بلوچستان: بلوچوں کی اجتماعی قبر بنتا جارہا ہے

killed-01_10

بی بی سی کے مطابق چھ ستمبر کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پسماندہ ضلعے قلات میں چار افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملی ہیں۔یہ تشدد زدہ لاشیں اتوار کی صبح قلات میں سوراب کے علاقے کلغلی سے برآمد ہوئی ہیں۔قلات انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق انھیں کلغلی کے پہاڑی علاقے میں لاشوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔ جس کے بعد لیویز فورس کے اہلکار وہاں پہنچنے۔ ان لاشوں کو شناخت اور پوسٹ مارٹم کے لیے سوراب ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں 2007 کے بعد سے تشدد زدہ لاشیں برآمد ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔تاہم یہ سلسلہ اب بھی بدستور جاری ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق گذشتہ دنوں سینٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی کو صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ 2010 سے جون 2015 تک صوبے بھر سے 853 افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملیں ہیں۔

پچھلے سال خضدار سے اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والی لاشوں کی تعداد 17 تھی ،جبکہ اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والی لاشوں کے حوالے سے تحقیق کے لیے سپریم کورٹ کے حکم سے بننے والے ٹربیونل کی مدت میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کے وکیل نے اجتماعی قبر والے معاملے پر تحقیقات مکمل کرنے کے لیے ٹربیونل کو پانچ ماہ کا وقت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

خضدار میں توتک کے مقام پر اس اجتماعی قبر کی نشاندھی ایک چرواہے نے کی تھی اور جب سے اجتماعی قبر کا پتہ چلا ہے تب سے بلوچ قوم پرست جماعتیں جن میں بلوچ ری پبلکن پارٹی،بلوچ نیشنل فرنٹ،بی ایس او آزاد شامل ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ خدشہ ظاہر کررہی ہیں کہ یہ لاشیں لاپتہ ہونے والے بلوچ سیاسی کارکنوں،طلباء رہنماؤں وغیرہ کی ہوسکتی ہیں جن کے بارے میں یہ شواہد موجود ہیں کہ ان کو ایف سی،ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی یا خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر بنے ڈیتھ اسکواڈ نے اغواء کیا تھا۔

بلوچ قوم پرست سیاست دانوں جن میں اختر مینگل صدر بی این ایم،جلاوطن بلوچ رہنماء حیربیار مری،آزادی پسند گوریلا لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر وغیرہ شامل ہیں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرتے ہیں اور پھر ان کو شدید اذیتیں دی جاتی ہیں اور ان کو مارنے کے بعد لاشیں مسخ کرکے یا تو دبادی جاتی ہیں یا پھر ان کو ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے،جبکہ بعض لاشوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے ان کی پیشانی یا سینے پر کندہ کئے ہوئے ملتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے بلوچستان چیپٹر کے سربراہ ظہور شاہوانی ،سابق چئیرپرسن اور خصوصی رپورٹر انسانی حقوق آف یو این عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز خاص طور پر ایف سی اور آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی بلوچستان کے اندر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں اور بلوچ سیاسی کارکنوں،صحافیوں،وکلاء ،طالب علموں کے خلاف قانون اغواء ،ان کے ماورائے عدالت قتل اور ان کی لاشوں کو ڈمپ کرنے میں بھی ان کا ہاتھ ہے ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 22 ویں سیشن میں اپنی خصوصی رپورٹ میں بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔

باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور ایجنسیاں بلوچ قوم کے خلاف خلاف قانون و آئین سرگرمیوں میں ملوث ہیں دوسری طرف بلوچ قومی تحریک کے کارکنوں اور ہمدردوں کو آئی ایس آئی،ایم آئی اور ایف سی کے ذریعے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے مارنے اور اغواء کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

اس ضمن میں کہا جارہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں اور ایف سی کی جانب سے ڈیتھ اسکواڈ میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ دیوبندی تکفیری تنظیم اہل سنت والجماعت کے عسکری ونگ لشکر جھنگوی ،جماعت الدعوۃ کے عسکری ونگ لشکر طیبہ اور جیش محمد وغیرہسے دہشت گرد بھرتی کئے گئے ہیں اور رمضان مینگل ،شفیق مینگل،ظہور وغیرہ ان کی سرپرستی کررہے ہیں۔فرقہ پرست دیوبندی و وہابی تنظیموں اور جماعت اسلامی وغیرہ کو بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے ویسے ہی استعمال کیا جارہا ہے جیسے جماعت اسلامی کو مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔

ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچ قومی تحریک کے خلاف مین سٹریم میڈیا کے اندر بھی ایک بھرپور قسم کی پروپیگنڈا وار چلارہی ہے اور یہ بات بہت اہم ہے کہ پنجاب میں دائیں اور بائیں بازو کے صحافیوں،تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی اکثریت گریٹ گیم،راء ،سی آئی اے،موساد کے اتحاد ثلاثہ برائے آزادی بلوچستان جیسے سازشی منصوبے پر یقین کئے بیٹھی ہے اور اکثر کے لاشعور میں کہیں جاگزیں ہوگیا ہے کہ پاکستانی ریاست بلوچستان میں جاری مزاحمتی تحریک سے جس طرح سے نمٹ رہی ہے وہ طریقہ کار بس ذرا سا سخت ہے ورنہ سب ٹھیک ہے۔

پاکستانی مین سٹریم میڈیا پر جہاں پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا سخت دباؤ ہے وہیں اس دباؤ کے نتیجے میں اور بعض مرتبہ مالی فوائد کے لیے یہ ازخود سنسرشپ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اکثر معروضی نکتہ نظر سے ہٹ کر سرکار اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کو فائدہ پہنچانے والے ڈسکورس پر مبنی خبروں،تجزیوں ،فیچرز کو شائع کرنے پر توجہ دی جارہی ہے جبکہ بلوچستان پر پورا سچ لکھنے والے صحافیوں کی تحریریں ازخود سنسر کی نظر اور ان کو ٹی وی ٹاک شو میں بلانے سے گریز برتا جاتا ہے۔پاکستان کی معروف صحافی ،دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ بلوچ اور بلوچستان پر لکھے ان کے کئی آرٹیکل شائعہی نہیں کئے گئے۔

ایسے لگتا ہے جیسے ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ایک مانیٹرنگ ڈیسک میڈیا کے حوالے سے قائم کررکھا ہے جہاں پر انگریزی اور اردو پریس میں بلوچستان کے حوالے سے چھپنے والی خبروں ،تجزیوں اور کالموں کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور پھر زیادہ بے باک اور گستاخ تحریروں کے لکھنے والوں کو اس موضوع پر لکھنے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے بلوچستان چیپٹر سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور فوج ان کے ان علاقوں میں انھیں جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے جہاں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں اور بنیادی طور پر میڈیا کے معلومات کی فراہمی کو کنٹرول کرنے اور مینجmanage کرنے کا سلسلہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے غیرمحسوس طریقے سے جاری ہے۔

پاکستان کی مین سٹریم سیاسی جماعتیں خاص طور حزب اختلاف کی سیکولر، لبرل جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی ،ایم کیو ایم ،بلوچ پارلیمانی پارٹیاں بلوچستان کی صورت حال سے اغماض برت رہی ہیں اور وہ بلوچستان میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم جیسے سازشی نظریات پر یقین کرتے ہوئے بالواسطہ ریاستی جبر اور تشدد پر چپ سادھے ہوئے ہیں یا بس نمائشی بیانات پر اکتفاء کئے ہوئے ہیں۔ ایک صحافی عامر حسینی کا کہنا ہے کہ

بلوچستان پاکستان کی ریاست،مین سٹریم میڈیا اور وفاقی سیاسی جماعتوں کے ہاں ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر بن چکا ہے کیونکہ بھارت بھی مقبوضہ وادی کے حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں خبروں اور موافق تجزیوں کو کنٹرول کرتا ہے اور پوری معلومات تک رسائی کو روکتا ہے جبکہ وہاں سیکورٹی فورسز ،ایجنسیوں کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو معمول کے طور پر لیا جاتا ہے اور یہی کچھ پاکستان میں بلوچستان کے اندر ہورہا ہے اور بلوچ قوم کو پاکستان کے اکثریتی صوبے پنجاب میں عوام ملٹری اسٹبلشمنٹ کے میڈیا کو مینج کرنے کی پالیسی کی وجہ سے غلط معلومات اور غلط پروپیگنڈے کے زیر اثر غیر ہمدردانہ نظر سے دیکھتی ہے جس سے بلوچ قوم میں مزید بے گانگی اور الگ ہونے کے رجحانات ترقی کررہے ہیں۔

پاکستان میں انگریزی پریس جوکہ اردو پریس کی نسبت زیادہ روشن خیال ،ترقی پسند اور انسانی حقوق کا علمبردار اور نسلی و مذہبی تعصبات کے خلاف زیادہ سرگرم مانا جاتا رہا ہے لیکن انگریزی پریس نے بھی بہت سے سمجھوتوں اور ازخود سنسر شپ پر اور زیادہ توجہ دینی شروع کردی ہے اور بلوچستان بارے اس کا رویہ کنٹرولڈ معلومات فراہم کرنے کا ہوگیا ہے گویا وقت کا پہیہ زیادہ رجعت پسندی کی طرف پاکستانی انگریزی میڈیا کو بھی گھسیٹ رہا ہے۔

ادھر فوج کے سدرن کمانڈ کے سربراہ میجر جنرل ناصر جنجوعہ نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے جس کی کسی ذریعے سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امن کے لیے مذاکرات ہورہے ہیں جبکہ انہوں نے اس بارے میں خود بھی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ یہ مذاکرات کن لوگوں سے ہورہے ہیں ،پاکستانی فوج کی سدرن کمانڈ کے سربراہ ناصر جنجوعہ،اور ایف سی کے آئی جی میجر جنرل اعجاز شاہد سمیت فوج ،ایف سی کا کوئی عہدے دار یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ بلوچستان میں اپنے حقوق کی بازیابی اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے خلاف کوئی قومی ڑواحمتی تحریک وجود رکھتی ہے اور اسے عوامی حمایت حاصل ہے ۔

یہی موقف اکثر وبیشتر سرکاری میڈیا،،وزرات داخلہ بھی اپناتی ہے ،اور وہ بلوچستان کے اندر شدت پسندوں کی کاروائیوں کو ایک اقلیتی شرپسند گروہ کی کاروائی قرار دیتے ہیں جن کے پیچھے عوام کی طاقت نہیں ہے لیکن وہ اسے بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ،ان کے خیال میں تو مرکز کی پالیسی بلوچ عوام کو ترقی دینا ہے جس کی مخالفت ان کے بقول مٹھی بھر دھشت گرد کررہے ہیں لیکن ان کے پاس بلوچستان سے ملنے والی مسخ شداہ لاشوں ،ہزاروں نوجوانوں کی گمشدگی پر بھی کوئی تشویش نظر نہیں آتی۔

بلوچستان کی نواز لیگ اورپشتون خوا ملّی عوامی پارٹیوں کی بیساکھوں پر کھڑی حکومت جس کے چیف منسٹر بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک ہیں نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند کرانے کے بلند و بانگ دعوے کئے تھے وہ اب ایف سی ،فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی بولی بول رہے ہیں،سپریم کورٹ میں کہتے ہیں کہ ایف سی ان کے کنٹرول میں نہیں اور میڈیا میں ایف سی کے رول کو سراہارہے ہوتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ چیف منسٹری کررہے جبکہ مرکزی حکومت بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملانے میں مصروف ہے اور بلوچستان کا عملی کنٹرول ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔

بشکریہ:(www.lubp.com)

Comments are closed.