ہرکولیس اور اٹلس دیو

سبط حسن

hercules-movie-2014-review
ہرکولیس نے شیر کی کھال والاکوٹ پہنا، کندھے پر درخت کے تنے کو رکھا اورسمندرکی طرف چلنا شروع کردیا۔ وہ کئی دن چلتارہا۔ آخر سمندر کے کنارے جاپہنچا۔وہ تھکاہوا تھا اورسمندر کے اوپر چلتی ٹھنڈی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے گا۔ اس نے درخت کے تنے کوایک طرف رکھا اور ریت پر بیٹھ گیا۔ اسے سکون کااحساس ہوا۔اس نے کمر سیدھی کرنے کے لیے، اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور ریت پر لیٹ گیا ۔ اس نے اپنے سرکے نیچے اپنے بازو رکھ لیے۔

اسے بڑا اچھا محسوس ہورہاتھا۔ اچانک، ہرکولیس کادھیان سمندر میں کھڑے دوبڑے بڑے ستونوں پر گیا۔ اس نے غور سے دیکھا ۔ وہ ستون نہیں، دوٹانگیں تھیں جو آسمان کی طرف بادلوں سے بھی اوپر جارہی تھیں۔ ہر کولیس فوراًسمجھ گیا کہ ہو نہ ہو، یہ اٹلس دیو ہے۔ وہ فوراًاٹھ بیٹھا اور سوچنے لگا کہ ایسا بڑادیو تو اس نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ معلوم نہیں، اس سے مقابلہ کیسے کرپائے گا۔

وہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے سامنے ایک بڑاکپ تیرتاہوا ، اسی کی طرف چلا آرہا تھا۔ کپ کیا، اچھی خاصی کشتی تھی۔ ہر کولیس اس کپ میں بیٹھ گیا اور درخت کے تنے سے اسے کشتی کی طرح چلانے لگا۔ وہ سمندر کے بیچ اس چٹان تک پہنچ گیا جہا ں اٹلس دیوکھڑاتھا۔ اس نے اٹلس کی ٹانگوں کے پاس کپ کو روک دیا۔ ہرکولیس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ اسے اٹلس دیو کی بہت ہی لمبی ٹانگوں کے اوپر اس کادھڑ نظر آیا۔

اٹلس کاسر ایک طرف جھکا ہواتھا اوراس کے کندھوں پر آسمان ٹکا ہو اتھا۔ ہرکولیس نے دیو کے اردگرد چکرلگایا۔ اس نے دیکھا کہ دیو کے پاؤں کی انگلیوں میں سے لمبے لمبے درخت اُگے ہوئے تھے۔ اٹلس کو ہر کولیس کی موجودگی کاپتا لگ چکا تھا ۔ اس نے نیچے کی طرف دیکھا اور نہایت گرج دار آواز میں کہنے لگا

:
’’
یہ میرے پاؤں کے پاس تم کیا کررہے ہو؟ تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو۔۔۔؟‘‘
ہرکولیس نے جواب دیا:
’’
میں ہرکولیس ہوں اور سنہری سیبوں والے باغ کا پتا معلوم کرناچاہتاہوں۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟‘‘
’’
میں اٹلس ہوں۔ میں دنیا کاسب سے بڑا دیو ہوں۔ تم سنہری سیبوں کے باغ میں کیوں جاناچاہتے ہو؟‘‘
اٹلس نے پوچھا۔

’’مجھے بادشاہ نے بھیجا ہے اور مجھے اس کے لیے تین سنہری سیب لے کر جانا ہیں۔‘‘ ہرکولیس نے جواب دیا۔
’’
میرے علاوہ، اس باغ میں کوئی نہیں جاسکتاہے۔۔۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اپنے کندھوں پر آسمان اٹھا رکھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تمھیں وہاں سے سیب ضرورلادیتا۔۔۔‘‘ اٹلس دیو نے جواب دیا۔

’’آپ کی بڑی مہربانی ہے۔ کیا آپ ایسانہیں کرسکتے کہ کچھ دیر کے لیے آسمان کوسامنے والے پہاڑ پر رکھ دیں؟ آپ کچھ دیر سانس لے لیں گے اور میرا بھی کام کردیں۔۔۔!‘‘ہرکولیس نے کہا:
’’
۔۔۔مگر وہ پہاڑ تو اتنا بلند نہیں کہ اس پر آسمان کوٹکادیاجائے۔ سناہے کہ تم بھی بڑے طاقتور ہو۔۔۔ تم ادھر چٹان کے اوپر چلے آؤ اور کچھ دیر کے لیے آسمان کو اٹھا لو۔۔۔ میں اتنی دیر میں تمھارے لیے سیب لے آؤں گا۔۔۔‘‘اٹلس نے کہا:
’’
کیاآسمان بہت بھاری ہے۔۔۔؟‘‘ ہرکولیس نے پوچھا۔
’’
نہیں، ایسی بات نہیں۔۔۔ ہاں البتہ ، اگر میری طرح اسے بہت سالوں کے لیے اٹھانا ہو توپھر یہ یقیناًتھکادینے والا معاملہ ہے۔ تم اس کو اٹھاؤ ، میں یہ گیا اور چند منٹوں میں واپس آیا۔ ‘‘اٹلس نے بتایا ۔

’’ٹھیک ہے، میں اس چٹان کے اوپرآتاہوں ۔۔۔‘‘ ہرکولیس نے کہا اور چٹان کے اوپر چڑھنے لگا۔ وہ چٹان کے اوپر آیا اور اٹلس کے برابر کھڑا ہوگیا۔ ہرکولیس نے چٹان پربڑی احتیاط سے اپنے دونوں پاؤں ٹکائے ۔ اپنے بازو اوپر کیے اور آہستہ بڑی احتیاط کے ساتھ آسمان کو اٹلس کے کاندھوں سے اٹھا لیا۔
اٹلس کے کندھوں سے بوجھ اترا۔ اس نے فوراًا پنے بازوؤں کو آرام دینے کے لیے نیچے کی طرف لٹکادیا۔ اس نے اپنے پاؤں میں اُگے درختوں سے، اپنے پاؤں نکالے اور پانی میں قدم رکھ دیا۔ اس نے سمندر میں تیرتے ہوئے کپ میں پانی بھرا اور غٹ غٹ کرکے سارا پانی پی گیا۔

اٹلس بہت خوش تھا اور پانی میں چھلانگیں مارنے لگا۔ اس چھلانگوں سے سمندر میں بڑی بڑی لہریں اٹھنے لگیں ۔ وہ کبھی سمندر میں تیرنے لگتا اور کبھی خوشی میں قہقہے لگانے لگتا۔ وہ بہت خوش تھا کیونکہ وہ سوچ رہا تھا کہ اب ہمیشہ کے لیے آسمان اٹھانے کی مصیبت سے اس کی جان چھوٹی۔ اٹلس لمبے لمبے قدم اٹھاتاہوا، ساحل کی طرف گیا اور جلد ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

ہرکولیس ، چٹان کے اوپر کھڑا، اٹلس کودیکھ رہاتھا ۔ اس کی نظریں ، اس کا پیچھاکررہی تھیں۔ جب اٹلس اس کی نظروں کے سامنے غائب ہوگیا تو اس نے اپنے بارے میں سوچناشروع کردیا ۔آسمان کواپنے بازوؤں پر اٹھانا ، ایسا آسان کام نہ تھا ۔ ہرکولیس کو معلوم تھا کہ اگر وہ ذرا بھی اپنی جگہ سے ہل گیا یا اس کے بازو ادھر اُدھر ہوگئے تو آسمان اپنی جگہ سے سرک جائے گا۔

ذرا برابر سرکنے کامطلب یہ ہوگا کہ آسمان پرلگے ستارے اپنی جگہ سے ہٹ کر نیچے گر جائیں گے۔ ہوا بڑی تیزی سے چل رہی تھی اور سورج بھی پوری طاقت سے چمک رہا تھا ۔ ہرکولیس کی ناک سے پسینہ بہنے لگا۔ اسے ناک پرکھجلی ہورہی تھی مگر وہ اپنے بازونیچے نہیں کرسکتاتھا۔ ایسے میں اُسے دُور سے اٹلس دیوچٹان کی طر ف آتادکھائی دیا۔ ہرکولیس اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ دیو کے ہاتھ میں تین سیب تھے۔
’’
مجھے خوشی ہے کہ تم سیب لے آئے۔۔۔!‘‘ ہرکولیس نے دیو سے کہا۔
’’
ہاں ، میں نے سب سے بڑے سیب ہی توڑے ہیں۔۔۔ یہ دیکھو، یہ میرے ہاتھ میں ہیں۔۔۔‘‘ دیو نے جواب دیا۔
’’
مجھے خوشی ہے کہ تم نے میرا کام کردیا۔۔ ۔اب تم مہربانی کرکے پھر سے آسمان اپنے کندھوں پر اٹھا لو۔۔۔ میرے بازو توبہت تھک گئے ہیں۔۔۔‘‘ ہر کولیس نے فرمائش کی۔

’’مگر، ہرکولیس ، میں اب پھر سے آسمان اپنے کندھوں پر نہیں اٹھاؤں گا۔ میں یہ سیب تمھارے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گا۔ اس کا شکریہ اداکروں گا کہ اس نے ایسا طاقتور شخص میرے پاس بھیجا۔۔ ۔ میں بہت سالوں سے آسمان کواٹھااٹھا کر تنگ آگیاتھا۔۔۔ اب میں ایک سوسال کے بعد واپس آؤں گا۔ اس وقت تک تمھیں یہ کام کرنا ہی ہوگا۔۔۔‘‘
اٹلس دیونے کہا۔

’’ٹھیک ہے، جیسے تمھاری مرضی۔۔۔ مگر تم جانے سے پہلے ایک کام میں میر ی مدد کردو۔۔۔۔ تم ذرا آسمان کو سہارا دینا، تاکہ میں اپنے کوٹ کو تہہ کرکے سر پر رکھ لوں۔۔۔ جب میرے بازو تھک جائیں گے تو میں آسمان کو اپنے سرپر رکھ لوں گا ۔ اس طرح میں زیادہ سے زیادہ دیریہاں کھڑا رہ سکوں گا۔‘‘ ہرکولیس نے دیو سے درخواست کی ۔

’’ہاں ہاں ، کیوں نہیں، یہ تو میں تمھارے لیے کردوں گا۔۔۔‘‘ اٹلس نے کہا۔اٹلس دیو نے سیب چٹان پررکھے۔ چٹان پر چڑھا اور ٹھیک اسی جگہ اپنے پاؤں جمالیے، جہاں پہلے اس کے پاؤں رکھے تھے۔ پھر اپنے لمبے لمبے بازو اوپر اٹھائے اور ہرکولیس سے آسمان لے کر اپنے کندھوں پر ٹکا لیا۔
ہرکولیس نے فوراًایک چھلانگ لگائی اور چٹان سے سیب اٹھاکر ایک طرف بھاگنے لگا۔

’’ارے، ہرکولیس ، تم یہ کیاکررہے ہو۔۔۔؟ بھائی ادھر واپس آؤ ۔۔۔ آسمان کواٹھالو۔۔۔ تم نے ۔۔۔‘‘ اٹلس دیو چیخنے لگا مگر ہرکولیس بڑے کپ میں بیٹھا اوراسے کشتی کی طرح چلاتاہوا اٹلس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اٹلس مسلسل چیخ رہاتھا۔
ہرکولیس ، بادشاہ کے پاس چلاآیا۔ اسے تینوں سیب دیے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: ’’ ہرکولیس ، تم دنیا کے سب سے طاقتورانسان ہو۔۔۔‘‘

Comments are closed.