یہاں منٹو دفن ہے


501279-KishwarNaheed-1359664626-727-640x480
مشرقی پنجاب کے مہان کہانی کار و ڈرامہ نگار بلونت گارگی کی پنجابی کی مشہور کتاب’’حسین چہرے‘‘ سے ایک خاکہ


ترجمہ: الفت تنویر بخاری

قسط اول۔
منٹو کا نام میں نے پہلی بار1944ء میں اس وقت سنا جب میں ملازمت کی تلاش میں پہلی مرتبہ دہلی آیا تھا۔ جنگ کی وجہ سے ہرگریجوایٹ وپوسٹ گریجوایٹ کو بھرتی کیا جارہا تھا۔میں بھی آل انڈیا ریڈیو میں جنگ کی خبریں نشر کرنے والے شعبے میں دو سو روپے ماہوار پرملازم ہوگیا۔
ہم چھ لوگ ایک بڑے سے کمرے میں میز کے اردگرد بیٹھ کر دن بھر میں آدھ گھنٹہ خبروں کے تراجم کرتے اور دس منٹ نشر کرنے میں صرف کرتے باقی سارا وقت گپیں مارتے۔ مگر آرمی کے حکم کے مطابق ہم باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
اکثر ہم دروازہ بند کرکے ایک دوسرے کو لطیفے سناتے۔ ہری سنگھ چڈاماں بہن کی گالیاں نکالتا، سیاسی وادبی دلچسپ واقعات سناتا رنڈیوں اور فوجی لڑکیوں کی ننگی کہانیاں بیان کرتا۔ کبھی کبھی میز کے اوپر چڑھ کر ناچنے لگتا او رہم سب بیک وقت ردھم سے تالیاں بجاتے مگر اس ساری خرمستی کا رنگ ادبی ہوتا۔ اردو افسانے کا ذکر ہوتا تو چڈا(جس کے منہ سے گالی بھی سجتی تھی) کہتا’’آپ کے باپ منٹو نے تمام ادیبوں کی ماں کو۔۔۔!
سردی کے موسم میں باہر رم جھم پھوار پڑرہی تھی۔ دلوں میں عجیب ویرانی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔ چڈا چھٹی لے کر شراب پینے چلا گیا۔ ہم بجھے بجھے، اکلاپے کا شکار تھے۔ کسی کام میں جی نہیں لگ رہا تھا۔ جاتے ہوئے چڈا’’ادب لطیف‘‘ کا افسانہ نمبر چھوڑ گیا تھا۔ میں ورق الٹتا گیا۔ اس میں کرشن چندر کی مشہور کہانی’’ان داتا‘‘ تھی جس میں بنگال کے مہاکال کا بیان تھا۔ اس لمبی کہانی کے میں نے دس بارہ صفحے پڑھ کرچھوڑ دیا۔ دوسرے ادیبوں کی کہانیوں پر نظر دوڑائی مگر دل میں ادبی شعلہ نہ بھڑکا۔
اچانک میری نظر سعادت حسن منٹو کے نام پہ پڑی۔ بہت عجیب نام تھا۔ منٹو۔۔۔جیسے لارڈمنٹو یا نیٹو۔۔۔ یا ومٹو۔۔۔ بہت نقلی اور مزاحیہ نام۔۔۔ پھر کہانی کا نام پڑھا۔۔۔’’بو‘‘
کہانی پڑھنے لگا تو ایک ہی رو میں ساری کہانی پڑھ گیا۔ ہر فقرہ حسین کہانی کے کرداروں کے روحانی او رجسمانی رشتے انتہائی واضح اور جادو بھرے تھے۔ مجھے اب تک اس کہانی کے فقرے ’’تشبیہات‘‘سانسوں کا بیان یاد ہے۔ اس کااتنا گہرا اثر ہوا کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوسکا کہ پانچ بج چکے ہیں اور میرے ساتھی گھر جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کہانی میں جسمانی شگفتگی تھی، ایک چمک تھی۔ انسانی تجربے اور لذت تھی۔ چھوٹے چھوٹے فقروں میں سادگی تھی گویا کسی منجھے ہوئے فنکار میں ہوتی ہے۔
اس کہانی کا ہیرورندھیر ہے جس نے ایک گھاٹن لڑکی کے ساتھ رات گزاری۔رندھیر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھا بورہورہا تھا۔ تو اس کی(ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرنے والی) لڑکی پر نظر پڑی جو بارش سے بچنے کے لئے املی کے پیڑ تلے کھڑی تھی۔ رندھیر نے گلا صاف کرنے کے بہانے کھنکار کر اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اورہاتھ کے اشارے سے اسے اوپر بلالیا۔ دونوں نے کوئی خاص بات نہ کی، جسم نے انگڑائی لی رونگٹے ان کی زبان بن گئے تھے۔
رندھیر نے اس کے بارش میں بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر اس کو اپنی سفید دھوتی دے دی تھی۔ لڑکی نے بھیگا ہوا تہہ بند کھول کر ایک طرف رکھ دیا۔ او ردھوتی لپیٹ لی۔ اس کے بعد وہ چولی کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر بارش میں بھیگنے سے چولی کی تنابوں میں گرہ آکر مزید مضبوط ہوگئی تھی اس نے صرف اتنا کہا’’کھلتی نہیں‘‘ رندھیر نے تھوڑی کوشش کے بعد مضبوط ہاتھوں کے جھٹکے سے چولی کھول دی۔ اس کے ہاتھوں میں گھاٹن لڑکی کی سرمئی چھاتیاں آگئیں۔منٹو اس گھاٹن لڑکی کے جسم کی سانولی چمک او رچھاتیوں کو اس طرح بیان کرتا ہے جیسے کسی کمہارنے کچی مٹی کے دوپیالے چک سے اتارے ہوں۔ جیسے تالاب کے گدلے پانی میں دودئیے جل اٹھے ہوں۔
رندھیر گھاٹن کے جسم کی بو کو ساری رات پتیارہا اور یہ بو اس کے جسم سے ہوتی ہوئی دماغ کے کونے کونے میں سرایت کر گئی تھی۔ پھر جب وہ شادی کرتا ہے اور سہاگ رات مناتے وقت اس کو اپنی دلہن کا حسن پھیکا اور بے رس لگتا ہے۔ جیسے پھٹے ہوئے دودھ کی پھٹیاں، اس کے سرخ ریشمی ازاربند نے اس کے نرم سفید جسم پر نشان ڈال دئیے تھے۔ وہ گھاٹن کے ساتھ گزاری رات اور اس کے جسم کی صحت مند بو کو نہ بھول سکا۔ اس سہانی بو کے سامنے دودھ گھی ملے آٹے کی طرح نرم ملائم او رحنا کے عطر کی گھلی ہوئی خوشبو اور بیوی سے رسمی پیار ومحبت بھی پھیکاپڑگیا۔
کہانی پڑھنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ جدیداردو ادب کے بارے میں ڈھنگ سے سوچا۔ اس سے پہلے میں نے کرشن چندر کی کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ جن کا پس منظر کشمیر تھا۔ جن میں پیار اور غریبی کی تڑپ تھی۔ دوسرے ادیبوں کے افسانے پڑھنے کا بھی موقع ملا تھا مگر سب کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔
یہ تو محض کسی کی کرم نوازی تھی وگرنہ شاید میں کرشن چندر یاراجندرسنگھ بیدی جیسی کہانی کبھی نہ لکھ سکتا۔ مگر ان کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میری تخلیقی صلاحیت کی پروازان سے بہت بلند ہے۔ مگر جب منٹو کو پڑھاتو محسوس ہوا کہ میں ایسی کہانی نہیں لکھ سکتا۔ کاش! میں ایسی انوکھی او ربلند پایہ کہانی لکھ سکتا۔ نہیں میں اتنی مہان کہانی کبھی نہیں لکھ سکتا۔
’’
منٹو میرے لئے کہانی کا مطمع نظر(آدرش) بن گیا۔‘‘ ایک دن اچانک لنچ کے بعد دفتر کا چپڑاسی میری میز پر ایک لفافہ رکھ گیا۔ معلوم نہیں کیوں، مجھے اس لفافے میں کوئی خطرہ نظر آیا، کوئی سنگین جرم، کوئی پریشان کردینے والا پیغام۔ لفافہ کھولنے سے پہلے مجھے اس وقت کی بددلی آج تک یاد ہے۔ لفافہ کھولا۔ مجھے ملازمت سے برخواست کردیا گیا تھا۔ میں لفافہ لے کر منیجر بخشی کے پاس گیا اس نے کہا’’ہم کوئی وجہ بتانے کے لئے تیار نہیں۔ یہ رہی آپ کی ایک مہینے کی ایڈوانس تنخواہ‘‘
میری معطلی کا یہ پروانہ اس لئے آیا تھا کہ حکومت نے خفیہ پولیس کے ذریعے میری پچھلی سرگرمیوں کی چھان بین کرلی تھی۔ ان کو پتہ چلا کہ1942ء کی آزادی کی تحریک میں حصہ لینے پر مجھے گرفتار کیا گیا تھا۔ معطلی کے لئے یہ جرم کافی تھا۔
میں نے کمرے میں جاکر اپنے ساتھیوں کو یہ خبر سنائی۔ ہمدردی کے کارن ایک ہندی مصنف رونے لگ گیا۔ میں نے نئی تنخواہ میں سے ایک نیا نوٹ نکالا اور سب کے لئے چائے او رپیسٹری کا آرڈر دیا۔
چڈا نے اس چھوٹی سی الوداعی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خاص انداز میں کہا’’اوئے الو کے پٹھو! تم سب یہاں سرکارکی غلامی کرتے رہو گے۔ یہ پنچھی آزاد ہوگیا۔‘‘
جاتے وقت اس نے مجھے منٹو کی کہانیوں کی کتاب تحفے میں دی۔ وہ خود منٹو کے ساتھ دلی ریڈیو اسٹیشن میں کام کرچکا تھا۔ اور اکثر منٹوکی باتیں بتاتا تھا۔ وہ کہتا’’منٹو سب کا باپ تھا۔ یہاں دو سال ملازمت کرکے وہ بمبئی چلا گیا او راپنے پیچھے ایک سو ڈرامے او رفیچر چھوڑ گیا۔ یہ اوپندرناتھ اشک ساری عمر اس کے ساتھ دوستی کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر اس نے نزدیک نہ آنے دیا۔‘‘
منٹو کی ادبی دوستی بڑی وسیع او ربہت شاہانہ تھی۔ جس میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی او راحمد ندیم قاسمی شامل تھے۔ مگر اوپندرناتھ اشک کبھی اس حلقے میں شامل نہ ہوسکا۔ وہ باہر ہی رہا ہے ریڈیو اسٹیشن پر ایک جگہ کام کرتے ہوئے وہ منٹو کی بلند پایہ ادبی قدروں کو نہ چھوسکا۔
منٹو ہندوستانی ادب کا اونچا مینارہ تھا۔۔۔مجھے اس وقت بھی اس بات کا احساس تھا کہ منٹو ایک انوکھا، ادبی معجزہ ہے۔ میں جانتا تھا کہ کچھ عرصہ بعد لوگ دریافت کریں گے کہ منٹو کسی کیفے ٹیریا میں بیٹھا کرتا تھا، کہاں رہتا تھا، کس قسم کا پین استعمال کرتا تھا، ریڈیو اسٹیشن کے کس کمرے میں بیٹھ کر لکھا کرتا تھا۔انہی دنوں میں منٹو کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں سے ملا اور اس کے متعلق چھوٹی چھوٹی معلومات اکٹھی کیں۔ ریڈیو اسٹیشن کی دوسری منزل پر صنوبر خاں کا ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں وہ چائے پینے جاتا۔ منٹو تھیلے میں اردو کا چھوٹا ساٹائپ رائٹر لے کر ریڈیو اسٹیشن آتا اور سیدھا ٹائپ رائٹر پر ہی ڈرامہ لکھ دیتا۔ اس کو اپنے فن پر بڑا ناز تھا کئی مرتبہ شرط لگا کر ڈرامہ لکھتا۔ ایک دفعہ اس نے دوستوں کے سامنے اعلان کیا کہ وہ کوئی بھی نام یا مضمون تجویز کریں وہ اس پر ڈرامہ لکھ دے گا۔ شرط دو درجن بےئر کی بوتلیں تھیں۔
ایک دوست نے کہا’’کبوتری۔ لکھ اس پر ڈرامہ‘‘منٹو نے ٹائپ رائٹر پر کاغذ چڑھایا اور’’کبوتری‘‘ ڈرامہ لکھ دیا جو بے حد مقبول ہوا۔ ایک دفعہ وہ دوستوں کے ساتھ ڈرامے پر شرط لگارہا تھا کہ کسی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا’’کیا میں اندر آسکتا ہوں‘‘ دوسرے آدمی نے کہا’’منٹو! مزہ توتب ہے کہ تو اس عنوان پر ڈرامہ لکھے۔بےئر کی بوتلوں کی شرط لگ گئی۔ منٹو نے’’کیا میں اندر آسکتا ہوں‘‘ پر ڈرامہ لکھ دیا۔
ایک مرتبہ کسی مصنف نے ریڈیو پر اپنا پروگرام منسوخ کردیا۔ چاروں طرف ہلچل مچ گئی کہ اس پروگرام کو پورا کیسے کیا جائے۔ منٹو سے کہا گیا کہ وہ کوئی فیچر یا ڈرامہ لکھ دے وہ غصے سے بولا’’میں نہیں لکھ سکتا۔ مشین کو بھی وقت چاہئے‘‘ اس کی منت سماجت کی گئی۔ ایک دوست نے ٹائپ رائٹر کھول کر کاغذ چڑھایا او رمنٹو سے کہا’’یار ، لکھ دونا! ہم باہر بیٹھے انتظار کررہے ہیں۔ منٹو تھوڑی دیر ٹائپ رائٹر کے ساتھ بیٹھا رہا اور کاغذوں کو گھورتا رہا۔ پھر اس نے’’انتظار‘‘ تخلیق کردیا۔
یہ ڈرامہ اس کے بہترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔ اس میں اس نے تکنیکی او رنفسیاتی نقطہ نظر کا تجربہ کیا۔ ایک نوجوان اپنی محبوبہ کو خط لکھ رہا ہے کہ وہ بیٹھا اس کا انتظار کررہا ہے۔ یہ نوجوان دو نفسیاتی پہلوؤں سے بولتا ہے ایک شعور دوسرا لاشعور، دونوں میں سپنس بھرے مکالمے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں دونوں کی آپ بیتیاں ہیں، لاشعوری کردار والا نوجوان شعور والے نوجوان کو روکتا ٹوکتا بحث ومباحثہ کرتے ہوئے اس سے باتیں کرتا ہے اور اس کے دل میں پڑی ہوئی گرہیں کھولتا ہے۔
اس قسم کا ڈرامائی تاثر اور کردار کی زندگی پر گہری نظر منٹو کی ادبی وفنی خوبی تھی۔
ریڈیو اسٹیشن کے ایک ڈائریکٹر ایڈوانی نے منٹو کے کسی ڈرامے کے فقرے پر اعتراض کیا اور اسے تبدیل کرنے کے لئے کہا۔ (انہی دنوں اے، ایس بخاری ڈائریکٹر جنرل تھے اور ایڈوانی کاکافی اثر ورسوخ تھا او ربہت دلیر ڈائریکٹر بھی) منٹو نے بھری محفل میں کہا’’ایڈوانی صاحب کو اردو ڈرامہ لکھنے کی سمجھ کہاں، اردو کا ڈرامہ پڑھنا بھی نہیں آتا الٹا میرے ڈرامے میں سے غلطیاں نکالتے رہتے ہیں۔‘‘
ایڈوانی غصے سے لال پیلا ہوگیا انہوں نے منٹو کے خلاف تادیبی کارروائی کرنی چاہی۔ بات بخاری صاحب تک پہنچی منٹو نے بخاری صاحب سے کہا۔ میں نے جو کہا وہ درست ہے جس کا نام ہی ایڈوانی ہے اس کو اردو کے متعلق کیا معلوم ۔
میں دلی سے چلا گیا کچھ ماہ بے کار رہا۔1944ء میں میرا پنجابی کا پورا(ناٹک) ڈرامہ’’لوہاکٹ‘‘ شائع ہوا تو لاہور اسٹیشن نے مجھے بطور آرٹسٹ ملازمت دے دی۔ یہاں راجندرسنگھ بیدی کام کرتا تھا۔ دلکش آواز کے جادوجگانے والی آپا شیما(موہنی داس) تھی۔ امتیاز علی تاج اوررفیع احمد پیر ڈرامہ پروڈیوس کرنے آتے۔ ملکہ پکھراج ریڈیو میں بیٹھی پان چھالیہ چباتی رہتی۔ بہترین تخلیقی ماحول تھا۔ ان محفلوں میں منٹو کا اکثر ذکر ہوتا۔
لاہور کے اردو رسالے’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر وپبلشر نذیر احمد تھے، نذیر احمد پنجاب کے کسی گاؤں کا ارائیں تھا۔ جہاں اسے نذیرا کہتے تھے۔ چہارم پاس۔ درمیانہ قد تنومند، چمکتے ہوئے دانت اور وہ خالص پنجابی بولتا تھا۔ اس نے اپنے چاچا برکت علی سے مل کر’’مکتبہ اردو‘‘ کی بنیاد رکھی، جو سارے ہندوستان کا سب سے بڑا اور مقبول پبلشنگ ہاؤس بن گیا۔ وہ نذیر اسے نذیر احمد او رپھر چوہدری نذیر احمد بن گیا۔
نذیر احمد خودہر کہانی پڑھتا اور صحیح طرح جانچتا۔ مگر منٹو واحد ادیب تھا۔ جس کی کہانی کی خاطر وہ اکثر اوقات اپنا پرچہ شائع کرنے میں تاخیر کرتا وہ منٹو کو خط لکھتا۔ ٹیلیگرام بھیجتا اور جب منٹو کی کہانی بمبئی سے آتی تو مارے خوشی کے قہقہے لگاتا اور کہتا’’اب میرا پرچہ مکمل ہوگیا ہے۔‘‘ جب منٹو کی کہانی’’بو‘‘ شائع ہونے کے بعد اس پر فحاشی کا مقدمہ چلا تو اس کو تاریخ بھگتنے لاہور آنا پڑا۔
ضلع کچہری میں بہت سے مصنف وادیب اس کے حق میں گواہی دینے گئے میں نے پہلی مرتبہ اس کو وہاں دیکھا۔
پتلا لمبا جسم، بیدجیسی لچک، چوڑی پیشانی، کشمیری تراشا ہوا ناک، اور آنکھوں پر چشمہ، اس نے سفید قمیض، شیروانی، لٹھے کی شلوار اور زری کا جوتا پہن رکھا تھا۔ سر غرور سے اونچا اس نے بڑی لاپرواہی سے ہمیں دیکھا۔ وہ عصمت چغتائی کے پاس کھڑا تھا۔ ہم سب عدالت کے اردلی کی آواز سننے کے انتظار میں تھے۔ پروفیسر کنہیالال کپور نے ہم سب کا تعارف کرایا۔ مگر منٹو کے منہ سے شکریہ کا کوئی روایتی لفظ بھی ادا نہ ہوا۔ نہ ہی کسی قسم کی خوشی کا اظہار۔ اتنے میں چوہدری نذیر احمد جلدی سے آیا’’چلو آواز لگ گئی ہے!‘‘
مصنفین کا یہ گروہ جج کے کمرے میں داخل ہوا اور’’بو‘‘ کے فنی پہلوؤں او رخوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے بیان دئیے اور کہا کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ ادبی شاہکار ہے۔
پنجابی ادیبوں میں سب سے بڑے سردار گربخش سنگھ ’’پریت لڑی‘‘ والے تھے۔ جنہوں نے خود پیار کی کہانیاں تحریر کیں اور سماجی بغاوت کا علم بلند کیا تھا۔ جب انہیں منٹو کی اس کہانی کے حق میں شہادت دینے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ کہانی فحش ہے۔ جب عصمت اورمنٹو کو معلوم ہوا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ منٹو نے کہا’’حیران کن بات ہے کہ پنجابی میں ایسے ادیب بھی موجود ہیں۔ اس زبان کے ادب کا اللہ ہی مالک ہے۔‘‘
شہادیتیں قلمبند ہوئیں۔ جج نے اگلی پیشی کی تاریخ مقرر کردی ضلع کچہری کے ماحول سے منٹو کی طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے بینچ لوہے کی کرسیاں، گردوغبار، وکلا او رمنشیوں کی قانونی سودے بازی، عجب گھبراہٹ و پریشانی، تمام مصنفین ملزم نظر آرہے تھے۔
منٹو نے کہا’’نذیر، میں گھر جاؤں گا۔ یکہ منگوا دو۔‘‘
یکہ آیا تو منٹو اس پر سوار ہوگیا۔
’’
کسی اور نے جانا ہے؟ صرف ایک‘‘
میں نزدیک کھڑا تھا۔ فوراً آگے بڑھا اور بیٹھ گیا۔ منٹو ٹانگیں پھیلائے پچھلی نشست پر براجمان ہوا۔ راستے میں چند ایک باتیں ہوئیں۔وہ گویا ہوئے’’یہ لوگ خوامخواہ مجھے ہیرو بنارہے ہیں۔ مجھے جیل سے ڈرلگتا ہے۔ ہر باربمبئی سے یہاں آنا بہت مشکل ہے۔ بہت مہنگا۔
یہی جرمانہ کافی ہے۔ فلم کی کہانی کا سکرین پلے تیار کررہا تھا کہ چوہدری کا ٹیلیگرام گیا۔۔۔
تم کیا کرتے ہو۔۔۔؟‘‘ میں نے اپنے متعلق تھوڑا سا بتایا۔
اس کا مجھ پر خاصا رعب تھا۔ نیلا گنبد پہنچ کر میں اتر گیا۔ وہ کہنے لگا’’میں سیدھا گھر جاؤں گا۔۔۔ صفیہ بھی آئی ہوئی ہے۔ میں نے جاکر چوہدری کے لئے افسانہ ختم کرنا ہے‘‘ پھر اک دم بولا شام کو تم میری طرف آجانا۔ اس وقت تک میں افسانہ ختم کرلوں گا۔‘‘ مجھے چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ اس کے جانے کے بعد میں نے تمام واقعے کا جائزہ لیا اس کی آواز باریک او رگرم تھی جس میں اس کی شخصیت کی تمام شدت شامل تھی۔ یہ آواز لیڈروں کی سی تھی نہ درویشوں جیسی، اس میں بے تابی اور دعوت تھی۔ وہ میرے ساتھ پنجابی میں بات چیت کررہا تھا۔
شام کو میں منٹو کو ملنے گیا۔ و ہ فیروز شاہ کے علاقے میں کسی رشتہ دار کے ہاں قیام پذیر تھا۔ ملازم نے آکر کہا کہ میں ڈرائنگ روم میں بیٹھوں۔ کیونکہ منٹو صاحب کہانی لکھنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی کہانی تھی جو ’’ادب لطیف‘‘ میں’’راج بھیا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ پھر’’میرا نام رادھا ہے‘‘ کے نام سے۔ اس میں اس نے پر تھوی راج کپور کے خالص پن کا مذاق اڑایا تھا۔ دس منٹ کے بعد منٹو ساتھ والے کمرے سے نکلا۔ پرتپاک لہجے میں پوچھا، چائے پیوگئے۔‘‘
پھر اس نے آواز دی’’صفیہ! کیا کررہی ہوَ ادھر آؤ‘‘ منٹو نے تعارف کرایا۔ اتنے میں کچھ اور ادیب آگئے۔ چوہدری نذیر بھی آگیا۔ کسی کے گھر محفل تھی وہ منٹو کو لینے آیا تھا۔ منٹو نے مجھ سے کہا’’اچھا پھر کل ملاقات ہوگی’’مکتبہ اردو میں ہوں گا۔‘‘
منٹو کے پاس قلم نہیں تیز نشتر تھا جس نے سماج کی رگوں سے گندا خون نکالا تھا۔ وہ حکیم نہیں سرجن تھا۔ اس کی تیز نگاہ ڈبل لینز کاکام کرتی تھی۔ اس کے بیان میں چاشنی تھی۔ سب جانتے تھے کہ وہ ان سے کافی بہتر لکھتا ہے۔ تمام اس کے فن کا لوہامانتے تھے۔
میں منٹو کو پھر ملا۔ وہ مکتبہ اردو میں بیٹھا اپنی کتاب کے اشتہار کی عبارت دیکھ رہا تھا۔ اس میں لکھا تھا منٹو اس دور کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ چیخوف کے برابر، جذبوں کو اپیل کرنے والا، اور سحرانگیز، اس کے افسانے فن کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔
منٹو بولا، اوئے چوہدری یہ کیا بکواس لکھی ہے‘‘ اس نے سارے تعریفی الفاظ کاٹ دئیے او رکتاب کا اشتہار خود بنایا۔ جس میں لکھا تھا۔ منٹو بکواس لکھتا ہے منٹو کو لوگ فحش کہتے ہیں مگر منٹو کو ایک بار پڑھنا شروع کردیں تو کہانی ختم کئے بغیر چھوڑ نہیں سکتے۔
اشتہار میں’’بکواس‘‘ اور’’فحش‘‘ کے الفاظ موٹے حروف میں تھے وہ باتیں جو اس کے حریف چاہتے تھے اس نے خود ہی تحریر کردیں تاکہ لوگوں کو جھٹکا لگے۔
اس کو شیریں الفاظ، تحریر اور رسمی فقروں سے بلا کی چڑتھی۔ ایک دفعہ کسی نے اس کی کسی بڑی ہستی سے ملاقات کرائی۔ اس آدمی نے کہا منٹو صاحب! آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، منٹو نے جواب دیا’’آپ سے مل کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی‘‘ یہ انداز، یہ کڑوا سچ، یہ چونکا دینے والا جادو اس کے مزاج کا حصہ تھا۔
چوہدری نذیر نے بتایا کہ منٹو کیلاش ہوٹل میں ہے۔ وہ کہہ گیا ہے کہ میں وہاں چلا جاؤں۔ کیلاش ہوٹل انار کلی بازار میں تھا۔ تین منٹ کا سفر تھا میں ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر پہنچا۔ منٹو تین لوگوں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا’’ بس ابھی چلتے ہیں‘‘ تم پؤ گئے۔ میں نے کہا’’نہیں‘‘
ایک ادیب بولا منٹو صاحب آپ کی کہانیاں کمال ہیں۔’’ہتک‘‘ اور کالی شلوار‘‘ توشاہکار ہیں۔ کوئی بھی اتنی اعلیٰ کہانی۔۔۔‘‘
منٹو بولا’’بکواس بند کرو۔ تم نے شراب پینی تھی۔ پی لی اب دفع ہوجاؤ۔‘‘
میں سہم گیا۔ وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ منٹو بولا میں آپ کا انتظار کررہا تھا۔ کہ یہ تینوں حرام زادے اپنی ٹیبل سے اٹھ کر ادھر آ گئے۔ دو دو پیگ پی کر بہکنے لگ گئے میری تعریف کر کے تیسرا پیگ پینا چاہتے تھے۔ چلو چلیں۔‘‘
میں ساتھ ہوگیا۔ راستے میں پوچھا ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’
عبدالباری کے پاس‘‘
مجھے یاد نہیں کہ ہم عبدالباری کے گھر گئے یا کسی او رجگہ ملاقات ہوئی۔ میں عبدالباری کو کئی ادبی سیاسی محفلوں میں دیکھ چکا تھا۔ وہ سانولے رنگ کا صحافی تھا اور دنیا بھر کے حوالے دے کر لیکچر دیتا۔ اس کے خشک لیکچر سن کر مجھے کبھی اس سے ملنے کی خواہش نہیں ہوئی۔ مگر منٹو اس کو ڈھونڈتا پھرتا تھا اس نے مجھے بتایا کہ عبدالباری اس کا ادبی استاد ہے۔
ہم تینوں ایک اعلیٰ پشاوری یکے میں بیٹھے۔ میں اور عبدالباری اگلی سیٹ پر کوچوان کے ساتھ اور منٹو اپنی عادت کے مطابق زری کا جوتا پہنے پچھلی نشست پر ٹانگیں پسار کے بیٹھ گیا ۔ یکہ مال روڈ پر دوڑنے لگا۔جنرل پوسٹ آفس سے گذرکریکہ رک گیا۔باری نیچے اترا۔ منٹو نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے ایک سبز نوٹ نکال کر اسے دیا باری بھولانا تھ کی دکان پر گیا ہم دونوں یکے پر ہی بیٹھے رہے۔ دس منٹ گذرگئے منٹو نے بیتابی سے کہا’’یہ جاہل میرا وقت ضائع کررہا ہے۔ اتنی دیر؟ کیا ہیرے خرید رہا ہے؟بکواس‘‘!
اتنے میں باری نظر آیا وہ بھاری قدموں سے چلتا ہوا یکے پر آکر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں جانی واکرکی بوتل تھی۔ منٹو نے پوچھا’’ٹھیک ہے؟‘‘ باری بولا’’ہاں‘‘
یکہ پھر سرپٹ دوڑنے لگا۔ ہم عجائب گھر، گورنمنٹ کالج کے سامنے سے گذر کر راوی روڈ پر جارہے تھے۔ کیا یہ لوگ بوٹنگ کے لئے جارہے تھے؟ شام ڈھل چکی تھی لائٹیں جل چکی تھیں۔ یہ کہاں جارہے تھے؟ مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ ان کی منزل ہیرا منڈی ہے جہاں طوائفوں کا بازار تھا۔ شاہی مسجد کے قریب بازار میں یکہ رکا۔ باری نے یکے والے کو پیسے دئیے تو ہم تینوں بازار حسن میں داخل ہوگئے۔ میں اس سے پہلے کبھی ادھر نہ آیا تھا۔
اس کی وجہ کوئی نیک چلنی کی بندش نہ تھی مجھے ویسے ہی طوائفوں اور دلوں کے پیشے سے ڈرلگتا تھا۔ بچپن سے میرے ذہن میں یہ نقش تھا کہ یہ لوگ جھگڑالو او رپیسے کے پیر ہوتے ہیں۔ یہاں چھریاں چلتی ہیں۔ اس ڈر کے پیچھے ایک انجانی دنیا میں پہلا قدم رکھنے کی سنسنی اور کپکپی چھپی ہوئی تھی۔ مگر اس وقت منٹو میرے ساتھ تھا۔ اس لئے مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جیسے کوئی مگرمچھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر دریا کی سیر کررہا ہو۔
(
جاری ہے)

Tags: