یورپ میں مہاجرین کی آمد

عرفان احمد خان۔ جرمنی

Refugees walk along Budaorsi Street on their way out of Budapest

برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے چودہ ستمبر سوموار کے روز اچانک بیروت پہنچ کر مشرقی لبنان کے علاقے وادی البقاع میں تربل نامی قصبہ میں قائم شامی مہاجر کیمپ کا دورہ کیا۔ انہوں نے وہاں کی المناک صورت حال دیکھ کر کہاکہ ’’شامی تنازعہ ایک بہت بڑے انسانی المیہ کا باعث بن رہا ہے‘‘۔

یہ انسانی المیہ اب ایک سرزمین تک محدود نہیں رہا۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ بنے مہاجرین کے کیمپ اس المیہ کی کہانی دو سال سے بیان کررہے ہیں لیکن مغربی دنیا کے لیے وہ مہاجر کیمپ المیہ نہیں تھے۔ یہ محض ایک مسئلہ تھا جس کے حل کے لیے مغربی دنیا نے مالی امداد دے کر ذمہ داری مسلمان ممالک کی کرپٹ حکومتوں کے کندھوں پر ڈالے رکھی۔

اب جبکہ لبنان اردن و دیگر ملحقہ ممالک کی زمین تنگ ہونے لگی تو انسانی المیہ کے شکار لاکھوں لوگ یورپ کا رخ کرنے لگے ہیں۔ عراق شام سے چلنے والے انسانوں کے بے یار و مددگار قافلے گذشتہ دو ماہ سے یورپ کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ان میں بچے، بوڑھے، جوان اور شیر خوار سب شامل ہیں۔ ان کی پہلی منزل ترکی ہے جہاں سے انسانی سمگلر ان کو مختلف میدانی اور سمندری راستوں سے یورپ کے جنوب مشرق میں غریب ممالک کی سرحدوں تک چھوڑ جاتے ہیں ۔

بتایا جارہا ہے کہ تقریباً دو لاکھ مہاجرین مشرقی یورپ کے راستوں پر حسرت کی تصویر بنے اپنی آخری منزل کی راہ تک رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ٹی وی ان بے گھر مہاجرین جن کی اکثریت مسلمان ہے کی حالت زار اہل دنیا کو دکھا رہے ہیں۔برطانوی وزیر اعظم کو انسانی المیہ دو سال بعد نظر آیا جبکہ ہنستے کھیلتے اپنے گھروں میں آباد انسانوں کو المیہ کی نذر کرنے والوں میں علاوہ دوسرے ممالک کے جرمنی اور برطانیہ بھی شامل تھے۔

اس المیے سے نبٹنے کے لیے سوموار کو ہی برسلز میں سر جوڑ کر بیٹھنے والے یورپ کے 28 ممالک کے وزیر داخلہ اور وزیر انصاف ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے پر متفق نہ ہوسکے۔ جرمنی کی تجویز تھی کہ اب تک جو ایک لاکھ ساٹھ ہزار متاثرین مغربی و مشرقی یورپ میں داخل ہو چکے ہیں ان کو ایک کوٹہ سسٹم کے تحت قبول کر لیا جائے۔ لیکن اس پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور اب اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں دوبارہ اس پر غور کیا جائے گا۔

البتہ یورپی یونین دو سال میں چالیس ہزار مہاجرین کو قبول کر ے گی۔سمندری راستوں سے آنے والوں کی کشتیوں کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اٹلی ، یونان، چیک ری پبلک میں کیمپ قائم کیے جائیں گے جہاں مہاجرین کو جمع کیا جائے گا ۔ ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو ملین افراد ترکی ، بلغاریہ ، سربیا، چیک ری پبلک اور بوسنیا کے علاقوں میں پہنچ چکے ہیں جن کی آخری منزل مغربی یورپ ہے۔

گذشتہ اتوار کی رات 8500 مہاجر یونان سے مقدونیہ میں داخل ہوئے ۔ 9360 افراد ہنگری سے سربیا میں داخل ہونے میں کامیاب رہے ۔ اتوار ہی کے روز ہنگرین آرمی نے سربیا سے ملنے والی 174 کلومیٹر سرحد پر خار دار تار لگانے کا کام مکمل کیا ۔ ہنگری کی پارلیمنٹ نے قانون منظور کیا ہے جس کے بعد ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہ جیل تین سال بھی ہو سکتی ہے حقوق انسانی کی تنظیموں نے ہنگری سے اپیل کی ہے کہ وار زون سے آنے والوں کو غیر قانونی تصور نہ کیا جائے۔ یہ قانون اتوار اور پیر کی رات بارہ بجے نافذالعمل ہوا۔

ہنگری کے سخت گیر وزیر اعظم وکٹر اوربن نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کا یورپ میں آکر آباد ہونا یورپ کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے ہنگری کی حکومت کم ازکم اس بات پر تیار ہوگئی ہے کہ وار زون سے آنے والے اگر انٹرنیشنل بارڈر سے داخل ہوں تو ان کو رجسٹر کرکے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔

شام و عراق سے آنے والے مہاجرین کے لیے جرمنی اور سویڈن نے بڑا دل دکھا یا ہے۔ اس سے پہلے بھی جرمنی نے فلسطین اور افغانستان کے مہاجرین کی آباد کاری میں وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب بھی جبکہ لاکھوں لوگ آسٹریا میں جمع ہور ہے تھے جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے ان کو جرمنی میں داخلہ کی اجازت دی۔ آسٹریا سے جرمن ریلوے لوگوں کو جنوبی حصہ جرمنی میں لاتی رہی ہے۔ جرمنی میں ان تارکین وطن کو بسانے کے خلا ف مختلف حلقوں سے آوازیں بھی بلند ہوئی ہیں۔

بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ جرمنی میں گھڑی کی سویاں الٹا چلنا شروع ہو گئیں ہیں لیکن اس کے ساتھ مہاجرین کو خوش آمدید کہنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ہر شہر میں لوگ مہاجرین کی آباد کاری میں مدد کے لیے رضاکارانہ کام کر رہے ہیں ۔ گھروں کا سامان مہاجرین کو پیش کررہے ہیں حتیٰ کہ جنوبی حصہ جرمنی کے لوگ اپنی ذاتی کاروں پر آسٹریا جا کر شامی مہاجرین کو جرمنی لا رہے ہیں۔ اب جبکہ جرمنی نے آسٹریا اور جرمنی کے درمیان بارڈر کو کنٹرول شروع کر دیا ہے اورٹرینوں کی آمدو رفت میں تعطل سے جرمنی کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہاہے۔

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ وار زون کے مہاجرین کے ساتھ بڑی تعداد میں رومانیہ بلغاریہ اور سائپرس کے لوگ بھی بغیر دستاویزات کے جرمنی میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس لیے نظم و ضبط کو قائم کرنے کے لیے بارڈر کنٹرول کا نظام بحال کیا گیا ہے۔وار زون سے آنے والے اب بھی جرمنی کے کسی بھی بارڈر سے ملک میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ جرمنی شام و عراق کے متاثرین کو قبول کرنے کے دعوے پر قائم ہے۔

جرمنی کی آباد ی میں 16.5 ملین لوگوں کا تعلق تارکین وطن خاندانوں سے ہے۔ ان میں سے 9.7 ملین جرمن شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ جرمنی میں رہنے والے چار ملین مسلمانوں میں سے دو ملین اب جرمن پاسپورٹ کے حامل ہیں۔

غیر ملکیوں کی 96.6 فیصد آبادی مغربی جرمنی کے علاقوں میں رہ رہی ہے ۔ صرف 3.4 فیصد غیر ملکی یعنی پانچ لاکھ ستر ہزار مشرقی جرمنی کے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں اس سال 200 سے زائد حملے ان غیر ملکیوں کے ہوسٹلز پر ہو چکے ہیں۔ ان ہوسٹلز میں سیاسی پناہ لینے والوں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان حملوں میں دائیں بازو کے انتہا پسند اے ایف ڈی اور مسلم مخالف گروپ’’ پیجڈا ‘‘ ملوث ہے جو اب وار زون سے آنے والے مہاجرین کی مخالفت کر رہے ہیں۔

سیاسی پناہ کی تلاش میں آنے والوں کے لیے جرمن حکومت کی نرم پالیسی پر جو سروے کرائے گئے ہیں ان میں جرمن شہریوں نے رائے دی ہے کہ یہاں آنے والے ایسے کلچر سے آرہے ہیں جہاں عورت دباؤ کے نتیجہ میں ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتی۔ ہم جنس پرست ہونا جرم تصور کیا جاتا ہے ، بچوں کوچمڑے کی بیلٹ سے مارا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی ان عادات کو بدلنے پر تیار ہوں ، گھروں میں جرمن زبان بولیں ، تعلیم کو اہمیت دیں تواگر جرمن چانسلر کا نام محمد الفتح ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

یہ ایک ایسی رائے ہے جس کا بیس سال پہلے تصور موجود نہ تھا۔ زمانے کی کروٹ نے جرمنوں میں رواداری ، ملنساری اور دوسرے کو قبول کرنے کا جذبہ بیدار کر دیا ہے۔ آنے والوں کو بھی جرمن قوم کی خوبیاں سیکھنے کی کوشش اور اپنی ہٹ دھرمی اور ضد سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔ ابھی جبکہ جرمن ریلوے مہاجرین کو جرمنی لانے میں کوشاں تھی چار عراقی نوجوانون نے ریلوے انجن پر ’’ہم سلفی ہیں‘‘ کا بینر لگانے کی کوشش کی جس سے اسٹیشن پر بدمزگی کا ماحول پیدا ہوا۔

جرمنی میں پناہ کی تلاش میں آنے والوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے ۔ حکومت ان کو معاشی مہاجر شمار کرتی ہے ۔ اب نئے حالات میں ان کو واپس اپنے ممالک بھجوانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ابھی دو روز قبل ایک چارٹر طیارہ کوسوو بھجوایا گیا ہے ۔ وار زون سے آنے والے مہاجرین کو آباد کرنے کے لیے اب مشرقی یورپ کے قبضہ میں عمارتوں کو خالی کروایا جارہا ہے ۔ حکومت نے فوری طور پر البانیہ 58245، کوسوو33824 ، سربیا20840، میسو ڈینا10244، بوسنیا5420 سے تعلق رکھنے والوں یعنی کل 108,593 افراد کو ڈی پورٹ کرنے کا کام شروع کر چکی ہے۔

جرمنی میں آنے والے مہاجرین کو کیمپ فرائیڈ لینڈ میں تین ماہ گذارنے پڑتے ہیں یہ جگہ جنگ عظیم دوم سے قبل فولاد کی فیکٹری تھی جس کو 1945 میں برٹش آرمی نے قیدیوں کے لیے استعمال کیا۔ اس کے بعد سے یہ بے گھر لوگوں کا مستقل ٹھکانہ ہے ۔ 1978 میں ویت نام کی کشتی کے مسافروں کو یہاں رکھا گیا ۔ 1984 میں سری لنکا کے تامل یہاں رہے، 1990 میں البانیہ کے مہاجرین لائے گئے ۔

مارچ 2009 میں اس کیمپ کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کی گئی اور عراق سے 2500 مہاجرین کو یہاں بسایا گیا ۔ ان میں کرسچین افراد کی اکثریت تھی۔2013 میں شام کے پانچ ہزار مہاجرین یہاں رہائش پذیر ہیں جن کو اب دوسری جگہوں اور شہروں میں بھجوا کر نئے آنے والوں کے لیے جگہ بنائی جارہی ہے۔

Comments are closed.