روئیداد خان کی روداد

پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی

54ec5b4689ac0
روئید اد خاں کی خود نوشت’’ پاکستان ۔خواب پریشاں ‘‘ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کی جانب سے پہلی بار ۱۹۹۷ میں چھپی تھی ۔دس سال گزرنے کے باوجود اب تک اس خود نوشت کا تذکرہ جہاں تہاں ہو تا رہتا ہے ۔کیونکہ یہ ایک ایسے بیوروکریٹ کی خود نوشت ہے جو مختلف حکومتوں میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہا۔یحیےٰ کے زمانہ میں سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر یہ سیکرٹری اطلاعات تھے ۔ضیاء الحق کے زمانہ میں بھٹوکی پھانسی کے وقت یہ مرکزی سیکرٹری داخلہ تھے اور رحم کی اپیلوں پر معر کہ خیز اور مداہنت آمیز سمری انہی کی لکھی ہوئی تھی۔بعد کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے اتار چڑھاؤ بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔

اس لئے ان کی خودنوشت کے دلچسپ وسبق آموز ہونے میں کس کو کلام ہو سکتا ہے۔ایسا ہی مقام قدرت اللہ شہاب کو بھی حاصل تھا کہ وہ تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھ رہے تھے مگر ان دونوں کے بیان میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔تاریخ کو بنتے دیکھنا اور اس کو دیانت داری سے روایت کردینا بڑی ذمہ داری کی بات ہوتی ہے ۔روئید اد خان اس ذمہ داری سے خوب عہدہ بر آ ہو ئے ہیں اور تاریخ میں ان کی خودنوشت کو ایک دیانتدار انہ تجزیہ کی حیثیت حاصل رہے گی مگر واحسر تا کہ شہاب نامہ کا اصل مقام تاریخ کا کوڑے دان ہو گا۔

روئید ادخاں،موضع ہو تی ضلع مردان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان بابوز ئی قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے۔ان کے دادا اپنے گاؤں کے ملک تھے اور حکومت کی جانب سے لگان کی وصولی کے اختیارات رکھتے تھے ۔ان کی خدمات کے صلے میں ان کے بڑے بیٹے رحیم داد خاں صاحب کو نائب تحصیلدار بنا یا گیا۔ روئیداد خاں انہی رحیم داد خاں کے صاحبزادے ہیں۔ان کی تعلیم مختلف جگہوں پر ہوئی کیونکہ ان کے والد صاحب بسلسلہ ء ملازمت مختلف جگہوں پر متعین ہوتے رہے۔اسلامیہ کالج پشاور، ایف سی کالج لاہور اور علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم پائی اور لیکچر ار کی حیثیت سے ملازمت شروع کی ۔

جلد ہی جوڈ یشل سروس میں منتخب ہو گئے۔سول سروس کا امتحان دیا اور سی ایس پی ہو گئے۔پشاور کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔اس دوران ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی پہلی ملاقات ہوئی۔بھٹو صاحب قائمقام وزیر خارجہ تھے۔پشاور پہنچتے ہی ڈی سی سے خواہش کی کہ انہیں بڈابیر کا امریکی ہوائی اڈہ دکھایا جائے۔ انہوں نے امریکیوں سے رابطہ کیا جواب ملا۔قائمقام وزیر خارجہ صاحب بڑی خوشی سے بڈابیر میں تشریف لائیں مگر انہیں صرف کافی ہاؤس ہی دکھایا جاسکتا ہے ۔اور کافی سے ان کی تواضع بھی کی جا سکتی ہے مگر ااور کچھ دکھانے کا سوال ہی نہیں۔بھٹو صاحب نے ڈی سی سے پوچھا کیا انہیں پتہ ہے میں قائمقام وزیر خارجہ ہوں؟ ڈی سی صاحب نے کہا’’جی ہاں‘‘اور بھٹو صاحب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے۔

روئیدادخاں صاحب کراچی کے کمشنر تھے۔لکھتے ہیں میں اپنے لان میں بیٹھاہوا تھا کہ مجھے بتا یا گیا کہ کیپٹن گوہر ایوب خاں صاحب صدر ایوب کی جیت کے بعد وکٹری جلوس نکال رہے تھے کہ جلوس میں اور مقامی لوگوں میں تصا دم ہو گیا ہے۔یہ اطلاع کسی افسر نے نہیں دی تھی بلکہ ایک عام آدمی نے دی تھی۔انہیں کسی ایسے جلوس کی سرکاری طور پر خبر ہی نہ تھی۔سارادن اپنے ڈی سی اور ڈی آئی جی کو ڈھو نڈنے کی کوشش کرتے رہے کوئی نہیں ملا۔پولیس کنٹرول کے ذریعہ یہ جلوس کے بارے میں تفصیلات حاصل کرتے رہے۔میں نے کسی سول سرونٹ افسر کو اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے نہ دیکھا ہے نہ سنا ہے مگر روائید ادخاں پہلے بیورو کریٹ ہیں جو علی الا علان لکھ رہے ہیں ’’ قطع نظر اس کے کہ قصور کس کا تھا مجھے اعتراف ہے میں کراچی کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں نا کام رہا اور میراضمیر مجھے کچو کے لگا تا رہتا ہے۔(صفحہ ۲۱)۔

روئید اد خاں صاحب نے پاکستان کے چھ صدور کا دور دیکھا۔ یحیےٰ، ذولفقار علی بھٹو ، ضیاء الحق ،غلام اسحٰق خاں اور فاروق لغاری۔ غلام اسحٰق خاں سے تو ملازمت کے آغاز سے ان کا تعلق و تعاوف رہا اور یہ ان کے چند گنے چنے دوستوں میں تھے جن سے وہ بے تکلف رہے۔صدر ایوب کے زمانہ میں انہیں مارشل لاء اور دستور کی تنسیخ کے عواقب دیکھنا پڑے اس وقت یہ پشاور کے ڈپٹی کمشنر تھے۔صدر یحیےٰ کے وقت میں یہ پی ٹی وی کے ایم ڈی بنا ئے گئے تو ان کی والدہ محترمہ کو بڑا دکھ ہوا بڑے کرب سے فرمانے لگیں ’’ان کے پاس میرے بیٹے کو دینے کے لئے یہی گویوں والی نوکری رہ گئی تھی ‘‘؟ اور جب صاحبزادے نے کہا کہ میں تو اس نوکری میں بڑا خوش ہوں تو انہیں اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آیا۔(صفحہ ۵۴

۱۹۷۰ کے الیکشن کی دیانتدارانہ اور مکمل کوریج پر یہ بڑے خوش ہیں کہ پی ٹی وی نے بڑا معر کہ کا کام کیا۔آغا ناصر صاحب نے اپنی کتاب’’ گلشن یاد‘‘میں اس کو ریج کا سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی ہے اور تاثر یہ دیا ہے کہ ان کے افسران خاص طور سے ایم ڈی ان کے کام سے خوش نہیں، اس کام کا کریڈٹ نہیں دیتے تھے ۔عجیب اتفاق ہے کہ روئید ادخاں صاحب کے ایک بھائی پی پی کے ٹکٹ پر ہوتی کی سیٹ پر کامیاب ہوئے اور یہ سرحد میں پی پی کی یہ واحد سیٹ تھی ،ان کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب ان کی کا میابی پر انہیں کریڈٹ دیں گے مگر بھٹو صاحب نے ان کو ذراسا کریڈٹ دینے کی کوشش نہیں کی اور کہا کہ انہوں نے کمزور مر غابیوں کو مار کر کون ساکام کیا ہے؟۔اس پر روئیداد خاں صاحب کا ردعمل یہ ہوا کہ ’’بھٹو دل کے بڑے چھوٹے تھے وہ اپنی پارٹی کے کارکنان کو بھی خواہ وہ کتنے بھی مستحق ہوں، کریڈٹ دینے پر تیار نہیں تھے‘‘(صفحہ ۵۷)خدا کرے آغا ناصر کا تاثر غلط ہوا اور روئیدادخاں صاحب اپنے ماتحتوں کو اچھے کام کا کریڈٹ فراخدلی سے دیتے رہے ہوں!

الیکشن کے بعد یہ مشرقی پاکستان گئے تو سرخ مولانا یعنی مولانا بھاشانی سے بھی ملے ۔مولانا نے ایک گھنٹہ تک ان سے نفیس اردو میں با ت چیت کی اور بتایا کہ ’’ دورہ کے دوران مجیب سے سررا ہے ملا قات ہوئی مولانا نے اس سے کہا کہ اگر چہ اس وقت وہ بڑے مجمعے اکٹھے کرنے میں کامیاب ہورہا ہے کیونکہ وہ مغربی پاکستان کے خلاف منا فرت پھیلا نے والی تقریر کر رہا ہے مگر یادرکھنا ’’ ایک دن یہی لوگ تمہیں پھانسی چڑھادیں گے اور تمہاری لاش کو ڈھا کہ کی گلیوں میں گھسٹیتے پھریں گے ۔‘‘ (صفحہ ۵۶

بھٹو کے سی ایم ایل اے اور صدر اور وزیر اعظم ہونے کا بہت ذکر ہے ۔بھٹو کی منتقما نہ کارروائیوں کا بھی چر چاہے۔مگر ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی جن سے معلوم ہوتا تھا کہ بھٹو کے اندر جو جینئس تھا وہ بہت جلدی میں تھا اور یہ جلدی ہی انہیں لے ڈوبی ۔جس روز ایوب نے انہیں بر طرف کیا یہ اور غلام اسحٰق خاں دونوں انہیں ملنے گئے ۔’’بھٹو صاحب مکان کے لان میں بیٹھے تھے اور وہسکی کا گلاس ان کے ہاتھوں میں تھا ۔غلام اسحٰق خاں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا یا مگر بھٹو ان کے گلے لگ گئے اور رونے لگے پھر مجھ سے ملے اور کہا ایوب نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے وہ کسی چپراسی سے بھی نہیں کیا جاتا۔‘‘(صفحہ۴۷) غلام اسحٰق خاں نے انہیں تسلی دی اور کہا ’’ آپ ابھی جوان ہیں اور سارا مستقبل آپ کے سامنے پھیلا ہوا ہے ‘‘ اس لئے ہمت کریں ۔کچھ دنوں کے بعد روائید اد خاں صاحب انہیں پھر ملے تو اس وقت وہ تسلی میں تھے اور اپنے کا غذات سمیٹ رہے تھے ’’بے بی بے نظیر ‘‘ چھوٹی سی تھیں پاپا سے کہنے لگیں ’’پاپاکیا اب ہم بھی عوام ہو گئے ہیں ؟‘‘(صفحہ ایضاً

بھٹو کی سزا سپر یم کورٹ نے بحال رکھی اور ان کی نگرانی کی درخواست بھی مسترد کردی تورحم کی اپیلوں کا مرحلہ آیا۔ ’’وزارت داخلہ کو کیس کاریکارڈ لاہور سے کوئی گیارہ بجے موصول ہوا۔ سمری کوڈ رافٹ کرنے کا کام تقریباً اسی وقت شروع ہو گیا۔۔۔ ہم نے صاف صاف لکھا کہ سزاکی تخفیف کرنے یا معاف کرنے کے سلسلہ میں صدر کے تمام تر اختیارات بکلی قائم ہیں ‘‘۔یہ سمری تیاری کے مراحل میں تھی ۔ادھر سی ایم ایل اے سیکرٹر یٹ بے چینی و بے صبری دکھا رہا تھا اور بار بار فون کر رہا تھا کہ سمری جلدی بھیجی جائے اور تیزترین طریقہ سے بھیجی جائے۔یکم اپریل کے پچھلے پہر میرے جائنٹ سیکرٹری ارشادخاں سمری لے کر پہلے چیف آف سٹاف جنرل عارف کے گھر گئے اور وہاں سے آرمی ہاؤس کی جانب روانہ ہوئے۔ارشاد صاحب نے بعد کو مجھے بتایا کہ رستہ میں ان کی کار کاڈائیور غلطی سے کسی غلط سڑک کی جانب مڑا تو جنرل عارف اس پر برس پڑے۔میں جنرل عارف سے اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا مگر اس وقت سب لوگ ہی بڑے اعصابی تناؤ کی کیفیت میں تھے۔ارشاد نے بتایا کہ صدر نے سمری پڑھے بغیر ہی رحم کی اپیلیں مسترد کردیں۔دوسری طرف جنرل عارف نے اپنی کتاب “ورکنگ ود ضیا”میں لکھاہے کہ صد ر نے سمری کو غور سے پڑھا تھا‘‘۔ (صفحہ ۶۹

جنرل عارف کا کہنا ہے ’’ جنرل ضیا نے سمری کا بغور مطالعہ کیا ان کی حس فیصلہ بھی یہی کہتی تھی کہ عدل وانصاف کے تقا ضے باقی تمام تقا ضوں سے بر تر تصور کیے جانے چاہئیں۔ ان کے پانچ مہلک الفاظ نے مسٹر بھٹو کی زندگی پر مہر مرگ ثبت کر دی ۔۔ درخواست مسترد کی جاتی ہے‘‘(ضیا الحق کے ہمراہ ۔صفحہ ۲۹۱)۔ روئید ادخاں نے اس بات پر بحث بھی کی ہے’’ یہ کہا جاتا ہے ضیا ء کا بھٹو کو پھانسی لگانے کا فیصلہ عدل وانصاف کے تحت کیا گیا تھا جنہیں دیگر تمام امور پر فو قیت دی جانی چاہئے اور یہ کہ ضیاء نے کبھی اعلیٰ عدالتوں کی دی ہوئی سزائے موت کو معاف نہیں کیا تھااور وہ بھٹو کے معاملہ میں کوئی استثنا ء نہیں کرنا چاہتے تھے ۔یہ بات حقیقت کے خلاف ہے ۔بھٹوکی سزائے موت سے پہلے اور بعد میں ضیاء نے وزارت داخلہ سے اختلاف کرتے ہوئے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس موت کی کئی سزائیں معاف کی تھیں۔‘‘(صفحہ ۷۰)۔

روئید ادخاں صاحب نے دیانت داری سے یہ تجزیہ بھی اپنی کتاب میں درج کیا ہے کہ’’ بھٹو کے خلاف فوجی بغاوت اور مارشل لاء کے قیام کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ایک پرانے قتل کے مقدمہ کا احیاء اور اس میں بھٹو کی گرفتاری اور مقدمہ سب کچھ سیاسی مقاصد کے لئے کیا گیا تھا۔مقدمہ میں بھٹو سے انصاف نہیں کیا گیا۔ فوج نے جس وقت ان کا تختہ الٹا گیا اس وقت ہی ان کی قسمت پر مہر لگ گئی تھی‘‘(صفحہ ۷۲)اور میراخیال ہے سمری لکھتے وقت روئید ادخاں صاحب کے سامنے ضیاء الحق کا یہ ارشاد بھی رہا ہو گا’’ ضیاء الحق نے ایک بار مجھ سے کہا تھا روئید اد صاحب اس کی گردن جائے گی یا میری ‘‘(صفحہ ۷۰)اور روئید اد صاحب نے صحیح گردن چنی!

روئید ادصاحب نے کتاب میں بڑے دکھ سے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’۴۱ اپریل ۱۹۷۹ کو ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان باون سال کی عمر میں پھانسی کے پھندے سے ہلاک ہو گئے، ان کے جو بھی گناہ تھے یا غلطیاں تھیں یا زیادتیاں تھیں جلدی کی اور جانے میں بھی جلدی دکھائی ‘‘( صفحہ ۱۷۱)بھٹو صاحب کی باون سال کی عمر میں موت کا ذکر بھی کسی سرکاری افسر کی تحریر میں پہلی بار کیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں جب بے نظیر بھٹو باون سال کی ہوئیں اور جلا وطنی میں ان کی سالگرہ منائی گئی تو لوگوں کو ان کے باپ کی باوں سال کی عمر کا بہت خیال آیا مگر خدائی تقدیر کے آگے کس کی پیش جاتی ہے۔ کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ’’بھٹو کے آخری دن‘‘میں لکھا ہے کہ موت کے بعد بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے قریب سے فوٹو لئے گئے تھے تاکہ اس بات کا یقین کیا جا سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟ کاش روئیدادخاں صاحب اس بے حرمتی کے باب میں بھی کچھ کہہ دیتے ۔

بھٹو صاحب کے ذکر نے بہت وقت لے لیا۔بھٹو صاحب کی بیٹی کا تذ کرہ بھی دیکھئے ۔جب فاروق لغاری صدر منتخب ہو گئے تو بے نظیر نے انہیں کھانے کی دعوت دی جس میں روئیداد صاحب بھی موجود تھے ۔فاروق لغاری کہنے لگے میں صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد قوم سے خطاب کرناچاہوں گا۔محترمہ نے انہیں (سب کی موجودگی میں )جھڑکنے کے انداز میں کہا’’آپ کو قوم سے خطاب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ہم صدر کے عہد ے کو ویسے بھی کمتر اہمیت دینا چاہتے ہیں‘‘(صفحہ ۱۶۰)گو یا بی بی نے پہلے دن ہی منتخب صدر مملکت کو ان کی اوقات یا د دلانے کی کوشش کی اور صد ر نے موقع ملتے ہی خفت کا بدلہ لے لیا۔

اس کتاب کا اہم حصہ قائداعظم کی وہ تقریر ہے جو قائدا عظم نے ۱۴اپریل ۱۹۴۸ کو پشاور گورنمنٹ ہاؤس میں سر کاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فر مائی اور اب ہماری تاریخ میں اس تقریر کا سراغ تک نہیں ملتا۔قائد اعظم نے کہا تھا’’پہلی بات میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہئے ۔خواہ وہ دباؤ کسی فرد کی طرف سے ہو یا پارٹی کی طرف سے ۔اگر آپ اپنی سروس کی عزت بڑھا نا چاہتے ہیں تو آپ کو دباؤ قبول نہیں کرنا چاہئے ۔آپ قوم اور ملک کے خادم کے طور پر اپنے فرائض بے خوفی اور دیانت داری سے ادا کرتے رہیں۔ سروس تو حکومتوں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ۔گورنمنٹ بنتی ہے ٹوٹتی ہے وزراء اعظم آتے ہیں چلے جاتے ہیں مگر آپ لوگ اپنی جگہ قائم رہتے ہیں ۔اس لئے آپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔آپ لوگوں کو اس سیاسی لیڈر یا اُس سیاسی لیڈر کی یا اس سیاسی پارٹی یا اس سیاسی پارٹی کی پشت پنا ہی کرنے کی ضرورت نہیںیہ آپ کا کام نہیں۔جو حکومت آئینی لحاظ سے قائم ہوا اور جو ابھی وزیر اعظم اقتدار میں ہو آپ کافرض ہے کہ حکومت کو دیانت داری اور وفاداری سے اور بے خوفی سے چلا ئیں اور اپنی سروس کی عزت و آبرو اور اعلیٰ معیار کو قائم رکھیں۔‘‘( صفحہ ۱۸۲)۔

یہ تقر یر جو سرکاری افسروں کا منشور ہے نہ جانے کس کی فریب کاری سے منظر عام پر نہیں آتی اور ہمارے عمال حکومت جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے کے مصداق جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں ۔اور سیاسی رہنما یا پارٹیاں ؟ وہ تو جیسے کھل کھیلنے کو اپنا حق جانتی ہیں اور روئیداد خاں صاحب نے پاکستان کو خواب پریشان ہی اسی لئے کہا ہے کہ کسی ایک کو کسی دوسرے کی دیانت داری اور وفاداری کا یقین ہی نہیں رہا۔

روئیداد خاں تاریخ داں ہیں اس لئے ہر موقعہ پر ہر مقام پر تاریخ عالم سے کوئی نہ کوئی مثال یا مقو لہ ڈھونڈ کر اس کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ انہیں داد دینا پڑتی ہے کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور ان کا انداز بیان مناسب و موزوں ہے۔ زبان پر انہیں بڑی دسترس حاصل ہے اور اپنے دوست اور بزرگ غلام اسحٰق خاں کی طرح انہیں انگریزی زبان کی صحت کا بہت خیال رہتا ہے اسی لئے ان کی یہ خود نوشت بہت رواں دواں ہے اور پڑھنے والا ان کے زور بیان کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔

اختتا میہ کو آپ نے فیض کی نظم صبح آزادی سے شروع کیا ہے یہ داغ داغ اجا لا یہ شب گزیدہ سحر۔وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں ۔فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل ۔کہیں تو ہو گا شب ست موج کا ساحل۔ کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ ء غم دل ! ساری قوم ہی سفینہ ء غم دل کے کنارے لگنے کا انتظار کر رہی ہے۔
**

One Comment