پشتون کلچر ڈے: صرف پہناوے یا تمدن اور قومی تشخُص کا نام

عبدالحئی ارین

celebration

گزشتہ دنوں کوئٹہ میں منعقد ہ پشتو عالمی کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پشتون تاریخ، روایات اور قومیت کے احساسات اجاگر کرنے کیلئے دنیا میں ہر سال ۲۳ ستمبر کو پشتون کلچر ڈے منایا جائے گا۔ اسی مناسبت سے پوری دنیا میں یہ دن قومی دن شایان شان طریقے سے منایا جارہا ہے۔

جس میں ہر عمر و خیل سے تعلق رکھنے والے نوجوان ثقافتی لباس ،لونگئی اور پکول پہنے ھوئے نظر آئے۔ اور ان مخصوص پہناوں کے ذریعے اپنی ثقافت سے محبت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلچر سے کیا مراد ہے؟ کیا کلچر صرف موسمی حالات کی مناسبت سے اختیار کئے ہوئے پہناوے کا نام ہے؟ میرے خیال میں ہر گز نہیں۔

حیوانوں اور پودوں کی طرح انسان بھی قدرت کے کرشموں کا ایک عجیب و غریب مگر باشعور مظہر ہے۔ انسانوں کے درمیان بھی اتنا واضح فرق موجود ہے کہ ماسوا انسانیت کے ان میں کوئی دوسرا اشتراک نظر نہیں آتادنیا میں بہت ساری ایسی قومیں موجود ہیں کہ جن کے ظاہری خدوخال میں کوئی خاص فرق موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی قومیت اور احساسات میں ایک دوسرے سے جدا ہے اور ان کے احساسات اور جذبات میں اختلافات کے سبب ان کے عقائد و تمدن اور علم وفنون دوسری قوموں سے علیحدہ اور واضح ہے۔

اگرچہ ہم دیکھتے ہے کہ بہت ساری ایشیائی اقوام کے درمیان کوئی خاص جسمانی اختلاف نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی وہ ایک قوم شمار نہیں کئے جاتے۔

چونکہ ان کے درمیاں عقلی فاصل حد قائم ہے اور اس فاصل حد میں ان اقوام کی تاریخ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ہیں، اسی دجہ سے کچھ فاضل علماء نے قوموں کی تقسیم کا معیا ر ان کی زبان، مذہب اور سیاسی نظام میں اختلاف وغیرہ مقرر کئے ہیں لیکن میرے خیال میں ان کی یہ تقسیم درست نہیں اور عقل و فہم سے مبرا ہے۔

چونکہ انسان صرف انسانی اعضاء کا نام نہیں ہے اس کے علاوہ ایک اور مزاج بھی ہے جسے عقلی مزاج کہتے ہیں جس میں استقلال ، آزادی ، استحکام وغیرہ موجود ہے اور یہ کسی بھی صورت جسمانی ترکیب سے کم نہیں ان عقلی اور اخلاقی اوصاف جن کے مجموعے سے کسی قوم میں ایک مشترک روح پیدا ہوتی ہے۔ زمانے اور ہزاروں سالوں کے گردش کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے اور ہمیشہ کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے اور اس طرح یہ اوصاف تروتازہ رہتے ہیں اور ان اوصاف کے مجموعے سے جو وصف پیدا ہوتا ہے اسے کسی قوم کا اخلاق کہتے ہیں۔

اس لئے ان تفرقات اور امتیازیات کی بدولت ایک قوم کا دوسرے اقوام کے ساتھ فرق واضح ہوجاتا ہے ۔ لہذا قوم کے بعد واپس آتے ہیں کلچر یا ثقافت کی تعریف کی طرف۔

ثقافت، کلچر یا جسے پشتو میں ’دوود ‘ یا کلتور کسی قوم کے مادی اور غیر مادی چیزوں پر مشتمل مجموعی عوامل ہوتے ہیں ، جن میں لباس کے علاوہ اُس قوم کے عقائد ، تمدن اور علم وفنون ، جزبات و احساسات اور معاشرے میں دوسرے انسانوں کیساتھ معاشرتی ربط شامل ہوتے ہیں۔ اور یہی خصوصیات مل کر قوم اور قومیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ کسی قوم کی یہ علیحدہ واضع قومی روح، مخصوص عقلی مزاج ، قومی روایات اور مخصوص رسم ورواج اور اس قوم کے شاندار تمدن میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اسی لیے ان چیزوں کی پہچان کرنا ہر ہمدرد فرد کی قومی و اخلاقی فرض بنتاہے اس لیے یہ ہمارا قومی فریضہ بنتا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی و گلوبل ولج کے اس تیز رفتار دوڑ میں اپنی قوم کے ان افکار و خیالات جن کا مجموعی نام پشتون ثقافت ہے جسے پشتو میں پشتونوا لہ (پشتونولی)کہتے ہیں ہے ۔

پخت ، پکت، وہ قدیم نام ہیں جن سے پختون(پشتون) اور پکتیکا (پشتونخوا) کے ناموں کا ریشہ ہیں۔ پشتو ، پشتونوں کی زبان ، اور پشتونوالی یا دوود ان کی رہن سہن کے عادات و روایات کا نام ہے۔

ان روایات میں جرگہ، ایمان داری، ملی غرور، ننواتئی، عہد ووفا، جنگ کے قوانین ، آزادی و حریت ، مہمان نوازی، بدرگہ، ملی استقلال، چیغہ، نسل و روایات کی پاسداری، ملی کھیل وغیرہ سرفہرست ہیں۔ جن میں پشتونوں کی معاشرتی رہن سہن کے نفسیات کے مختلف پہلوووں کو اجھاگر کیا جاتاہے۔ یہ روایات و عادات پشتونوں کے روزمرہ زندگی میں ایک دستور یا آئین کی حیثیت رکھتے ہیں اوران پر عمل نہ کرنے والے کو پشتون معاشرے میں کم نظری سے دیکھا جاتا ہے۔

اور یہی وہ روایات ہیں جن پر ماضی میں عمل کرکے یہ قوم نا صرف اپنے مسائل کا حل نکالتے تھے بلکہ اسی قومی تشخص کے نتیجے میں پشتونوں نے ہندوستان(بشمول موجودہ پاکستان اور بنگلادیش)، ایرانی اسفحان، اور افغانستان پر بڑے جلال کے ساتھ حکمرانی کرتے رہے۔ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ شیرشاہ سوری ، غوری خاندان، لودہی اور احمدشاہ ابدالی نے ہندوستان پر ساڑے تین سو سال تک ہندوستان پر حکمرانی اس انداز میں کی کہ کہیں پر بھی ان کی سلطنت میں نسلی امتیاز، مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کے واقعات پیش نہیں آئے۔

مزید یہ کہ من حیث القوم پشتون جبر ، تشدد اور مذہبی منافرت سے پاک قوم رہی ہے۔ جس کے واضح مثالیں بدمت مذہب کا سوات اور دیگر پشتون علاقوں میں پروان چڑھنا ہے۔ اشوکہ بادشاہ کاہندوستان سے پشتون وطن میں اکر تشدد سے نفرت اور محبت کا پرچار، باچا خان کی عدم تشدد کی تحریک اور دیگر کئی مثالیں ہیں۔

لیکن آج پشتونوں کے خلاف کے ایک خاص سازش کے تحت ایک منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اور ان کے ثقافت، تاریخ ،رواج، زبان وغیرہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ایسا کوئی پاکستانی تھیٹر، سٹیج شو، مزاحیہ ٹی وی ڈراموں، اور دیگر میڈیا میں پشتونوں کا کھلم کھلا بلکہ بلاجھجک مذاق اڑایا جارہا ہے اور اُنکو دہشت گرد، چوکیدار، جاہل، ان پڑھ کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے،

پشتو فلموں کی انڈسٹری جو ۶۰ میں انڈین فلموں کے مقابلے میں کئی گنا اچھے فلم تیار کرتی تھی لیکن بعد میں آنے والوں نے پشتون کلچر کیساتھ ساتھ پشتو فلموں کو تہس و نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ اور حد تو یہ کہ اس خطے میں جہاں دہشت گردی سے سب سے زیادہ پشتون متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد میں پشتون ہی اس جنگ میں جان بحق ہوچکے ہیں، لاکھوں پشتون بے گھرہوچکے ہیں، اُن کی معاش تباہ، نفسیاتی بیمار اور معاشرتی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود پاکستانی فوج ہو، سیاستدان ہو اور یا میڈیا کے نام نہاد دانشور(بلکہ دانش خور) دہشت گردی کو پشتونوں کی قومی مذاج اور ثقافت سے جوڑنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ہٹ دھرمی و بے شرمی کی یہ انتہا کہ پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف ارمی سٹاف جنرل مشرف کھلم کھلا ٹی وی ٹاک شوز اور غیر ملکی دوروں کے دوران طالبان اور دہشت گردی کو پشتونوں کے ساتھ نتھی کرتے تھے۔

اور تو اور پشتون جوکہ ایک ٓازادخیال قوم کے ماضی کا مالک ہیں لیکن پشتون معاشرے میں کلاشنکوف اور مدرسہ کلچر ریاست ہی نے متعارف کروایا ہے۔ مولوی جس کی حیثیت ماضی میں پشتون معاشرے میں ایک بیوہ اور یتیم سے زیادہ نہیں تھی۔ اور اُس کا کردار صرف مسجد میں نماز اور یا پھر فاتحہ ، شادی و جرگہ میں دعا ہی تک محدود تھی۔ لیکن یہ ریاست ہی تھی جس نے مولوی کو مسجد سے نکال کر اُسے پشتون معاشرے میں اقتدار کا مالک بنایا۔

بلکہ اس وقت پشتون معاشرے میں اگر کہیں پر مذہبی انتہا پسندی ہے تو وہ ’ ریاست ہی کے اُس استعماری پالیسیوں کی بدولت ہے جس میں ’دین لاہوری‘ یعنی رائیونڈ کا تبلیغ ہے۔ جس کو ایک خاص اور منظم پروگرام کے تحت ریاستی مشنری پشتون معاشرے میں اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے پروموٹ کرتا ارہا ہے۔

مزید یہ کہ مجاہدین، مدرسہ، جہاد، لاہوری تبلیغ، طالبان اور اب خواتین کے مدرسے پشتون معاشرے میں اتنی شدت سے مضبوط کئے گئے ہیں جنھوں نے پشتونوں کی ثقافت کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور ایک پُرامن کلچر کو غیر پشتون اور جنونی کلچر میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور ان رجعتی قوتوں کی وجہ سے اس قوم کو ما سوائے غلامی، معاشی بدحالی، مذہبی جنونیت اور نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا۔


ریاست اور اُس کے رجعتی نظام کے مالک اگرچہ یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ انھوں نے اب ان قوتوں کو پالنا چھوڑدیا ہےیہ صریحاً غلط اور دھوکہ ہے۔ ان قوتوں نے خواتین کے نام پر پشتون معاشرے میں جو مدرسے بنوارہے ہیں یہ مدرسے نہیں بلکہ ضیاالحق اور اُس کی باقیات کا ایک نیا اور طویل المدتی پروجیکٹ ہے۔

ان مدرسوں سے فارغ ہونے والے اپنے بچوں کو سکول جانے کی بجائے مدرسہ جانے کو فوقیت دیں گے، اور ان کی ایسی تربیت کی جائے گی کہ ہمیں طالبان اور ان کے افعال کئی گنا مذہبی نظر آئیں گے۔ جس کے نتیجے میں پشتون مذید معاشی اور معاشرتی بدحالی کے دھانے پر پہنچ جائے گا۔ اور ہماری آیندہ نسلیں تعلیم،شعور، و فنون سے نہ صرف دور ہوں گے بلکہ اس معاشرے کیلئے ایک نعمت کی بجائے زحمت بن جائیں گی۔

اب ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنا کیس رکھیں اور اُ ن پراپنے قول وفعل سے کے ذریعے یہ واضح کر دیں کہ پشتون تاریخی طور پر امن کا پچاری ہیں، اس کی ثقافت اور تربیت اُسے اس چیز کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی جنونیت کا جو ماحول بنایا گیا ہے ہمیں اس جنونیت سے اپنی نسل کو بچانا ہوگا۔ اور اُسے معاشرے کا ایک مفید شہری و ذمہ داری شہری بنانا ہوگا،۔ اور اس برائی سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ موجودہ تعلیمی نظام نہیں بلکہ قومی سیاست کا حصہ بن کر سیاسی و فکری جدوجہد کے ذریعے قوم کو شعور دینا ہوگا۔ اگر ہماری نوجوان نسل نے یہ قومی ذمہ داری نہیں نبائی تو شاہد ہماری انی نسلیں ہماری قبروں پر تھوکیں گی۔

Comments are closed.