مفادات کا تصادم اوراخلاقی گراوٹ

خالد محمود

khalid

میرے دوست عرفان چھینہ(فارماسوٹیکل کمپنی سے)نے فرمائش کی ہے کہ میڈیسن کے شعبے میں مفادات کے ٹکراؤ (کنفلکٹ آف انٹریسٹ) پر ایک تحریر لکھی جائے۔ میں نے کہا کہ کوشش کردیکھتے ہیں۔

یوں تو ہمارا پورا سماج ہی مفادات اور خواہشات کے تصادم کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن میڈیسن کے شعبے میںیہ تضادات،سسکتی اور تڑپتی انسانیت کے خلاف بے لگام اور بلاٹوک منافع کی جنگ ہے۔اس جنگ میں ہر فریق یا شئیر ہولڈر اپنے مالی مفادات کا گراف مسلسل، اوپر جاتا، دیکھنا چاہتا ہے۔

بیماریوں کے علاج پر ہونے والی تحقیق کا کام انسان دوستی اور اجتماعی فائدے کا کام ہے۔چونکہ اس تحقیق پر کام کرنے والے سائنسدان سرمایہ دارتو ہوتے نہیں لہذا انکی تحقیق پر اٹھنے والے اخراجات سرمایہ دار مہیاکرتے ہیں۔بلاشبہ یہ کام انسان دوستی اور نیکی کے زمرے میں آتا ہے مگر سرمایہ لگانے والے اپنے منافع کی طویل اور مسلسل واپسی ،کی امید پر اس کار خیر میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔

جب سائنسدان کسی بیماری کے علاج کے لئے ایک نیا مالیکیول دریافت کر لیتے ہیں اور اس کے آزمائشی مطالعہ کے بعدحتمی نتائج دریافت کر لئے جاتے ہیں تو فارماسوٹیکل کمپنیاں اسے ڈاکٹر حضرات سے متعارف کراتی ہیں۔جب یہ دو ا انکے نسخے پر آجاتی ہے تو پھر اس کی سپلائی کے ذریعے منافع کی واپسی شروع ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ادویات کی سیلز کاسالانہ حجم 650 ارب ڈالرسے زیادہ اور سالانہ شرح نمو 8 فیصد ہے۔

اب آتے ہیں مملکت خدا داد پاکستان کی طرف جو بقول سعادت حسن منٹو،’’ پیدا ہوتے ہی آزاد ہو گئی تھی‘‘۔ہندوستان میں،جو پہلے غلام تھا اور 15 اگست 1947 کو آزاد کر دیا گیاتھا وہاں دوائیں پاکستان سے سستی ہیں۔

پاکستان چونکہ پیدا ہوتے ہی آزاد ہو گیا تھا اس لئے یہاں پر دوائیں ہندوستان سے مہنگی ہیں۔آپ دماغ پر زیادہ زور مت دیں کیونکہ اس میں ہنود کی سازش نہیں ہماری وزارت صحت اور پبلک ہیلتھ والوں کی کارکردگی کا عمل دخل ہے۔

یہاں پر ادویات کی سیلز کا سالانہ حجم50 ارب سے زائد ہے۔ یہاں پر نہ صرف مسلمانوں کی اکثریت ہے بلکہ ریاست بھی مسلمان ہے۔یہاں پر پبلک ہیلتھ میں حفظان صحت کے اصولوں کی پیہم خلاف ورزی کی بدولت ادویات کی سیلز کی سالانہ شرح نمو 10 فیصد ہے جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس لحاظ سے ،مملکت خدا داد میں 600 سے زائد کمپنیوں کو ادویات سازی کا لائیسنس حاصل ہے۔

وزارت صحت کے کرم چاریوں کو رام کرنا کتنا سہل ہو گا کہ کئی کپڑے اور چمڑے کے تاجر بغیر کسی سائنٹیفک انسپکشن کے راتوں رات ’’فارماسوٹیکل مینوفیکچرز‘‘ بن چکے ،جو اب پونے دو ارب ڈالر کی اس بڑی’’ چنگیر‘‘ میں سے اپنااپنا حصہ بٹورنے کی خاطر دن رات سرگرم ہیں۔

مفادات کا تصادم، اورمنافع کی شرح نمو کے گراف کو مسلسل، عموداََ اوپر جاتے دیکھنے کا لپکا مریضوں اور انکے گھر والوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں جنگ کمپنی کے منافع اور ہندوستانی غریب عوام کے درمیان تھی۔زندگی بہت سادہ اور آلودگی سے پاک تھی۔شاید اسی لئے غالبؔ کہہ گئے ہیں:

’’پڑیے گر بیمار،تو کوئی نہ ہو تیماردار، اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو‘‘

مگر آج آبادی میں ہوشربا اضافے کی موجودگی میں نہ تو بیمار ہو کر مرنے والوں کی کوئی کمی ہے اور نہ نوحہ خوانوں کی۔منافع خوروں کے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے مصمم ارادوں نے اُس اخلاقی گراوٹ کو جنم دیا ہے کہ الامان والحفیظ۔

فارماسوٹیکل کمپنیاں اپنی اپنی ادویات وافر مقدار میں بیچنے کے لئے وطن کے مسیحاؤں یعنی’’ ڈاکٹرز‘‘ پر اندھادھند پیسہ نچھاور کر رہی ہیں۔

اخلاقی مارکیٹنگ گرتے گرتے یہاں تک آ چکی ہے کہ پہلے تو میڈیکل کانفرنسز اور سمپوزیم کی آڑ میں مغربی دنیا کے دوررے کروائے جاتے تھے عمرے کے ٹکٹ دیے جاتے تھے،پہاڑوں کی سیر کروائی جاتی تھی مگر اب تو سیدھا بلینک چیک دے دیا جاتا ہے۔مریض کو 2 روپے کی گولی100 میں خریدنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

مسیحا کا قلم مریض کے فائدے کی بجائے اپنے مفادات کی نگرانی کے لئے برائے فروخت ہے بشرطیکہ خریدنے والے کی رازداری رکھنے کی استعدا د قابل اعتبار ہو۔

آپ کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ لاچار مریضوں کی کیا درگت بنائی جاتی ہے۔سسٹم نے 18 سال کی طویل اور تھکا دینے والی محنت کے بعد تیار ہونے والے ’’ ڈاکٹرز‘‘ کو ان کھلی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے شکار کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے۔

ریاست میں فرد کی،شہری کی، مریض اور ڈاکٹر کی جائز آئینی ضرورت کا کوئی تعین نہیں ہے۔آئین میں شاید کہیں نہیں لکھا کہ کسی نے کس کو کیا دینا ہے؟ منڈی تو اب رنڈی سے زیادہ اوباش اور کھلی دندناتی پھرتی ہے۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ:

These days, there is a subtle difference between a health worker and a sex worker.

Comments are closed.