نسل ، خاندان اور ذات پات

ڈاکٹر مبارک علی

11947417_853081431424551_4681029796345213931_n
ہندوستان کے جاگیردارانہ معاشرہ میں نسل، خاندان اور ذات پات کے نظریات نے بڑا اہم تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد مساوات اور اخوت کے اصولوں کو نظر انداز کرکے، یہاں نسلی وخاندانی بنیادوں پر منصب و عہدے، جاگیریں اور مراعات تقسیم کی گئیں، جس کے نتیجہ میں چند خاندان سیاست واقتدار پر قابض ہوئے اور انہوں نے اپنے اقتدار کو قائم ودائم رکھنے کے لئے، نسل خاندان اور ذات پات کے نظریات کو فروغ دیا تاکہ معاشرے کی اکثریت کو ذہنی طو رپر متاثر کرکے انہیں نچلے وکمتر درجہ پر مطمئن رکھا جاسکے۔

جب مسلمان ہندوستان میں بحیثیت فاتح کے آئے اور اپنی حکومت قائم کی تو یہ ایک اقلیت کی اکثریت پر حکومت تھی۔ اس لئے اقلیت کی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ان میں احساس برتری پیدا کیا جائے تاکہ یہ اکثریت پر حکومت کرسکیں۔ چنانچہ فاتحین کی اقلیت نے نسلی و خاندانی بنیادوں پر اس احساس برتری کو قائم کیا۔

مسلمانوں کی حکومت کے قیام سے دوسری تبدیلی یہ آئی کہ سیاسی ومعاشی وسماجی وجوہات کی بنا پر یہاں کی مقامی آبادی میں کچھ لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔ ان کا ردعمل اہل اقتدار طبقہ پر یہ ہوا کہ اگر ان کے ساتھ مساوات کا سلوک کیا جائے تو انہیں بھی اقتدار اور مراعات میں شامل کرنا پڑے گا ۔اس لئے اقتدار اور مراعات سے محروم کرنے کے لئے اس طبقہ کونسلی اعتبار سے کمتر اور نیچا سمجھا گیا اور انہیں سماجی و معاشرتی وسیاسی زندگی میں برابر کا درجہ نہیں دیا گیا۔
مسلمانوں کی حکومت کے اس ابتدائی دور میں ترک نسل کے افرد کو اعلیٰ عہدے اورمنصب دئیے جاتے تھے اور معاشرے کے دوسرے افراد کو ان سے محروم رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ جب سلطانہ رضیہ نے ملک یا قوت کا عہد ہ بڑھایا تو اس کے اس رویہ کے خلاف ترک اہل اقتدار طبقہ نے سخت احتجاج کیا یہاں تک کہ اس کے خلاف بغاوت کرکے اس تخت وتاج سے محروم کردیا۔

جب سلطان غیاث الدین بلبن تخت نشین ہوا تو اس نے ترک اہل اقتدار طبقہ کی حمایت حاصل کرنے او رانہیں مطمئن کرنے کی غرض سے نسلی پالیسی کو فروغ دیا اور سختی کے ساتھ اس بات کی کوشش کی کہ حکومت اور اقتدار کے کسی شعبہ میں، دوسری نسل کے افراد کو چاہئے وہ مسلمان ہوں یا ہندو، انہیں شریک نہیں کیا جائے گا۔ عہد سلاطین کے مشہور مورخ ضیاء الدین برنی نے سلطان کے ان اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ’’اس نے کسی رذیل، بے کار، کم اصل، کمینے اور پست ہمت شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیا۔ بلکہ ایسے لوگوں کا محل کے قریب آنے کا بھی روادار نہ تھا جب تک وہ آدمی کی اصل اور بنیاد کو نہ جان لیتا، کوئی شغل یا، کام اس کے سپرد نہ کرتا۔‘‘(ضیاء الدین برنی، تاریخ فیروز شاہی، اردو ترجمہ، لاہور1969ء،ص77)۔

یہ نسلی تفاخر بلبن کے نظریہ بادشاہت میں بھی پوری طرح نمایاں تھا جس کا اظہار وہ اس طرح سے کرتا ہے: ’’اگر بادشاہ سفلوں، کم ظرفوں، مفردوں، سپاہیوں، نالائقوں، نااہلوں، سوداگروں، دوکانداروں۔۔۔ مسخروں اور بداصل لوگوں سے بات کرے گا۔۔۔ تو وہ حشمت بادشاہی اور ہیبت اولاامری کو خود اپنے ہاتھ سے تباہ کر دے گا۔‘‘ (برنی،ص،85)۔

برنی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عہدے کے لئے ایک شخص کا انتخاب ہوا، جس کا نام کال مہیار تھا۔ جب بلبن نے اس سے مہیار کے معنی پوچھے تو اس نے کہا:’’مہیار میرا باپ ہے او روہ ہندو غلام تھا‘‘ بادشاہ یہ سنتے ہی غضب کے عالم میں دربار سے اٹھ کر چلا گیا او ربعد میں امراء سے کہا: ’’میں کسی کم اصل، کمینے، رذیل اور ذلیل کو کسی شغل، مرتبے یا عزت کی جگہ پر نہیں دیکھ سکتا۔ اور جوں ہی اس قسم کے لوگ میرے سامنے آتے ہیں میرے جسم کی تمام رگیں حرکت میں آجاتی ہیں۔۔۔ میں کسی کمین نسل کے لڑکے کو حکومت میں جو مجھ کو خدا کی طرف سے ملی ہے، شریک نہیں کرسکتا۔۔۔ اگر اس کے بعد کسی خدمت اقطاع، خواجگی مشرفی یا مدبری پر تقرر کے سلسلے میں کسی کمینے، بداصل یا ذلیل زادہ کوان کارکنوں نے میرے سامنے پیش کیا، چاہے وہ ہزار ہنر مند ہوتو میں ان کے ساتھ وہ برتاؤ کروں گا جس سے دنیا کے لوگ عبرت حاصل کریں گے۔‘‘ (برنی،ص90-89)۔

اس سلسلہ میں بلبن ہی نے اپنے امراء کو یہ واقعہ سنایا کہ سلطان التتمش کے زمانے میں بھی ایک مرتبہ اس سے یہ شکایت کی گئی کہ اس کے وزیر نے کم اصل لوگوں کو عہدے دے رکھے ہیں، تو سلطان نے فوراً حکم دیا کہ ایسے لوگوں کو حسب ونسب کی تفتیش کی جائے۔ اس پر33عہدے دار ایسے نکلے جو کم اصل تھے چنانچہ انہیں فوراً ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔(برنی،ص92-91)۔

نسلی تفخر کی پالیسی سے جو بات واضح ہوکر آتی ہے وہ ہے کہ ترک فاتحین اپنے اقتدار میں کسی کو شریک کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے بار بار اس بات کو دہرایا گیا کہ کم اصل لوگوں کو حکومت کے عہدے نہیں دئیے جائیں، تاکہ حکومت صرف ایک مخصوص طبقہ کے ہاتھوں میں رہے۔

نسلی برتری وتفخر کے حامی اس طبقہ کی نمائندگی، ضیاء الدین برنی نے کی ہے او راپنے خیالات وافکار کے ذریعہ اس نے انہیں نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ اپنے خیالات کا اظہار اس نے’’فتاویٰ جہانداری‘‘ میں کیا ہے۔ جو نہ صرف برنی کے بلکہ اس عہد کے حکمران طبقہ کے ذہن کی عکاسی کرتی ہے۔ برنی اس بات کا قائل ہے کہ انسان مساوی طو رپر پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ ازل سے اس میں شرافت اورنجابت پیدا کردی گئی ہے۔
اس طرح ابتداء ہی سے ہرفن، ہر پیشہ وہنر کی صلاحیت اس میں پیدا کردی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں ان لوگوں کو فضلیت دی ہے جو نفیس اور اعلیٰ پیشے اختیا رکرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا بہترین اوصاف سے نوازتا ہے۔ جیسے وفاداری، بصیرت، عدل ان لوگوں کو اشراف، آزاد، عالی نسب، اور نجیب الطرفین کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ اس کا اہل ہوتا ہے کہ اس حکومت میں اعلیٰ عہدے دئیے جائیں۔

دوسری طرف کم اصل لوگ ہیں جو حقیر پیشے اختیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف برائیوں کے لائق ہوتے ہیں جیسے گستاخی، دروغ بیانی، بخل، غبن، حرام کاری، احسان فراموشی، گندگی، ناانصافی، بے غیرتی، بدقماشی، عیاری اور بے دین۔ ایسے لوگوں کو کم اصل بازاری، رذیل، کمین، نالائق، نیچ ذات، بے شرم او رناپاک کہا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کی ترقی سے اس دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ خدا کی مصلحت کے خلاف ہے۔ (ضیاء الدین برنی، سلاطین ولی کا سیاسی نظریہ، محمد حبیب وبیگم افسر عمر، دہلی1979،ص204-202)۔

برنی اس بات پر زور دیتا ہے کہ کمتر طبقہ کے لئے تعلیم ممنوع ہونی چاہئے کیوں کہ اگر انہوں نے تعلیم حاصل کرلی تو یہ لائق او رقابل ہوجائیں گے۔ ’’ہر طرح کے اساتذہ کو یہ سختی سے حکم ہوتا ہے کہ وہ کتوں کے حلق میں قیمتی پتھر نہ ٹھونسیں، یا خنزیروں او رریچھوں کے گلوں8 میں گلو بند نہ پہنائیں، یعنی کمینوں، رزیلوں اورنکمّوں کو، دوکانداروں اورکم اصلوں کو نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کے ارکان اور قرآن کے کچھ پاروں اور کچھ دینی عقائد سے زیادہ کی تعلیم نہ دیں، جن کے بغیر ان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ انہیں کچھ بھی نہ پڑھائیں کہ ان کمین نفوس کو عزت نہ مل جائے۔‘‘ (سلاطین دہلی کا سیاسی نظریہ، ص122-121)۔

اس کے بعد برنی اس بات پر زور دیتا ہے کہ اقتدار میں سوائے اعلیٰ طبقہ کے او رکسی کو اس میں شریک نہیں کیا جائے، چاہے عالی نسبوں کے تقرر سے حکومت کو نقصان نظر آئے اور کم اصلوں کے تقرر سے فائدہ۔ مگر کسی بھی صورت میں عہدے ان لوگوں کو نہیں دئیے جائیں۔(سلاطین دہلی، ص147-146)۔

برنی کو اس بات کا احساس تھا کہ علمی دنیا میں ذہانت کسی طبقہ کی میراث نہیں اور اہلیت وصلاحیت کسی کی جاگیر نہیں۔ خصوصیت سے آرام وآسائش مراعات اورمقابلہ نہ ہونے نے برسراقتدار طبقہ کی صلاحیتوں کو زائل کرنا شروع کردیا تھا اور ان میں نالائق او رنااہل افراد کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ جب کہ مراعات سے محروم طبقہ محنت ومشقت سے اپنی صلاحیتیں اجاگر کررہا تھا۔ اس لئے برنی نسلی وخاندانی تفخر کی بنیادوں پر اس نااہل طبقہ کی مراعات کے تحفظ کی کوشش کررہا تھا۔ اس سلسلہ میں اس کے دلائل بڑے لاجواب ہیں۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ رذیل، کم اصل او ربے دین، کسی دین یا دینوی کام کو پورا نہیں کرسکتے اگر بادشاہ کم اصل لوگوں کو عہدے دے گا تو اسے خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس لئے اسے چاہئے کہ عالی نسب لوگوں کو عہدے دے تاکہ روز محشر اسے نجات مل سکے۔(سلاطین دہلی، ص190)۔

ایک دوسری جگہ کہتا ہے کہ اگر کمین کم اصل ایک سوخوبیوں سے بھی مزین ہو تب بھی ملک کا نظم وضبط نہیں چلا سکے گا۔ اور سیاسی قیادت و اعتماد کا اہل نہیں ہوگا۔(ایضاً،ص199)۔

برنی ان سلاطین پر تنقید کرتا ہے جو حسب ونسب دیکھے بغیر لوگوں کو محض وفاداری کی بنیاد پر ملازمتیں دے دیتے ہیں۔ ایسے بادشاہوں کو وہ تنبیہ کرتا ہے کہ ان کاا نجام برا ہو گا بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اصلوں کو ترقی دے کر خود سلطان اپنی کم اصلی کا ثبوت دیتا ہے۔(ایضاً،ص771)۔

اس کے نزدیک فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے لئے اعلیٰ نسب کا ہونا ضروری ہے کیونکہ رذیل شخص کی موجودگی میں سپاہی اس کا حکم نہیں مانیں گے اور وہ دین ودنیا کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔(ایضاً،ص77)۔

اسلام میں تقویٰ کی بنیاد پر جو بزرگی او رعظمت کا درجہ دیا گیا ہے اس پر برنی کہتا ہے کہ:’’یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ نجس او رنجس ذات کمین اور کم اصل میں تقویٰ ہوسکتا اگر ایک رذیل بازاری انسان میں تقویٰ دکھائی دے تو سمجھ لو یقیناًاس کے بزرگوں کا خون شریف خون سے مخلوط ہوگیا ہوگا۔‘‘ (ایضاً،ص205)۔

نسلی تفخر خاندان اور ذات پاک کے نظریات عہد مغلیہ میں باقی رہے۔ اس عہد میں اہل اقتدار طبقہ ایران او روسطی ایشیا سے آنے والوں کا تھا۔ اکبر کے زمانہ میں صرف راجپوتوں کے اعلیٰ خاندانوں کو اقتدار میں شریک کیا گیا مغل حکومت میں خاندانی امراء کو رعایت دی جاتی تھی۔ مثلاً اکبر نے ایک مرتبہ ہدایات دیں کہ: قدیم خاندانوں کو نظرانداز نہیں کیا جائے۔ اسلاف او ربزرگوں کے کمالات کو پیش نظر رکھ کر ان کے نااہل جانشینوں کا بھی لحاظ رکھا جائے۔(آئین اکبری، آئین نمبر2اردو ترجمہ،ص572)۔

اس سلسلہ میں آئین اکبری میں اعلیٰ وادنیٰ خاندان کے افراد پر جرمانوں کی تفصیلات بڑی دلچسپ ہیں۔ مثلاً اگر کم مرتبہ، رذیل کسی عالی رتبہ او رشریف شخص کو گالی دے تو اس سے جرمانہ کے طور پر ساڑھے بارہ درہم لئے جائیں۔ اگر برابر درجہ کے ایک دوسرے کو گالی دیں تو اس کا نصف، اگر عالی مرتبت شریف آدمی کو گالی دے تو اس سے چوتھائی وصول کیا جائے۔ (آئین اکبری، دوم،ص235)۔

پورے عہد مغلیہ میں ہندوستانی معاشرہ نسلی برتری، خاندان، اور ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے نمایاں رہا او رسیاسی اقتدار چند خاندانوں میں محدود رہا۔ او رعوام کو ذلیل، حقیر اورکم اصل سمجھ کر ان کے سیاسی مرتبہ کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے اہل اقتدار طبقہ نے ان نظریات کو اس وقت تک برقرار رکھا جب تک ہندوستان میں ان کی حکومت مضبوط او رمستحکم رہی۔ لیکن جب حکومت پر ان کی گرفت کمزور پڑی او ران کے خلاف دوسری سیاسی طاقتیں ابھرنا شروع ہوئیں تو سیاسی کمزوری، اور خانہ جنگیوں نے معاشرے کے معاشی وسماجی اور معاشرتی استحکام میں ٹوٹ پھوٹ شروع کرکے زبردست تبدیلیاں کیں اور وہ ڈھانچہ جو نسل خاندان اور ذات پات کی بنیادوں پر کھڑا تھا، گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہوگیا۔

بڑے بڑے امراء کے خاندان اپنی جائیدادوں اور مراعات سے محروم ہوگئے۔ قدیم خاندانوں کی حالت زار روایات واقدار کی تبدیلی اور سماجی شان وشوکت کی موت نے اس عہد کے شاعروں، ادیبوں اور مورخوں کو بڑا متاثر کیا اور وہ نوحہ کناں ہیں کہ معاشرے میں قیامت آگئی عزت وحرمت کے پیمانے بدل گئے۔ امیر و غریب کا فرق مٹ گیا، خاندانی وکم اصل ایک ہو گئے۔ ینچ ذات دولت مند بن بیٹھے اور اپنی ذات بدل کر معزز اور شرفاء کے زمرے میں شامل ہوگئے۔

اس لئے اس آخری عہد مغلیہ میں جہاں شعراء رخصت ہوتی رہی شان وشوکت کا مرثیہ پڑھ رہے تھے، وہاں مورخین ’’عبرت نامے‘‘ تصنیف کرکے شرفاء اورمعززین کے زوال پر افسوس کررہے تھے۔ مثلاً قدیم خاندانوں کے افراد خاک کے برابر ہوگئے اور شائستہ خاں وجعفر خاں کی اولاد کے لئے سواری تک میسر نہیں۔ اجلاف اور رذیل قوم کے پاس حکومت آگئی اور شرفاء بازاروں میں محنت ومزدوری کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک مغلیہ خاندان کے زوال کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ اس میں شرفاء اپنے درجہ سے محروم ہوگئے تھے۔

تاریخ میں اس نسلی تفخر، خاندان اور ذات پات کے منفی اثرات ہوئے اہل اقتدار طبقہ نے تمام مراعات اور معاشرے کی دولت پر قبضہ کرکے ملک کی اکثریت کو زندگی کی سہولتوں سے محروم کردیا۔ اس احساس محرومی نے اکثریت کو ملک وقوم سے علیحدہ کردیا۔ جب یہ ایک طبقہ سیاسی طو رپر طاقتور رہا یہ عوام کو لوٹتے او رکھسوٹتے رہے، لیکن جب بیرونی حملے ہوئے او ران کی جائیدادیں وجان ومال خطرے میں پڑے تو عوام کی اکثریت نے ان کا ساتھ نہیں دیا او رجنگوں سے علیحدہ رہے۔ اگرچہ ایسے موقعوں پر مذہب وقوم ووطن کا نام لے کر اپنی مراعات وجائیدادوں کے دفاع کی کوشش توکی گئی مگر عوام کی اکثریت نے انہیں بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

دوسرا منفی اثر یہ ہوا کہ اہل اقتدار طبقہ نے صرف اپنے افراد کو تعلیم اور انتظامی تربیت دی اور معاشرے کے دوسرے تمام طبقوں پر دروازے بند کردئیے۔ اس لئے دوسرے ذہین اور باصلاحیت افراد کو مساوی مواقع نہیں ملے۔ اس لئے جب اس طبقہ کے افراد عیاشی وسہولتوں او رمراعات کے بوجھ تلے اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوئے تو معاشرہ تیزی سے زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔

نسل، خاندان اور ذات پات کے نظریات کو فروغ دینے کے لئے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے بڑا حصہ لیا۔ اور’’خاندان، اعلیٰ ذات، شریف خون‘‘ اور ’’خون کی پاکیزگی‘‘ کے خیالات کو معاشرہ میں مقبول بنایا۔مثلاً ایک شاعر فرماتے ہیں: ’’کمینہ آدمی کو ایک دو گھڑی سے زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا، تلچھٹ اگر اوپر آ بھی جائے، آخر اسے تہہ نشیں ہونا ہی ہے۔‘‘

اس وجہ سے جب ہندوستان کی برادریاں مسلمان ہوئیں تو انہوں نے مسلمان معاشرے میں مساوی سماجی رتبہ حاصل کرنے کے لئے ضروری سمجھا کہ خود کو انصاری ، قریشی، اور شیخ بنالیں، ذات پات کی اس تبدیلی پر بھی ایک شاعر نے اس طرح اظہار خیال کیا ہے:’’میں ابتداء میں روئی دھننے والا تھا، پھر شیخ بن گیا اگر اناج سستا ہوگیا تو میں اس سال سید بن جاؤں گا۔‘‘

چنانچہ ہندوستان میں اعلیٰ طبقہ شریف کہلاتا تھا، جب کہ نچلا طبقہ اجلاف شریف میں، سید، مغل، پٹھان او رشیخ شامل تھے، جب کہ اجلاف میں کاشتکار، تاجر او رمختلف پیشہ کے لوگ آتے تھے او رسب سے نچلے طبقہ میں قصائی اور بھنگی تھے۔

ہندوستانی معاشرے میں ہنر مند او رمحنت کرنے والے کو ذلیل سمجھا جاتا تھا۔ امیر اور شریف خاندان کے لوگ انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی کوئی پیشہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ انشاء اللہ خان انشاء نے اسی کی جانب اشارہ کیا ہے:
نجیوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو، جسے دیکھو یہی کہتا ہے ہم بے کار بیٹھے ہیں

ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کی تقسیم اس قدر گہری ہوگئی تھی کہ مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے ذات پات کے اثرات کے تحت شادی بیان کے قوانین وضع کئے۔ مثلاً اگر کسی عورت نے اپنے میل سے نکاح نہیں کیا اور اپنے کم ذات والے سے نکاح کرلیا او راس پر اس کا ولی نا خوش ہوگیا تو فتویٰ یہ ہے کہ نکاح درست نہیں ہوگا۔(بہشتی زیور،ص6)۔

اس لئے وہ بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بے میل او ربے جوڑ نکاح نہیں کیا جائے۔ اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ نسب میں کن کن ذات کے افراد میں برابری ہے۔ مثلاً شیخ، سید، انصاری اور علوی یہ سب ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ اگرچہ سیدوں کا رتبہ اوروں سے بڑھا ہوا ہے۔ لیکن سید کی لڑکی شیخ سے بیاہی جاسکتی ہے۔ نسب میں اعتبار باپ کا ہے ماں کا نہیں۔ اس لئے اگر کوئی سید باہر کی عورت گھر میں ڈال لے تو اولاد سید ہوئی۔ لیکن اگر ماں او رباپ دونوں عالی خاندان کے ہوں تو ان کی عزت زیادہ ہوگی۔(بہشتی زیور،ص9)۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ مغل، پٹھان ایک قوم ہیں، یہ شیخوں او رسیدوں کی ٹکرکے نہیں۔ پیشوں میں برابری اس طرح سے ہے کہ: جولا ہے درزیوں کے برابر ہیں۔ نائی اور دھوبی درزی کے برابر کے نہیں۔ (بہشتی زیور، حصہ چہارم،ص10)۔

ان نسلی او رخاندانی نظریات کے اہم تاریخی اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمان با اقتدار طبقہ نے نہ صرف یہ کہ ہندو اکثریت کو حکومت سے علیحدہ رکھا بلکہ نو مسلموں اور غریب و نچلے مسلمانوں کو بھی معاشرے میں مساوی درجہ نہیں دیا۔

ہندوستان میں آنے اور اپنی حکومت کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ سنہری موقعہ تھا کہ ہندوستانی معاشرے کو جو ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے کمزوری او رانتشار کا شکار تھا، نچلی ذات کے افراد کا سماجی رتبہ بڑھا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کی جا تیں لیکن ہوا یہ کہ اس کے برعکس انہوں نے ہندو ذات پات کے اثرات کو قبول کرکے اسے اپنے ہاں رائج کیا۔

اس لئے نیچ ذات کے لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں سے کوئی توقع نہیں رہی کہ وہ انہیں باعزت سماجی رتبہ دیں گے۔ ہندوستان میں اسلام نہ پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان بااقتدار طبقہ نے نسلی تفخر، خاندان اور ذات کی بنیادوں پر معاشرہ کو تقسیم کرکے، اونی اور نچلی ذات کے محروم طبقہ کے لئے تمام راستے بند کردئیے۔

اگرچہ نسل، خاندان او رذات پات کے بٹ ٹوٹ چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان کے پجاری ہمارے معاشرے میں باقی ہیں ان کے نزدیک سماجی ومعاشرتی مساوات قیامت سے کم نہیں۔ لیکن عوامی شعور یہ قیامت پیدا کرکے رہے گا۔ او رنسل وخاندان اور ذات پات کے بتوں کو مکمل تباہ کرکے معاشرے میں مساوات قائم کرے گا۔
*

3 Comments