ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری ناقابل برداشت : اڈوانی

006_lk_advani

نئی دہلی ۔ بی جے پی کے سابق حکمت عملی ساز سدھیندرا کلکرنی پر شیوسینا کے کارکنوں کی جانب سے سیاہی پھینکنے کے واقعہ کی تمام سیاسی جماعتوں اور مختلف سماجی و شہری تنظیموں نے سخت مذمت کی ہے۔

بی جے پی کے بزرگ لیڈر ایل کے اڈوانی نے شیوسینا کارکنوں کی اس حرکت کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کا اظہار ہوتا ہے جو باعث تشویش ہے۔

اصل اپوزیشن جماعت کانگریس نے پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب نہ ’’فاختہ اور نہ عقاب‘‘ کی ممبئی میں رسم اجرائی تقریب کے منظم اور بی جے پی کے سابق قریبی مددگار و مشیر سدھیندر کلکرنی پر سیاہی پھینکنے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے شیوسینا کے کارکنوں کو ہندوستان کے دیسی طالبان قرار دیا۔

ملک کے مختلف سیاسی، سماجی، ادبی و شہری حلقوں سے شیوسینا کی اس مذموم حرکت پر کی جانے والی شدید تنقیدوں کے درمیان مرکزی حکومت نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سدھیندر کلکرنی پر سیاہی پھینکنے کے واقعہ کو غیرمنصفانہ قرار دیا۔

اڈوانی نے اپنے سابق قریبی مددگار کی جانب سے خورشید محمود قصوری کی تقریب منسوخ نہ کرنے کے عہد کے بعد شیوسینا کارکنوں کے اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس واقعہ کی سخت ترین مذمت کرتا ہوں خواہ جس کسی نے بھی یہ کہا ہے۔ وہ انتہائی غلط ہے۔

گذشتہ چند دن سے ایسی علامتیں دیکھی جارہی ہیں جہاں کوئی شخص یا کوئی نظریہ قابل قبول نہیں ہے تو آپ تشدد پر اتر آئے ہیں اور اس سے عدم رواداری اختیار کی جارہی ہے‘‘۔ اڈوانی نے کہا کہ ’’ملک کیلئے یہ باعث تشویش مسئلہ ہے۔ جمہوریت میں مختلف نقاط نظریہ پر رواداری کو یقینی بنایا جانا چاہئے‘‘۔

اڈوانی نے بی جے پی کی ایک اہم حلیف شیوسینا کو بالواسطہ طور پر یہ مبہم پیام بھی دیا کہ ’’کم سے کم وہ لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں، جمہوریت کو مستحکم بنانے کیلئے کام کریں اور اس قسم کے پرتشدد واقعات کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ ان سے بے تعلقی اختیار کریں۔

سابق نائب وزیراعظم اڈوانی نے کہا کہ ’’خواہ جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ اس سے ملک بدنام ہوا ہے‘‘۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈگ وجئے سنگھ نے سلسلہ وار ٹوئیٹر پیامات میں کہا کہ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکر اپنے غنڈوں کو قابو میں رکھیں۔ ڈگ وجئے سنگھ نے مزید کہا کہ ہندوستان میں اس قسم کی عدم رواداری ناقابل برداشت ہے۔ پہلے غلام علی کے موسیقی پروگرام کو نشانہ بنایا گیا اور اب قصوری کی کتاب کی رسم اجرائی تقریب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمیں ہندوستان میں دیسی طالبان کی ضرورت نہیں ہے ‘‘۔

کانگریس کے ترجمان ابھیشیک سنگھوی نے کہا کہ ’’بی جے پی اقتدار کے 18 ماہ کے دوران عدم رواداری کے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ کانگریس کے ایک اور ترجمان سنجے جھا نے کہا کہ ’’سیاہی دراصل سدھیندرا کلکرنی پرنہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے چہرہ پر پوتی گئی ہے۔ فاشست طاقتیں اونچی اڑانیں بھرنے لگے ہیں‘‘۔

مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ جمہوریت میں ہر کسی کو اتفاق و نااتفاقی کا حق حاصل ہے لیکن اس قسم کا احتجاج منصفانہ نہیں ہے کیونکہ رواداری ہمارے جمہوری اقدار کی اساس ہے۔ ایک اور مرکزی وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ ہر کسی کو احتجاج کی آزادی ہے لیکن کسی کو بھی جسمانی حملہ یا نقصان کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔

سی پی آئی (ایم) نے اس واقعہ پر وزیراعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے سرکردہ قائدین کی ’’میک ان انڈیا‘‘ (ہندوستان میں بناؤ) مہم دراصل ’’ہندوستان توڑو‘‘ مہم کے سواء اور کچھ نہیں ہے۔ سی پی آئی کے لیڈر ڈی راجہ نے کہا کہ شیوسینا کی حرکات انتہائی افسوسناک و قابل مذمت ہیں۔

سابق معتمد خارجہ نروپما راؤ نے حیرت و برہمی کے ساتھ دریافت کیا کہ ’’میرا ہندوستان کہاں ہے؟ (اس واقعہ پر) مجھے شرم اور غصہ کا احساس ہورہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ھی جی بھی (اس واقعہ پر) سورگ میں رو رہے ہوں گے‘‘۔ سدھیندر کلکرنی دانشوروں کی تنظیم قائم کرنے سے قبل بی جے پی قائد ایل کے اڈوانی کی تقریریں تحریر کیا کرتے تھے۔

روزنامہ سیاست، حیدر آباد انڈیا

Comments are closed.