اسرائیلی انصاف اور ہمارے حکمران

محی الدین عباسی ۔لندن

Ehud-Olmert1

یہاں دو فیصلے ایسے بیان کروں گا جو انصاف پر مبنی اور حقیقی عدل سے تعلق رکھتے ہیں مگر یہ عدل و انصاف ہمارے ملک سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمارا اخلاقی ، روحانی اور حقیقی دشمن ہے مگر ہمیں ہراچھی چیز اور بات اپنانے میں کوئی حرج نہیں ایسی مثالیں قوموں کی ترقی اور اصلاح کا پہلو بنتی ہیں۔

مغربی میڈیا ذرائع کے مطابق ۲۰۱۴ ؁ء میں اسرائیل کی عدالت نے ملک کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرت کو رشوت لینے کے جرم میں چھ سال قید اور ایک لاکھ اکہتر ہزار سٹرلنگ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ جج نے سابق وزیر اعظم کو حکم دیا ہے کہ وہ یکم ستمبر کو جیل میں حاضر ہوں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ان کے وکیل کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مہلت بھی دی ہے ۔ وہ کسی بھی اسرائیلی حکومت کے پہلے سربراہ ہیں جنہیں قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اڑسٹھ سالہ اولمرت کو ایک تعمیراتی منصوبے میں رشوت لینے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ یروشلم کے تل ابیب ڈسٹرکٹ میں ’ہولی لینڈ ‘ کے نام اپارٹمنٹ بنانے کا تھا اور ایہود اولمرٹ پر، جو اس وقت یروشلم کے مےئر تھے ، الزام تھا کہ انہوں نے پانچ لاکھ شیکل یا ۸۶ ہزار پاؤنڈ لے کر مقدس قرار دےئے گئے زون میں قانون تبدیل کر کے متنازع اپارٹمنٹ تعمیر کرنے کی راہ ہموار کی ۔ اسی منصوبے کی مد میں انہوں نے ۶۰ ہزار شیکل(اسرائیلی کرنسی) مزید لئے تھے۔ اسی منصوبے میں دیگر دس افراد کو بھی سزائیں دی گئیں ۔ ان لوگوں میں سرکاری اہلکار اور کچھ کاروباری شخصیات شامل ہیں ۔ ان میں سے چھ کو تین سے سات سال قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔

جج ڈیوڈ روزن نے فیصلے میں کہا ہے کہ رشوت ایک ایسا جرم ہے جو سارے پبلک شعبے کو آلودہ کرتا اور حکومتی ڈھانچے کے انہدام کا سبب بنتا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ جو لوگ رشوتیں لیتے ہیں وہ لوگوں میں تنفر اور سرکاری اداروں کے بارے میں بے اعتمادی اور مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ راشی ایسے غدار ہوتے ہیں جو اس اعتماد کو مجروح کرتے ہیں جو لوگ ان پر کرتے ہیں۔ جب کہ اس اعتماد کے بغیر سرکاری شعبے کو چلایا ہی نہیں جا سکتا ۔

جج کا کہنا تھا کہ ایہود اولمرت نے ملک کے لئے بڑی خدمات انجام دی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس معاملے میں ’ تہری اخلاقی گراوٹ‘ کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسرائیلی قانون کے مطابق وہ سزا کاٹنے کے بعد سات سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے اہل نہیں ہوں گے ۔ اطلاعات کے مطابق جب فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو اولمرت تمام وقت سر جھکائے خاموش کھڑے رہے۔تاہم ان کے وکیل نے فیصلے کے بعد حراست میں نہ لئے جانے کی درخواست دی جو منظور کر لی گئی۔

ایہود اولمرت ۲۰۰۶ سے ۲۰۰۹ تک اسرائیل کے وزیر اعظم رہے ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات کا ایسا طوفان تھا کہ انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ان پر یہ الزام بھی ہے کہ جب وہ صنعت و تجارت کے وزیر تھے تو انہوں نے ایسے اقدام کئے جن سے ان کے ساتھیوں کے مؤکلوں کو فوائد حاصل ہوئے۔

اسرائیل کے مشہور راہب یوشی یا ہو پینٹوکو نیشنل فراڈ سکواڈ کے سربراہ کو رشوت دینے کی کوشش کے الزام میں ایک سال جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر دو لاکھ ۶۰ ہزار امریکی ڈالر کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ راہب پینٹو نے اپنے ایک خیراتی ادارے کے بارے میں کی جانے والی پولیس کی تحقیقات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے عوض فراڈ سکواڈ کے سربراہ کو رشوت کی پیشکش کی تھی۔ان کا شمار اسرائیل کے امیر ترین راہبوں میں ہوتا ہے اور ان کے پیرو کاروں میں امریکی مشہور شخصیات اور کاروباری لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔

واضح رہے کہ یوشی یاہو پینٹو مراکش کے مشہور راہب ’اسرائیل ابو چاٹزا‘ جو بابا سالی کے نام سے بھی جانے جاتے تھے کے پڑپوتے ہیں ۔ تل ابیب کی ایک عدالت میں راہب پینٹو نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور ایک اعلیٰ پولیس افسر جن کو وہ ماضی میں رشوت دے چکے ہیں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے بھی تیار ہو گئے ہیں۔

کیا کبھی اس طرح بھی ہمارے ملک کے مولوی کو سزا دی گئی ہے؟ نہیں چونکہ ہم ڈرتے ہیں فیصلہ کرتے وقت جیل میں جا کر کرتے ہیں اور پھر فوراََ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح کا فیصلہ سلیمان تأثیر کے ملزم ممتاز قادری کے کیس میں ہؤا۔ جو قومیں بلا امتیاز فیصلہ کرتی ہیں وہی ترقی پاتی ہیں۔ہمارے بھی ملک کے کئی وزیر اعظموں اور صدر کے خلاف کرپشن کے الزامات احتساب عدالت نیپ اور کورٹس میں موجود ہیں جن میں اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت موجود ہیں کیا ان کو بھی اسرائیلی عدالتوں کی طرح انصاف پر مبنی فیصلے کرنے چاہئیں۔

ضرب عضب آپریشن کے ذریعہ سارے ملک میں جو عمل شروع ہے اور احتسابی عمل دیکھنے کو جو مل رہا ہے اور گرفتاریوں کا یہ جو سلسلہ بھی جاری ہے جس میں بڑے بڑے میگا اسکینڈل منظر عام پر آ رہے ہیں ۔ یہ کہاں تک جائے گا اور اس کی عدلیہ ان کے بارے میں کیا فیصلہ دیتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا لیکن اس کے لئے کسی نے اور کہیں سے تو شروعات کرنی تھی جو الحمد للہ شروع ہو گیا ہے ۔ اللہ کرے یہ کام ہمارے با اختیار ادارے اور ججز بھی شروع کردیں ورنہ جس طرح پچھلی حکومت میں ہوتا آیا ہے کہ سالوں سال عدالتوں میں یہ کیسز چلنے کے بعد ختم ہو جاتے رہے ہیں ۔

اس لئے ضروری ہے کہ یہ فیصلے ۲۱ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے ذریعہ حل ہوں تاکہ عوام کو جلد انصاف ملنا شروع ہو جائے ورنہ پھر ہم اندھیروں ، نفرتوں اور مایوسیوں کا شکار ہو جائیں گے ۔ یہ ایک امید کی کرن ہے اسے روشن رہنا چاہئے۔اگر ایسے عدل و انصاف کے فیصلے ہماری عدالتیں بھی کرنا شروع کر دیں تو ہمارے کسی ایسے کرپٹ سیاستدان اور حکمران کو جرأت نہیں ہو گی کہ وہ ایسے گھناؤنے و مکروہ فعل میں ملوث ہوں۔

فوج کے احتسابی عملے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز صاحبان و دیگر ادارے فیصلہ کرتے وقت اس بات کو پیش نظر رکھیں جو قرآن کریم اور سنت رسول ؐ ہمیں حکم دیتا ہے ۔ حدیث نبویؐ ہے :۔ ترجمہ: ۔ تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی بڑا اور با اثر آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐبھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔(حوالہ صحیح بخاری کتاب۔احادیث الانبےأ باب حدیث انصار۔روایت نمبر۳۴۷۵)۔

بہر صورت عدل کا قیام نہایت ضروری ہے اب ہمْ رآنی تعلیمات کے ایک بالکل مختلف پہلو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ایک طرف تو افراد کے باہمی تعلق اور دوسری طرف فرد اور معاشرے کے ما بین تعلقات سے متعلق ہے یہ تعلیم انسانی معاملات میں سیاست کے کردار کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس مضمون پر مختلف زاویہ ء ہائے نگاہ سے روشنی ڈالنے والی متعدد قرآنی آیات میں سے درج ذیل چند آیات بغرض وضاحت بیان ہیں۔ ان میں سے پہلی آیت شہادت جیسے اہم مسئلے سے متعلق ہے۔

شہادت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر نیز عدل کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دینی چاہئے۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ ترجمہ:۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناََ اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔(سورۃ المائدہ ۵:۹) اور پھر فرمایا: ترجمہ:۔ اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر یقیناََ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۃ المائدہ۵:۴۳)۔

لہٰذا اس معاملے میں قرآن کریم نے کسی بھی قسم کا کوئی ابہام نہیں رہنے دیا ۔ عدالت کے دو پلڑے قانون اور انصاف حقیقت میں اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ہمیں عدل و انصاف چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر قائم رکھے ۔ آمین۔
[email protected]

8 Comments