ڈاکٹر چے گویرا کے نام خط

vbmp-long-march-sisters

محبی ڈاکٹر چے گویرا

درھباتے

جب ہم نے ہوش سنبھالا تو آپ کا نام سُنتے چلے آرہے ہیں اور تھوڑا بہت پڑھنے کا اشتیاق بڑھا تو آپ کی اقوامِ عالم میں موجود استحصالی زندگی کے خاتمے کے خلاف ایک برتر وجود کو مُنقلب کرنے کا سلسلہ دکھائی دیا کیونکہ امریکی سامراج کی منڈی معیشیت ،کارپوریٹ کلچر اور عالم کاری نے انسانی وجود کو حاشیے کی صورت راندہ ء درگاہ کرکے اُس کو اُس کی ہست سے بیگانگی کی کگار پر لا کھڑا کیا۔

ویسے بھی اِن دِنوں سامراج کا لفظ بھی جیسے لغت سے نکال باہر کیا گیاہو جس کی وجہ سے بہتوں کے لیئے اِس لفظ کے ساتھ دور پاس کی شُناسائی بھی دیکھنے میں نہیں آرہی لیکن آپ نے کیوبا میں انقلاب برپا کرنے کے بعد سائمن بولیوار، مارتی ، کارل مارکس،اینگلز اور لینن کی طرزِ فکر کو بنیاد بناتے ہوئے خود کو وقف کئے رکھا اور اِس سلسلے میں کیوبا کے مردِ دانا فیڈرل کاسترو کی اُس گزارش کو رد کیا کہ آپ کو کیوبا کے کابینہ میں ایک اہم پوزیشن دیاجائے گا تاکہ کیوبا کی تعمیر کرکے لاطینی امریکہ کو ایک طرح کی سورس آف انسپائریشن کے عامل مملکت کی صورت منقلب کرسکیں

لیکن آپ نے کہا کہ ابھی میری یہ زندگی ہنوز مسافرتِ جہد کاری کا تقاضا کررہی ہے اس لیے آپ نے اپنی نظامِ فکر کو انقلابی جہت کے ساتھ قائدانہ سلسلہ دیتے ہوئے بولیویا جانے کو اہم تصور کیا تو آپ وہاں گئے اور خود کو امر کیا۔

لیکن آپ کو شاید پتہ ہو کہ آپ کی اِس جہدِ مسلسل نے ایک نیاروپ ریکھا اختیار کرکے امریکہ کی لے پالک مملکتِ اللہ داد پاکستان ایسی غیر فطری ریاست نے بلوچ اور بلوچستان کی زندگی کو ایک طرح سے بلیک ہول کی صورت میں تبدیل کرنے کا تہیہ کررکھا ہے کیونکہ یہاں آپ کی ڈائریاں اور فکری حوالے اس ریاست کی مقتدرہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی

جبکہ دوسری طرف آپ کی علامتی وجود کو برانڈ بناکر ملٹی نیشنل کمپنیاں اور این جی اوز مارکیٹ کرنے میں مگن دکھائی دیتی ہیں اور اس بیچ زرِ کثیر کشید کررہے ہیں لیکن اس ملک میں ایک قوم بلوچ بھی ہے جس کے فرزند فکری اور عملی طور پر خود کی زندگی کو آپ کی اُس تاریخی سلسلہ ءکار کی تسلسل میں شامل ِ حال رکھے ہوئے ہیں۔

جس کی وجہ سے بلوچستان کا اہلِ قلم کے ساتھ ساتھ کتابوں کی دُکانیں اور میوزک سنٹرز بھی چھاپے کی زد میں آئے دِن رہتی چلی آرہی ہیں اور ادیب ، دانشور، شاعر، طالب علم، صحافی، گلوکار، سماجی و سیاسی کارکن،اُستاد،مزدور،ماہی گیر،انسانی حقوق کے کارکن،جوان و بوڑھا،مرد عورت اور بچہ بچی کوئی بھی مقتدرہ کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

جب ہم اِس ملک میں موجود ایک طبقہء فکرپر نظر کرتے ہیں جو کہ آپ کا نام لیوا ہے اُس کے کردار کا مطالعہ کرتے ہیں تو اُن کا کردار اِس وقت ایک دلال سے کم نہیں کیونکہ اِس دلالی کی وجہ سے امریکی و پاکستانی مقتدرہ کو وہ بڑے عزیز رہے ہیں ،شاید آپ کی زندگی سے علاقہ رکھنے والی قوم بلوچ ہی کے فرزند اِس وقت کرداری حوالہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں جنھوں انکاری صورت لیے ہوئے آپ کی ٹوپی پہن کر زندگی کی ننگی حقائق سے آنکھیں چار کرتے ہوئے اُس پر فتح پانے کی کمٹمنٹ دکھائی ۔

سو آپ یہ کبھی بھی نہ سوچیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز نے اپنی گماشہ سرشت ذہنیت کو عالم کاری اور ورکشاپوں کی نذر کئے رکھا لیکن اِس بیچ ماما قدیر،فرزانہ مجید، علی حیدر، بیورگ، سمی بلوچ نے آپ کی اُس سچ پر ڈٹے رہنے کی تاریخی جہدکاری کے تسلسل سے ارتباط کرتے ہوئے سفرکناں ہیں اور برائے نام پاکستانی دانشور وسیاسی کلاس چائے کی پیالی کو انقلاب انگیز بنانے میں منہمک ہیں جبکہ زندگی اُن کی عملی صورت کا تقاضا کررہی ہے۔

اُمید ہے بخیر ہونگے

خیراندیش

ابنِ بلوچ

One Comment