رنجیت سنگھ کے نام پر سڑک یا جہادی پراجیکٹ

لیاقت علی ایڈووکیٹ

Darbar_of_Maharaja_Ranjit_Singh

چند روز قبل پنجاب اسمبلی نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے جو ایک سکھ رکن اسمبلی نے پیش کی تھی ، پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لاہور کی کسی ایک سڑک یا سرکاری عمارت کو پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام سے منسوب کرے کیونکہ پنجاب کے لئے مہاراجہ کی خدمات ناقابل فرا موش ہیں ۔

ایوان کے ایک رکن نے جب اس قرار داد کے خلاف آواز اٹھائی تو پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے بعد حکمران جماعت کے سب سے موثر رکن اسمبلی رانا ثنا ء اللہ جنھیں ڈپٹی وزیر اعلیٰ دوئم ( ڈپٹی وزیر اعلی اول میاں حمزہ شہباز شریف ہیں)کہنا غلط نہ ہوگا کیونکہ مختلف سیاسی اور انتظامی امور کے بارے میں پنجاب حکومت کا موقف عام طور پر وہی بیان کرتے ہیں، نے یہ کہہ کر اس رکن اسمبلی کو بیٹھنے کے لئے کہاکہ ہر مذہب اور کمیونٹی کے اپنے ہیرو ہوتے ہیں لہذا سکھ کمیونٹی کے احترام میں ایوان کو اس قرارداد کی مخالفت سے گریز کرنا چاہیے ۔

پنجاب اسمبلی کی یہ قرارداد بظاہر درست سمت میں قدم ہے کیونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صرف سکھوں کے نہیں بلکہ بلا لحاظ مذہب تمام پنجا بیوں کے لیے قابل فخر ہیں ۔ مہاراجہ اپنی تمام رعایا کے ساتھ بلا امتیاز مذہب مساوی سلوک کرنے پر یقین رکھتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کا مشیر خاص اور وزیر خارجہ ایک مسلمان فقیر سید عزیزالدین تھا ۔ اس کے متعدد قلعے دار مسلمان تھے ۔

اس وقت جب پورے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی مستحکم حکومت کر چکی تھی مہاراجہ نے پنجاب کو اپنی فہم و فراست اور سیاسی حکمت عملی سے کمپنی کی دست برد سے محفوظ رکھا تھا ۔ ان دنوں رنجیت سنگھ کی حکومت کی سرحدیں نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کے پاکستانی اور بھارتی حصے، گلگت اور بلتستان اور موجودہ خیبر پختون خواہ تک پھیلی ہوئی تھیں بلکہ افغانستان کا صوبہ جلا ل آباد بھی لاہور دربار کے زیر نگیں تھا۔ بلا شبہ پنجاب اور پنجابیوں کے لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی لا زوال خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا اس قرار داد سے یہ نتیجہ اخذ کر نا درست ہوگا کہ پنجاب اسمبلی کے نظریاتی اور فکری طور پر مختلف الخیال اراکین نے پنجاب کے متنوع مذہبی اور سیاسی ماضی کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے ۔اگر ایسا ہے تو یہ بہت شاندار ڈویلپمنٹ ہے لیکن ایسا لگتا نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شادمان کے اس چوک کو آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ شہید کے نام سے منسوب کرنے میں کیا قباحت ہے جہاں اس کو انگریز سرکار نے پھانسی دی تھی۔

گذشتہ کئی سالوں سے بھگت سنگھ میموریل کمیٹی یہ مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے کہ اس چوک کا نام بھگت سنگھ شہید چوک رکھا جائے لیکن ہماری سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ اُلٹا حکومت کے چہیتے جہادی عناصر نے نہ صرف لاہور ہائی کورٹ سے اس مطالبے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے بلکہ بھگت سنگھ کے یوم شہادت پر اس چوک پر اکٹھے ہونے والے چند درجن افراد کو مقامی پولیس کی مدد اور تعاون سے تشدد کا نشانہ بنانے کی متعدد کوششیں کر چکے ہیں۔

علاوہ ازیں لاہو ر اور اس کے گرد و نواح اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں سکھ عہد سے تعلق رکھنے والے متعددقصبوں ، دیہاتوں اور عمارتوں کے نام تبدیل کئے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ جاری و ساری ہے ۔ لہذا یہ سوچنا کہ یہ اقدام پنجاب کے متنوع ماضی کو تسلیم کرنے کے لئے اٹھایا گیا ہے درست نہیں لگتا ۔تو کیا یہ سکھ ووٹ بینک کا چکر ہے۔ بظاہر ایسا بھی کچھ نظر نہیںآتا ۔

پنجاب تو کجا خود پاکستان میں سکھ کمیونٹی کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے ۔۔ صرف چند ہزار نفوس پر مشتمل یہ کمیوٹنی قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی ایک انتخابی حلقے میں اکٹھی نہیں ہے۔تقسیم کے وقت پنجاب جہاں سکھوں کی اکثریتی آبادی رہتی تھی ان سے خالی ہوگیا تھا ۔آج جو ہمیں چند ہزار سکھ ادھر اُدھر نظر آتے ہیں ان کی اکثریتی پنجابی سکھوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خواہ اور افغانستا ن سے تعلق رکھتے پختون سکھ ہیں جنھوں نے طالبان اور عسکریت پسندوں کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑ کر دہشت گردی سے نسبتًا محفوظ پنجاب کو اپنا مسکن بنالیا ہے ۔

اگر یہ پنجاب کے متنوع مذہبی اور سیاسی ماضی کی اہمیت کو تسلیم کرنے والی بات نہیں اور نہ ہی یہ سکھ ووٹ بنک کاا یشو ہے تو پھر یکایک مہاراجہ رنجیت سنگھ جس کی شخصیت اور طرز حکومت کے بارے میں سطحی لطائف نہ صرف عوام بلکہ ہر نوع کی حکومتی شخصیات میں بھی بہت پاپولر ہیں، سے اس قدر محبت کیوں ؟

اگر تھوڑا سا غور کریں کہ تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قرارداد رنجیت سنگھ کی شخصیت سے محبت یا اس کے دور حکومت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ ہمار ی ریاست کی اُس جہادی اور بھارت دشمن پالیسیوں کی توسیع ہے جو اُ س نے تقسیم کے فوری بعد اپنا لی تھیں ۔ اسی جہادی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہماری سیا سی قیادت امریکہ سے اسلحے کی بھیک مانگتی ہے اور یہی وہ ایجنڈا ہے جو ہمارے قومی سلامتی کے مشیر کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ کشمیر بات چیت کے ایجنڈے پر نہیں تو بھارت سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کیونکہ یہ کشمیرنسخہ ہی ہے جسے ہمارے حکمران انتہائی کامیابی سے اندرونی سیاسی مشکلات سے بچاؤ اور عوام کی توجہ حقیقی معاشی اور سماجی مسائل سے ہٹانے کے لئے گذشتہ 68 سالوں سے استعمال کر رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت موجودہ خیبر پختون خواہ میں ڈاکٹر خان صاحب کی سربراہی میں کانگریس کی صوبائی حکومت قائم تھی ۔ ابھی پاکستان کو قائم ہوئے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ گورنر جنرل پاکستان نے اس صوبائی حکومت کو توڑ دیا اور خان عبد القیوم خان کو جو صوبائی اسمبلی کے رکن تک نہیں تھے ، صوبائی وزیر اعلی نامز د کر دیا ۔انھوں نے وزیر اعلی بننے کے بعد صوبہ بھر میں سرخپوشوں کا قتل عام کیا اور جو اس کی قتل و غارت گری سے بچ گئے انھیں جیل بھیج دیا ۔

عوام کے سامنے سے اس غیر جمہوری اقدام کی کیا توجیح پیش کی جائے اور انھیں کس طرح مطمئن کیا جائے کہ منتخب صوبائی حکومت کوکیوں توڑا گیا تھا۔چلو حکومت تو توڑ دی لیکن یہ قتل عام کیوں ۔ اس کا کوئی معقول جواز اور جواب خان قیوم کے پاس نہیں تھا ۔چنانچہ اس ساری صورت حال کو کور کرنے کے لئے خان قیوم نے کشمیر’ جہا د‘کا ڈھونگ رچادیا ۔ قبایلیوں کو ورغلا کر کشمیر میں ’جہاد‘ کے لئے بھیج دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ ظالم ہندو ان کے مسلمان کشمیر بھائیوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے لہذا ضروری ہے کہ بھارت کے خلاف جہاد کیا جائے ۔

قبائلی’ جہا د‘ا ور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ’مال غنیمت ‘کی امید میں کشمیر پر چڑھ دوڑے ۔ ان قبائلی’ مجاہدین‘ نے کشمیریوں کے ساتھ جوسلوک کیا وہ اس قدر بھیانک تھا کہ سب لوگ چیخ اٹھے اور مہاراجہ کشمیر جس نے پاکستان سے معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ کررکھا تھا ،نے بھارت سے ریاست کے الحاق کی درخواست کردی ۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان کشمیر کشمیر پکار رہا ہے اور تمام جنگوں اور ’جہاد‘ کے باوجود کشمیر سے محروم ہے

اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ شائد پاکستان کشمیر کبھی بھی نہ حاصل کر سکے لیکن اس کے باوجود ہم کشمیر کشمیر کرنے سے باز نہیں ائیں گے کیونکہ اس سے ہمارے دیدہ اور نادیدہ حکمرانوں کا مال پانی چل رہا ہے ۔کشمیر تو ابھی ملا نہیں لیکن ہم اپنا آدھا ملک اس جہادی پا لیسی کی بدولت گنوا بیٹھے ہیں۔

کشمیر پراجیکٹ تو قیام پاکستان فوری بعد شروع ہوگیا تھا لیکن خالصتان پراجیکٹ کچھ سال بعد شروع کیا گیا تھا ۔پاکستانی اور بھارتی پنجاب کاتقریبا چھ سو کلو میٹر کا مشترک بارڈرہے ۔ بھارت کے اس سرحدی علاقے کی اکثریتی آبادی سکھ مذہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔علاوہ ازیں اس سویلین سکھ آبادی کے علاوہ بھارت کی فوج میں بھی سکھوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔

یہی وہ صورت حال ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے سکھ پاکستانی ریاست علیحدگی پسندی اور خالصتان کے قیام کی تحریک کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور اس کو سپورٹ کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس حقیقت سے آگاہی نہ ہو کہ خالصتان پاکستان کے علاقے شامل کئے بغیر نہیں بن سکتا لیکن اس کے باوجود خالصتان کی حمایت کیوں ؟

صرف اس لئے اس حمایت کے نتیجے میں ہندوستان کم زور ہوتا ہے اور اس کی معاشی ترقی کی رفتار سست پڑتی ہے ۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت کی سرحد پر بسنے والی اس سکھ آبادی کو بھارت کی مرکزی سرکار سے بر گشتہ اور مایوس کیا جائے تاکہ اگر کبھی پاکستان اور بھارت کی جنگ ہو تو سکھ آبادی کی ہمدردیاں بھارت کی مرکزی سرکار سے کم سے کم ہوں ۔اسی حکمت عملی کے پیش نظر ہماری ایسٹیبلشمنٹ نے 1950کی دہائی میں یورپ کے مختلف ممالک کے پاکستانی سفارت خانوں میں خالصتا ن سیل قائم کئے تھے تاکہ ان ممالک میں رہنے والے سکھ تارکین وطن کو ہندوستان سے علیحدگی اور خالصتان کے قیام کے لئے تیار کیا جائے ۔

راؤ رشید کا تعلق سول سروس سے تھا ۔ پولیس میں بہت سے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹو اور بے نظیر کے مشیر رہے ۔ انھوں نے اپنی یاداشتیں ’جیسا میں نے دیکھا‘ کے نام سے لکھی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ 1950کی دہائی میں جب انھیں برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں اتاشی بنا کر بھیجا گیا تو انھیں معلوم ہوا کہ سفارت خانے میں ایک خالصتان سیل بھی کام کر رہا ہے ۔

سنہ1965 کی جنگ کے بعد خالصتان پراجیکٹ میں تیزی لائی گئی ۔ ریڈیو پاکستان سے ’پنجابی دربار ‘ کے نام سے ایک خصوصی پروگرام شروع کیا گیا جس کا مقصد ہندووں کو برا بھلا کہنا اور سکھوں کو مظلوم ثابت کرنا تھا ۔ یہ پروگرام ہنوز جاری ہے اور اس کا پیٹرن ابھی تک وہی ہے یعنی ہندو بہت ظالم ہیں اور سکھ مظلوم اور محروم اور بھارت کی ہندو سرکار ان کے حقوق جن میں علیحدہ ملک خالصتان کا قیام سر فہرست ہے دینے سے انکاری ہے ۔

ایسی فلموں کی حوصلہ افزائی کی گئی جن میں ہندووں کو بزدل، کینہ پرور ، سازشی اور انگریزوں کا ایجنٹ دکھایا گیا تھا۔اس کے برعکس سکھ بے وقوفی کی حد تک سادہ ، بہادر اورمسلمانوں کے ہمدرد اور دوست ہوتے تھے ۔یہ بیانیہ بھی پاپولر بنانے کی کوشش کی گئی کہ تقسیم کے وقت مسلمانوں کا قتل عام اور غارت و گری سکھوں نے نہیں ہندووں نے کی تھی اور اگر کہیں سکھوں سے زیادتی ہوئی بھی تھی تو یہ ہندووں کی سازش تھی اور سکھ اس سازش کے بہکاوے میں آگئے تھے ۔

سنہ1970 میں معاشی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر بھارت کی ریاست پنجاب میں خالصتان کے قیام کی تحریک میں تیزی آئی تو پاکستان نے اس تحریک سے وابستہ افراد خاص کر انگلستان اور کینیڈا میں مقیم سکھ علیحدگی پسندوں کی خوب حوصلہ افزائی کی تھی ۔ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا ۔جب چوہدری ظہور الٰہی مرحوم سکھ یاتریوں کی خدمت تواضع میں پیش پیش ہو ا کرتے تھے۔

سکھ مذہبی مقامات کی یاترا کے لئے بھارت سے آنے والے سکھوں میں بھارت مخالف پراپیگنڈا کرنے کے لئے یورپ سے آئے سکھ علیحدگی پسندوں کو مواقع فراہم کئے جاتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ یورپ کے سکھ علیحدگی پسندوں نے مجوزہ خالصتان کا ایک نقشہ چھاپا جس میں پاکستان کے کچھ علاقوں کو بھی اس میں شامل دکھایا گیا تھا ۔صدر ضیاء اس نقشے سے بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے اپنے سکیورٹی اداروں کے کہا کہ وہ خالصتان کے معاملے پر گو سلو کی پالیسی اپنا لیں ۔

جب 1988 میں بے نظیر بر سر اقتدار آئیں تو انھوں نے چوہدری اعتزاز احسن کو وفاقی وزیر داخلہ بنا یا جن کے بارے میں سکیورٹی ایجنسیوں کے ایما پر یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ انھوں نے اُن سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرست بھارتی حکومت کو دی ہے جو پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے رابطے میں تھے ۔ یہ پراپیگنڈا کرنے میں ہمارے موجودہ وزیر اعظم پیش پیش تھے ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ مرحوم جنرل حمید گل نے بھی محترمہ بے نظیر کو بطور آئی ایس آئی چیف خالصتان کی آزادی کا منصوبہ پیش کیا تھا لیکن بے نظیر نے انھیں منصوبے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی ۔


کشمیر اور خالصتان ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کے دو مستقل جہادی منصوبے ہیں جن پر مسلسل کام جاری رہتا ہے اور ان کو جاری و ساری رکھنے کے لئے وہ سول اداروں سے رنجیت سنگھ کے نام پر کسی سڑک یا عمارت کو منسوب کرنے اور زیادہ سے زیادہ سکھ یاتریوں کو پاکستان میں مدعو اور ضرورت سے بڑھ کر آؤ بھگت کرنے جیسے کام کراتی رہتی ہیں۔**۔

2 Comments