ڈاکٹر عمران فاروق کا قاتل کون؟


نسیم بلوچ

imran
پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت اگر فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے خلاف کام کرتی ہے تووہ غدار قرار پاتی ہے۔قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختوانخواہ کی قوم پرست جماعتیں جو اپنے حقوق کی بات کرتیں تو سرکاری و نجی میڈیا قوم کو بتاتا کہ یہ جماعتیں غدار ہیں ۔ انہیں بیرونی امداد (بھارتی خفیہ ایجنسی را) ملتی ہے۔ بھارت پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہے۔ اس نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ہندو انتہائی مکار قوم ہے اور وہ ہر وقت پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ ہوش سنبھالنے پر پتہ چلا کہ معاملہ تو الٹ ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش آزاد ملک بن گیا مگر اس کا ذمہ دار ایک سیاست دان ، ذوالفقار علی بھٹو، کو ٹھہرایا گیا۔ پیپلز پارٹی پر ایک عرصے تک بلکہ ابھی بھی ملک توڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایسیٹبلشمنٹ نے اسے بدنام کرنے اور اس میں پھوٹ ڈالنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور یہ کام مسلسل جاری و ساری ہے۔ جی ایم سید سندھو دیش بنانا چاہتے تھے۔ باچا خان اور ولی خان تو تھے ہی غدار اور ان کی غداری کا مقابلہ کرنے کے لیے کبھی خان قیوم اور کبھی ملاؤں کو خیبر پختونخواہ کے عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے ۔ بلوچ قوم پرست بھی شروع سے روسی ایجنٹ قرار پائے جو پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں آ ج تک مصروف ہیں ۔ صرف پنجاب واحد صوبہ ہے جو انتہا ئی محب وطن ہے اور اپنے ملک کی قدرو قیمت جانتا ہے۔ مسلم لیگ ا ور پنجابی عوام پاکستان کو صحیح اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں ۔

سیاسی جماعتوں پر بیرونی امداد لینے کا تیر بہدف نسخہ ، آج کل ایم کیو ایم کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کوئی نئی بات نہیں ۔ پچھلی دو دہائیوں سے اس کے خلاف آپریشن جاری ہے۔پاک فوج کبھی جناح پور کے نقشے برآمد کرتی ہے اور کبھی بھارتی ایجنسی را سے امداد کے ثبوت ۔

عمران فاروق کے قتل کے بعد میڈیا میں ایم کیو ایم کے خلاف پراپیگنڈہ مہم جاری ہے۔ بھتہ خوری کا الزام کوئی نیا نہیں۔ زمینوں پر قبضے کا الزام لگایا گیا۔ چائنا کٹنگ کی اصطلاح سامنے آئی مگر ابھی تک ایسے کسی ایک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو سکا جس سے پتہ چلے کہ ایم کیو ایم نے اس زمین پر قبضہ کیا ہے۔ رینجرز بھی آج تک کوئی کیس عدالت میں پیش نہیں کر سکی۔ کچھ ماہ پہلے ایم کیو ایم کے ہیڈ آفس پر چھاپہ مارا گیا اور بھاری تعدا د میں اسلحہ بھی پکڑا۔۔۔ بہت شور اٹھا لیکن پھر سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ایم کیو ایم کو نہ تو تقسیم کیا جا سکا اور نہ ختم۔

تین سال پہلے ایسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار مرزا کی شکل میں ایک اور کردار میدان میں اتارا جو دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے کرنے کا قائل تھا اورکراچی میں اسلحہ کے پھیلاؤ اور بھتہ خوری کو پرموٹ کرتا رہا تھا۔ اس نے قرآن پاک سر پر رکھ کر ایم کیو ایم کی دہشت گردی اور بھتہ خوری کے ثبوت پیش کیے ۔ بڑھکیں ماری مگر کسی عدالت میں نہ گیا۔ میڈیا کی رونقیں تو بڑھ گئیں مگر قرآن پاک کی وقعت کم ہوگئی۔

ایسٹیبلشمنٹ کے کسی بزرجمہر نے سوچا کہ اس پر دھاندلی کا الزام لگا کر اسے کمزور کیا جائے۔ این اے 246 سے ضمنی انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ ایسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر عمران خان کو میدان میں اتارا گیا۔یہ وہی عظیم کرکٹر ہیں جوچیف جسٹس کی بحالی تحریک کے دوران ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے کئی بیگ لے کر لندن پولیس کو دینے گئے تھے مگر پھر کیا ہوا ؟ عمران خان خاموش ہو گئے ۔ اس کے ساتھ ہی ان پنجابی صحافیوں ( حامد میر، افتخار احمد فتنہ اینڈ کمپنی )کو بھی چپ لگ گئی جو انتہا ئی وثوق سے یہ کہتے تھے کہ عمران نے ہمیں وہ تمام ثبوت دکھائے ہیں۔

پنجابی ایسٹیشلمنٹ کو ایک بار پھر اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا جب میڈیا کے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود ایم کیو ایم ضمنی انتخاب پہلے جتنی ہی اکثریت سے جیت گئی۔ ایسٹیبلشمنٹ نے انتہائی بھونڈے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے واحد محب وطن صوبے کی ہائی کورٹ سے اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے پیمرا کو حکم دیا کہ الطاف حسین چونکہ غدار ہیں اس لیے اس کی تقریر پر پابندی لگائی جائے۔عاصمہ جہانگیر نے اس کا دفاع کرنے کا اعلان کیا تو پنجابیوں نے ہمیشہ کی طرح غاضب کی خوشامدکرتے ہوئے اسے بھی غدار قرار دے ڈالا اور اس کے وکالت کا لائسنس معطل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

سولہ ستمبر 2010 کو عمران فاروق کا قتل ہوا ۔ میڈیا نے تو پہلے سے ہی ایم کیو ایم کو ایک بھتہ خور اور دہشت گرد تنظیم بنا رکھا تھا۔ لوہا گرم تھا بس چوٹ لگانے کی دیر تھی۔ عمران فاروق کے قتل کے بعد باآسانی قوم کو یہ باور کرادیا کہ اس کا قاتل کوئی اور نہیں الطاف حسین ہے۔ لیکن معاملہ اس وقت خراب ہوا جب لندن کی عدالت میں اس کے خلاف ثبوت پیش کرنے کی بات ہوئی۔ لندن پولیس اس قتل کی تفتیش کررہی ہے مگر اسے ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پچھلے پانچ سالوں سے ثبوت صرف پنجابی ایسٹیبلشمنٹ کو ملتے ہیں جو وہ کسی کو دکھاتی نہیں۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ قاتل فوری طور پر جنوبی افریقہ چلے گئے وہاں سے سری لنکا اور پھر پاکستان آگئے اور ائیر پورٹ پر پکڑے گئے اور آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں مگر برطانوی پولیس کے حوالے نہیں کیے جاتے۔ ہمارے وزیر داخلہ، جن کے بیانات کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ، بھی کم ازکم ہر مہینے قوم کو یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ فاروق ستار کے قاتل برطانیہ کے حوالے کیے جارہے ہیں مگر کیے نہیں جاتے۔ کبھی بڑے وثوق سے بتا تے ہیں کہ ایم کیو ایم راء سے پیسے لیتی ہے اوران کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔

اکثر بریکنگ نیوز آتی ہے کہ ایم کیو ایم کا راء سے تعلق ثابت ہوگیا ہے اور جلد ہی کاروائی ہونے والی ہے۔برطانیہ نے ایم کیو ایم کے راء سے تعلق کے اہم ثبوت پاکستان کے حوالے کر دیے ہیں جو جلد ہی پاکستان پہنچ جائیں گے ۔پھر پاکستان عمران فاروق کے قاتلوں کو برطانیہ کے حوالے کرے گا ۔ ٹاک شوز میں بیٹھے ریٹائرڈ جنرل اور چاپلوس صحافی جو تجزیہ نگار کم اور مداری زیادہ ہیں قوم کو خو ش خبری سناتے ہیں کہ اب جلد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے والا ہییعنی الطاف حسین کو پھانسی نہیں تو عمر قید ضرور ہوجائے گی۔

عمران فاروق کے قتل کو پانچ سال ہو چکے ہیں اور ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا میڈیا ٹرائل جاری ہے ۔ بلکہ ہر اس جماعت کا میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے جو ایسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنا بند کردے۔ آصف زرداری کے پیچھے چیف جسٹس کو لگادیا گیا تھا اور نواز شریف کے پیچھے عمران خان کو۔نواز شریف چوں چراں کرے تو میڈیا کہتا ہے کہ اگلی باری مسلم لیگ نواز کی ہے۔پچھلے پانچ سالوں کے حالات وہ واقعات سے کم ازکم یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عمران فاروق کے قتل میں کوئی اور نہیں صرف اور صرف ایسٹیلشمنٹ ہی ملوث ہے۔

اس سلسلے میں اس کی کارگردگی انتہا ئی شاندار ہے۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں بے نظیر کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی اور اسے اپنے بھائی کے قتل کا ذمہ دارٹھہرایا گیا۔ بے نظیر بھٹوکے قتل کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی آصف زرداری کو بے نظیر بھٹو کا قاتل سمجھتی ہے۔

پاک فوج کی عسکری کامیابیوں کا تو کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ہاں اس کی تخریبی کاروائیوں کا دنیا بھر میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ قوم پرستوں اور مخالف سیاستدانوں کا اغوا یا قتل تو اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بنگالیوں کا قتل عام تو ابھی کل کی بات ہے۔ اس کے پالے ہوئے دہشت گرد، شیعوں،ہندوؤں ، مسیحیوں اور احمدیوں کو اس ملک سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔کشمیر میں قبائلی بھیجنے ہوں یا آپریشن جبرالٹر کے نام پر در اندازی، کارگل آپریشن ہو یا نام نہاد کشمیر کا جہاد،بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یاممبئی حملے، دہشت گردوں کی ٹریننگ ہو یا افغانستان میں طالبان کے ذریعے بدامنی پیدا کرنا تو اس کا تمغہ امتیاز ہیں۔

مگر ان خصوصیات کے باوجود ایسٹیبلشمنٹ سیاست نہیں کر سکتی اورہمیشہ سیاست دان کے ہاتھوں مار کھا جاتی ہے۔ سیاسی عمل کو نقصان پہنچا کر قوم 1947 کی سطح پر جا کھڑی ہوتی ہے ۔ جس کا خمیازہ غریب پاکستانی شہری بھگت رہے ہیں جو ایک اچھی زندگی کی تلاش میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر اگلے جہاں پہنچ جاتے ہیں۔