اسلام اور موسیقی ۔حصہ اول

خالد تھتھال۔ناروے

tumblr_inline_nbcx1jwAoH1rjed8m
یہ2013 کا واقعہ ہے اوسلو کے فوروسیت نامی علاقے میں ایک میٹنگ ہو رہی تھی۔ میٹنگ کے آغاز میں ایک بچے نے نعت گائی، میں نے بچے کی حوصلہ افزائی کیلئے کہا، ”شاباش بیٹا! آپ نے نعت بہت اچھی گائی ہے“۔ بچے کی ماں نے ایک دم تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔ ”میرے بیٹے نے نعت گائی نہیں بلکہ نعت پڑھی ہے“۔ میں نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا۔

اُسی سال اے آر وائی کا ایک پروگرام دیکھا جس کی میزبانی وسیم بادامی اور جنید جمشید کر رہے تھے۔ نعت سرائی کا مقابلہ تھا، جب بھی کوئی نعت گاتا تو اس پر منصف حضرات اپنے تبصرے کرتے، جن میں انہوں نے کئی بار انترے میں خرابی کا بھی ذکر کیا۔ لیکن جنید جمشید سمیت کوئی بھی باریش معتبر نعت گانے والا منصف میں یہ ہمت نہ کر پایا کہ کہہ سکے، برخوردار! آپ انترہ گاتے وقت بے سُرے ہو گئے تھے، وہاں بھی منصف حضرات نعت گانے کا نہیں بلکہ پڑھنے کا ہی ذکر کر رہے تھے۔

ایک شاعر کے کلام کو گاتے ہوئے پڑھنے کا لفظ استعمال کرنے کی کیا مجبوری ہے؟۔ ہمیں اس قدر دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟۔ ہم مسلمان لوگ گانے کے لفظ سے اس قدر بدکتے کیوں ہیں۔ موسیقی تو معلوم تاریخ کے آغاز سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے، اور اسلام جو کہ دین فطرت کہلاتا ہے، کیا ہم اس دین فطرت پر الزام عائد کر سکتے ہیں کہ وہ ایک غیر فطری رویئے کا مرتکب ہوا ہے۔

اس مسئلے کو صحیح سمجھنے کیلئے ہمیں دو زاویوں سے دیکھنا ہو گا۔ چونکہ ہماری سب سے متعبر مذہبی کتاب موسیقی کے حرام یا حلال ہونے کے متعلق خاموش ہے لہذا ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ    رسول اللہ کے دور میں موسیقی سے متعلقہ کیا حالات و واقعات تھے۔ اسلام کے موسیقی کے متعلق کیا احکامات ہیں؟۔ کیا موسیقی کسی خاص وقت یا حالات کے پیش نظر حرام یا گناہ ٹھہرائی گئی جیسا کہ شراب کی حرمت ایک خاص موقع پر عمل میں آئی؟ اور اگر ایسا ہے تو موسیقی میں ایسی کیا خرابی ہے جو یہ اس قدر معتوب ٹھہری ؟۔

یہ جاننے کیلئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ موسیقی کیا ہے۔ اور اس کا معاشرے اور مذہب میں کس قدر عمل دخل ہے۔

ہمارے ہاں عمومی تصور یہ ہے کہ اسلام میں موسیقی ممنوع ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی ایسا ہی ہے؟ اسلام میں موسیقی کو جائز ٹھہرانے کیلئے اولیائے کرام کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے جب ہندوستان میں دیکھا کہ یہاں موسیقی کو عبادت کا درجہ حاصل ہے تو انہوں نے قوالی کا سہارا لیا جس میں اسلامی تعلیمات کو موسیقی کی ذریعے مقامی باشندوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ اور یوں ہندوستان میں اسلام کا بول بالا ہوا۔

قوالی کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا ذکر آج کل کےقوال بھی کرتے ہیں جن میں امجد صابری قوال کا نام لیا جا سکتا ہے، سائیں ظہور کا بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے کلام اور موسیقی کی تاثیر سے کئی گوروں کو مشرف بہ اسلام کیا ہے۔ کیا اسلام برصغیر میں اولیاء کرام کی تبلیغ اور اچھے کردار کی وجہ سے پھیلا؟ کیا موسیقی سن کر لوگ اپنے بزرگوں کا مذہب چھوڑ دیتے ہیں؟

یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ لیکن اسلام میں موسیقی کو کو قوالی کی آڑ میں جائز قرار دینے والی دلیل کو یوں رد کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک وقتی ضرورت تھی، اور ویسے بھی قوالی اسلام پر ہندو معاشرے کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ خلافت عباسیہ کے زمانے کے مسلمان موسیقاروں کا بہت ذکر سنا جاتا ہے جن میں اسحٰق بن ابراہیم موصلی کا نام نمایاں ہے۔ یہ وہی موصلی ہے جو موسیقی کا استاد ہونے کے باوجود شعر گوئی، تاریخ، فقہ اور حدیث میں بھی اس قدر ید طولیٰ رکھتا تھا کہ ماموں الرشید کہتا ہے کہ اسحٰق اگر ایک موسیقار کے طور پر مشہور نہ ہوتا تو میں اسے قاضی بناتا کیونکہ عفت، صدقِ دین اور امانت میں ان جیسا کوئی نہیں ہے۔

لیکن ہم اس دلیل کو بھی رد کر سکتے ہیں کہ خلافت عباسیہ کے زمانے میں اسلام پر ایرانی ثقافت کے اثرات بہت بڑھ چکے تھے، بلکہ خلافت عباسیہ تو عربوں کی نسلی تعصب کے خلاف ایرانیوں کی بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ ابو مسلم خراسانی کا نام تاریخ کے کسی بھی طالبعلم کیلئے اجنبی نہیں ہو گا۔ ہم اس دور کو اسلام میں مجوسی آمیزش کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہمیں اصلی اسلامکیلئے بدوی معاشرے کے ارتقائی مرحلے اور رسول کریم، صحابہ کرام اور تابعین کے دور کو دیکھنا ہو گا۔

اسلامی تاریخ میں موسیقی کا ذکر ہمیں ہجرت رسول کے وقت ملتا ہے، جس کے مطابق حضور جب مدینے تشریف لائے تو عورتوں، بچیوں اور نوجوانوں نے چھتوں پر چڑھ کر دف بجاتے ہوئے یہ استقبالی گانا شروع کر دیا:
طلع البدر علینا
من ثینات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للہ داع
أیھا المبعوث فینا
جئت بالأمر المطاع۔
آج ہمارے گھر چاند اُگا ہے وداع کے ٹیلوں سے۔ ہم پر شکر الٰہی واجب ہے جب تک دعا کرنے والے دعا کرتے رہیں۔ آپ تو ہم میں ایساحکم لے کر آئے ہیں جو واجب الاتباع ہے۔

رسول اللہ کے زمانے میں موسیقی کی ایک محفل کا حال سنیں۔ یہ ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے

آپ صلی اللہ وسلم کے مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ” ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک لڑکی وہاں آ گئی، جس کا نام سیریں تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک فانوس تھا۔ جس کو لے کر لوگوں کے درمیان گھومنے اور یہ گانا گانے لگی:
ھل علی و یحکم ان لھوت من حرج
ترجمہ: اگر میں تمہارے سامنے اس طرح گاؤں تو اس میں حرج کیا ہے ؟
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا، انشاءاللہ اس میں کوئی حرج نہ ہو گا۔
(
سیرت حلبیہ، جلد سوم، صفحہ نمبر:161)

:شادی ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے، اور اس موقع پر ہر معاشرے میں گانے گا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انصار میں سے اپنی ایک قرابت دار خاتون کی شادی کرائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے، اور فرمایا: ”تم لوگوں نےدلہن کو رخصت کر دیا ؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ کوئی گانے والی بھی بھیجی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “انصار کے لوگ گیت گانے کو پسند کرتے ہیں، کاش تم لوگ دلہن کے ساتھ کسی کو بھیجتے جو یہ گاتا: «أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم» ”ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، اللہ تمہیں اور ہمیں سلامت رکھے
سنن ابن ماجہ، كتاب النكاح، حدیث نمبر: 1900۔
حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی کے بقول رسول اللہ نے زینب نامی گانے والی سے فرمایا، جلدی تیار ہو کر دلہن کے ساتھ روانہ ہو جا۔

:شادی کے سلسلہ میں ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اسی صبح آئے، جس رات میری شب زفاف تھی تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی)کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں ( یعنی گا رہی تھیں)“۔
(
سنن أبی داؤد، كتاب الادب, حدیث نمبر: 4922)

ہر معاشرے میں مختلف تیوہار ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں فصل کی کٹائی پر بیساکھی ہوا کرتی تھی۔ ڈھول باجے اور تماشے ہوا کرتے تھے۔ کئی معاشرے نئے سال کو جشن نوروز کہہ کر مناتے ہیں، ہم مسلمانوں میں عید کا تیوہار ہوتا ہے جس کی بنیاد مذہبی ہے۔ تیوہار کسی بھی معاشرے میں خوشی کا دن ہوتا ہے اور اس دن گانا ایک عام سی چیز ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے یہاں (منٰی کے دنوں میں)تشریف لائے اس وقت گھر میں دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور بعاث کی لڑائی کی نظمیں گا رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ مبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے تشریف فرما تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو ڈانٹا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر فرمایا کہ ابوبکر جانے بھی دو یہ عید کے دن ہیں (اور وہ بھی منٰی میں)۔
(
صحیح بخاری، كتاب العيدين، حدیث نمبر: 987)

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، تو ان دونوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑو (بجانے دو)کیونکہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے“ (جس میں لوگ کھیلتے کودتے اور خوشی مناتے ہیں)۔
(
سنن نسائی، كتاب صلاة العيدين، حدیث نمبر: 1594)

حضرت عمر بن خطاب اسلامی تاریخ کی ایک بہت ہی سخت مزاج اور غصیلی شخصیت ہیں، آپ رسول کریم کے زمانے میں بھی بات بات پر تلوار نکال لیا کرتے تھے۔ خلافت کے بعد آپ کا دُرّہ ایک دہشت کی علامت تھا جس کی زد میں آنے والے نہ صحابہ بچے اور نہ غیر صحابہ۔

خوات بن جبیر کہتے ہیں، ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیلئے روانہ ہوئے۔ ان میں اابو عبیدہ بن جراح اور عبدالرحمٰن بن عوف بھی شامل تھےلوگوں نے (حضرت عمر سے) فرمائش کی کہ ضرار کے اشعار ترنم کے ساتھ سنوائیے۔ حضرت عمر نے ابو عبداللہ (خوات) کو بلا کر کہا کہ اس کے اشعار گا کر سنائے خوات کہتے ہیں یہ شغل ساری رات ہوتا رہا یہاں تک کہ صبح ہونے لگی تو حضرت عمر نے فرمایا، خوات اپنی زبان اب بند کرو کیونکہ صبح ہو چکی ہے۔۔۔۔۔

حضرت عثمان نہ صرف ایک معزز صحابی تھے بلکہ تیسرے خلیفہ ہونے کے علاوہ رسول اللہ کی دو صاحبزادیاں بھی ان کے عقد میں تھیں، اس وجہ سے انہیں ذالنورین کہا جاتا ہے۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمان کے پاس دو باندیاں تھیں جو انہیں شب کو گانا سنایا کرتی تھیں۔ جب وقت سحر ہوتا تو آپ ان سے فرماتے: ” اب بس کرو، یہ استغفار کا وقت ہے“۔

عبداللہ بن زبیر، زبیر بن عوام کے بیٹے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے۔ شیخ تقی الدین اپنی کتاب اقتناص السوانح میں وہب بن سنان کا یہ قول نقل کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن زبیر کو گانا گاتے سنا۔ ابن زبیر کہتے ہیں، مہاجرین میں شائد ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو ترنم کا شوق نہ رکھتا ہو۔ امام لحرمین، ابن ابی الدم اور دوسرے مستند مورخین روایت کرتے ہیں۔ کہ عبداللہ بن زبیر کے پاس بربط بجانے والی باندیاں تھیں۔ ایک بار عبداللہ بن عمر، ان کے پاس گئے تو انہوں نے بربط دیکھی اور پوچھا یہ کیا ہے؟ ابن زبیر نے وہ بربط ان کی طرف بڑھا دی اور ابن عمر نے اسے بغور دیکھ کر کہا۔ یہ تو شاہی ترازو معلوم ہوتی ہے۔ ابن زبیر بولے، ہاں اس ترازو پر عقلیں تولی جاتی ہیں۔

حضرت سعید بن مسیب تقویٰ میں ضرب المثل تھے اور اویس قتنی کے بعد سب سے افضل تابع تھے۔ نیز فقہائے سبعہ میں سے ایک تھے۔ ان کے بارے میں ابو طالب مکی لکھتے ہیں کہ سعید بن مسیب ایک بار مکّے کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ عاص بن وائل کے گھر سے اخضر کی آواز سنی جو یہ شعر گا رہا تھا:
جب زینب ( حجاج کی بہن) شرمیلی عورتوں کے جھرمٹ میں چلتی ہے تو وادی نعمان مشک کی خوشبو سے بس جاتی ہے“
یہ سن کر سعید بن مسیب نے اپنا پاؤں پٹکنا شروع کیا اور کہنے لگے: ”بخدا یہ ہے وہ گانا جس کو سننے کا مزا آتا ہے۔

میں نے جان بوجھ کر حضرت داؤد کا ذکر نہیں کیا جن کا معجزہ ہی گانا تھا، آپ کا ذکر کرتے وقت خوش الحانی کا ذکر کیا جاتا ہے جس کا مطلب سریلا ہونا ہے۔ لیکن حضرت داؤد علیہ السلام یہودیوں کے نبی تھے اور جب رسول کریم آئے تو نئی شریعت لے کر آئے اور تمام پرانی شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔  چونکہ ہم مذہبی نقطہ نظر سے موسیقی کو دیکھ رہے ہیں لہذا اس قسم کے دلائل کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ موسیقی طب کا حصہ ہے اور اس سے کئی امراض کا علاج ہوتا ہے یا وہ پودے جنہیں موسیقی سنائی گئی ان کی نشوونما ان پودوں سے بہتر تھی جنہیں موسیقی نہ سنائی گئی۔ موسیقی روح کی غذا ہے، موسیقی انسان میں سخاوت اور جنگ میں شجاعت کے جذبات بیدار کرنے کا باعث ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اگلی قسط میں موسیقی سے بحث کی جائے گی کہ موسیقی کیا ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ فن لطیفہ کی اتنی ارفع شکل کو حرام ٹھہرایا جائے۔

Tags: ,

3 Comments