شاہ عنایت شہید کی جدوجہد۔(دوسرا حصہ)۔

00_mohabbat jo alumbardar - Shah Inayat Shaheed

سندھ دھرتی پر پہلا کمیون سماج قائم کرنے والے شاہ عنایت شہید کی زندگی پہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب کے اہم حصے:۔

قسط دوم

ملک سانول رضا

ادھر شاہ عنایت بھی داؤ پیچ کا ماہر تھا. اسے فوراٰ اندازہ ہوا کہ سلامتی کے دن تھوڑے رہ گئے۔ اس کی تحریک جائیداد و جاگیر والوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ مگر یو ٹوپیائی ذہن نے بہت بڑے مقابلے کا نہیں سوچا تھا۔ یوٹوپیائیوں میں بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ ترغیب کو سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ مقابلہ جنگ ان کے ہاں شورش و فساد ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ نصیحت و مثال سے بہتر کرنا چاہتے ہیں…… یہ خاصیت یورپی اور ایشیائی دونوں مفکروں میں موجود تھی۔

چنانچہ شاہ اپنی تحریک کو جنگ کے میدان میں جھونکنا نہیں چاہتا تھا. لہٰذا اس نے ایک قدم پیچھے ہٹایا. شاہ غلام محمد کو واپس ہندوستان بھیج دیا اور شاہ اسمعیل صوفی. مسعود و الہاری. شاہ عبداللطیف اور شاہ عبدالکریم ٹھٹھوی کو ٹھٹھہ کا نظریاتی محاذ حوالے کیا اور خود سینکڑوں مریدوں اور فکری ساتھیوں کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں میرانپور میں آ گیا جسے اس دن کے بعد جھوک کا نام مل گیا۔

شاہ عنایت کا دانشوارانہ کمال یہ ہے کہ اس نے نہ صرف موجود کو ناقابل قبول قرار دیکر مسترد کیا , نہ صرف اس زمانے کے رائج ظلم ناانصافی اور لوٹ کھسوٹ کے نظام سے بغاوت کی بلکہ اس نظام کا متبادل فراہم کیا۔ اس نے :ام الخباعث: یعنی ذاتی ملکیت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا تصور دے دیا اور حقیقی معنوں میں ایک بیت المال قائم کر دیا. جس کے آٹومیٹک انداز میں امن آشتی پیار اتحاد مساوات اور اشتراک کے نظام نے صورت پذیر ہونا تھا۔

شاہ عنایت نے سب سے پہلے خود اپنی آبائی زمین مشترکہ ملکیت قرار دی اور محنت و پیداوار دونوں میں مساوی شرکت کا اصول جاری کیا۔ اس کے مریدوں گاؤں والوں اور اہل خاندان نے اس اقدام کو بہت پسند کیا. چنانچہ وہ سب اکٹھے اس کھیت پر محنت کرنے لگے اور پیداوار کی تقسیم کے وقت برابری کرنے لگے۔

یہاں زمین چوپائے مال مویشی زرعی اوزار اور دیگر اشیاء کسی ایک فرد کی ملکیت نہ تھیں بلکہ یہ ساری مشترکہ ملکیت کی تھیں. گینتی بیلچہ چلانے والے کلہاڑی استعمال کرنے ہل چلانے پانی لگانے مال چرانے یا کسی اور کام سے کوئی بھی بالاتر اور آزاد نہ تھا. جھوک کے اس نئے سماج میں کمانڈر اور مرشد سب کام کرتے تھے دوسرے کی محنت پہ پلنا بے عزتی سمجھی جاتی تھی۔

یہاں کوئی سماجی نسلی مزہبی اور قبائلی امتیاز موجود نہ تھا. کسی قسم کی بڑائی چھوٹائی موجود نہ تھی. اس طرز زراعت میں شامل لوگ بہت مطمئن ہوئے اور ان کی مالی حالت سدھر گئی. وہ سب سماجی طور پر آزاد انسان بنے.
شاہ عنایت اپنے پیروکاروں میں صرف دولت اور ضرویات زندگی کی مساویانہ تقسیم کی بات نہیں کرتا تھا بلکہ وہ تو پیداواری عمل میں محنت مشقت میں بھی مساوی شراکت گردانتا تھا
. پیداورای عمل میں شرکت کے بغیر پیداوار کو مساوی بانٹنے کی بات ہی عقل و دلیل کے خلاف تھی۔ شاہ عنایت نے قانون معیشت کا یہ راز پا لیا تھا کہ اصل چیز پیداواری عمل ہے اور اصل مساوات وہ ہے جو پیداواری عمل کے دوران قائم ہو نہ کہ محض تقسیم کے دوران۔

تقسیم کے دوران مساوات والی تو ڈاکوؤں کے ہاں بھی قائم ہے جو لوٹ کا مال باہم بانٹ لیتے ہیں۔ اصل مساوات تو محنت کرنے کے اندر ہوتی ہے. پیداواری عمل میں مساوات میں شرکت کے بغیر  مساوات ممکن ہی نہیں۔ اس کا پکا عقیدہ تھا کہ کھیتی باڑی اجتماعی اصولوں پر کی جائے. پیداواری عمل میں سارے لوگ برابر کے شریک ہوں اور وی فصل کو حسب ضرورت آپس میں تقسیم کریں. کوئی مالک نہ ہو گا کوئی محکوم نہ ہو گا سب ایک جیسے ہونگے. سب محنت کریں گے سب خوشحال ہونگے شاہ عنایت کے کامریڈوں نے اس فلسفے پر عمل کیا اور بہت کامیاب ہوئے (ہمیں مشرق پہ تکبر نہیں مگر فخر ضرور کرنا چاہئیے)”.

اب اچانک صدیوں سے جاری اس مروج کے خلاف ہزاروں انسان اٹھ آئے تھے. گھر بار چھوڑ دئیے جاگیرداروں کی غلامی میں اگائی گئی اپنی فصلیں ترک کر دیں. ملا پیر اور حاکم کی صبر شکر کی خانقاہیں چھوڑ دیں….  … اور سب اس نئے طرز میں آن شامل ہوتے گئے. نتیجے میں آستانیں خانقاہیں حجرے خالی ہوتے رہے اور اجتماعی کاشت کاری کےفلسفے سے وابستگی قبولیت پاتی گئی۔

چند روزہ زندگیکا فلسفہ ہار گیا اور عدم مساوات خدا کی طرف سے ہےوالے فلسفے کو بھی شکست ہوگئی. اور اس کے مقابلے میں زمین اللہ کیکا فلسفہ جیت گیا. ‘جو بوئے وہی کھائےوالی بات پزیرائی پا گئی“.

کسانوں کے اس اجتماع اور فیوڈل مخالف تحریک نے مغل حکمرانوں کی نیندیں بھی حرام کر دیں اور انہیں اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا“.

ادھر بادشاہ فرخ سیر کے بھی کان کھڑے ہو گئے اسے اس تحریک کے تیزی سے پھیلاؤ اور مقبولیت سے خوف آنے لگا. اس نے میر لطف علی خان کو فقیروں کے ساتھ نرمی برتنے کے جرم میں اس کے عہدے سے ہٹا دیا اور 1716 میں نواب اعظم کو ٹھٹھہ کا صوبیدار مقرر کیا.
کہتے ہیں کہ وہ موقع پر حالات کا مشاہدہ کرنے اود کمیون کے نظریاتی اور انتظامی سربراہ سے ملنے خود جھوک چلا گیا. اس وقت شاہ عنایت ذکر و عبادت میں مصروف تھا. درویشوں نے اسے انتظار کرایا. جب ذکر و فکر کا دورانیہ ختم ہوا تب اسے شاہ عنایت سے ملوایا گیا. ملاقات پہ اعظم خان نے کہا
؛درویشوں کے دروازے پر دربان اچھے نہیں لگتے؛

انقلابی نے فی البدیہہ جواب میں کہا

؛ٹھیک ہے تاکہ دنیا کا کتا اندر نہ آنے پائے؛

مگر اب تو سگ دنیا اندر آ چکا تھا۔ اس کے غرور کی انا مجروح ہو چکی تھی۔ تکبر زخمی بھیڑیا بن چکا تھا. ارے یہی تو انقلاب تھا. سوشلٹ انقلاب.. جو تین سو سال بعد بھی سندھی فیوڈل کو قابل قبول نہیں ہے.۔آج کون فقیر ہے جو جاگیردار کو کتا کہے. اپنی بہادری کے بل بوتے پر نہیں بلکہ مضبوط تنظیم اور عوام الناس کی حمایت کے بل بوتے پر؟. کوئی نہیں ہے ناں۔.

اب حکمران طبقہ طے کر بیٹھا کہ یہ تو باقاعدہ ایک متوازی حکومت تھی. ایک مقبول عام متوازی نظام حیات تھا. اس کی جڑیں اکھاڑنا ضروری ہو گیا تھا. ورنہ جھوک نے سینٹ پیٹرزبرگ بننا تھا۔.

لہٰذا نجی ملکیت بپھر گئی اس کے منہ سے جھاگ آنکھوں میں وحشت اور زلفوں میں اضطراب پیدا ہوا. اس کے ہونٹ دانتوں میں دب گئے اس کی انگلیاں مکے میں اکڑ گئیں اور اس کا غصہ مرتکز و مجتمع ہونے لگا.
نجی ملکیت کے چوکیدار اعظم خان نے لگان دینے سے فقیروں کے انکار کو بہت بڑھا چڑھا کر فرخ سیر کو رپورٹ روانہ کر دی۔

فیوڈل بادشاہت کو جب یہ رپورٹ پہنچی کہ شاہ عنایت نظریے کے ذریعے ایک علیحدہ سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے تو پھر بادشاہ غصے سے بپھر گیا۔ اسی تخت کو بچانے تو بھائیوں نے بھائیوں کو بیٹوں نے باپ کو کالی اور نم بھری جیلوں میں جھونک رکھا تھا. اور باپوں نے بیٹوں کی آنکھیں نکال دی تھیں۔

اور یہ حقیر فقیر؟. ارے اس کی کیا مجال کہ نہ تونواب ہے نہ جرنیل اور ابھی تک اسکا کوئی سماجی مقام رہا ہے.   .  چنانچہ گورنر نے فقیروں کو نیست و نابود کرنےکا حکم جاری کر دیا.

تب نواب اعظم خان , یار محمد کلہوڑا اور دوسرے سارے جاگیر داروں نے اپنی ذاتی افواج اکٹھی کیں اور یہ ساری قوتیں شاہی فوج سے مل گئیں. اس مشترکہ بہت بڑی فوج 13 اکتوبر 1717 میں جھوک کا محاصرہ کر لیا. ہمارے وطن کے سبی اور گنداواہ اس وقت کلہوڑوں (دراصل مغلوں) کے قبضے میں ہوا کرتے تھے۔اس فوج میں میر شہداد بلوچ بھی شامل تھا. نیز چانڈیوں کی سلطنت چانڈکا (لاڑکانہ) کی افواج بھی اس سرکاری اور فیوڈل فوج میں موجود تھیں.

اس بہت بڑی فوج کے علاوہ چھوٹے موٹے پیروں ملاؤں اور وڈیروں کے دستے بھی رد انقلاب کی اس جنگ میں شامل ہو گئے..   ساری فیکلٹیز مجتمع سادی لوازمات مرتکز ساری قوتیں موجود..  مراعات یافتگی اپنی بقا کے لئے جان لڑا دیتا ہے.”

یار محمد کلہوڑا بھی جب سازش میں شریک ہوا تو لوگوں نے شاہ عنایت کو اس کا وہ قول یاد دلایا جب اس نے اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیر کر شاہ عنایت سے وفادار رہنے کا کہا تھا.
شاہ نے جواب دیا
(
یار محمد نے داڑھی پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے وعدہ کیا تھا لیکن وہ داڑھی نہیں کتے کی دم تھی)

یہ حملہ شاہ عنایت اور اس کے دربار پہ نہ تھا. یہ جنگ تو ان سارے مفلسوں اور مظلوموں کے لئے موت و زیست کی جنگ تھی ….. وہ اس دوزخ میں دوبارہ نہیں جانا چاہتے تھے جہاں غیر متوازن  معاشی نظام میں ان کے آزاد کردہ جسم ذہن اور فکر دوبارہ زنجیروں میں جکڑے جانے تھے. غلام کو زنجیروں میں ڈالنا اس قدر ہولناک نہیں جتنا کہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے کو دوبارہ زنجیریں پہنانا. یہ تو قہر ہوتا ہے. اس لئے آزاد شدہ کسان شاہ عنایت کے فلسفےالارض اللہ کس جھنڈا بنا کر پورے ایمان اور عقیدے اور کٹمنٹ کے ساتھ مزاحمتی جنگ میں کود پڑے. ..”

ارے بابا اگر مرنے کا کوئی مقصد ہو تو انسان مر جانے سے نہیں ہچکچاتا. اور یہی تو جھوک کے کسان کی قوت تھی ۔ جھوک انقلابی کسی پشیمانی کے بغیر ہنس کر موت سے ہم آغوش ہو سکتا تھا. اس لئے کہ اسے  پتہ تھا کہ وہ سچ پہ ہے۔رہی بات ڈسپلن کی تو طویل جنگ تو خود ہی ڈسپلن کی دادی ہوتی ہے. انقلابی جنگ مورچے کے انتخاب کا موقع نہیں دیتی وی آٹو میٹک طور پر آپ کو وہیں لا کھڑا کر دیتی ہے جہاں آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہو

کسانوں کی اس حکمرانی کو پلک جھپک میں فرو کرنے کے لئے حکمران طبقے کے سارے اندازے غلط ثابت ہوگئے توپ و تفنگ سے لیس فوج کا جھوک کے فقیروں پر فتح پانے کا کوئی امکان نہ رہا“.

دشمن کی حکمت عملی تو وہی رہی البتہ داؤ پیچ بدلنے کا فیصلہ ہوا. اب شیر نے گیڈر بننے کا فیصلہ جیا. تب سرکار کے دل میں موجود لومڑی آگے آئی. آمنے سامنے کی جنگ میں شکست خوردہ شاہی افواج نے اب کسانوں کے ارفع و اعلیٰ عقائد کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لیا. فیوڈل میاں یار محمد نے اپنے طبقے کی خصلت کے عین مطابق دغا سے کام لیا اور یکم جنوری 1718 کو شاہ عنایت کے سامنے صلح کی تجویز پیش کر دی.

طریقہ کی پستی تو دیکھئے. میاں خدا یار کلہوڑہ کے بیٹے محمد خان اور شہداد تالپر وغیرہ جو کہ سالاران فوج تھے قرآن ہاتھوں میں لے کر جھوک کی طرف روانہ ہوئے. (قران کی قدر و قیمت ملا اور فیوڈل کے پاس کہاں ہوتی ہے. قرآن کی عظمت کا احساس تو کسان کے پاک دل میں ہوتا ہے) اور دشمن نے اب کسان کا قران ہاتھوں میں اٹھائے جھوک کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا. اب تو اس کے پاس ایٹم بم سے بھی بڑا ہتھیار آ گیا تھا. وہ اس قران کے واسطےبدےبکر اور اس کو ضامن جتلا کر شاہ عنایت سےملنا چاہتے تھے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جب قرآن روانہ ہوتا ہے تو عوام اس کے لئے راستہ بناتے ہیں۔ قراآن آگے بڑھے تو عوامی صفیں احترام میں شق ہو جاتی ہیں۔ جب قرآن اٹھتا ہے تو لوگ اسے اٹھانے والے ہاتھوں کے عزائم نہیں دیکھتے وہ ان ہاتھوں کء غلاظت کو نہیں دیکھتے۔ وہ تو بس ان ہاتھوں پہ موجود تقدس بھرا قران دیکھتے ہیں

جاری ہے.

Comments are closed.