فیض بنام افتخار عارف

faiz
بیروت،۲۶مئی

عزیزی افتخار عارف

آپ نے عسکری مرحوم کی کتاب کے بارے میں رائے طلب کی ہے۔ دینی اور فلسفیانہ مسائل کے بارے میں ہم جیسے کم علم لوگوں کو حرف زنی کا حق نہیں پہنچتا اس لیے ہمارا لکھنا تنقید نہیں محض تاثرات ہیں۔

پہلاتاثر تو یہی ہے کہ اگر آپ کسی بھی مسئلے کے بارے میں پہلے ہی سے اپنے منتخب کردہ نظریے کو بغیر کسی وضاحت، ثبوت یا استدلال کے مصدقہ قرار دے لیں اور اس کے بعد اس نظریے سے اختلاف یا انحراف کو گمراہی تصور کریں تو آپ سے بحث لاحاصل ہے۔

کوئی دوسرا فریق اسی طرح کسی مخالف نظریے کو اسی تحکمانہ انداز میں حرفِ آخر قرار دے کر آپ کی ہر بات کا توڑ کرسکتا ہے۔ مزید برآں اگر آپ نے منطقی یا عقلی استدلال کو جزوی عقل قرار دے کر پہلے ہی سے غیر معتبر ٹھہرالیا تو بات آگے کیسے چلے۔

چنانچہ اگر آپ تصوف، حدیث یا روحانیت (جس کی کوئی تعریف بھی آپ نے نہیں فرمائی) کو صداقت فرض کرلیتے ہیں اور پھر اس کی رُو سے مغرب کی گمراہیاں گنوانا شروع کرتے ہیں تو اسی طور کوئی مادیت کے نظریے کا قائل ایسی ہی فہرست مشرقی گمراہیوں کی تیار کرسکتاہے۔ ایمان یا عقیدہ تو۔ ’’لکم دینکم ولی دین‘‘کی ضمن میں آتاہے اس کے بارے میں بحث کیسی؟

یہ تو ایک بات ہوئی، دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے ایک بنیادی مفروضے کو دلیل ٹھہرا لیا تو پھر آپ اسی کی بنا پر اور کئی مفروضات کو حقائق قرار دینے پر مصر ہوں گے۔ جدیدیت ایسے ہی مفروضات سے بھری پڑی ہے مثلاً یورپ کا ذہن پچھلے چھ سو سال سے بتدریج مسخ ہوتا رہاہے اور صداقت کو سمجھنے کی صلاحیت کھوتا رہاہے ۔اس کے خلاف علامہ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال سے ہم مسلمانوں نے ذہن کے دروازے بند کررکھے ہیں اور تفکر و تدبر کے احکامات الہیٰ سے رد گردانی کرچکے ہیں اس لیے ہم میں صداقت کو سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جارہی ہے۔

پھر عسکری صاحب کو مغربیوں سے بنیادی شکایت یہ ہے ان لوگوں نے باآسماں پرواختن کے بجائے کارجہاں نکو ساختن، کو اپنا مقصد ٹھہرالیا ہے جو بہت بڑی گمراہی ہے لیکن یہ گمراہی تو شیخ سعدی سے لے کر چی شوردبامداد فرزندمً یاراں فراموش کردندعشق وغیرہ) علامہ اقبال تک کئی مشرقی افکار میں بھی مل جائے گی پھر انسان دوستی، انفرادیت پرستی، اعمال و اخلاق کی اہمیت ان سب کو بھی آپ اہل مغرب کی بدعتیں قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں’’ سیکرٹ آف ایسٹ‘‘کے دیباچے پر ایک نظر ڈال لیجئے ہمارا کچھ کہنا سند نہیں ہے۔

یا مثلاً ایک سو انیسویں گمراہی یہ ہے کہ بدعت اور تصوف کے سلسلوں کو دین سے خارج قرار دینا تو کیا ہم نے وہابیت بھی مغرب سے درآمد کی تھی۔ روایت کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ معتزلہ وغیرہ کو روایت سے منسلک نہیں کیا جاسکتا تو بعض بزرگوں کو نظر میں فقہ جعفریہ حتیٰ کہ تصوف کے بعض مسالک بھی بدعتیں ہیں انہیں کیا کہیے گا۔ اسی طرح موجودات اور ماسوا دونوں کو حقیقی سمجھنا یہ بھی گمراہی ہے لیکن قرآن حکیم میں بھی ایک جانب یہ فرمایاگیا ہے کہ ’’حیواۃ الدنیا الالھولعب‘‘۔ تو دوسری جانب یہ بھی ہے ۔ خلقنا ھذا الدنیا باللہ، اگر یہ دنیا باطل نہیں تو حقیقی ہوگی۔

آخر میں مغربی فلسفہ اور سائنس کی بہت عمدہ تلخیص کے بعد (جومیری رائے میں اس کتاب کا قابل قدر حصہ ہے) ان سب کو گمراہی کی مختلف صورتیں قرار دیا گیاہے چلیے تسلیم ، لیکن ہمارے مکرم دوست ڈاکٹر اجمل تو اس کتاب کو کورس میں شامل کردینا چاہتے ہیں اس کورس میں ان مغربیخرافات، یہ تضیع اوقات کی کیا ضرورت ہے، بہتریہی ہے کہ اس کے بجائے حضرت بلھے شاہ کے ارشاد پر عمل کیاجائے یعنی۔
علموں بس کریں اویار اکوالف تینوں درکار

بے چارے ہمارے علماء کو جنہیں معقولات میں افلاطوں اور ارسطو کے فلسفے پر بھی عبور نہیں ہے آپ رو سو اور کانٹ، فرائڈ اور سارتر کے چکر میں کیوں ڈالنا چاہتے ہیں تفصیلی مطالعے کے بغیر محض آپ کے چند جملوں پہ تکیہ کرکے یہ حضرات کسی بحث پر کیسے پورا اتریں گے۔

شعروادب کے معاملات میں عسکری مرحوم کی بصیرت کا میں ہمیشہ سے معترف ہوں اگر وہ جدیدیت کی ادبی گمراہیوں پر متوجہ ہوتے تو غالباً بہتوں کا بھلا ہوگا۔ یہ تصنیف تو انہی حضرات کے کام آسکتی ہے جو پہلے ہی سے علم مغربی سے فیض یاب ہیں اور پھر دینی مسائل کی تفسیر و تشریح پر تو بقول عسکری صاحب کے علماء کا جارہ ہے کلانعام کے لیے یہی بہتر ہے کہ ’’بلھیا چپ کر دھڑ وٹ جا‘‘۔ (آپ نے اتنی پنجابی تو سیکھ لی ہوگی) اگر چہ ہم عوام کے لیے پھر یہ مسئلہ پیداہوتا ہے کہ بہتر (۷۲) میں سے کس فرقے کے علماء کو معتبر جانیں اور یہ تبھی ہے کہ ابن عبدہ، طہٰ حسین، جمال الدین افغانی، علامہ اقبال وغیرہ بمعہ عسکری صاحب کے علماء میں شمار کیے جائیں کہ نہیں۔

لیکن یہ سب جزوی عقل کی باتیں ہیں جو بجائے خود گمراہ کن ہے البتہ ان سب باتوں سے قطع نظر عسکری مرحوم کی تحریر آرٹ برائے آرٹ کے لحاظ سے قابل تحسین ہے۔


مخلص۔فیض

( عبداللہ ملک کی کتاب ’’لاؤ تو قتل نامہ مرا ‘‘)

2 Comments