خوراک کی مانگ اور فراہمی

خالد محمود

khalid

مملکت خداداد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ خوراک کی مانگ میں،دیہات میں بالعموم اور شہروں میں بالخصوص، ہوشربا اضافہ تو ہونا ہی تھا۔تاآنکہ ہم پر بھی خدانخواستہ کوئی بنگال کی طرح قحط ٹوٹ پڑے۔

لہلہاتے کھیتوں اور آکسیجن چھوڑتے جنگلوں کو ہماری ناعاقبت اندیشی اور منافع خوری نے نگل لیا ہے۔ جہاں کنڈ تھے، کارخانے لگا دیے گئے۔شادابی اور ہریالی کے راستوں پر کنکریٹ جنگل اُگا دیے گئے ہیں۔مردم خیزی میں حبس کا وہ عالم ہے کہ پرندوں کے رین بسیرے کیلئے درخت کم پڑ گئے ہیں۔نتیجہ یہ کہ پرندوں اور دوسری نوزائیدہ حیات بشمول انسان کیلئے، حبس اور آلودگی میں سانس لینا بھی سزاہو گیا ہے۔

بنجر زمینوں پر فیکٹریاں لگانے اور نئے شہر بسانے کی بجائے ہم نے پرانے آباد شہروں کو ہی بنجر بنا دیا ہے اور بیچ سڑک کے’’ دھرتی باسی‘‘ سایہ دار درخت لگانے کی بجائے بدیشی’’ خواجہ سرا نُما‘‘ کھجوروں کے ٹنٹھ گاڑ دیے ہیں۔
بڑے شہروں میں زندگی کی مشقت میں جُتے انسانوں کی خوراک کی ضرورت کیلئے جا بجا ڈھابے اور ریستوران موجود ہیں۔جیسے تیسے خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری کی جاتی ہے ۔ا س کاروبار میں منافعے کی شرح زیادہ ہے اسی لئے اس کاروبار میں غریب خوانچہ فروشوں ،اور ریڑھی بانوں سمیت ارب پتی خاندان بھی شامل ہیں۔

جیسے جیسے طبقاتی تقسیم بڑھتی جاتی ہے خوراک کی قیمت اور معیار بھی بدلتا جاتا ہے۔50 روپے کے راتب سے لے کر پانچ ہزار سے بھی مہنگے تناول ماحضرتک سب متوازی چل رہا ہے۔اب مزدور کو سو،پچاس میں راتب مہیا کرنے والا گوشت کے لئے 4 ڈگری درجہ حرارت کا اہتمام 18 روپے فی یونٹ میں کیسے کر سکتا ہے؟

اسلامی جمہوریہ میں ہر شہری کی بنیادی غذائی ضرورت کیاہے؟اس کی کوئی حد متعین نہ ہے۔ جانوروں کی افزائش صحت کے اصولوں کے مطابق اور مذبح خانوں پر کڑی نگرانی ہونی چاہئے۔تاکہ بیمار اور مضر صحت جانوروں کا گوشت صارفین تک نہ پہنچ سکے۔

خاندانی منصوبہ بندی اور نئے شہروں کا زرخیز زمینوں سے دور بسانا اب بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ورنہ یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں’’صفائی نصف ایمان ‘‘اور مساوات کے نعروں کے درمیان گدھوں اور دیگر ممنوع جانوروں سے لحمیات کی غذائی قلّت پوری ہوتی رہے گی۔جس کا ایک ہی حل ہے کہ پورا ملک ہی سبزی خور ہو جائے۔

محض سبزی خوری پر اکتفا،اگرچہ صحت کے لئے مفید ہے لیکن شاہینوں کو اس میں’’ ہندتوا‘‘ کی سازش نظر آ سکتی ہے۔یا پھر تیزی سے بڑھتی آبادی ہمسایہ ملک چین کے ’’بے دین‘‘ باسیوں کی طرح انواع قسم کے جانوروں سے استفادہ کر کے لحمیات کی غذائی قّلت دور کرنے کی طرف مائل ہونے لگے۔

بھلے یہ عمل انتہائی غیر اسلامی ہے پر اندر کھاتے منافع خوروں نے پہلے سے شروع کر دیا ہے۔یہاں پر ہیلتھ انسپکٹر یا فود انسپکٹر معائنے میں کتنے موثر ہیں وہ تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔

Comments are closed.