سیاسی جدوجہد کے ساٹھ سال ،کوئی پچھتاوا نہیں

لیاقت علی ایڈووکیٹ

image3355بیاتھل معیدالدین کٹی( بی۔ایم کٹی )کی خود نوشت


پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بیانیہ تو وہ ہے جو ریٹائرڈ جرنیلوں ، اعلی اور کلیدی عہدوں پر فائز رہنے والے سابق بیورکریٹوں، مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ میں تعینات ہونے والے سفارت کاروں اور اقتداری سیاست کی شطرنج کے رسیا سیاست دانوں کی یاد داشتوں ،اخباری مضامین اور انٹرویوز کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔

یہ بیانیہ معروضیت، خود احتسابی اور خود تنقیدی کی بجائے خو د ستائشی ، مشکل سے مشکل حالات میں ثابت قدمی اور اصولوں سے وابستگی کے افسانوں اور مخالفین کی تضحیک ،بزدلی اور موقع پرستی کے قصے کہانیوں سے بھرا ہوتا ہے ۔ اس بیانیہ میں زیادہ تر ان شخصیات کو زیر بحث لا یا جاتا ہے جو اس جہان سے رخصت ہو چکی ہوتی ہیں تاکہ بیان کردہ واقعہ کی تصدیق یا تردید کی نوبت ہی نہ آئے ۔

اسی نوع کی ایک کتاب کچھ عرصہ قبل چھپ کر مارکیٹ میں آئی جو بظاہر ایک بڑے بزنس ٹائی کون نے لکھی تھی۔ اپنی اس کتاب میں ان صاحب نے پاکستان کے ایک سابق صدر پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے لیکن اپنے ان الزامات کے حوالے سے جن افرادکو انھوں نے اپنا گواہ ٹھہرایا ان میں سے کوئی بھی اب اس دنیا موجود نہیں ہے یعنی تصدیق یا تردید کی کوئی صورت موجود نہیں تھی ۔

آج کل ایک اور ایسی ہی کتاب کا بہت شہرہ ہے جس کے اقتباسات ہمارے اینکرز اکثر و بیشتر اپنے ناظرین کو پڑھ کر سناتے اور داد وصول کرتے ہیں ۔ یہ کتاب ایک سابق جنرل جو مارچ 1971میں جی ۔او ۔سی ڈھاکہ تھے، نے لکھی تھی۔ انھوں نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ 26مارچ 1971 میں بنگالی عوام کے خلاف جو ملٹری آپریشن شروع ہوا تھا وہ انھوں نے میجر جنرل راؤ فرمان کی شراکت سے تیار کیا تھا۔

جنرل موصوف نے اپنے ہمراہی جنرلوں کی بدکاری اور بزدلی کے کئی قصے تحریر کئے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کی تنقید اور تضحیک کا نشانہ بننے والوں میں سے اب کوئی بھی حیات نہیں ہے۔ خود جنرل صاحب نے اپنے لواحقین کو وصیت کی تھی کہ ان کی یادداشتوں پر مبنی یہ کتاب ان کی وفات کے بعد چھاپی جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ چند سال قبل ان کی وفات کے بعد ہی ان کی یہ کتاب چھپ سکی تھی۔لہذا تصدیق یا تردید کچھ بھی ممکن نہیں ۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔

؂پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک دوسرا بیانیہ بھی ہے اور یہ بیانیہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنوں کے، پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بارے میں شخصی تجربات، مشاہدات اور اہم واقعات اور حادثات کے بارے میں براہ راست اور مصدقہ معلومات پر مشتمل ہے۔یہ بیانیہ ان سیاسی کارکنوں کی جدو جہد سے تشکیل پاتا ہے جنھوں نے پاکستان میں اٹھنے والی ہر سیاسی اور سماجی تحریک میں اہم اور بنیادی کردار اد کیا ۔ جنھوں نے ذاتی اور اجتماعی زندگی میں پیش آنے والی نا انصافیوں کے خلاف طویل ا ور صبر آزما جد و جہد کی ۔

یہ بیانیہ جو تحریر ی صورت میں کم اور اور ل ہسٹری کی صورت میں زیادہ ہے ، پاکستان کی 68 سالوں پر محیط سیا سی تاریخ کی حقیقی اور معروضی شکل و صورت سے آگاہی دیتا ہے ۔اس بیانیہ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے عوام کو آج جو تھوڑے بہت جمہوری اور سماجی حقوق حاصل ہیں وہ انھیں حکومتوں خواہ وہ سول تھیں یا پھرفوجی ،نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کئے تھے بلکہ یہ تو اُن ہزاروں بے نام سیاسی کارکنوں کی قربانیوں اور پیہم جد وجہ کا ثمر ہیں جن کے لوگوں کو آج نام بھی معلوم نہیں ہیں ۔ ان بے نام سیاسی کارکنوں کے اہل خانہ کو ان کی سیاسی جدو جہد کی پاداش میں جن پناہ مشکلات اور صعوبتوں سے گذرنا پڑا تھا اس کے تصور سے ہی جھر جھری آ جاتی ہے ۔یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اصل اور حقیقی بیانیہ ہے ۔

گذشتہ سات دہائیوں سے بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ بی ایم کٹی کاسفرزیست اسی موخرالذکر بیانیہ کی باز گشت ہے ۔ انھوں نے اپنی یاد داشتوں کو ’خود اختیار کردہ جلا وطنی کے ساٹھ سال ‘کا با معنی نام دیا ہے ۔

عام طور پر بھارت ( یوپی اور بہار )سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ وہ تو ہندووں کے ظلم و ستم کے ہاتھوں مجبور ہو کر پاکستان آنے پر مجبور ہوئے تھے یا پھر وہ پاکستان کو اپنا نظریاتی آئیڈیل خیال کرتے تھے اور یہاں وہ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے آئے تھے ۔ اس کے برعکس قیام پاکستان سے کٹی کے کوئی نظریاتی خواب وابستہ نہیں تھے اور انھیں کیرالہ میں’ ہندووں کے ظلم وستم ‘ کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا ۔جناح کے د و قومی نظریہ کی حقانیت کے وہ سرے سے ہی قائل نہ تھے ۔ تو پھر کیرالہ سے نقل مکانی کرکے پاکستان آنے کا فیصلہ کیوں ؟

کٹی اس کا جواز کچھ یو ں دیتے ہیں۔’میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال میں مبتلا رہتا ۔ میری بہت سی آرزوئیں اور خواب تھے لیکن مجھے ان میں سے کسی کے حاصل کرنے کا یقین نہیں تھا ۔ چنانچہ جب جون 1949میں کالج گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے بند ہوگیا تو میں نے ایک فیصلہ کیا کہ میں اب گھر نہیں جاؤں گا ۔مالابار واپس جانے کی بجائے میں اپنے نامعلوم سفر کے پہلے مرحلے میں بمبئی جانے والی ٹرین میں سوار ہوگیا ۔ میں اب گھر واپس نہیں جاتا چاہتا تھا ۔ میرے ارادے کچھ اور تھے ۔ میں اپنے لئے ایک ناقابل مزاحمت مستقبل کا خواہا ں تھا۔میں نے اپنی کالج کی اسناد کے لئے بھی ٹھہرنا گوارا نہ کیا ۔ میں نے کراچی روانگی کا فیصلہ کر لیا (صفحہ 38)۔

ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لئے اس وقت تک ’ پاسپورٹ وغیرہ کا رواج نہیں تھا ۔ہزاروں کی تعداد میں مرد ،خواتین اور بچے مہاجر بنے سر حد کی طرف جارہے تھے ۔ہمیں بھی بطور مہاجر خوش آمدید کہا گیا ۔ تو کیا ہم واقعی مہا جر تھے ؟نہیں ہم رضا کارانہ طور پر آنے والے بھگوڑے تھے۔لوگ مجھے آج بھی پوچھتے ہیں کہ تم ’’خدا کی سرزمین ‘‘ کیرالہ کو چھوڑ کر پاکستان کیوں آگئے ۔ہم نے کھوکھر ا پار سرحد پر کرنسی کا تبادلہ کیا جو نوٹ ہم نے وصول کئے وہ وہی تھے جو ہم ہندوستان سے لے کر آئے تھے ماسوائے اس کے کہ ان پر حکومت پاکستان کی مہر لگی ہوئی تھی‘‘) صفحہ 41)۔

تیرہ جولائی 1930 کو موپلا کسان خاندان گھرانے میں کٹی کا جنم ہوا ۔ ان کے دادا کے نام پر ان کانام بیاتھل معیدالدین( محی الدین) کٹی رکھا گیا ۔مالابار کے موپلا کون ہیں ؟ اس بارے میں کٹی کہتے ہیں کہ کیرالہ کے بابل اور مصر سے صدیوں پرانے تجارتی تعلقات تھے ۔مصر نے فراعین کو حنوط کرنے اور خوشبویات اور متبرک تیل کشید کرنے کا فن کیرالہ ہی سے سیکھا تھا ۔ اسی وجہ سے عرب تاجر قبل از اسلام مالابار آتے تھے اور یوں انھوں نے مقامی لوگوں سے قریبی تعلقات قائم کر لئے تھے ۔ظہور اسلام کے بعد ان عرب تاجروں کے زیر اثر جو اسلام قبول کر چکے تھے کیرالہ کے کثیر لوگوں نے یہ نیا مذہب ( اسلام )اختیار کر لیا ۔

عرب تجار کی ایک بڑی تعداد نے مسلمان ہونے سے قبل اور بعد میں مقامی ہندو خواتین سے شادیاں رچالیں تھیں اور بچے پیدا کر لئے تھے ۔کئی صدیا ں گذرنے کے بعد مالا بار کے یہ مسلمان جو عرب تاجروں اور مقامی عورتوں کے اختلاط سے پیدا ہوئے تھے موپلاس یا ماپیلاس کہلانے لگے لیکن اس لفظ کے بارے میں کافی اختلاف رائے ہے ‘۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ مالا بار ساحل کے پہلے ہجرت کر کے آنے والے مسیحی ماپلا کہلاتے تھے ۔آج بھی کیرالہ کے شامی مسیحیوں کے نام جارج ماپلا ،مامن ماپلا وغیرہ ہیں۔ بہرحال کئی سالوں سے یہ لفظ مالا بار کے مسلمانوں کے ساتھ دائمی طور پر مخصوص ہو چکا ہے ‘۔

کٹی، چودہ اگست1949کراچی پہنچ کر سولجر بازار کا رخ کرتے ہیں جہاں ملیالی محنت کشوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر تھی جو بیڑی سازی کی صنعت سے وابستہ تھے ۔ ملیالی ہم وطنوں کے تعاون سے کٹی کوجلد ہی ایک ڈینش کمپنی میں ملازمت مل گئی ۔ اسی کمپنی میں ملازمت کے دوران انھیں انوائس کی تیاری ، تجارتی خطوط کی ڈرافٹنگ اور ٹائپنگ سیکھنے کے مواقع میسر آئے ۔ یہ وہ ہنر تھے جنھوں نے آیندہ ان کی سیاسی زندگی میں بہت اہم اور مفید کر دار ادا کیا۔

پاکستان میں غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کی ابتدا پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کی تھی ۔ وہ سیاسی افہام و تفہیم کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کی سرکوبی پر یقین رکھتے تھے۔ کٹی کہتے ہیں کہ کراچی آنے کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنی ملیالی دوست ایم اے شکور سے ملنے کے لئے گئے جو ان دنوں روزنامہ’ ڈان‘ میں کام کرتے تھے ۔ انھوں نے کٹی کو بتایا کہ نواب اسماعیل جو غیر منقسم ہندوستان میں مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے کراچی آنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم نے ان کی آمد پر پابندی عائد کر دی ہے ۔خدا جانے یہ پابندی نوابی حسد کے باعث تھی یا یہ سیاسی دھمکی تھی‘۔وزیر اعظم لیاقت علی خان کی پوری کوشش تھی کہ آل انڈیا یونین مسلم لیگ کی نمایاں قیادت پاکستان نہ آئے کیونکہ وہ ان کی آمد کو اپنے لئے چیلنج خیال کرتے تھے۔

کٹی کو کسی ایک جگہ ٹھہرنا پسند نہیں تھا ۔ حرکت پذیری ان کی فطرت میں تھی ۔چنانچہ انھوں نے کراچی چھوڑ کر لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا ۔وہ اپنی آنکھوں سے انارکلی اور نور جہاں کے مقبرے دیکھنا چاہتے تھے ۔نیز مقبر ہ جہانگیر اور غلام بادشاہ قطب الدین ایبک اور سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ اور دیگر سب کے آثا ر دیکھنے کا متمنی تھا جو میں نے سکول کے زمانے میں کتابوں میں پڑھا تھا اور جو لاہور اور اس کے گرد و نواح میں مدفون تھے ‘۔

لاہور میں کٹی کو پہلی ملازمت انڈیا کافی ہاؤ س میں اسسٹنٹ منیجر کی ملی ۔ وہ اسے نہایت خوشگوار تجربہ بتاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں کاؤ نٹر پر بیٹھا لاہور کے مایہ ناز دانشوروں کے چہروں کو تکتا رہتا ۔ وہ ایک ایک کرکے خاموشی سے اندر آکر اپنی نشست سنبھالتے اور گھنٹوں چائے اور کافی پی کر طویل مباحث میں مشغول رہتے ۔ کچھ ناقابل فراموش چہرے، عبداللہ بٹ،ڈپٹی چیف آف برٹش کونسل فربہ جسم گول مٹول چہرہ جو لیاقت علی خان کی تقاریر کی نقل اتارتے رہتے اور ساتھ بیٹھے احباب کو ہنساتے رہتے ۔منظو رقادرجو بعد میں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے ، عبداللہ ملک اور کچھ دوسرے احباب جن کے نام مجھے اب یاد نہیں ۔۔۔

مجھے اپنی چار ماہ کی کافی ہاؤ س میں ملازمت کے دوران ان دانشوروں کے خیالات ،نظریات اور پاکستان کی ابھرتی ہوئی سیاست کو سمجھنے کا موقع ملا ۔ سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤ ں کے متعلق بھی کافی ادراک ہوا‘۔

قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں کے لاہور کی ایک جھلک کٹی کچھ یوں دکھاتے ہیں :بسا اوقات سنیچر کی رات میں اور پرتیم مرینہ ریسٹورنٹ جایا کرتے تھے ( جہاں اب واپڈا ہاؤس ہے )وہاں لبنانی رقاصہ انجیلا کا ڈانس دیکھا کرتے تھے ۔یہ وہ ایام تھے جب لاہور شہر میں اس نوع کی کوئی پابندی عائد نہ تھی ‘۔

پاکستان کی سیاست میںآمریت کے بیج اس کے قیام کے ابتدائی سالوں ہی میں بوئے گئے تھے’یہاں کا حکمران طبقہ اور حکمران جماعت مسلم لیگ کسی وضع کردہ اصول کے مطابق نہیں تھی ۔مختلف النوع عناصر ، مختلف نقطہ ہائے نظر ،یہاں کے مقامی جاگیر دار اور بزنس مین تقریبا سب ہی اعلیٰ طبقا ت سے وابستہ جب کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے یہاں آے ہوئے تجارتی طبقے اور نوآبادی دور حکومت کے بیورو کریٹ لوگ ان سب نے متحد ہو کر ملک کی قیادت کو قومی اور صوبائی مقامات پر سنبھالنے کا اہتمام جاری رکھا ۔ وہ لوگ خود کو قسمت کا دھنی گرداننے لگے ۔اُن میں تحمل ،برداشت،تنقید اور اختلاف رائے کو تسلیم کرنے کا مادہ ہی ناپید تھا ۔ انھیں تو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ یہ سب ایک پارلیمانی جمہوری سسٹم کے لئے لازمی اجزا ہیں ‘۔

قیام لاہور کے دوران کٹی نے میاں افتخارالدین کی جماعت آزاد پاکستان میں شمولیت سے اپنے سیاسی کیر یر کا آغاز کیا ۔ آزاد پاکستان پارٹی قیام پاکستان کے بعد پہلی ایسی سیاسی جماعت تھی جس نے سماجی انصاف ، آزادی رائے اور انسانی حقوق کے لئے جدو جہد کا عندیہ دیا تھا۔برسر اقتدار مسلم لیگ کی قیادت عوام کو ان کے جمہوری سیاسی حقوق دینے کی بجائے ’پاکستان کے کروڑ وں مسلمانوں کی ایک ایسی لیبارٹری بنا نا چاہتی تھی جہاں اسلام کی اعلی اقدار کا تجربہ کیا جائے گا ۔۔۔‘‘

افسوس گذشتہ 65سالوں سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن پاکستان اب بھی ایک لیبارٹری ہی ہے جہاں ہر قسم کے فر سودہ خیالات، سیاست اور سیاسی نظریات کے حوالے سے قابل نفرت حد تک تجربات کئے جارہے ہیں ۔‘

انتخابات میں دھاندلی اور جھرلو کے موجدبھی ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ہی ہیں۔پنجاب کی پہلی صوبائی اسمبلی کو جنوری 1951میں تحلیل کر دیا گیا تھا ۔پنجاب کی دوسری صوبائی اسمبلی کے قیام کے لئے انتخابات مارچ 1951 میں ہوئے ۔ اس الیکشن میں انتہائی سنگددلانہ دھاندلی کا بھی اجرا ہوا جس کے بعد پورے ملک میں دھاندلی کا یہ سلسلہ چل پڑا جس کے نتیجے میں جمہوریت ، قانون کی حکمرانی اور قومی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔

بر صغیر کے مشہور مزدور رہنما مرزا ابراہیم نے کمیونسٹ پارٹی اور ریلوے ورکرز یونین کے متحدہ پلیٹ فارم سے اس الیکشن میں حصہ لیا ۔ رات گئے سنائے جانے والے نتائج کے مطابق مرزا صاحب یہ الیکشن جیت گئے تھے لیکن اگلے دن یہ اعلان جاری ہوا کہ ہارنے والے امیدوار نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے ۔ چنانچہ دوبارہ گنتی ہوئی اور مرزا صاحب کے مخالف امید وار احمد سعید کرمانی کو فاتح قرار دے دیا گیا ۔

جس بد چلن شخص نے یہ دوسری گنتی کرائی وہ ایس ایس جعفری اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاہور تھے ۔سالوں بعد جب میں نے انھیں انڈین کونسل جنرل کے استقبالیہ میں ایک مدد گار کے ساتھ وہیل چیر پر دیکھا تو میں نے وہاں کھڑے اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہیل چیئر میں بیٹھے اس شخص کو غور سے دیکھو ۔یہ ایس ایس جعفری صاحب ہیں ۔یہ مرزا ابراہیم کو فراڈ سے ہا ر دلوانے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

سولہ اکتوبر 1951 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کا راولپنڈی میں قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا ۔ لیکن ہماری بر سرا قتدار اشرافیائی قیادت کے رویوں سے لگتا تھا کہ وہ اس سانحے کا سوگ منانے کی بجائے خوشی منا رہی تھی ۔کٹی اس رویے کی جھلک کچھ یوں دکھاتے ہیں

سترہ اکتوبر کو ٹھیک 4بجے بعد دوپہر نئے گورنر جنرل کو تعیناتی پر 31توپوں کی سلامی دی گئی ۔غلام محمد کی بطور گورنر جنرل تقرری کا شاہی فرمان گورنر جنرل ہاوس کراچی کے دربار ہال میں سیکرٹری جنرل محمد علی نے پڑھ کر سنایا ۔ہز ایکسی لینسی ملک غلام محمد اپنی اسسٹنٹ سیکرٹیری کے کاندھوں کے سہارے اور اے ڈی سی کے ہمراہ ایک جلوس کی صورت دربارہال میں داخل ہوئے ۔انھوں نے سیاہ شیروانی ،جناح کیپ اور تنگ چوڑی دار پاجامہ زیب تن کر رکھا تھا ‘۔ اگر یہ کہا جا ئے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے فوری بعد گورنر جنرل کو توپوں کی سلامی دراصل جشن منانے کا اشارہ تھا ۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے حوالے سے جو واقعات کٹی نے اپنی خود نوشت میں بیان کئے ہیں ان کا صرف ایک حصہ ہی ان کے ذاتی تجربات پر مشتمل ہے باقی جو کچھ بیان ہوا ہے’ وہ ان نوٹس پر مبنی ہیں جو میں نے کامریڈ شمیم اشرف ملک سے سال بھر لاہور قیام کے دوران مختلف نشستوں میں ان سے حاصل کئے اور کچھ بیرسٹر ایس ۔ اے ودود کے نوٹس‘۔ کامریڈ شمیم اشرف ملک مرحوم کیونکہ بائیں بازو کی فرقہ ورانہ چپقلش میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اس لئے اس حوالے سے کٹی کا بیانیہ یک طرفہ اور تعصب کا رنگ لئے ہوئے ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ پنڈی سازش کیس کے بے نقاب ہونے کے بعد پارٹی میں یکسر قیادتی خلا پیدا ہوگیا ۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ شعلہ نوا، نوجوانوں جن میں معروف شاعر ظہیر کاشمیری اور طاہرہ مظہر علی خان شا مل تھیں ، نے کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز 114 میکلوڈ روڈ پر قبضہ جما لیا اور اس کے رہنما ہونے کے دعوی دار بن گئے ۔ لیکن 1952-3 کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے بہت سے گرفتار رہنما جیل سے باہر آگئے اور انھوں نے پارٹی کی قیادت دوبارہ سنبھال لی ۔

کٹی جا بجا اپنے سیاسی کارکن ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی ہمہ جہت سیاسی جد وجہد سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معروف معنوں میں سیاسی کارکن کی بجائے سیاسی رہنماؤں کے رہنما تھے ۔ہمارے ملک کے سیاسی سفر اور ارتقا میں ان کی کارکردگی اور شمولیت انتہائی اہم اور معنی خیز رہی ہے ۔وہ ہمیں سیاسی منظر نامہ میں تو کہیں نظر نہیں آتے لیکن سیاسی واقعات کے پس پشت ان کا کردار ہمیشہ انتہائی اہم اور قابل ذکر رہا ہے ۔بہت سی سیاسی اور جمہوری تحریکوں کا ایک فعال شریک کار ہونے کی حیثیت سے انھوں نے مثالی شہرت پائی ۔

گذشتہ چھ دہایوں سے وہ آزاد پاکستان پارٹی ،پاکستان عوامی لیگ،نیشنل عوامی پارٹی ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ،پاکستان نیشنل پارٹی اور نیشنل ورکرز پارٹی سے منسلک رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آرڈی میں بھی وہ متحرک رہے اور اس اتحاد کی لیڈر شپ اور فیصلہ سازی کے عمل میں انھوں نے نمایاں رول ادا کیا۔ ملک کی چوٹی کی سیاسی قیادت سے قربت کی بدولت انھیں مختلف اوقات میں ہونے سیاسی فیصلوں کے پس پشت محرکات کو سمجھنے اور جانچنے کے مواقع ملے۔

کٹی ان سیاسی واقعات کے محض تماشائی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنے گہرے دانشورانہ پس منظر ، ہم عصر تاریخ اور بین الاقوامی مسائل سے آگاہی نیز اپنی ذہانت کو عوام اور ان کے تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے باعث وہ ان اداروں ،سیاسی جماعتوں اور سیاسی اتحادوں میں فیصلہ سازی کے عمل پر مقدور بھر اثر انداز بھی ہوتے رہے ۔وہ سماجی انصاف اور سیکولرازم کے پر جوش حامی ہیں اور اس پر کسی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

انھوں نے ساٹھ سال قبل انیس سال کی عمر اپنے لئے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ اس پر روز اول کی طرح رواں دواں ہیں اور انھیں اپنے انتخاب کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے ۔**۔


نام کتاب: خود اختیار کردہ جلاوطنی ،سیاسی جد وجہد کے 62سال
مصنف : بی۔ایم۔کٹی
صفحات:414
قیمت:680روپے
ناشر:جمہوری پبلی کیشنز ۔2۔ایوان تجارت روڈ لاہور

One Comment