تشدد کا وسوسہ

رزاق سربازی

Kurdistan-Workers-Party-m-007

کیا آپ اپنے اردگرد موجود تشدد کو سمجھتے ہیں؟ آپ اگر اس کی ماہیت کو نہیں سمجھتے، لیکن اس کی بے سروپا مذمت کرتے ہیں ، تو یہ سیاسی پارسائی دکھانے کے ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں. شاید ، ممکن ہے، آپ نے سوچا نہ ہو، درحقیقت ہم جس ساعت بلاتفریق تشدد کیخلاف ردعمل دکھارہے ہوتے ہیں۔

دراصل ، ہم تشدد کی پُرزور مذمت کرتے وقت بھی ، کسی ایک فریق کی جانب سے ہونے والے ، تشدد کی حمایت کررہے ہوتے ہیں اور اکثر ہماری حمایت اس بڑے فریق ، ممکن ہے ریاست ، کی جھولی میں جاگرتی ہے جس نے تشدد کو جنم دیا ہے اور دوسری طرف ردعمل میں پیدا ہونے والے ، کسی نسل ، گروہ ، سیاسی جماعت کے ،تشدد کو بھیانک بناکر پیش کرتی ہے تاکہ اس کے بڑے تشدد کی موجودگی کو ، ناقابل تنسیخ، اس کا فطری حق تسلیم کیا جائے۔

ترک ، کرد قومی قضیہ نیا نہیں۔ انقرہ میں کردوں کی امن ریلی کے موقع پر اس قضیہ کے پس منظر میں ترک ادیبہ اویا بیدر کا ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ناول پر تبصرہ

ً میں گویائی کی تلاش میں تھا اور مجھے ایک آواز سنائی دی۔ ً عمر ارین

عمر ارین۔۔۔ ناول کا مرکزی کردار اور ایک مقبول ترک ادیب ، جس کی کتابیں پُر فروخت ہیں۔۔۔۔۔اپنے الفاظ کھو چکا ہے۔

وہ ناقابل فہم کشمکش کے بیچوں بیچ سوچتا ہے ۔

ً مجھے لفظ کی جستجو تھی۔ لفظ جسے میں نے بے دردی سے استعمال کیا تھا، صابن کے بلبلوں کی طرح اڑایا اور ضائع کیا تھا : پہلا جملہ جو کہانی کا آغاز کرتا ، اس کو ہمراہ لے کر چلتا اور انجام تک پہنچاتا ہے ۔جملہ جو کسی بھی طور لفظوں میں کبھی بھی بیان نہیں کیا جا سکا، وہ جملہ جسے جوں ہی میں نے سوچا کہ میری گرفت میں آچکا ہے، وہ خیال کے مبہم سے سبک پن میں ضم ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔ گم ، لاپتہ لفظ۔۔۔۔۔۔۔ً

ماضی میں انقلاب کے خواب دیکھنے والا عمر ارین اب اپنے آپ کو دوسروں کی آنکھ سے نہیں دیکھتا؛

وہ خالی پن کا شکار ہے اور یہ بات اسے ہر ایک سے زیادہ خود اچھی طرح معلوم ہے۔

عمرارین شاید کوئی اجنبی نہیں۔۔۔۔۔اگر ہم اسے تلاش کریں وہ ہمیں اردگرد ضرور دکھائی دے گا۔۔۔۔۔۔۔

کتنے ادیب ہیں جو اپنا لفظ کھوچکے ہیں۔

ترکی کی ادیبہ ً اویا بیدر ً کے ناول ً گرفتار لفظوں کی رہائی ً کا مرکزی کردار عمر ارین جب مشرق ۔۔۔۔ کردستان ۔۔۔۔ کا سفر اختیار کرتا ہے تو کوچ ٹرمینل پر اس کا سامنا ایک بڑی عمر کی ایک خاتون سے ہوتا ہے۔ ہوش و حواس کھوچکی ،ریٹائرڈ ٹیچر یا کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی اہلیہ دکھنے والی خاتون کے پاس ایک کہانی ہے۔۔۔۔۔۔

وہ کہانی جنگ کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔

وہ کسی بچے کی تلاش میں ہے۔ وہ ثبوت تلاش کررہی ہے۔۔۔۔ وہ بچے کے بچھڑنے کا ثبوت پیش کرنے والے کسی گواہ کو ڈھونڈ رہی ہے۔

ً آپ بھی تو وہاں تھے۔ ہم وارسا ( پولینڈ ) میں تھے؛ نہیں میرا خیال ہے ؛ وہ بڈاپسٹ ( ہنگری ) تھا۔ جب ہمیں کشتیوں میں بھٹایا گیا، میرے ساتھ بچہ بھی تھا۔ ہم ڈینیوب کے پار فرار ہورہے تھے ۔ میں شہر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن انہوں نے مجھے مجبور کیا۔ میں آپ کو بتارہی ہوں، جب میں کشتی پر سوار ہورہی تھی، بچہ میرے ساتھ تھا۔ آپ نے اسے دیکھا۔ انہیں بتائیں کہ آپ نے اسے دیکھا تھا۔ وہ آپ کا یقین کرلیں گے ۔ً وہ بوڑھی خاتون کہتی چلی جاتی ہے۔

عمر ارین، ناول کا مرکزی کردار لفظ کی تلاش میں آگے بڑھتا ہے۔

اس کی ملاقات مختلف کرداروں سے ہوتی ہے۔ جو جنگ سے فرار ہورہے ہیں۔ پاگل بوڑھی عورت آفت زدہ ہے۔ محمود اور زلال۔۔۔۔۔ دو کرد نوجوان ۔۔۔۔۔ مشرق سے بڑے شہر آئے ہیں۔وہ فرار ہورہے ہیں تشدد سے۔

عمرارین کی بیوی جو ایک سائنسدان ہے؛ چوہوں پر تجربات اس کی روزگار کے معمولات کا حصہ ہیں؛ جہاں اس کا سامنا چوہوں کی ایک ایسی، قاتل کی یادوں میں رہ جانے والی ، چیخ سے ہوتا ہے۔ جو وہ اپنی موت کے وقت نکالتے ہیں۔ یہ چیخ ، جو ان چوہوں کی میڈیکل تجربات کے دوران اپنی موت کیخلاف آخری مزاحمت ہوتی ہے۔

ڈنیز ۔۔۔۔۔ عمر ارین کا بیٹا۔۔۔۔۔ اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ماں باپ کا ً ناکام ً بیٹا ؛ وہ سوچتا ہے۔

ً لوگ کامیابی کیلئے ، جیت کیلئے ایک دوسرے کو روندھ کر گزر جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو پیروں تلے کچل دیتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک دوسرے کو جان سے مار ڈالتے ہیں ۔ میں اس قسم کی کامیابی نہیں چاہتا۔ ً

ڈنیز جنگی فوٹو گرافر بن کر عراق میں تشدد کا گواہ بن جاتا ہے۔ اس کے اعصاب انسان پر وارد مصائب کا بار دیکھتے دیکھتے تھک جاتے ہیں اور وہ فرار ہوکر ناروے کے ایک جزیرے پر پناہ حاصل کرتا ہے۔

ڈنیز جب چھوٹا سا تھا تو اپنے ماں باپ ۔۔۔۔ عمرارین اور ایلف ۔۔۔۔۔ کیساتھ ایک مرتبہ پہلے ، کئی سال پیشتر اس جزیرے پر آیا تھا۔ جہاں جنگ سے بھاگا ہوا ایک عمر رسیدہ جرمن بھگوڑا رہتا تھا۔

ناول کا خیال تشدد کے گرد گھومتا ہے۔

تشدد جو پھیلا ہوا ہے۔ جس کا کہیں اختتام دکھائی نہیں دیتا

لیکن ناول ۔۔۔۔۔ گرفتار لفظوں کی رہائی۔۔۔۔۔۔ کا مرکزی تشدد ترک و کرد جنگی ماحول کا بیان ہے۔

ً مشرق ( کردستان ) : دور کی وہ سرزمین جہاں ہمارے آباء ۔۔۔ سول سرونٹس اور سپاہیوں ۔۔۔۔ نے اپنی جبری یا لازمی خدمات انجام دی تھیں۔ ہجرتوں کی سرزمین جہاں پوری سرحد پر چوکیوں اور گیریژنوں میں متعین افسران کے خاندان سمجھتے ہیں کہ گیدڑوں کے چلانے کا مطلب ہے، دشمن نے حملہ کردیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جہاں غربت زدہ اسمگلر ، پرانے وقتوں کے بہادر اور معصوم ڈاکو، محمت جک اور گوریلا بارودی سرنگوں سے یا جنگ میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بہت سے مارے جاچکے اور مسلسل مارے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ بغاوتوں، ملک بدریوں ، جنگوں اور ہجرتوں کی سرزمین۔۔۔۔۔۔ً

تشدد کیا ہے؟

اس ناول کو پڑھتے ہوئے تشدد کو سمجھے بغیر اس سے نفرت ہونے لگتی ہے۔

الغرض تشدد قابل دوست داشتنی نیست۔ کیا تشدد سے نفرت ،تشدد کا خاتمہ کرسکتی ہے؟

کردستان میں تشدد پھیلا ہوا ہے۔ ترکی میں کردوں کے گھر جلائے جارہے ہیں۔ کرد علاقے فوجی چھاؤنیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اسمگلر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں جن کے شیشے اپنی سیاہ رنگت کے باعث خوف میں اضافہ کرتے ہیں۔ پہاڑوں پر آپریشنز ، شہری علاقوں میں چھاپے اور گرفتاریاں ، جگہ جگہ چوکیاں اور پہرے ؛ ناول پڑھتے ہوئے لگتا ہے آپ یہیں کہیں بلوچستان کے کسی علاقے میں گھوم رہے ہیں۔

کردوں کے مطالبات بڑے نہیں ہیں۔

بس وہ اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتے ہیں۔ جو ً بڑے بھائی ً کا کردار اپنانے والے ترک حاکموں کو قبول نہیں ۔ ترکوں نے ان کی کردی زبان کو باعث شرمندگی کا درجہ دیا ہے۔ بچے ڈرتے ہیں کہ ان کی ماں جو ترک زبان نہیں جانتی ، کسی کام کیلئے کہیں اسکول نہ آجائے اور ماں کا ان کے استاد سے کردی میں بات کرنا بچے کیلئے باعث شرمندگی بن سکتا ہے۔ کرد اپنی ثقافت کو ترک تہذیب کے ہمسر سمجھتے ہیں جو ترکوں کو اچھا نہیں لگتا۔

ترک کردستان کو ؛ ترکستان ؛ بنانا چاہتے ہیں اور تشدد کا حربہ آزماتے ہیں۔ نتیجہ برآمد ہوتا ہے مزید تشدد کی شکل میں۔ ترک تشدد، کرد تشدد کو جنم دیتا ہے۔ بڑا تشدد ایک قبضہ گیر ہے۔ اس سے جنم لینے والا تشدد دفاعی تشدد ہے جو اپنے آپ کو بڑے تشدد کی شر سے بچانا چاہتا ہے۔

یہاں بات چیت ، گفت و گو ،مذاکرات کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ ترک کردوں کے گھر اس لئے جلاتے نظر آتے ہیں کہ ان کی زبان “ برتر” ہے، ان کی تہذیب “ ترک عظیم” ہے، وہ ترقی یافتہ قوم ہے لہذا اسے مار مار کر کردوں کو راہ راست پر لانے کا فطری حق حاصل ہوچکا ہے۔

تشدد کے شکار فرد یا قوم سے بات چیت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے جبکہ بات چیت کا ڈھونگ رچاکر اسے مارا بھی جارہا ہو، اس کی پہلی فکر خود کو بچانے اور محفوظ کرنے کی ہوتی ہے۔

تشدد سہتے فرد یا نسل سے بات چیت کی توقع، امن کا مطالبہ کرنا درحقیقت بڑے تشدد کو درست ماننے کا اظہار ہے۔

کیوں نہ ہم بڑے تشدد کی کھل کر مذمت کریں؟

اس کے ً بڑے بھائی ًٰ پن پر سوال اٹھایا جائے۔ تشدد کے ذریعے حاصل کردہ اس کے اختیارات و طاقت کے مراکز کو ختم کرنے کی راہ پیدا کی جائے۔

گرفتار لفظوں کی رہائی ناول یہ سوالات اٹھاتا ضرور ہے لیکن مختلف معنوں میں۔ وہ تشدد سے نفرت اور اس پر شک کرنا سکھاتا ہے۔

محمود پی کے کے ( کرد سیاسی جماعت ) کا نوآموز گوریلا ہے ۔

محمود ناول کے مرکزی کردار عمر ارین سے گفتگو کے دوران سوچتا ہے ۔

وہ ( محمود ) اس کے “ شاید ” کہنے کو یاد کرتا رہا اور سمجھ جاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی تھیں جن کا عقدہ کہانی نگار بھی حل نہ کرپایا تھا۔ وہ ( محمود ) زیادہ تر تو کہانی نگار کے بیٹے کے بارے میں متجسس رہا تھا۔

ادیب، عمر ارین ، کا بیٹا جنگ سے نفرت کرتا ہے، لیکن، کردوں کی جانب سے کئے گئے کسی دھماکے میں اپنی نارویجن بیوی کو کھودیتا ہے۔

اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بیوی کے جسم کو دھماکے سے ٹکڑوں میں تبدیل ہوتا دیکھ لے تو کیا ہوگا، وہ کیسے زندہ رہے گا، وہ کیسے خود کو ایک قاتل نہ بننے سے روک پائے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔ تم پہاڑوں پر جنگ میں مرجاتے ہو اور تم مار ڈالتے ہو۔۔۔۔۔۔ ذات سے آگے ، ایک پیچیدہ چیز ، آئیڈیاز سے جنم لینے والی طاقت ور چیزں کا وجود بھی ہمارے ارد گرد پایا جاتا ہے۔ سپاہی اور نہ گوریلا ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اگر جنگ نہ ہوتی اور وہ ایک دوسرے کو گاؤں کے کافی ہاؤسز میں مل پاتے تو وہ ہم پیالہ وہ ہم نوالہ دوست ہوتے۔۔۔۔۔۔ وہاں ( پہاڑوں پر ) گن فائر کے درمیان تم کسی نام اور کسی احساس کے بغیر ایک بھولی بھٹکی گولی کی طرح، ایک توپ کے گولے یا ایک بارودی سرنگ کی طرح، جسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کی زندگی لے گی، تباہی کا ایک بےحس ، سنگ دل ہتھیار ہوتے ہو۔

اگر یہ صرف ایک مرتبہ تمہاری توجہ میں آجائے، اگر تم اس بارے میں سوچنا شروع کرو، تو پھر تم لڑنے کے قابل نہیں رہوگے، جیسا کہ تم پہلے لڑتے رہے۔۔۔۔۔۔ اگر تم شکوک کرنے لگو ؛ ایک مرتبہ تمہیں شک ہونے لگے تو تم ایک جنگ جو کے طور پر ختم ہوچکے ہوگے۔ پہلے تم سوال کروگے کہ تم کیوں لڑ رہے ہو اور پھر رفتہ رفتہ یہ تمہیں بے معنی لگنے لگے گی، وقت کیساتھ تم مکمل طور پر یہ بھول جاؤگے کہ تم کیوں لڑرہے ہو اور تم الجھن زدہ ہوجاؤگے۔ بلآخر تم ایک قاتل بن جاؤگے یا ایک غدار، ایک غدار اس جانب کے یا اس جانب کے، جبکہ تم اس راستے پر ایک ہیرو بننے کیلئے روانہ ہوئے تھے۔ ً

ناول بڑے تشدد ( ترک تشدد ) کے فوجی افسران یا سپاہیوں کو وسوسے میں ڈالتا نہیں دکھائی دیتا۔ جو ایک تشدد سے بھرپور مشین کےکل پرزے بن چکے ہیں۔ جو مشرق میں آئے ہیں اور مشرق کے کردوں کو ان کے ہی گھر میں ً دشمن ً کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

انسان جو ہولناک اور تباہ کن مشینی پرزہ بن چکا ہو ،اسے تشدد سے نفرت کا درس دینا ،تشدد کی مذمت کرنا سکھانا اور تشدد کو قاتل اور قتل کے رنگ و روپ میں پیش کرنا زیادہ مقدم ہے۔

یہ ناول تشدد کے چھوٹے کردار ( مزاحمتی ، دفاعی ، رد عمل ) اور تشدد کے بڑے کردار ( قبضہ گیر ، جارحیت ، جنگی مشین ) میں فرق اور توازن قائم کرنے میں کامیاب نہیں رہا ہے۔

جب تشدد کے اداروں کو درست معنوں میں سمجھا نہ جائے ان کیساتھ انصاف بھی آسان نہیں ہوتا۔ گرفتار لفظوں کی رہائی بڑے تشدد کی موجودگی میں خود اپنا مقصد کھو چکا ہے۔

گمان ہوتا ہے، کسی موڑ، کسی چوراہے پر تشدد بھی اپنے لئے انصاف مانگ رہا ہو۔

Comments are closed.