سیستان و بلوچستان میں دہشت کی بازگشت

shamsara20120410054605733

ایران و سعودی عرب کے درمیان ، یمن پر ، اختلافات سر اٹھانے کے ساتھ ہی سیستان و بلوچستان میں دہشتگردی کی نئی لہر کا آغاز ہوا ہے۔ سنی برادی کے امام جمعہ برائے زاہدان نے  ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا مسائل کو  ً قانون و بات چیت ً کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

رحمانی فضلی ، ایران کے وزیر داخلہ ، کا 13 اپریل کو ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا : ً ہم نے 22 بہمن سے پہلے ملک کے مشرقی حصے میں ایک گروہ کا سراغ لگا کر انہیں گرفتار کیا ۔ اس گروہ نے سات سال کے دوران ، دہشتگردی کی 90 کارروائیاں کی تھیں۔ ً  ایرانی وزیر داخلہ نے مزید کہا سیستان و بلوچستان میں امن و امان کی ذمہ داری سپاہ پاسداران کی ہے۔

سپاہ پاسداران نے 6 اپریل کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے قصر قند و نیکشہر کے علاقوں میں ایک ً دہشتگرد گروہ ً کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 

سپاہ پاسداران کے اس پریس ریلیز کے اعلان کے ایک دن بعد ایرانی بارڈر فورس کے کے 8 اہلکار ً پشین ً و ً باہوکلات ًکے علاقے میں مسلح افراد کے حملے میں مارے گئے۔ دہشتگردی و تشدد اس واقعہ کے بعد  بھی جاری رہا۔ 9 اپریل کو سپاہ پاسداران کے مزید دو اہلکار مہرستان کے علاقے میں مارے گئے۔ 

قاسم رضائی، ایرانی بارڈر پولیس کے سربراہ ، نے تصدیق کی ہے کہ ً 80 سے زائد مخالف گروہ  ً پاکستانی علاقے سے ایران کیخلاف تخریبی ً کارروائیاں کرتے ہیں۔ قاسم رضائی نے اس بات پر زور دیا کہ ً ان گروہوں کا جواب نرم ڈپلومیسی نہیں ہے۔ ً  

سپاہ پاسداران نے پانچ سال سے زائد عرصہ ہوا کہ سیستان و بلوچستان کے امن و امان کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے لیکن گزشتہ دنوں کے واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ دہشتگردی و تشدد  پھر سیستان و بلوچستان لوٹ آئے ہیں۔

دہشتگردی کے ان واقعات کی ذمہ داری ً جیش العدل ً نامی ملیشیا نے قبول کی ہے۔ جو قبل ازیں ً جنداللہ ً کے نامی سے سرگرم تھی۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والی ویب سائٹس پر ہلاک شدہ افراد کے ناموں کے علاوہ جائے وقوع کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔  جیش العدل ً بلوچ عوام اور اہل تسنن ایران کے چھینے گئے حقوق کے دفاع ً کو اپنی مصالحانہ کارروائیوں کا مقصد قرار دیتی ہے۔

صوبے کو خوب صورت و پرامن ترین بنانے کا وعدہ

سیستان و بلوچستان ایران کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ اس صوبے میں امن و امان کی ذمہ داری احمدی نژاد کے دور حکومت میں سپاہ پاسداران کے حوالے کی گئی۔  احمدی نژاد نے وعدہ کیا کہ اس صوبے کو جلد ہی ً آباد ً اور خوبصورت و پرامن ترین صوبہ بنادیا جائے گا لیکن اس کے دور حکومت میں سیستان و بلوچستان کے سول ایکٹوسٹ بے رحمی کیساتھ کچل دیئے گئے۔ جس سے شدت پسند رجحانات کو فروغ ملا۔

اسٹیفن ڈیوڈ وانیان، ً بلوچ سرزمین کی سیر ً نامی کتاب کے  فرانسیسی مصنف ، نے فرنچ روزنامہ ً فیگارو ً سے انٹرویو میں دہشتگردی و شدت پسندی کی وجوہات کی اس طرح وضاحت کی کہ ً یہ شدت پسندی ممکن ہے  اقلیتوں کو سرکوب کرنے کے ردعمل میں سامنے آئی ہے، یہ سرکوبی سال 2005 یعنی احمدی نژاد کے حکومت سنبھالنے کے بعد شدت سے بڑھ گئی ہے۔ ً

نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سیستان و بلوچستان کے حالات میں تبدیلی کی بڑی امید پیدا ہوئی۔ علی یونسی ، حسن روحانی کے معاون خصوصی برائے اقوام و اقلیت، نے دو سال قبل کہا  تھا کہ سیکورٹی فورسز کو ً دہشتگردی کی بنیادوں ً کا سراغ لگانا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کو شریک کرکے  ً دہشتگردی کے واقعات کا راستہ ً روکا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچوں کے مسائل پر  حکومتی ً سیکورٹی نقطہ نظر ً والی پالسی میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی حالانکہ مقامی علما و مشائخ اس بات کا خدشہ ظاہر کرچکے تھے کہ اس پالسی کے ردعمل میں نیا تشدد جنم لے سکتا ہے۔

عبدالحمید: ایرانی سنی برادری دہشتگردی و تشدد کی مخالف ہے۔

مولوی عبدالحمید، امام جمعہ اہل سنت زاہدان ، نے سیستان و بلوچستان میں دہشتگردی و تشدد کے دوبارہ لوٹ آنے پر کہا صوبہ کی مشکلات قانون و بات چیت سے حل ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ سیستان و بلوچستان میں ہر قسم کی دہشتگردی و بدامنی کے مخالف ہیں۔

سیستان و بلوچستان میں دہشتگردی کے تازہ واقعات ً یمن میں ایران و عربستان کی پراکسی وار ً کیساتھ سامنے آئے۔ عبدالحمید منطقہ میں جاری کشمکش کے بارے میں کہتے ہیں : ً علمائے اہل سنت ایرانی سرحد کے اندر یا ایران سے باہر تشدد کے مخالف ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسائل کو بات چیت، اختیارات کی تقسیم اور جامع و جمہوری انتخابات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ اہل سنت  برادری اس بات سے خوش نہیں کہ علاقائی کشمکش ایران اور اس کی سرحدوں تک پھیل جائے۔ یمن، شام و عراق کی کشیدگی وہیں بات چیت سے حل ہو۔ ً

عبدالحمید مزید کہتے ہیں: ً اکثر یہ مسائل اقلیتوں کے حقوق نہ دینے پر سر اٹھاتے ہیں۔ بعض حکومتیں اپنی اقلیتوں کی پروا نہیں کرتیں اور عوام کے مطالبات پر توجہ نہیں دیتی ہیں اور یہ مسائل سامنے آتے ہیں۔ً

عبدالحمید نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ علما اور اہل سنت حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا: ً ہم نے ان مسائل کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہمارے فیصلے کے اثرات علاقہ پر مرتب ہونگے۔ یہاں بدامنی پیدا کرنے والوں کو بھی ہم عوام کی مشاورت کے ذریعے دباؤ میں لاکر لوگوں کے قتل سے روک سکتے ہیں۔

یمن کے بحران کیساتھ دہشتگردی کی شدت

کارینا جہانی ،  ً اپسالا  ً یونیورسٹی سویڈن میں بلوچستان امور کی ماہر بھی کہتی ہیں یمن میں سعودی عرب کے حملہ سے سیستان و بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ دہشتگردی کی لہر کی واپسی کا اس ً پراکسی وار ً سے تعلق ہے۔

لیکن بلوچ امور کی اس ماہر نے اس بات پر زور دیا کہ سنی محسوس کرتے ہیں کہ وہ  ایران کے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ بلوچ ایران و پاکستان میں اپنے حالات سے خوش نہیں۔ پاکستان میں رہنے والے بلوچ زبان و ثقافت کے لحاظ سے دباؤ کا سامنا کررہے ہیں لیکن ایران میں جو اہم فرق ہے وہ یہ ہے کہ بلوچ سنی ہیں جبکہ ایران کی مرکزی حکومت میں اہل تشیع کی حکمرانی ہے۔

کارینا جہانی اس بات پر زور دیتی ہیں کہً اس مسئلہ کے حل کیلئے ایران حکومت کو بلوچوں کیساتھ مذاکرات کرنے چاہیئں۔ سالوں سے صرف الزام لگاتے ہیں کہ یہ دہشتگرد ہیں، لیکن میں سوچتی ہوں کہ یہ راہ حل نہیں ہے بلکہ تحقیر کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بلوچوں کو اگر موقع دیا جائے اور حکومت ان سے مذاکرات کرے تو دہشت گردی و تشدد کوروکا جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر تشدد و دہشت گردی کے باعث بلوچ نوجوان شدت پسند گروہوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔

، ڈوئچے ویلے، فارسی سروس اپریل 2015

Comments are closed.