اخبارات کیا لکھتے ہیں؟

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

یہ پاکستان کے ایک بڑے اور قدیم اخبار کا صفحہ اول ہے۔انسان اس پر نظر ڈالتا ہے اور حیرت ا افسوس سے سوچتا ہے۔اس صفحہ پر اشتہارات کے بعد خبروں اور شہ سرخیوں کے لیے چھوٹا سا حصہ بچتا ہے۔اس چھوٹے سے حصے میں شہ سرخی کو چھوڑ کر جو چھوٹی سی جگہ بچتی ہے اس پر دس سرخیاں صرف بھارت کے بارے میں ہیں۔

یہ سرخیاں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ زیادتیوں، مظلوم بچی کے ہاتھوں ایک چھوٹے بچے کے قتل، غنڈہ گردی، انتہا پسندی، ہندو بنیاد پرستی اس اس نوع کی دیگر خبروں پر مشتمل ہے۔یہ کوئی حکومت کا ترجمان اخبار نہیں ہے۔یہ اپنے اپ کو جنگ باز قوتوں کا ترجمان بھی نہیں مانتا۔اس کے برعکس یہ بھارت سے امن و دوستی کا خواں ہے۔اپنے اندرونی صفحات پر اکثر بھارت سے دوستی و امن کے بارے میں تحریریں چھاپتا رہتا ہے۔

اسی طرح یہ پاکستان کے ایک اور بڑے اخبار کا ادارتی صفحہ ہے۔اس صفحے پر پاکستان کے ایک بہت ہی سنےئر کالم نگار اور ایڈیٹر کا کالم ہے۔اس کالم نگار کا شمار پاکستان کے بڑے سیکولر اور روشن خیال دانشوروں میں ہوتا ہے۔آج کے اس کالم میں اس فاضل کالم نگار نے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ہندو مت دنیا کا سب سے بد ترین مذہب ہے، بلکہ یہ مذہب ہے ہی نہیں، یہ تو محض دیو مالائی قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

پھر ایک اور بڑا اخبار ہے اور اسکی شہ سرخیاں ہیں۔یہ سرخیاں پڑھ کر انسان اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزیاں بھارتی جموں کشمیر میں ہوتی ہیں۔ یہاں کی پولیس اور فوج کا کل وقتی کام سیاسی کارکنوں کوگرفتار کرنا یا ان پر لاٹھی چارج کرنا ہے۔

پھر تصاویر کی باری ہے۔ان تصاویر میں پولیس والے سیاسی کارکنوں کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہْ پاکستانی میڈیا جو کچھ بھارت کے بارے میں بتا رہا ہے وہ کوئی نئی بات ہے۔یا یہ جھوٹ ہے۔بھارت میں ایسا مدت سے ہو رہا ہے۔ظاہر ہے وہاں ذات پات کا مسئلہ ہے، اور صدیوں پرانا ہے،انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور لاٹھی چارج کے واقعات انگریزوں کے زمانے سے ہو رہے ہیں۔

آزاد بھارت کے بعد ملک کے کچھ حصوں میں ایسے واقعات جاری ہیں جن میں کشمیر سر فہرست ہے۔ان میں کوئی چیز نئی نہیں ہے۔نئی بات صرف اتنی ہے کہ اب جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں میڈیا کے لیے ان واقعات تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔بھارت جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے اسی تیز رفتاری سے اس میں سماجی تبدیلیاں بھی آ رہی ہیں۔معاشی رشتوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ سماجی رشتے بھی بدل رہے ہیں۔اس سے ذات پات کے نظام میں جو شدت تھی اس میں کمی آ رہی ہے۔

لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ذات پات کا نظام بھارت کی مذہبی اور سماجی روایات کا حصہ ہے۔اس نظام کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موہن داس کرم چند گاندھی جیسا شخص بھی اس کی وکالت کرنے پر مجبور ہے۔لہذا بھارت کے ایک مکمل ترقی یافتہ اوجدید سماج میں ڈھلنے تک ذات پات کا نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے گا۔سماجی و معاشی ڈھانچے میں مکمل تبدیلی ہی اس نظام کو بدل سکتی ہے۔

جہاں تک ہندو مت کا تعلق ہے، بطور مذہب اس کے فلسفے اور جواز پر بحث بے وقت اور غیر ضروری ہے۔ایک روزنامے کے ادارتی صفحے پر کسی قدیم مذہب کی حقانیت پر بحث کس حد تک گنجائش اور ضرورت ہے۔ اس پر کیا بات کی جا سکتی ہے۔ایک سینئر کالم نگار اور ایڈیٹر اس سے بخوبی آگاہ ہے۔اس کے باوجود یہ روش اس بات کا کھلا اظہار ہے کہ میڈیا میں گزشتہ نصف صدی سے جو ایک خاص مائنڈ سیٹ بن چکا ہے وہ اپنی روش سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس رو میں حقیقی مسائل پر بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور ایسے موضوعات اٹھائے جاتے ہیں جو نہ تو عوام کے حقیقی مسائل کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ان کا فی الحال کوئی فوری حل موجود ہے۔لہذا ہمارے میڈیا کو اپنے ارد گرد اور اپنے ناک کے نیچے مسائل نظر ہی نہیں آتے۔

جہاں تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، گرفتاریوں اور لاٹھی چارج کی بات ہے توایسے واقعات ہمارے ہاں بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ابھی اسی ہفتے راولاکوٹ میں لبریشن فرنٹ کے ایک سینئر لیڈر سردارصغیر سمیت کچھ کارکنوں پر لاٹھی چارج ہوا اور ان کو گرفتار کر لیا گیا۔اس گرفتاری کی تصاویر سوشل میڈیا پر تو گردش کرتیں رہی مگر انسانی حقوق کے علمبردار اخبارات کو یا تصاویر چھاپنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

اس کے برعکس سری نگر سے لبریشن فرنٹ کے ہی ایک اور رہنما یسٰین ملک کی ایسی تصاویر کو صفحہ اول پر چھاپا جاتا ہے۔چلو یہ مان لیتے ہیں کہ سردار صغیر اور ان کے ساتھی کسی مروجہ قانون کی خلاف ورزی پر ہی گرفتار ہوئے ہوں گے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یسٰین ملک، علی گیلانی یا شبیر شاہ کسی مروجہ قانون کی خلاف ورزی کے بغیرکبھی گرفتار نہیں ہوئے۔

اخبارات کو تاریخ کے آگے جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔ان کو تاریخ کی کسوٹی سےگزرنا ہونا ہے۔اس میں سرخرو وہی ہوتا ہے جو سچائی کے دامن کو تھامے رکھے۔

Comments are closed.