اسلام اور موسیقی ۔ دوسرا و آخری حصہ

خالد تھتھال

419858__dusha_sufija_mistic_music_islam_009757_02_40_41_
کسی بھی چیز کو قبول یا رد کرنے، پسند و ناپسند کرنے یا جائز و ناجائز ٹھہرانے کیلئے اس چیز کی ماہیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ کسی چیز کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں، اس کے فوائد و نقصانات کیا ہیں، ان سب کو دیکھے بغیر کسی بھی قسم کا فیصلہ صادر کرنا غیر دانشمندانہ فعل کہلاتا ہے۔ موسیقی حلال ہے یا حرام؟ اس کے فوائد یا نقصانات دیکھنے کے علاوہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری کہ موسیقی آخرکیا چیز ہے؟۔اور موسیقی تب تک نہیں سمجھی جا سکتی جب تک ہم موسیقی کے بنیادی ماخذ سْر کو نہ سمجھ لیں۔
سْر کی سادہ ترین تعریف آواز ہے۔ ایک آواز جس کی ایک مخصوص اونچائی اور ارتعاش کا ایک مخصوص دورانیہ ہوتا ہو۔ اس سے اگلی آواز ایک باقاعدہ طے شدہ معیار کے مطابق ارتعاش کے مخصوص دورانیے کی حامل ہو گی۔ اور اس کی اونچائی اور ارتعاش کا دورانیہ پہلی آواز سے اونچا ہو گا۔ اسی طرح اگلی آواز کی اونچائی اور ارتعاش کے زیادہ دورانیہ سے نیا سْر بنتا ہے۔ ان آوازوں کے مجموعے سے موسیقی کا سکیل بنتا ہے جسے ہمارے ہاں سپتک یا سات سروں کا مجموعہ کہتے ہیں۔
ان سْروں کو شدھ سْر کہتے ہیں۔ انہی سْروں یا آوازوں کی مزید درجہ بندی کی جاتی ہے، پہلا اور پانچوں سر قائم ہوتا ہے یعنی ان کے مقام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی جبکہ دوسرے پانچ سروں کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس سے مزید پانچ سر حاصل ہوتے ہیں، یوں سات سْر بارہ سروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ علم کی ہر شاخ کے چند بنیادی یونٹ ہوتے ہیں جن کے اوپر اس علم کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں مثلاََ کسی بھی زبان کے کانسونینٹس اور واولز اس زبان کے بنیادی یونٹ ہوتے ہیں، ان آوازوں کی مدد سے لفظ بنتے ہیں اور لفظوں سے زبان بنتی ہے، ہم حروف تہجی کو بھی کسی زبان کے بنیادی یونٹ کہہ سکتے ہیں۔
ریاضی میں ایک سے لے کر نو تک کے ہندسے اس علم کے بنیادی یونٹ کہلاتے ہیں، اس میں صفر کا اضافہ کرنے سے ریاضی کے بنیادی یونٹ دس ہیں، اور ان کے اوپر علم ریاضی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ موسیقی کے بنیادی یونٹ اس کے سْر ہیں جو تعداد میں بارہ بنتے ہیں، اور چونکہ ریاضی کی طرح موسیقی کے بنیادی یونٹ بھی کم ہیں اس لئے انہیں استعمال کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاضی میں ایک ہندسے کی جگہ تبدیل کرنے سے بہت زیادہ فرق پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح موسیقی کے ایک سْر کی تبدیلی پورا ماحول بدل دیتی ہے۔
جس طرح ہر علم کے بنیادی یونٹس کے نام ہیں، مثلاً اردو زبان میں الف ب پ ہیں، ریاضی میں ایک دو تین وغیرہ، اسی طرح موسیقی میں ان یونٹس کے بھی نام ہیں۔ پہلے سْر کو کھرج (بھارت میں اسے شڑج کہتے ہیں) اور اس کا مخفف سا، دوسرا سْر رکھب (اسے بھارت میں رشبھ) کہتے ہیں اور اس کا مخفف رے، تیسرا سْر گندھار اور اس کا مخفف گا، چوتھا سْر مدھم اور اس کا مخفف ما، پانچوں سْر پنچم اور اس کا مخفف پا، چھٹا سْر دھیوت اور اس کا مخفف دھا، ساتوں سْر نکھاد(بھارت میں نشادھ) اور اس کا مخفف نی ہے۔ پانچ سر جو پہلے اور پانچویں کو چھوڑ کر بنائیگئے ہیں، انہیں رے کومل، گا کومل، ما تیور، دھا کومل اور نی کومل کہتے ہیں۔ لاطینی میں ان سْروں کو دو، رے ، می، فا، سول، لا، نی کہتے ہیں، ویسے آج کل سی، ڈی، ای، ایف، جی، اے، بی کا زیادہ استعمال ہے
موسیقی کیا ہے، مجھے اس کی کوئی ایسی تعریف نہیں مل سکی جو اس کے ساتھ انصاف کر سکے۔ وکی پیڈیا کے مطابق موسیقی فن کی ایک ایسی شکل ہے جو آواز اور خاموشی کے ذریعہ اپنا اظہار کرتی ہے۔ لہذا میں اس ادھوری تعریف کی بجائے اپنے طور پر ایک جامع تعریف کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
موسیقی مختلف سْروں یا آوازوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو کانوں کو بھلا لگے۔ کانوں کو بھلا لگنا ایک اہم شرط ہے ہم بازار میں مختلف اونچی یا نیچی آوازوں جن میں ٹریفک کا شور، سبزی بیچنے والوں کی آوازیں، لوگوں کی چیخ و پکار بھی سنتے ہیں لیکن ہم انہیں موسیقی نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ وہ کانوں کو بھلا لگنے کی بجائے سمع خراشی کے زمرے میں آتی ہیں۔
اب اسی تعریف کو موسیقی کی ان اصناف پر لاگو کرتے ہیں، جو شائد اکثریت کے نزدیک موسیقی نہیں ہے ستر کی دہائی میں کراچی سے سعیدہ گزدر صاحبہ کی ادارت میں پاکستانی ادب نامی ایک ادبی جریدہ چھپتا تھا، اس کے سرپرست سید سبط حسن ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے میں ایک مباحثہ چھپا جس کے شرکا، سید سبط حسن، ریڈیو پاکستان لاہور کے ڈائرکٹر جنرل سلیم گیلانی، حبیب جالب اور استاد امراؤ بندو خان تھے۔
اس مباحثے کے دوران ایک صاحب نے امراؤ بندو خان سے پوچھا، خان صاحب اسلام میں موسیقی کے حرام ہونے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ اس سے پہلے کہ امراؤ بندو خان جواب دیتے۔ سلیم گیلانی صاحب بول اٹھے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے یا حلال، البتہ جب اذان ہوتی ہے تو اس میں پورے بارہ کے بارہ سْر لگتے ہیں۔ جی ہاں اذان دی نہیں جاتی بلکہ اذان گائی جاتی ہے۔
مجھے اس سلسلہ میں 1978 کا ایک واقعہ یاد آ گیا، ناروے میں مقامی ٹی وی نے دو قسطوں میں کاروان، آنگن نام سے دو پرگرام نشر کئے، اتفاق سے میں نے بھی ایک میں کام کیا تھا۔ اس فلم میں میرے گھر ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے، اس کے کان میں اذان دیجاتی ہے۔ فلم کی ڈائریکٹر جو ایک مقامی نارویجن عورت تھی، مجھ سے علیحدگی میں پوچھتی ہے وہ آدمی بچے کے کانوں میں کیا گا رہا تھا۔ حضرت بلال حبشی کی اذان کا بہت عقیدت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ نے انہیں یہ فریضہ ان کے سریلے پن کی وجہ سے تفویض کیا تھا۔ رسول اللہ کی وفات کے بعدوہ مصر چلے گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ کے زمانے میں حضرت بلال ایک مرتبہ مدینہ آئے تو صحابیوں نے حضرت عمر کو مجبور کیا کہ بلال کو اذان دینے کا کہا جائے، بیچارہ حبشی خلیفہ وقت کا حکم نہ ٹال سکا۔ لیکن جونہی اشہد انا محمد رسول اللہ کہا تو حضرت بلال کی آواز سسکیوں میں بدل گئی اور تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ اذان ادھوری چھوڑ دی گئی۔
مجھے 1986 میں اسد امانت علی مرحوم سے اس کے گھر ملنے کا اتفاق ہوا۔ اسد نے انہی دنوں ایک مرثیہ ریکارڈ کروایا تھا، جس کے بول تھے، یہ اذان علی اکبر ہےاور ان بولوں کی بعد راگ بھیرو میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدا ابھرتی ہے۔ ایسی اذان میں نے زندگی میں کبھی نہیں سنی، ایک عجیب سی پْراسراریت اور مسحور کن کیفیت۔ میں نے اسد کو صلاح دی، کہ تم پوری اذان راگ بھیرو میں ریکارڈ کرو، اور اس کے علاوہ قرات بھی کیا کرو، لیکن اسد نے ہنستے ہوئے خالد صاحب جان وی دیوکہہ کر ٹال دیا۔
میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اگر فجر کی اذان راگ بھیرو میں گائی جائے تو اس کا تاثر ایسا ہو گا جو بھلایا نہ جا سکے گا۔ 1982 میں انڈیا کے مشہور سربہار اور ستار نواز استاد امرت خان ناروے آئے، موسیقی اور اسلام کے حوالے سے بات چھڑی تو کہنے لگے، کہ اذان کے لفظوں میں کچھ بھی نہیں ہے، یہ بے جان الفاظ ہیں لیکن جونہی یہ الفاظ کسی سریلے موذن کے گلے سے ادا ہوتے ہیں تو جان نکال دیتے ہیں۔ اگر کسی کو اس دعوے پر شک ہے تو اذان کے لفظوں کو تحت الفظ ادا کرنے کے بعد کسی اچھے موذن کی اذان سنے، فرق صاف معلوم پڑ جائے گا ۔
قرآن پڑھنا اور قرأت دو مختلف چیزیں ہیں، پڑھنا تحت اللفظ کو کہتے ہیں اور قرأت قرانی آیات کو گانے کو کہتے ہیں۔ مجھے قاری خوشی محمد کی قرأت سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں اسلام آباد ٹی وی پر قصیدہ بْردہ شریف پہلی بار نشر ہوا جو میرے ذاتی دوست سید پرویز حیدر صاحب نے ترتیب اور ریکارڈ کروایا تھا۔ اسلام آباد قرأت اکیڈیمی کے بچے ہاتھوں میں چھوٹی طشتریاں اٹھائے ہوئے ہیں جن پر موم بتیاں جل رہی ہیں، بچے قصیدے کی لائنیں گاتے ہیں اور پس منظر میں جونہی قاری خوشی محمد کی قرأت ابھرتی ہے تو ایسے لگتا ہے گویا زمین کی گردش رک گئی ہو۔ پرویز حیدر صاحب کے بقول قاری خوشی محمد کے گھر میں تانپورہ اور ہارمونیم موجود ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ ساز انہوں نے گھر کی سجاوٹ کیلئے نہیں رکھے ۔

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے، دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
تلاش اْس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رْتوں میں، جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے۔

یہ بہت مشہور حمد ہے جسے استاد نصرت فتح علی خان نے گایا ہے۔ اسے سنتے وقت ہر کوئی جذبہ ایمانی سے شرابور ہو جاتا ہے، لیکن اسے تحت اللفظ پڑھنا تو مناسب ہے لیکن اگر موسیقی حرام ہے تو اس حمد یا کسی بھی حمد کو گانا حرام ہے۔
استاد اشرف شریف جب بھی ناروے آتے ہیں تو ان سے ستار پر یہ دھن بجانے کی ضرور فرمائش ہوتی ہے اور سب موجود لوگ دھن کے بول گاتے ہیں، جو سرگم کے نیچے لکھ ہوئے ہیں۔
استھائی
نی رے سا رے گا رے ساسا رے سا۔
شاہ مدینہ
سا ما ماما گا ما گا پا
یثرب کے والی
پا دھا پا ما گا رے رے ما گا رے سا نی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
انترہ
گا گا ما پا پاپا پا دھا پاما ما پاما گا
تیرے لئے یہ دنیا بنی ہے
گا ما پا ما گا رے ما گا رے سا سا
نیلے فلک کی چادر تنی ہے
نی رے سا رے گا رے سا سا رے سا
تو گر نہ ہوتا
سا، ما۔ ماما گا ما گا پا
دنیا تھی خالی
پا دھا پا ما گا رے رے ما گا رے سا نی
سارے نبی تیرے در کے سوالی

جی ہاں یہ فلم نور اسلام کی سدا بہار نعت ہے۔ نعت شاعری کی وہ صنف ہے جس میں عقیدت کے جوش میں اتنے بڑے بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں کہ اکثر اوقات وہ شرک کی حدیں بھی پار کر جاتے ہیں۔ نعت دروغ گوئی کی ایک بدترین مثال ہے، اور اس میں آپ جس قدر بڑا جھوٹ بولیں گے، سبحان اللہ و ماشا اللہ کے اسی قدر زیادہ ڈونگرے برسیں گے ۔ اسی فقرے کو لے لیں، تیرے لیے یہ دنیا بنی ہے۔
اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر خواہ حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش نہ بھی ہوتی، انہیں دنیا میں پھر بھی آنا ہی تھا۔ اور پھر اب تو رسول کریم آ کر چلے بھی گئے ہیں تو دنیا کا تو مقصد پورا ہو گیا، لہذا ہم کس خوشی میں یہاں پر جھک مار رہے ہیں۔ اور پھر اس دعوے کا کیا ہو گا کہ یہ دنیا انسان کی آزمائش کیلئے بنی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم جیسے ایک عام انسان تھے، وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے، انہوں نے عام انسانوں کی طرح بچپن، جوانی اور بڑھاپا دیکھا، وہ ہم سب کی طرح کھانا کھاتے تھے، پانی پیتے تھے۔ کپڑے پہنتے تھے، پیشاب و پاخانہ فرماتے تھے۔
صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں ام المومنین زینب بنت جحش کے چمڑہ رنگنے کا ذکر ہے اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنسی خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہوتے تھے۔لیکن ان میں اور عام انسانوں میں ایک فرق ضرور تھا، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام پہنچانے کا وسیلہ بنایا۔ یعنی آپ خدا کے پیغامبرتھے۔ ایک انسان سے ایسی ایسی باتیں منسوب کرنا جو ان میں نہ تھیں، وہ جھوٹ بولنے کے زمرے میں آتی ہیں۔
کئی بار معراج النبی کے حوالے مولوی صاحبان کی تقاریر سننے کا موقع ملا، جو اللہ اور اس کے محبوبکے دیدار کی خواہش اور وصال کا تذکرہ ایسے چسکے لے کرکرتے ہیں جیسے نعوذ باللہ اس رات رسول اللہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان (خاکم بدہن ) کوئی جنسی قرابت ہوئی تھی۔
جہاں تک میری معلومات ہیں، عرب ممالک میں نعت کا کوئی تصور نہیں ہے نعت لکھنا اور گانا اصل میں ہندومت کے بھجنوں کی نقل ہے۔

ناروے میں ارشد شاہین نام کے ایک شاعر ہیں جو میرے گاؤں سے ہونے کے علاوہ میرے رشتہ دار بھی ہیں۔ وہ پاکستان یا بھارت کی بجائے ناروے میں اردو کی پی ایچ ڈی کرنے آئے ہیں۔ ایک محفل میں ملے، میں انہیں نہیں پہنچانتا تھا، انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے رشتہ بتایا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھجی، میں نے انہیں میسج بھیجا کہ میں کچھ اس قسم کا انسان ہوں کہ لوگ مجھے کچھ عرصہ بعد ان فرینڈ کر دیتے ہیں، لہذا اسے رہنے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے سلسلہ میں بے فکر رہیں انشاء اللہ ایسا نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک دن ایک نعت اپنی ٹائم لائن ہر شیئر کی۔جس کا صرف مجھے مطلع یاد رہ گیا ہے۔ جس کے بول کچھ یوں تھے۔
جب سے آئے سرکار مدینے میں، نہ رہا کوئی بیمار مدینے میں
ان کی اس نعت کے نیچے درجنوں کے حساب سے سبحان اللہ و ماشاء اللہ قسم کے کومنٹس تھے، میں قسمت کا مارا بھی کومنٹ کر بیٹھا۔ آپ کی نعت سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ رسول کریم کے آنے سے لوگوں کی بیماری ختم ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں، لوگ بدستور بیمار ہوا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں قبیلہ عرینہ کے چرواہوں کا قصہ بہت مشہور ہے، جن کے رنگ زرد اور پیٹ پھول گئے تھے، انہیں رسول اللہ نے اونٹنی کا پیشاب اور دودھ ملا کر پینے کا مشورہ دیا تھا، اس سے وہ تندرست ہو گئے، لیکن وہ نابکار جاتے ہوئے کسی مسلمان کو قتل کر کے اس کے اونٹ ہنکا کر لے گئے، رسول اللہ کے حکم سے ان کو پکڑ کر ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کی ٹانگیں اور بازو کاٹ کر ریگستان میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔
دوسروں کی بیماری دور کرنا تو ایک طرف، رسول کریم خود بھی بیمار ہوتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری دنوں میں ان کی بیماری کا ذکر ہر سیرت کی کتاب میں موجود ہے جہاں حضرت ابوبکر کی امامت کا ذکر ہے۔ مزید برآں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ مانگا کہ وصیت لکھ سکیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بخار کی شدت کی وجہ سے ہذیانی کیفیت طاری ہے۔ لہذا آپ نے جوش عقیدت کی وجہ سے جو اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے کیا آپ کو اس کا ثواب ملے گا یا روز محشر آپ کی پکڑ ہو گئی۔ موصوف نے میرے کومنٹ کا کافی دیر تک جواب نہیں دیا بلکہ سبحان اللہ و ماشاء اللہ والے کومنٹس کو لائک کرنے میں مصروف رہے اور دوسرے دن مجھے ان فرینڈ کرنے کی بجائے بلاک کر دیا۔
ہمارے ہاں بہت سی نعتیں فلمی دھنوں پر بھی گائی جاتی ہیں، بچپن میں میرے گاؤں کی مسجد ایک بڑا مذہبی اجتماع ہوا، بہت زیادہ نعت گانے والے آئے، میں نے اپنی پسندیدہ نعت کی فرمائش کی لیکن پوری نہ ہوئی ، میں نے بعد میں پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں گائی، نعت گانے والے صاحب نے جواب دیا، بیٹا میں فلمی نعتیں نہیں گایا کرتا۔ مجھے سمجھ نہ آئی تو انہوں نے کہا کہ تم نے جس نعت کی فرمائش کی تھی وہ ایک پنجابی گانے کی دھن پر بنائی گئی ہے۔ نعت کے بول تھے
عرشاں دا لاڑا، سوہنے رب دیا پیارا،
ساری امت دا بن کے سہارا
نیں مکے وچ چن چڑھیا

اس کی دھن فلم کرتار سنگھ کے مقبول گانے پر بنائی گئی۔
دیساں دا راجہ، میرے بابل دا پیارا
امبڑی دے دل دا سہارا
نیں ویر میرا گھوڑی چڑھیا
انہی دنوں ایک اور نعت بہت مقبول تھی
اساں یا محمد کہنا اے
دنیا دی نظروں بچ بچ کے
اساں کملی دی چھانویں بہنا اے

اور اس کی دھن اس فلمی گانے پر بنی ہے
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا
حمد کے سلسلہ میں تو پھر بھی سب چل جاتا ہے کہ اس ذات باری کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے لیکن اگر الکاذب عدو اللہ کا مطلب وہی ہے جو میں سمجھا ہوں تو تمام نعت نویس اور نعت گانے والے روز محشر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ لیکن اگر لمحوں کیلئے اس پْرعقیدت دروغ گوئی سے قطع نظر کر بھی لیا جائے تو نعت گانا موسیقی کے زمرے میں آتا ہے اور اگر موسیقی حرام ہے تو نعت گانا بھی حرام ہے۔
آواز تو خدا کی دین ہے لیکن اس آواز میں تب ہی تاثیر پیدا ہوتی ہے، جب آپ موسیقی کی پر اسرار وادی میں پاؤں رکھتے ہیں، ریاضت کرتے ہیں۔ گو کوئی بھی اچھا نعت خوان موسیقی سیکھنے کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن میں اس بات کو ماننے کیلئے قطعاً تیار نہیں ہوں کہ اچھے نعت گانے والوں نے چند ایک راگ نہ سیکھے ہوں، ان کے گھر میں ہارمونیم نہ ہو یا یہ باقاعدگی سے موسیقی کا ریاض نہ کرتے ہوں۔
دف کے ساتھ گانے کو جائز سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے کھجور یا کدّو کھانا تو سنت رسول کا مقام حاصل کر گیا، لیکن آم، امرود اور کریلے وغیرہ یہ سعادت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دف ایک ردھم کا ساز ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ردھم کے ساز پہلے وجود آئے کیونکہ ان کا بنانا آسان ہوتا ہے، ردھم کیلئے آپ کسی بھی چیز مثلاً ٹین کے ایک ٹکڑے کو لکڑی یا ہاتھ سے پیٹ کر ردھم بنا سکتے ہیں۔ آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے میز پر با آسانیدھا گے نا تی نا کے دھن ناکے بول بجا سکتے ہیں، افریقہ اور ایمزن کے جنگلوں کے باسیوں کو بھی انتہائی سادہ قسم کے ڈھول پیٹتے دیکھ سکتے ہیں۔۔
لیکن میلوڈی کے ساز تب بنتے ہیں جب کسی علاقے میں تہذیب نے ارتقا ء کا ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہو۔ سْروں کے مقام کی شناخت کو مد نظر رکھ کر ساز بنانے اور بجانے کی اہلیت حاصل کر لی گئی ہو۔ رسول کریم ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئے، اس وقت اس علاقے میں دف کے علاوہ کوئی ساز نہیں تھا اور نہ ہی کسی اور ساز کا ذکر کسی بھی کتاب میں ملتا ہے۔ عبداللہ بن زبیر کے ہاں بربط کو دیکھ کر عبداللہ بن عمر کا یہ کہنا کہ یہ کوئی شاہی ترازو لگتا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بربط اسلامی فتوحات کے نتیجے میں مکہ و مدینہ پہنچی، اگر بربط رسول کریم کے زمانہ میں موجود ہوتی تو عبداللہ بن عمر ایسی بات قطعاً نہ کرتے۔ ویسے بھی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بکرے کی کھال سے دف بنے تو وہ جائز ہے اور اسی بکرے کی کھال سے طبلہ بنے تو وہ حرام ہے

موسیقی کو ناپسند کرنے والے اس میں فحاشی و بے حیائی کا بھی ذکر کرتے ہیں، شراب و کباب کا بھی ذکر آتا ہے، منّی کی بدنامی کا بھی بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ موسیقی اور شاعری دو الگ چیزیں ہیں۔ آپ منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے کی دھن پر
بلغ العلی بکمالہ،کشف الدجی بجمالہ
حَسْنت جمیع خصالہ،صلو علیہ و آلہ
گا کر سبحان اللہ و ماشا اللہ کی داد وصول کر سکتے ہیں، موسیقی کو ہم ایک پلیٹ سے مثال دے سکتے ہیں۔ ایک ایسی پلیٹ جس میں کھانا پیش کیا گیا ہو۔ اس پلیٹ میں کھانا اگر بدذائقہ ہے تو اس میں پلیٹ کا کوئی قصور نہیں اور اگر کھانا بہت لذیز ہے تو اس میں پلیٹ کا کوئی کمال نہیں۔
موسیقی کو آپ ایک دیوار کی مانند سمجھ سکتے ہیں جس پر حدیث رسول بھی لکھی جا سکتی ہے اور مردانہ کمزوری کے شرطیہ علاج کا اشتہار بھی لکھا جا سکتا ہے۔ موسیقی کے سروں پر اذان بھی دی جا سکتی ہے، قرآن کی قرأ ت بھی ہو سکتی ہے اور کوئی لچر سا فلمی گانا بھی رچا جا سکتا ہے۔ موسیقی اپنے طور پر نہ مقدس ہے اور نہ فحش۔ راگ بھیرو میں اگر ہندو صبح کے وقت جاگو موہن پیارے گا سکتے ہیں تو مسلمان اس راگ میں اللہ ہو اللہ، جل شان اللہ گاتے ہیں۔
اگر ہندو راگ درباری میں شری کرشن کی تعریف میں گردھر برج دھر مرلیا دھر نی دھر گا سکتے ہیں۔ ( ویسے یہ اتفاق سے ایک مسلمان موسیقار حّدو خان صاحب کی بندش ہے) تو مسلمان اسی درباری میں، تو رحیم تو کریم پاک پروردگار گاتے ہیں۔ ایک ہی دھن پر پیار کیا تو ڈرنا کیا اور اساں یا محمد کہنا اے بھی گایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی گانے کے لچر یا بیہودہ ہونے کا قصور وار موسیقی کو نہیں بلکہ اس کے شاعر کو ٹھہرانا چاہئے نہ کہ موسیقی کو قابل گردن زنی قرار دیا جائے۔ اور یہاں شاعری کو نہیں بلکہ اس کے لکھنے والے کو قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے کیونکہ شاعری کا بھی وہی حال ہے جو موسیقی کا ہے۔
اسی شاعری اور اوزان کی مدد سے کوئی حمد لکھ سکتا ہے اور کوئی انتہائی فحش گانا۔ موسیقار کا کام اسی شاعری کو سر اور لے میں باندھنا ہوتا ہے۔ شاعری یا موسیقی کو حرام ٹھہرانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی علم ریاضی کو حرام قرار دے کیونکہ اس کی مدد سے قرض خواہ مقروض سے سود کی شرح طے کرتا ہے، یاسائنس حرام ہے کیونکہ اس سے تباہی کے ہتھیار بنتے ہیں۔ موسیقی نسل انسان کے ہزاروں سالوں کے تہذیبی ارتقا کا نتیجہ ہے اور اسے مذہب یا کسی اور وجہ سے رد کرنا سراسر جہالت کے سوا کچھ نہیں۔

Tags: ,

3 Comments