یہ لبرل پاکستان میں کیا کررہے ہیں؟

محمد عامر رانا

amir_03-600x600

کیا ان کا پالیسی سازی میں کوئی کردار ہے ؟ معاشرے میں شنوائی ہے ؟ یہ لوگ کون ہیں اور آخر کیا چاہتے ہیں ؟

یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث ہے نہ گھنجلک پہیلی ۔ یہ خود لبرل ہی ہیں جن کی اپنے متعلق خوش گمانی ابہام پید اکر دیتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ قومی تشکیل سازی میں ان کا کوئی کردار ہے ۔

پاکستان میں لبرل ازم کے نہ تو متنوع روپ پائے جاتے ہیں کہ ان کی شناخت میں کوئی دقت پیش آئے اور نہ ہی کسی علمی اور فکری مباحث نے لبرل کی تعریف کی تراش خراش کی ہے کہ اس میں کوئی مشکل پیش آئے ۔

پاکستان کے لبرل اپنی اصل میں دیسی ہیں ۔ان کا تعلق سیاسی اور معاشی اشرافیہ سے ہر گز نہیں ہے ۔جو لبرل تجارتی اور معاشی پالیسیوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ان میں سے کچھ کا حلیہ اشرافیہ سے ضرور ملتا ہو گا ۔لیکن یہ اپنی کڑوی زبان کی بدولت شہرت رکھتے ہیں ۔

پاکستان کے لبرل کی آسان سی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ وہ جو انتہا پسند نہیں ہیں ۔ لیکن جو خود کو لبرل نہیں سمجھتے ان پر” فاشسٹ“ کی پھبتی کستے ہیں ۔”فاشسٹ “ سے بہتر انھیں کوئی اصطلاح نہیں ملتی ۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی لبرل کسی خاص فلسفے یا نظریئے پر کار بند نہیں ہیں کہ انھیں کسی فرقے یا گروہ کے چوکھٹے میں فٹ کیا جا سکے۔

یہ تو صرف بانی پاکستان محمد علی جناح کی 11اگست 1947ءوالی تقریر کی بات کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں ریاست اور شہری کے درمیان تعلق چاہتے ہیں ۔ یہ ایک جدید ترقی یافتہ اور معتدل ریاست کا خواب دیکھتے ہیں ۔ان کے مخالفین کوئی دائیں یا بائیں سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان کے خوابوں کا تمسخر اڑانے والے وہ عملیت پسند ہیں جنھوں نے مذہب کو خاص قومیت کے تصور میں گوندھ کر ریاست کا خاص تشخص بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ عملیت پسندوں نے اگر یہ کیا ہے تو یہ خدمات انھوں نے مفت میں تو فراہم نہیں کی ہوں گی ۔

آخر الذکر مذہب اور مذہبی پس منظر میں قومیت کے تصور سے متاثر ہوئے ہیں ۔پاکستانی اشرافیہ نے ان کی مدد سے ہی کچھ اصولوں کو مد نظر رکھ کر ریاست کا موجودہ تصور اخذ کیا ہے ۔عملیت پسندوں کا خیال ہے کہ لبرل غیر مذ ہبی لوگ ہیں جو ریاست کی نظریاتی شناخت کے بھی مخالف ہیں ۔پاکستان میں لبرل اور عملیت پسندوں کا یہ تضاد نیا نہیں ہے ۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی 14اگست 1947ءکی تقریر کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا ۔

عملیت پسندوں نے پاکستان کی نظریاتی اساس کا نگہبان بننے اور اشرافیہ سے تعلقات استوار کرنے کے لئے سخت تگ و دو کی ہے ۔اشرافیہ بھی یہ جانتی ہے کہ نظریاتی اور سیاسی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت انہی کے پاس ہے ۔

مثال کے طور پر اگر دولت ِ اسلامیہ جیسا کوئی دہشت گرد گروہ ریاست کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بنتا ہے تو اشرافیہ کو معلوم ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے کون ہے جو متبادل بیانیہ دے سکتا ہے ۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کہ اگر جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید ،مسعود اظہر ، فضل الرحمٰن خلیل اور مولانا احمد لدھیانوی کے ہمراہ اس برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام کے تمام دھڑے اور کچھ چھوٹی اور نئی مذہبی جماعتیں اس بیانئے کی حمایت میں سڑکوں پر رائے عامہ ہموار کر تی نظر آئیں ۔

پاکستانی لبرلز کسی بھی ایسے چیلنج سے نبر دآزما ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔وہ ان عملیت پسندوں کے خلاف پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جنھوں نے کئی مواقع پر ریاست کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے ۔جب بھی پاکستان کو اپنی سرحدوں پر کسی خطرے کا سامنا ہوا ہے تو یہ قوتیں اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہیں ۔اگریہ ماضی میں مصیبتیں بھی کھڑی کرتے رہے ہوں یا ان سے وابستہ کوئی گروہ اندرونی سلامتی کے لئے چیلنج بھی بنا ہو،تو یہ عملیت پسند اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کو راہ ِ راست پر کیسے لانا ہے ۔ انجام ِ کار یہ مشترکہ کوششوں سے کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں ۔

کسی کو بھی یہ بات نظر انداز نہیں کرناچاہئے کہ کہ یہ جماعت الدعوۃ ہی تھی جس نے خود کش حملوں اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا ۔اس نے اندرونی اور بیرونی تکفیری اور خارجی گروہوں کے خلاف دو ٹوک موقف اپنایا جنھوں نے ریاست کے خلاف اعلان ِ جنگ کیا تھا ۔پاکستان کے طول وعرض میں فلاحی منصوبوں کا جال بھی انہی عملیت پسندوں کے مرہون ِ منت ہے ۔ریاست ان کی خدمات سے صرف ِ نظر کیسے کر سکتی ہے ؟کیا لبرل لوگ سماجی بہبود کے اتنے بڑے نیٹ ورک چلا سکتے ہیں ؟

اشرافیہ کو لبر ل طبقے کی مدد کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کے عزائم کی تکمیل کے لئے یہ کسی صورت ممد و معاون نہیں ہو سکتے ۔اس حقیقت کے باوجود کہ بحران کے دور میں لبرل نے اپنے ہاتھ اشرافیہ کی مدد کے لئے کھڑے کئے بالخصوص اس وقت جب اشرافیہ اور عملیت پسندوں کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے تھے ۔انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانا کہ وہ اپنے ہاتھ اشرافیہ کے لئے آگے بڑھا دیں ۔لیکن اس کا کوئی نتیجہ دیکھنے میں نہیں آیا جیسا کہ سول سوسائٹی نے دسمبر میں آرمی پبلک سکول پشاورپر حملے کے بعد لال مسجد کے باہر مظاہرے کئے ۔

لبرل لوگ ہمیشہ متبادل بیانیہ اور دانشورانہ نقطہ نظر دیتے ہیں لیکن عملیت پسندوں کے درمیان جو اصلاح پسند ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا کوئی جواب آنا بھی چاہئے تووہ بھی مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر ہی دیا جانا چاہئے جس پر ان کی اجارہ داری ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر باہر سے کوئی بھی متبادل بیانیہ تھوپا گیا تو وہ شدت پسندوں کے نظریئے کو تبدیل نہیں کر سکے گا ۔اشرافیہ اور ان کے عملیت پسند اتحادی سمجھتے ہیں کہ لبرل ،معاشرے کے خفیف اوربھٹکے ہوئے لوگ ہیں جو مغربی دانش اور سماج سے متاثر ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اور لبرلز کے درمیان قومی سطح پر ہم آہنگی یا یگانگت نہیں ہے ۔

اشرافیہ نے بھی ہمشہ لبرلز کے ساتھ ہاتھ ملانے سے درگزر کیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے فطری اتحادیوں کو ناراض نہیں کر سکتی ۔اشرافیہ نے مغربی سرمائے سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی وجہ سے بھی لبرل کی سرگرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔غیر سرکاری تنظیموں نے چند لبرل افراد کو ہی چھتری فراہم کی ہو گی مگر ان کا مقصد سماجی اداروں کے تنظیمی ڈھانچہ میں اصلاحات ہیں جن کو حکومت نظر انداز کرتی آئی ہے ۔جس کی وجہ سے اشرافیہ ان سب کو بھی لبرل ہی سمجھتی ہے جو اس کی پالیسیوں ، طریقہ کار اور نقطہ ءنظر سے اختلاف رکھتے ہیں ۔

عملیت پسند ،تنقید کے فن سے آشنا ہیں ،انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ریاست کی پالیسیوں پر کہاں تنقید کر کے وہ کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔مذہبی قیادت ، پاکستان میں عملیت پسندوں کے ایک بڑے حصے کو سامنے لائی ہے ۔اشرافیہ کو ان کی تنقید سے کوئی خطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہ نہ تو ان کے طریقہ کار اور نہ ہی ان کے ڈھانچے میں کسی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔وہ جواب میں صرف ملک کے مراعات یافتہ طبقے میں شمولیت چاہتے ہیں ۔اس لئے ان کا باہمی اتحاد ایک دوسرے کے مقاصد کی آبیاری کرتا ہے ۔مذہبی مراعات یافتہ طبقہ کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے تاکہ وہ اپنا اثر روسوخ بڑھا سکے اور اپنی اصل طاقت مذہبی ادروں کو مضبوط کر سکے ۔

کیا اشرافیہ اور لبرلز کے درمیان کوئی اتحاد ہو سکتا ہے ؟ایسا پاکستان کی تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے ۔ماضی قریب میں بھی ہم نے یہ دیکھا ۔ مشرف کے اقتدار کے ابتدائی ایام میں ہونے والے اس رابطے کا دورانیہ انتہائی مختصر تھا ۔لبرلز کا طلسم جلد ہی ٹوٹ گیا حالانکہ وہ اس اتحاد سے بہت جلدی اپنے عزائم کی تکمیل دیکھ رہے تھے ۔پاکستانی لبرلز کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ۔ایک بات بالکل واضح ہے کہ انھیں اشرافیہ یا کسی بیرونی حمایت کے بغیرخود ہی اپنا راستہ تخلیق کرنا ہے ۔

کالم نگار سیکورٹی تجزیہ کار ہیں ان کایہ کالم ڈان میں جمعرات کو شائع ہوا
 انگریزی سے ترجمہ : سجاد اظہربشکریہhttp://ibcurdu.com/news/6188:

One Comment