مشرقی و مغربی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو 25 سال ہو گئے

0,,18705980_303,00

جرمن چانسلر انگیلا میرکل برلن میں مہاجرین کے ایک کیمپ میں پناہ کے متلاشی ایک غیر ملکی کے ساتھ سیلفی بنواتے ہوئے

ڈی ڈبلیو (ڈوئچے ویلے) کے چیف ایڈیٹر الیگذانڈر کوڈاشیف کے مطابق پھر سے ایک ہو جانے والا جرمنی ایک معمہ بنا ہوا ہے: کامیاب، طاقتور، مقبول لیکن پھر بھی بے یقینی کا شکار۔ وہ لکھتےہیں کہ اگرچہ اب کسی کو جرمنی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جرمنی بدستور ایک ایسا ملک ہے، جس کے اگلے قدم کے بارے میں اب بھی قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

الیگذانڈر کوڈاشیف اپنے اس خصوصی تبصرے میں رقم طراز ہیں:’’جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو پچیس سال ہو چکے ہیں۔ جرمن عوام یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ان پچیس برسوں میں مشرقی اور مغربی جرمنی ایک دوسرے کے قریب ضرور آئے ہیں لیکن بہت سے شعبوں میں اب بھی اُن میں فرق پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔

دراصل عام جرمنوں کے سوچنے کا انداز ہی یہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جرمنی کے مشرقی، مغربی، شمالی اور جنوبی علاقوں میں کوئی فرق پایا جاتا ہے تو اس کی جڑیں اس ملک کی تاریخ میں موجود ہیں۔ جرمنی اپنے ہمسایہ ملک فرانس کی طرح کا کوئی ایک مرکزی ریاست رکھنے والا ملک کبھی نہیں رہا، یہ ہمیشہ مختلف علاقوں اور ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے دعویدار خطّوں کا ایک وفاق رہا ہے۔

دوبارہ اتحاد کا سیاسی معجزہ رونما ہونے کے ربع صدی بعد کا جرمنی ایک پسندیدہ ملک ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانے والا اور ایک اہم ملک ہے۔ یہ ملک ناقابلِ یقین اقتصادی قوت کا حامل ہے۔ اس کے سماجی نظام کو پوری دُنیا میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے، جو فوجی قوت اور ہتھیاروں پر نہیں بلکہ سفارت کاری، محتاط طرزِ عمل اور قائل کرنے والے دلائل کی قوت پر انحصار کرتا ہے۔ یہ ایک انتہائی تہذیب یافتہ ری پبلک ہے اور اُس جرمن رائش کا بالکل اُلٹ ہے، جس سے کبھی اُس کے ہمسائے اور پھر پوری دُنیا ڈرتی تھی۔

پوری دنیا جرمنی اور بالخصوص انگیلا میرکل کی طرف دیکھتی ہے۔ جرمنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن نہیں لیکن اس کے باوجود جرمن اور جرمن چانسلر کے موقف کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، یورپ میں بھی اور دنیا میں بھی۔

کسرِ نفسی سے کام لینے والی اور جِھجکی ہوئی بڑی طاقت جرمنی سیاسی اور اقتصادی شعبے میں اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ اسے دنیا کی پانچ با اثر ترین ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ ملک بے یقینی کا شکار ہے، اپنے ہی حوالے سے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنے نئے کردار کے ساتھ ساتھ اُن توقعات پر ردعمل ظاہر کرنے کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے، جو جرمنوں سے وابستہ کی جاتی ہیں۔

جرمنی جانتا ہے کہ اُسے زیادہ بڑا اور ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن دراصل وہ ایسا چاہتا ہی نہیں کیونکہ جرمنوں کی ایک بڑی اکثریت ایسا نہیں چاہتی۔

جرمنی کی کیفیت وہی ہے، جو اُس کی موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کی ہے، جنہوں نے فوکوشیما کے بعد لاگت کے حوالے سے حساب کتاب لگائے بغیر ہی اعلان کر دیا تھا کہ جوہری توانائی کو خیر باد کہہ کر متبادل توانائیوں پر انحصار بڑھایا جائے گا۔

تازہ ترین مثال مہاجرین کے بحران کی ہے، جس میں اُنہوں نے تمام ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانی بنیادوں پر سرحدیں کھولنے کا اعلان کر دیا، جس پر یورپی ہمسایہ ریاستیں حیران بھی ہو گئیں اور پریشان بھی۔

’’جب مَیں جرمنی کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں‘‘، یہ کہا تھا ایک سو ستّر سال پہلے مشہور جرمن شاعر ہائنرش ہائنے نے لیکن یہ دور کب کا ماضی کا حصہ بن چکا۔ آج کے جرمنی کا رجحان عملیت پسندی سے زیادہ رومانیت پسندی کی جانب ہے اور یہی وہ چیز ہے، جو جرمنی کے دوست، ہمسایہ اور حلیف ملکوں کو تھوڑا سا پریشان کر دیتی ہے۔

ڈوئچے ویلے

Comments are closed.