میڈیا۔ یوری پیڈیز کا ادبی شاہکار

جاوید اختر بھٹی

1983.2a

یوری پیڈیز یونان قدیم کے تین بڑے المیہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت سے 480سال قبل جزیرہ سلامس میں ٹھیک اس دن پیدا ہوا جب اہل یونان نے ایران کو شکست دی۔ اس کا باپ منی سارکس ایک مے خانے کا منتظم تھا اور ماں، کلی ٹو،جڑی بوٹیاں بیچتی تھی۔ اس کے والدین تعلیم کی اہمیت کے شناسا اور اتنے آسودہ حال تھے کہ انہوں نے یوری پیڈیز کی جسمانی تعلیم و تربیت کا وہی اہتمام کیا جو اس زمانے کا دستور تھا۔ بچے کی ولادت سے پہلے انہوں نے دیوتاؤں سے جو استخارہ لیاتھا وہ اسے غلط سمجھے اور انہوں نے یوری پیڈیز کو جسمانی مہمات کی فتح مندیوں کے لئے تیار کیا لیکن اس کو کامرانیاں تخلیقی شعبہ میں حاصل ہوئیں اور وہ دنیا کے المیہ نگاروں میں ممتاز حیثیت کا مالک بن گیا۔

یوری پیڈیز کے تعلقات اپنے عہد کے مشہور فلسفیوں انازوگرس اور سقراط سے بہت گہرے تھے اور اس نے ان کی دوستی سے اپنے علم و عرفان میں بہت کچھ اضافہ کیا۔ اس نے اس عہد کے منشککین پر وتاگورس اور پراڈی گس سے بھی استفادہ کیا اور اس طرح زندگی ادب فلسفہ اور زبان کے بہت سے نکات سیکھے۔ یورپ پیڈیز اپنے عہد کے حالات پر اچھی طرح نظررکھتا تھا لیکن اپنا زیادہ وقت الگ تھلگ اپنے کتب خانے میں گزارتا تھا۔ اس کا محبوب مشغلہ کتابوں اور شاعروں کا مطالعہ تھا۔

یوری پیڈیز نے دوشادیاں کی اور دونوں ناکام ہوئیں۔ اکہتر برس کی عمر میں یوری پیڈیز ایتھنز چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ ایک تو اس زمانے کے طربیہ نگار اس پر خندہ زن تھے اور ارسٹافیز نے تو اسکو اپنی ہزل گوئی کاخاص طور پر ہدف بنایا تھا۔ دوسرے گھر کی پریشانیوں کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ کسی اور شہر میں جا کر پناہ لے۔ اس وقت مقدونیہ کے بادشاہ آر کی لس کا دربار شاعروں اور فن کاروں کا بڑا مرکز تھا۔ اس نے یوری پیڈیز کی بھی قدردانی اور سرپرستی کی۔ لیکن یہ سلسلہ دو برس کے بعد موت کے بے رحم ہاتھوں سے منقطع ہوگیاجو 405قبل مسیح میں واقع ہوئی۔

یوری پیڈیز کی المیہ تصانیف کی تعداد87,75اور 92بتائی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ صرف اٹھارہ دست برد زمانہ سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے مشہور ڈرامہ میں جذبات کی شدت خصوصاً عورت کی بے پناہ محروم محبت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اوربتایا گیا ہے کہ اس کا ضمیر صرف جذبات سے گوندھا گیا ہے اور جب وہ محروم ہوجاتی ہے تو قیامت بن جاتی ہے۔

برصغیر میں عورت ہزاروں سال ستی ہوتی رہی ہے، تمام فیصلے آج بھی اس کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں، اسے اتنی آزادی بھی نہیں کہ جس شخص کے ساتھ اس نے زندگی بسر کرنی ہے، اسے وہ پسند بھی کرتی ہے یا نہیں۔ عورت آج بھی دوسرے اور تیسرے درجے میں زندگی گزار رہی ہے یہ عورت جو ہمارے سامنے ونی کی رسم کا شکار ہورہی ہے وٹہ سٹہ کی رسم کی بھینٹ چڑھ رہی ہے جس کو پنچائیت کی عدالت میں ناکردہ گناہ کے جرم میں ذلت اور رسوائی کی سزا سنائی جاتی ہے ان کی جبراً شادیاں کی جاتی ہیں تیزاب پھینک کران کے چہرے مسخ کئے جاتے ہیں، انتقاماً عورتوں کی ناک اور ٹانگیں کاٹ دی جاتی ہیں لیکن آج سے اڑھائی ہزار برس پہلے یوری پیڈیز نے عورت کو اپنا دفاع کرنے کے لئے اور بادشاہ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے زبان دی۔

اس ڈرامہ کا موضوع ظلم اور انتقام ہے یہ موضوع یوری پیڈیز کا محبوب موضوع ہے اور اس کے ڈراموں میں اس کے نقوش نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں۔

اس ڈرامہ کا تاثر منفی رہا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس پر دوبارہ رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ڈرامے کے آٹھ کردار ہیں۔ (۱)میڈیا(۲)جیسن(میڈیاکاخاوند)(۳)کیران(کارنتھ کا حکمران ) (۴) ایجیس (ایتھنز کا بادشاہ)(۵)میڈیا کی نرس (۶)میڈیا اور جیسن کے دوبچے(۷)بچوں کا نگران ملازم (۸)ایک قاصد۔ لیکن جس مکالمے کا انتخاب کیاگیا وہ میڈیا اور کیران کے درمیان ہے کیونکہ میڈیا کا زور خطابت عروج پر ہے۔

میڈیا :کارنتھ کی عورتو!میں تم کو اپنا چہرہ دکھانے آئی ہوں۔ کہ تم مجھ سے نفرت نہ کرو۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ بعض سربلند ہوتے ہیں مگر گرتے نہیں، رات کی تنہائی میں بھی۔ انسان کی نظر میں اس سے بہت کم۔

لیکن ہم لوگ جو اپنی جدوجہد کا مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ محسوس کرتے اور روتے ہیں ہم برے اور بے حقیقت ہیں کیونکہ انسان کی آنکھوں میں وہ کون سی سچائی ہے جو دل کی متلاشی نہیں ہوتی، لیکن آن واحد میں اجنبی چہرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس ہستی سے گریزاں ہوجاتے ہیں جس نے کوئی بدی نہیں کی۔دور کے مسافروں کے سامنے مجھے سرجھکا دینا چاہئے اور ان سے شریفانہ سلوک کرنا چاہیے۔ نہیں، یونانی کس دوسرے یونانی کی تعریف مشکل سے کرتا ہے ایسے یونانی کو جو اپنی مرضی پر اڑارہے اور دوسرے کا خیال نہ کرے۔ لیکن میں نے اپنی روح کے ٹکڑے کر دئیے حالانکہ میں نے اس کا کبھی خواب بھی نہ دیکھاتھا۔ جہاں میں کھڑی ہوں میری آنکھیں چکاچوند ہورہی ہیں زندگی کا پیالہ میرے ہاتھ میں چکنا چور ہوگیا ہے اور مجھے موت کی آرزوہے اے دوستو! وہ بھی جس کی شناسا میری ساری دنیاتھی وہ شخص جس سے میں محبت کرتی تھی آخر کار بہت بد ثابت ہوا ان تمام چیزوں میں جو زمین پر اگتی پھولتی پھلتی ہیں سب سے زیادہ زخمی اور بدنصیب عورت ہے۔

عورتیں اپنے سونے کاخزانہ ایک دن کے لئے جمع کرتی ہیں کہ اس سے مرد کی محبت جیت سکیں۔ ہمیں اپنے جسم ہی کاآقا ملتا ہے پھر شرم کا نیش ہماری قسمت میں پیوست ہو جاتا ہے اور پھر اچھائی یا برائی کا خطرہ کہ خداجانے ہمارآقا کیسا ہو۔ وہ اسے مسترد نہیں کرسکتیں لیکن اگر وہ اپنی مانگ پر برابر قائم رہیں تو وہ عورت کے لئے شرم کی بات ہوگی۔ وہ اپنے آپ کو نئے قوانین اور نئے حالات میں گرفتار پائے گی کیوں؟
اس کے پاس جادو ہونا چاہئے گھر میں اس نے یہ کبھی نہ سیکھا تھا اس شخص کو کیسے پر امن رکھے جو اس کے پاس آسودۂ راحت ہے اور اگر طویل محنت کر کے کوئی ایسا راستہ تلاش کر لے جس سے اس کا آقا اس کے ساتھ گزر سکے اور اپنے جوئے کابار ہلکا رکھے۔ ایسی عورت کی روح بڑی متبرک ہوگی ورنہ اس کو موت کی دعا مانگنا چاہئے اس کاآقا اگر اندرون خانہ اس کے چہرے سے برگشتہ ہوچکا ہے اسے باہر نکال دے ۔کوئی اور زیادہ مسرت آفریں مقام اس کے دل کو راحت دے گا مگر وہ برابر انتظار ہی کرتی رہے گی اس کا تصور ایک ہی روح میں مقید ہوگا اور سچ تو یہ ہے کہ وہی لوگ جنگ کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور ہم عورتیں خطرات سے محفوظ پوشیدہ رہتی ہیں۔

جھوٹا ڈھکوسلہ! ایک بچہ پیداکرنے سے میں اس کو سر گونہ پسند کروں گی کہ تیغ و تبرے لے کر میدان جنگ میں کود پڑوں۔ لیکن خاموش! میری اور تیری ایک ہی کہانی نہیں ہوسکتی۔ تیرے قبضے میں یہ شہر ہے اور تیرے باپ کا گھر دوستوں کی خوشیاں اور مستقبل کے لئے امید، لیکن میں بے وطن ، مجھے وہ دور پھینک رہا ہے۔ جو مجھے بیاہ کر لایا تھا۔جسے ایک وحشی عروس کو جو دور سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نہ ماں قریب ہے نہ بھائی اور نہ کوئی رشتہ دار،جو اسے طوفان میں پناہ دے سکے۔ اس لئے میں تجھ سے صرف ایک ہی چیز مانگتی ہوں اگر اتفاق سے کوئی راہ پیدا ہوجائے اور میرے بازو میں ایسی قوت پیدا ہوجائے کہ میں جیسن سے انتقام لے سکوں تم مجھے دھوکہ نہ دینا۔ سب باتوں میں سوائے اس بات کے میں جانتی ہوں کہ عورت کس قدر خوفزدہ ہوتی ہے۔ ضرورت میں کس قدر ناتواں ہوجاتی ہے جنگ کی روشنی سے کس قدر لرزتی ہے لیکن مرد کی محبت میں اگر اس کی حق تلفی ہو تو دوزخ اور بہشت میں بھی اس سے زیادہ خونخوار ہستی اور کوئی نہیں ہوتی۔

کیرآن :میڈیا! اپنے شوہر کے خلاف تیری آنکھیں غضبناک ہیں اور تو نفرت کا مجسمہ بنی ہوئی ہے میں حکم دیتا ہوں اپنے بچوں کے ساتھ اس دیس سے جلاوطن ہو۔ دیر نہ کر۔ یہ دیکھنے بادشاہ خود آیا ہے کہ اس کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے جب تک تیرے دونوں بچے اور تو ہماری سلطنت کی حد سے باہر نہ ہو جائیں ادھر پلٹ کر نہ دیکھنا۔

میڈیا: محروم محروم!

مجھ سے نفرت کرنے والے رواں دواں جہاز پر بادبان کھولے ہوئے میرا تعاقب کررہے ہیں اور اس نہ ختم ہونے والے سمندر میں میرے لئے نہ کوئی کنارا ہے اور نہ ساحل۔پھر بھی اس غم و اندوہ کی حالت میں اے بادشاہ! کس جرم کس غیر قانونی حرکت کی وجہ سے میں جلاوطن کی جارہی ہوں۔

کیرآن: کون سا جرم؟عورت!میں تجھ سے خائف ہوں۔ وجوہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ تو میرے بچے پر کوئی پوشیدہ حرکت کر گزرے اور اس خوف کے لئے کافی وجودہ موجود ہیں تو ایک مسلمہ عقل مند عوت کی حیثیت سے یہاں آئی۔ پر اسرار کارگزاریوں کی ماہرکی حیثیت سے تیرا دل دکھی ہے کہ تو اپنے محبوب کی آغوش سے جدا کی گئی۔ اب تو نے خطرہ پیداکردیا ہے اس لئے اب ہوشیار ہوجانا چاہئے میرے کانوں میں یہ خبر پہنچی ہے کہ تو دولہا اور دلہن (جیسن کی نئی بیوی) دونوں سے انتقام لینے کے درپے ہے۔ قبل اس کے کہ ضرورت سے زیادہ دیر ہوجائے میں تجھے علیحدہ کردوں گا میں تیری نفرت کو پسند کرتا ہوں اوررحم کی کیفیت سے دور ہی رہوں گا۔ اس کے بعد خون کے آنسو روتی رہنا۔

میڈیا: بادشاہ سلامت! یہ پہلی اور دوسری مرتبہ نہیں ہے کہ میری شہرت نے مجھے نقصان پہنچایا اور میری بربادی کا سامان مہیا کردیا کیسے کوئی شخص جس کی آنکھیں کھلی ہوں۔ اس سے بہتر پروان چڑھ سکتا ہے۔ عام لوگوں میں بہت ہی بے بسی ہے اور شہریوں کے دلوں میں حسد جاگزیں ہوگیا ہے یہ سب کچھ ان کے علم کا عطیہ ہے۔ بے وقوفوں کو دیکھ جن کو نئی چیزوں کی واقفیت ہے۔ یہ علم ان کے لئے وجہ غرور بن جاتا ہے یہی میری حالت ہے میں ایک عقل مند عورت ہوں اور اس وجہ سے مجھے لوگ طرح طرح کے نام دھرتے ہیں ،فساد کے بیج بوتے ہیں ایک مشرقی خواب دیکھنے والی! ایک غیرکفو کی عورت! ایسی عورت جس سے کھیلا نہ جاسکے!۔

آہ، میں ایسی عقل مند کہاں ہوں؟ اور اب آپ کے لئے خوفناک ہوں آپ کوکس چیز کا ڈر ہے کونسا ہولناک کام؟ کیا میں غرور کے راستے پر گامزن ہوں آپ مجھ سے خوفزدہ نہ ہوں! بادشا ہوں کے غصہ کی میں کیا تاب لاسکتی ہوں؟ آپ آپ نے میرے ساتھ براسلوک کب کیا؟آپ نے اپنا بچہ اس کو عطا کیا جس کو آپ نے پسند کیا۔ اس سے اب میں دل میں نفرت کرتی ہوں لیکن آپ اپنا کام کر گزرے آپ کے خاندان کی مسرت کے لئے میں دل میں بغض دور کر دیا ہے شادی رچائی۔ خدا آپ کی اولاد کو برکت دے صرف اس کی اجازت دیجئے کہ میں اس دیس میں کسی جگہ پناہ لے سکوں اگرچہ میں بہت دکھی ہوں پھر بھی اپنی شکست سے آگاہ ہوکر خاموش رہوں گی۔

کیرآن: تیرے الفاظ نرم ضرور ہیں لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اب بھی تیرے دل کی گہرائیوں میں کوئی سنگین بدی پوشیدہ ہے۔ اور میں تجھ پر اس سے زیادہ بھروسہ کرتا ہوں جس قدر ان الفاظ کے شروع ہونے سے پہلے کرتا تھا۔ جو عورت یا مرد جلد برافروختہ ہوسکے زیادہ توجہ کا محتاج ہے بہ نسبت سرد مزاج اور خاموش انسان کے۔ سیدھی کھڑی ہو۔ اپنا راستہ پکڑو۔ اپنے الفاظ سے میری مرضی پر خندہ زن نہ ہو۔ یہ فیصلہ واپس نہیں جاسکتا۔ تیری ساری چال بازیاں تری مدد

نہ کرسکیں گی۔ کھلی دشمن ہونے کی وجہ سے تو میرے قریب نہیں رہ سکتی۔


میڈیا یکایک زمین پر گر پڑتی ہے اور کیران سے چمٹ جاتی ہے
آف۔ تمہارے قدموں کی قسم۔ نئی نویلی دلہن کا واسطہ!!
کیران :یہ لفظوں کی زبان ہے۔ تو مجھے نرم نہ کرسکے گی

کیا اڑھائی ہزار برس پہلے کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ آج بھی حقیقت نہیں


(
اس ڈرامے کا اردو روپ 1977ء میں شائع ہوا۔ اور یہ عبدالشکور صاحب مرحوم کی کاوش ہے)

Comments are closed.