال تھا۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ خلاء میں دوسری مخلوق کے آثار ملنے سے بہت سی بنیادی باتیں تلپٹ ہو جائیں گی لہذا ہمارا کام بلکہ دُعا یہ ہونی چاہیے خلاء میں بین السیاراتی مخلوق کے آثار نہ ہی ملیں تو بہتر ہے تاکہ ہمارے برخود غلط عقائد کا بھرم تو رہ جائے۔

اس کتاب میں باوجود اس کی تمام تر سنجیدگی و پُراسراریت کے ایسے مقام بھی آتے ہیں جہاں آپ بے ساختہ مسکرا دیتے ہیں۔

مثلاً صفحہ ۴۳ پر لکھتے ہیں :’’خلائی مخلوق کی توجہ زمین کی جانب مبذول کرانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ بڑے بڑے قطعہ زمین کاشت کر کے ان پر پیغامات لکھوا دیں تاکہ وہ ہزاروں میل دُور سے ہی نظر آ جائیں‘‘۔ سبحان اللہ۔’’یا بہت طاقتور لائٹ ہاؤس تعمیر کرنے چاہئیں تاکہ ہم اپنی موجودگی کا اشارہ دے سکیں‘‘۔

ان ’’بہترین اقدامات‘‘ کے بارے میں کچھ الفاظ کو ضبط تحریر میں لانا ان ’’اقدامات‘‘ کی توہین کے مترادف ہو گا۔صفحہ ۶۲ پر سائنس دانوں کی انتہائی ’’خفیہ پریس کانفرنس‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں جس میں گرین بنک فارمولا کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ چالیس سیارے ایسے ہیں جہاں زندگی کے آثار موجود ہو سکنے کی قوی القوی امیدیں موجود ہیں تو آپ ’’خفیہ پریس کانفرنس‘‘ کی ترکیبی ہئیت پڑھ کر مسکرا دیتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں افسوس کناں ہیں۔ ’’افسوس یہ نوجوان نسل حقائق سے پردہ نہیں اٹھاتی جس سے علوم میں اضافہ ہو‘‘۔ ’’علوم‘‘ فہمی عالم بالا معلوم شد

حقیقت حال یہ ہے کہ کسی بھی مظہر کی عظمت اور شان و شوکت دیکھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ مار مار کر یہ کہنا کہ ہماری عقل تو عاجز آ گئی ہے یا یہ تمام کچھ انسانی عقل سے بہت بلندوبالاتر ہے۔ یہ حرکت انسانی ذہن کی رفیع الشافی کے خلاف اور بہت فرومایہ قسم کی ہے۔ اہرام مصر کی پراسراریت اورشان و شوکت کو دیکھ کر عقل کو طاق پر رکھ دینا اور صرف یہ کہنا کہ جناب کسی بین السیاراتی مخلوق نے ہزاروں برس قبل ان کی تعمیر کی تھی اور اب وہ مخلوق زمین پر نہیں آتی‘ ایک غیر منطقی فعل ہے۔ یہ کوشش کم تر ذہنی سطح کے لوگوں پر رُعب جمانے کے لیے تو ازحد کارآمد ہے مگر علمی سطح پر اس قسم کے بیانات و مضامین کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اہرام کے متعلق اب تک بیس ہزار سے زائد کتب تحریر کی جا چکی ہیں ان کا بالاستعیاب مطالعہ کرنے کے بعد ہی کسی علمی و تحقیقی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ صرف چند مظاہر کا فی الوقت سمجھ سے بالاتر ہونا ان کو ناقابل ادراک کی سرحدوں میں نہیں دھکیل دیتا۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسے تمام مظاہر کے ڈانڈے مابعدالطبیعات سے نہ ملائے جائیں بلکہ علمی و عقلی سطح پر کچھ عرق ریزی کی جائے جیسا کہ اہرام مصر کے متعلق ۱۹۳۸ء میں بہمن سہراب جی بانا جی نے خطبہ دیا تھا‘ جس میں یہ بات ثابت کی تھی کہ اہرام کی تعمیر ’’فری میسن‘‘ نامی فرقے نے کی ہے جس کے بانی حضرت سلیمان علیہ السلام تھے جن کو بذاتِ خود تعمیرات کا بے پناہ شوق تھا۔ فری میسن کے حوالے سے لکھی جانے والی کتب میں چند معاملات کو چھوڑ کر تمام معاملات کی تشریح مل جاتی ہے۔ یہ تشریح تو پھر بھی اس لیے قابل قبول ہے کہ اس میں انسانی عظمت کی جھلک دکھائی دیتی ہے مگر بین السیاراتی مخلوق والی تشریح تو ۔۔۔!

ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ مغربی ممالک کے ہزاروں لوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ دیگر سیاروں پر بھی مخلوق پائی جاتی ہے۔ تو کیا ہم بھوتوں‘ چڑیلوں‘ پریوں‘ پری زادوں کے اوپر ہزاروں کے حساب سے کہے جانے والے قصوں‘ واقعات اور کتب کی بنیاد پر ان پر یقین کر سکتے ہیں۔ آج بھی ہزاروں ایسے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے جنوں‘ چیڑیلوں‘ پچھل پیریوں کو نہ صرف دیکھا ہو گا بلکہ ان سے ملاقات بھی کی ہو گی اور اپنے دعوےٰ کے جواب میں یہ ہر قسم کی قسم بھی کھانے کو تیار رہتے ہیں مگر ظاہر سی بات ہے کہ عقلی دنیا میں ایسے دعوؤں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایر ک فان ڈنکن کی کتب نے ساٹھ کی دہائی میں تہلکہ مچا دیا تھا اور ہزاروں لوگ اس کے نظریات پر یقین کرنے لگے تھے مگر پھر کیا ہوا۔ حقیقت آخرکار رفتہ رفتہ

سامنے آتی گئی یہاں تک کہ رونلڈ اسٹوری نے اپنی کتاب

Space God Revealed

۔کے سرورق پر یہ جملہ لکھا

“Chariots of the Gods Turned into a Pompkin”

مذکورہ کتاب میں اُس نے ڈنکن کے نظریات کا طبیعیاتی سطح پر ابطال کیا ہے۔ آج ڈنکن کے نظریات صرف حیرت‘ تحیر اور سنسنی پھیلانے والے عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

عین یہی معاملہ اُڑن طشتریوں اور برمودا مثلث کے بارے میں بھی روا ہے۔برمودا مثلث نے ایک عرصے تک افسانوی دنیا میں خوف و اضطراب پھیلائے رکھا ہے لیکن رفتار زمانہ کے ساتھ وقوع پذیر سائنسی پیش رفتوں کے آگے وہ بھی اپنا پراسرار وجود برقرار نہ رکھ سکا اور سائنس کی تیز روشنیوں نے اس کے تمام پُراسرار وجود کو طشت از بام کر دیا۔ مغرب کی علمی دنیا میں یہ مظاہر آج صرف فکشن کا حصہ ہیں مگر ہمارے ہاں ابھی تک ان کو حیرت و سنسنی پھیلانے کا موجب سمجھا جا رہا ہے۔

’’جزیرہ خضراء‘‘ کے نام سے لکھی گئی ایک کتاب ولی العصر ٹرسٹ جھنگ نے چھاپی ہے جس کے مولف ناجی النجار ہیں اور اردو کا قالب اشیر جاڑوی صاحب نے عطا کیا ہے جبکہ فارسی زبان کی تحقیق و ترجمہ علی اکبر مہدی پور نے کیا ہے۔ کتاب مذکور میں زوروشور کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امامِ زمانہ حضرت حجت کی رہائش برمودا مثلث میں پائے جانے والے جزائر میں ہے۔

عقائد کے مطابق حضرت امام حسن عسکری کے صاحب زادے جو بچپن ہی میں دنیا کی نظروں سے غائب ہو گئے تھے قرب قیامت میں دوبارہ جلوہ افروزہوں گے اور دنیا کو مصائب و آلام سے نجات دلائیں گے۔ مولف مذکور نے حتیٰ الامکان یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام زمانہ اپنے ساتھیوں سمیت بحر اوقیانوس کے جزائر برمودا میں رہائش پذیر ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ بحکم تعالیٰ جو بھی مثلث برمودا میں داخل ہوتا ہے دبلا پتلاہو جاتا ہے یا موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ مولف مذکور نے مغربی سائنس دانوں مثلاً چارلس برلٹنر کی کتاب کا بھی حوالہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہر اس کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے جس سے فاضل مولف کے موقف کی تائید و حمایت ہوتی ہو۔

مذکورہ کتاب کے مطالعے کے بعد راقم نے ایک مضمون میں تحریر کیا تھا : ’’جدید سائنس خصوصاً طبیعیات اتنی جامع اور وقیع ہو چکی ہے کہ کائنات اور اس کے مظاہر بشمول اشیاء و شیؤن میں شاید ہی کچھ ایسا بچا ہو جس کی توضیح و تشریح نہ پیش کی جا سکی ہو۔ گو عقل و خرد کی مخالفت کرنے والے تو ماہ نوردی کو بھی دشنام طرازی اور افسانہ کہہ کر حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ جدید سائنس نے تمام اوہام و خرافات کی تیرگی کو دور کر دیا ہے اور برمودا مثلث ‘ اہرام اور اُڑن طشتریوں جیسے مظاہر اس کے آگے گھٹنے خم کر چکے ہیں‘‘۔

’’جزیرہ خضراء کے مولف نے صرف ایسی کتب سے حظ حاصل کیا ہے جو ان کے موقف کی تائید کرتی ہیں جبکہ اس موضوع پر ہزاروں کتب مقالے و مضامین تحریر کیے جا چکے ہیں۔ ان کے بالاستعیاب مطالعہ کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ دینا عقلمندی و روشن خیالی کی دلیل ہو گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین علمی و تحقیقی ادارے مثلاً کیمبرج آکسفورڈ۔ MIT۔‘ CIT‘۔ اور سوویت اکیڈمی آف سائنسز نہ صرف یہ کہ ان مظاہر کی پراسراریت کو فاش کر چکے ہیں بلکہ وہ ان کی مابعدالطبیعیاتی نوعیت پر بالکل اعتبار نہیں کرتے۔

علاوہ ازیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجوزہ امام زمانہ کی بابرکات شخصیت سے ایسی حرکت کی توقع رکھنا ہی تکلیف دہ امر ہے کہ وہ اپنے مسکن کی جانب بڑھنے والے ہر جہاز کو ڈبو دیتے ہیں خواہ اس میں بے گناہ معصوم مسافر ہی شامل کیوں نہ ہوں۔ برمودا مثلث کی تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ اب تک مسافر راہی عدم کے مسافر بن چکے ہیں اور ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ یقیناًامامِ زمانہ سے ایسی شقی القلبی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

حقیقت حال یہ ہے کہ عقائد و قصص کو سائنسی مظاہر و نظریات سے منطبق کرنا جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ کیونکہ سائنسی نظریئے کی فتح کی صورت میں عقائد و قصص منہ کے بل زمین پر آ گرتے ہیں اور تاریخ کے صفحات اس بات کے شاہد و امین ہیں‘‘۔

جیسا کہ پہلے بھی میں نے ذکرکیا تھا کہ کسی قوم اور ملک میں لکھی جانے والی کتب اور عمومی تحریرات ہی دراصل اس قوم کی ذہنی ساخت اور مزاج کا تعین کرتی ہیں۔ ہمیں اپنی قوم کے ذہنی معیار کا اندازہ اپنے ہاں چھپنے والی کتب‘ رسائل و جرائد و عمومی مضامین سے بخوبی لگ جانا چاہیے‘ نہ کہ ہم اپنی آنکھیں موند لیں اور ’’بیٹھے رہیں تصورجاناں کیے ہوئے‘‘ کی عملی مثال بنے رہیں۔

علمی و تحقیقی دنیا میں کوئی عمومی نشان نہ چھوڑ سکنے کی وجہ سے ہماری ساری توجہ اب اس امر کی جانب مبذول ہو گئی ہے کہ ہم مغرب کی جانب منہ کیے بیٹھے رہیں اور جونہی کوئی تازہ نظریہ وہاں پیدا ہو‘ اس کو فوراً اُچک لیں اور فوراً من پسند تاویلات کر کے اس کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیں۔ حالانکہ مغربی روایت پسند‘ مادی معاشرے میں ابھرنے والے سائنسی نظریات کو اپنے معاشرے میں عمومی طور پر متعارف کروانا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

روایت پسند معاشرے میں ایسے نظریات کے شیوع سے قبل ان کے نتائج و عواقب پر غوروفکر کر لینا ہی دانش مندی کی نشانی ہو گی کیونکہ اگر کوئی متنازعہ نظریہ ’’ارباب دین و دانش‘‘ کی نظروں سے گزرا بھی تو فوراً فتویٰ صادر ہو جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فتوؤں میں توہم نہ صرف خودکفیل ہیں بلکہ ان کی برآمد بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ دنیا کے کسی بھی حصے‘ کسی بھی علاقے میں موجود شخص یا جماعت کے اوپر فتوے لگانا توعام معمول کی بات ہے۔

تاریخ انسانی میں دو ایسے مواقع آئے ہیں جب انسانیت کو انتہائی شدید دھچکوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اول کوپرنکس کا نظریہ کائنات جس نے ارسطو اور بطلمیوس کے نظریہ کائنات کی نفی کی تھی۔ اسی کے سلسلے میں ۱۶۳۲ء گلیلیو کی کتاب ’’دو بڑے عالمی نظاموں پر مکالمہ بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ دوسرا دھچکا ۱۸۵۹ء میں ’’اصل انواع‘‘ کی اشاعت سے پہنچا جس میں چارلس ڈارون نے بندر کو انسان کا جد امجد قرار دیا تھا۔

حسب معمول ان نظریات کی مخالفت کی گئی اور ڈارون کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ اس کی اپنی شکل و صورت بندر سے بہت ملتی ہے۔ دراصل خواہ مشرق کے باسیوں میں ہو یا مغرب کے باسیوں میں خڑد دشمنی کے ہاتھ میں حقارت و توہین کا ایک جیسا تازیانہ ہوتا ہے جسے وہ خرد مند اشخاص کے نظریات اور شخصیات پر بے رحمی سے برسا کر خوش ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا کتب کی اشاعت سے انسانی ذہن کی ساخت ہی تبدیل ہو گئی اور انسان کا مقام‘ اس وسیع و عریض بے کنار کائنات میں‘ پہلی بار صحیح طور پر متعین ہوا گو کہ مغرب میں بھی ان نظریات اور ان کے نتائج کو قبول نہیں کیا گیا تھا مگر آہستہ آہستہ حقائق کو قبول کر لیا گیا اور مغربی انسان نے اپنے ذہن کو مزید نظریات کے مطابق ڈھال لیا‘ مگر ہمارے ہاں ایسی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ نتیجتاً علمی و تحقیقی دنیا میں ہم بہت پیچھے رہ گئے اور ’’لغویات‘‘ میں سب سے آگے۔ علمی ادبی تحقیقی جرائد کا مقابلہ فلمی دنیا اور فیشن کے رسائل و جرائد سے کر دیکھئے۔ واضح فرق خود سامنے آ جائے گا۔

اگر اب بھی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو ہماری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ اکیسویں صدی شروع ہو چکی ہے اگر ہم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو ڈاکٹر توفیق الحکیم کے اٹھائے ہوئے تینوں سوال اپنی انتہائی مہیب شکل میں ہمارے سامنے ہوں گے‘ توانائی کے مسئلے سے زیادہ اہم اور ضروری یہ ہو گا کہ ہم ذہنی توانائی کو متحرک اور فعال کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اگر ذہنی توانائی موجود ہے تو ہر مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں اپنے ہاں رائج ترقی کے مفہوم کو بدلنا ہو گا۔ گبریلے (گوبر کا کیڑا) کی تمام تر ترقی اس کی رہائشی جگہ (گوبر) کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہمیں اس قسم کی محدود ترقی سے نجات حاصل کرنی ہو گی۔ نیز سب سے اہم ہمیں سائنس کو بطور سائنس اور مذہب کو بطور مذہب برتنا ہو گا۔ ہمارے فکری نظام میں سائنسی مذہب یا مذہبی سائنس کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہمیں مزید محتاج‘ مزید خوار اور مزید ذلیل ہونے کے لیے‘ بحیثیت قوم تیار رہنا چاہیے۔(ختم شد)۔

Comments are closed.