امن کا نوبل انعام: تیونس کے چار فریقی ثالثی گروپ کے لیے

0,,18772155_303,00
چار فریقی گروپ میں شامل تنظیموں کے سربراہان

ناروے کی نوبل کمیٹی نے امن کے نوبل انعام کا حق دار تیونس میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ثالثی کرنے والے چار فریقی گروپ کو ٹھہرایا ہے۔

ناورے کی نوبل کمیٹی کے مطابق عرب اسپرنگ کے بعد تیونس میں سیکولر اپوزیشن اور اسلام پسند حکمران جماعت النہضہ کے درمیان قومی مکالمت کے چار فریقی اس گروہ نے شمالی افریقی اس ملک میں کثیر الجہتی جمہوریت کے قیام کے لیے فیصلہ کن کردار کیا۔

یہ ثالثی گروہ سن 2011 کے انقلاب کے بعد اس وقت وجود میں آیا تھا، جب سن 2013 میں یہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ اسی گروہ نے تیونس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کم کر کے پرامن سیاسی حل کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

تیونس کی مرکزی لیبر یونین کے سربراہ حسین عباسی نے نوبل انعام کو جمہوریت کے شہیدوں کے لیے ایک خراج عقیدت قرار دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ثالثی کے چار رکنی اتحاد میں بڑی لیبر یونین خاصی فعال تھی۔

حسین عباسی نے مزید کہا کہ اُن کے ملک کے نوجوانوں نے آمریت کے دفتر بند کر کے جمہوریت کے دروازے کو کھولا تھا اور یہ ایک تاریخی عمل تھا۔ ٹریڈ یونین لیڈر نے سیاسی جماعتوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا کہ وہ مذاکراتی عمل میں کھلے ذہن سے شریک ہوئے اور مکالمے میں اُن کی رضامندی بہت ضروری تھی۔ سن 2013 میں حسین عباسی نے ہی فریقین کے اتفاق کے بعد عبوری وزیراعظم مہدی جمعہ کے نام کا اعلان کیا گیا تھا۔

ان چار گروپوں میں ایک تیونس کی مرکزی لیبر یونین ہے، جو ثالثی میں پیش پیش تھی۔ یہ تیونس کی جنرل لیبر یونین ہے۔ دوسرا گروپ صنعتی و تجارتی اور دستکاری کی یونین ہے۔ یہ یونین چار مختلف چھوٹی تنظیموں کی کنفیڈریشن ہے۔ ثالثی کے عمل میں شریک تیونسی انسانی حقوق کی تنظیم بھی ہے۔ یہ گروپ تیونس میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والا مرکزی اور نمائندہ گروپ سول سوسائٹی کے حلقے میں خاصا فعال ہے۔ چارفریقی ثالث گروپ میں چوتھا وکلاء کی تنظیم ہے۔ تیونس میں وکلاء کی مرکزی تنظیم بھی سول سوسائٹی میں شمار ہوتی ہے۔

سن 2013 میں تیونس میں سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات میں ملک کی اکیس سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ ان میں سیکولر اور اسلام پسند سبھی سیاسی پارٹیاں شامل تھیں۔ ان جماعتوں کو ثالثی میں شریک چار رکنی گروپ نے مذاکراتی عمل میں کسی نہ کسی طور پر شریک رکھا۔

اسی مذاکراتی عمل کے دوران اسلام پسند النہضہ پارٹی نے ثالثوں کی کوششوں کے بعد جولائی سن 2013 میں اقتدار سے علیحدہ ہونے کا اشارہ دے دیا۔ اِن مذاکرات میں ایک مشکل مرحلہ غیر جانبدار وزیراعظم کے نام پر متفق ہونا تھا۔ بعد میں عبوری وزیراعظم مہدی جمعہ کے دور میں نئے دستور کی منظوری کے علاوہ نئے انتخابات کا انعقاد کروایا گیا تھا۔

ڈوئچے ویلے

Comments are closed.