زلزے کے دس سال بعد، ترقیاتی کام مکمل کیوں نہ ہو سکے؟

1011_dad2

ریاست نے کشمیر کے نام پر سیاست کی اور اس کے لیے فنڈز بھی حاصل کیے لیکن انہیں کشمیری عوام پر خرچ نہیں کیا جاتا

پاکستانی کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں آنے والے زلزلے کے دس سال مکمل ہونے پر اس کے اثرات آج تک بھی محسوس کیے جارہے ہیں۔ اس زلزلے میں 73 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ 28 ہزار زخمی ہوئے تھے۔

تباہ کن زلزلے کے دس سال پورے ہونے پر آج جمعرات کو دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مخلتف حصوں میں دعائیہ تقریبات منعقد کی گئیں۔ اس ضمن میں مرکزی تقریب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہددری عبدالمجید نے اعتراف کیا کہ زلزلے کے بعد بحالی کا کام جس رفتار سے ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں ہوا۔ ایک لاکھ سے زیادہ بچے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے کے بعد بین الاقوامی امداد کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے تعمیر نو کا کام سست روی کا شکاری ہے۔ جمعرات کو مظفر آباد میں زلزلے کے دوران معذور ہو نے والے افراد نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔ اس ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت نے بحالی اور تعمیر نو کے عمل کے تحت گھروں کی چابیاں تو دیں لیکن گھر نہیں مل سکے۔

زلزلے بعد بحالی اور تعمیر نو کے لیے قائم ادارے ایراکی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2005ء میں آنے والے زلزلے سے 5808 اسکول تباہ ہوئے جن میں سے اب تک 2882 اسکول تعمیر ہو چکے ہیں جب کہ لگ بھگ 2800 کی تعمیر جاری ہے۔ اس کے علاوہ صحت کے تین سو سات مراکز تباہ ہوئے، جن میں سے ایک سو ترانوے تعمیر کیے گئے جبکہ ایک سو تیرہ زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ چھ لاکھ گیارہ ہزار انسٹھ گھر تباہ ہوئے جن میں سے چھ لاکھ کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔

تاہم دوسری جانب حکومتی دعوؤں کے برعکس زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے خیبر پختونخواہ کے شہر بالا کوٹ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اب تک دو ہزار پانچ جیسی صورتحال ہی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اکتیس سالہ محمد رضا کا تعلق بالا کوٹ سے ہے اور وہ ملازمت کی غرض سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ رضا کا کہنا ہے کہ جب اکتوبر دوہزار پانچ کا ہولناک زلزلہ آیا تو وہ گورنمنٹ کالج بالا کوٹ میں بی اے کے طالبعلم تھے۔

ماضی کو یاد کرتے ہوئے رضا نے بتایا کہ میں کالج جانے کے لیے گھر سے نکل کر قریب ہی واقع مکئی کے کھیت کے ساتھ پگڈنڈی پر چل رہا تھا کہ اچانک ایسا محسوس ہوا جیسا کسی نے زمیں پیروں کے نیچے سے کھینچ لی ہو میں ابھی سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ارد گرد کے پہاڑوں پر بنے مکانات زمین بوس ہو کر وہاں سے گرد اڑتی نظر آئی اور پھر ہر طرف لوگوں کی چیخ وپکار تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے اس زلزلے مین ان کے خاندان کا کوئی فرد ہلاک نہیں ہوا البتٰہ بہت سے رشتے داروں اور گاؤں والوں کی لاشوں کو انہوں نے خود ملبے تلے سے نکالا۔ محمد رضا کے بقول’’زلزلے میں گورنمنٹ کالج کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور آج دس سال گزرنے کے بعد بھی یہ عمارت زیر تعمیر ہی ہے۔ اس کے علاوہ بالاکوٹ کے مرکز میں رہنے والوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے گھر دوبارہ پہلی جگہ تعمیر نہ کریں انہیں حکومت بکر وال کے مقام پر نئے گھر بنا کر دے گی لیکن آج تک یہ نیا شہر آباد نہیں ہو سکا۔

دوسری طرف تجزیہ نگار فنڈز سے زیادہ ریاست کی نااہلی قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومتی ترجیحات مختلف ہیں ۔ حکومت کی توجہ چند بڑے شہروں پر مرکوز ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ترقیاتی کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور اس جنگ کی آڑ میں دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافے سےعوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ریاست نے کشمیر کے نام پر سیاست کی اور اس کے لیے فنڈز بھی حاصل کیے لیکن انہیں کشمیری عوام پر خرچ نہیں کیا جاتا۔

Comments are closed.