ایک ہی سکّے کے دو پہلو : بی جے پی اور آر ایس ایس

کلدیپ نیر

article-2625797-1DC1C8FD00000578-304_634x455

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان روابط کے بارے میں ذرہ برابر بھی جو شک تھا تو وزیراعظم نریندر مودی نے اسے دور کردیا ہے ۔ انہوں نے اپنے وزراء کو آر ایس ایس سربراہ کے سامنے پیش کرکے ان سے اپنی وزارتوں کی کارکردگی سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے ۔

یہ بات کہ وزیراعظم کو اس بارے میں کوئی ندامت محسوس نہیں ہوئی ،نیوز چینلوں پر پوری کارروائی دکھائے جانے سے ظاہر ہے ، آر ایس ایس کے سیاسی شعبے بی جے پی سے وابستہ ہونے سے پہلے وہ اس کے پرجوش مبلغ یا پرچارک رہ چکے ہیں ۔

پارٹی اس تعلق کے اظہار میں اس وجہ سے محتاط رہی ہے کہ اسے یہ محسوس ہوگیا تھا کہ عام ہندوستانی کی نگاہ میں آر ایس ایس کی شبیہ اچھی نہیں ہے ۔ ربط و تعلق کے اسی سوال پر جنتا پارٹی میں پھوٹ پڑی تھی ۔

بی جے پی کے سابق اوتار جن سنگھ نے اس وقت آر ایس ایس سے ترک تعلق کا وعدہ کیا تھا ، جب اس نے جنتا پارٹی میں شامل ہو کر گاندھیائی جے پرکاش نرائن کو یقین دلایا تھا کہ وہ آر ایس ایس سے پوری طرح قطع تعلق کرلے گی ،بشرطیکہ اسے جنتا پارٹی میں شامل رہنے دیا جائے ۔ یہ قطع تعلق حقیقتاً واقع نہیں ہوا اور اس سے بی جے پی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے جے پرکاش سے پوچھا تھا کہ انہوں نے جن سنگھ کو جنتا پارٹی میں کیوں ضم ہونے دیا ،جبکہ اس نے آر ایس ایس سے اپنا تعلق ختم نہیں کیا تھا ۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ وعدہ خلافی اس لئے کی گئی کیونکہ جن سنگھ کے لیڈران اپنے وعدے سے پھر گئے تھے ۔ انہوں نے جے پرکاش سے یہ عہد کیا تھا کہ حکومت بننے کے بعد جب بھی جنتا پارٹی تنطیمی کاموں میں شریک ہونے لگے گی جن سنگھ کا آر ایس ایس سے کوئی تعلق نہیں رہ جائے گا ۔ بی جے پی نے کہا تھا کہ ’’میری ذاتی طور پر ہتک کی گئی ہے‘‘ ۔

یہ بات ضرور سچ ہوگی لیکن اس عمل کے دوران جن سنگھ کو سیکولر اسناد حاصل ہوگئیں ۔ جے پی نے جو فاش غلطی کی تھی وہ پورے ملک کو مہنگی پڑی اور کل کی جن سنگھ آج کی بی جے پی بن گئی اور لوگ سبھا میں مطلق اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔

اس صورت حال کا فائدہ کانگریس کو پہنچنا چاہئے تھا لیکن نہرو خاندان سے اس کی مرعوبیت اور اپنے بیٹے راہل گاندھی کو جانشین بنانے کی سونیا گاندھی کی ضد نے اس فائدے کے امکان پر پانی پھیردیا ۔ کانگریس قابل انحصار مسلم ووٹ بینک سے محروم ہوگئی ۔ اب مسلم فرقہ علاقائی پارٹیوں کا ساتھ دے رہا ہے ۔
مسلم فرقہ تنگ نظری کی سیاست کی طرف واپس جانا نہیں چاہتا ۔ تاہم اس کے پاس شاید اس خیال سے کھیلنے کے سوا اور کوئی متبادل نہ رہے کیونکہ آر ایس ایس خالصتاً ثقافتی تنظیم کے اپنے کردار سے روگردانی کرکے بی جے پی کی رہنمائی کرنے کے لئے کھل کر میدان میں آگئی ہے ۔

آر ایس ایس کو اس تعلق سے کوئی فکر نہیں کیونکہ وہ انتخاباتی عمل سے نہیں گزری ہے ،کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انتخابات جیتنے کے لئے بی جے پی کو آر ایس ایس کارکنان پر انحصار کرنا پڑے گا ۔
بہرحال ٹیلی ویژن چینلوں پر آر ایس ایس سربراہ بھاگوت کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور وزیراعظم کی ان سے ملاقات اور بھاگوت کے سامنے ان کے وزارتی رفقاء کے پیش کئے جانے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آقا کون ہے ۔

یہ سچ ہے کہ حلقہ رائے دہندگان نے مودی کو اکثریت دی ہے لیکن اپنی مہم کے دوران انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جب ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کی بات آے گی تو آر ایس ایس کا ہاتھ اس میں بہت زیادہ ہوگا ۔

درحقیقت مہم کے د وران مودی نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ ماضی میں پارٹی کا موقف کچھ بھی رہا ہو ، نیا نعرہ سب کا وکاس ، سب کا ساتھ ہے ۔ چند میٹنگوں میں انہوں نے غیر معمولی انداز میں مسلمانوں کو یہ تاثر دیا تھا کہ وہ ان کے بہترین نگہبان ہوں گے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ابھی تک ان (مودی) کے کام کرنے کے طریقے میں کوئی امتیازی وصف نہیں پایا گیا ۔

تاہم یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آر ایس ایس تعلیمی اداروں کی بھگواکاری کررہی ہے اور اہم عہدوں پر اپنے خاص افراد کا تقرر کررہی ہے ۔ اس سے اشارہ ملتا ہے مودی آر ایس ایس کے ایجنڈے کو دھیرے دھیرے لیکن بے دھڑک نافذ کررہے ہیں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حکومت چلانے کے معاملات میں مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔

خود مرکزی کابینہ میں صرف ایک مسلم وزیر ہے اور اسے بھی کوئی اہم پورٹ فولیو نہیں دیا گیا۔ بصورت دیگر بھی حکومت کے اندر اور باہر یہ تاثر زور پکڑتا جارہا ہے کہ ملک کے نظم و نسق میں ایک طرے کا نرم ہندوتوا غالب آنے لگا ہے ۔ شاید ابھی ہندو راشٹر کی تشکیل کا آر ایس ایس کا مقرر کردہ ہدف دور نظر آرہا ہو لیکن مودی کو رخصت ہونے میں ابھی ساڑھے تین سال باقی ہیں ۔

مودی اور آر ایس ایس سربراہ جو کھلم کھلا ملتے رہتے ہیں ناگپور میں آر ایس ایس کے صدر دفتر میں وضع کردہ منصوبے کے مطابق کام کررہے ہیں ۔ بی جے پی اور اس کی اسٹونڈنٹس ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی کوئی آزادانہ سوچ نہیں ہے ، وہ بھی ناگپور میں تیار کردہ مسودے پر عمل پیرا ہے ۔

اس کا مظاہرہ مختلف شکلوں میں ہورہا ہے ۔ کبھی تو گوشت پر پابندی اور کبھی ڈریس کوڈ کی صورت میں اور یہاں تک کہ اسکولوں میں سنسکرت کی لازمی تعلیم اور اسمبلیوں میں صبح کی مخصوص دعاؤں کی شکل میں ، وہی آر ایس ایس جو سامراج کے خلاف جاری تحریک آزادی میں کہیں نام و نشان بھی نہیں رکھتی تھی ،پورے میدان پر قابض ہونے کی کوشش کررہی ہے اور خود کو جنگ آزادی کا اصل غازی قرار دے رہی ہے ۔

جد و جہد آزادی کے جذبے اور تکثیریت کے فلسفے کا فقدان افسوسناک ہے ۔ یہاں تک کہ جدید ہندوستان کے معمار جواہر لال نہرو کے نام کو منظم طور پر مٹایا جارہا ہے ۔

مثال کے طور پر نہرو اور اندرا گاندھی کی تصویر والے ڈاک ٹکٹ ختم کئے جارہے ہیں ۔ تعلیم کے میدان میں جو کھلواڑ ہورہا ہے ، وہ حد درجہ بھیانک ہے ۔ تاریخ پھر سے لکھی جارہی ہے اور ہمیں آزادی دلانے والے لیڈروں کے کردار کو کمتر حیثیت میں پیش کیا جارہا ہے۔

اگر مسلم لیگ کے خلاف ڈٹے رہنے والے سرحدی گاندھی، خاں عبدالغفار خاں اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنماؤں کا نام خال خال لیا جاتا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

یہ بات تو سمجھ سے باہر نہیں ہے کہ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ بی جے پی اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں جد و جہد آزادی کے ذکر پر یہ محسوس کرتی ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہےلیکن انہیں جد وجہد آزادی کی لڑائی کو چھوٹا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ آنے والی نسلوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی ۔

اہم بات یہ ہے کہ آزادی کی جد وجہد میں بے شمار افراد نے قربانیاں دی تھیں جس میں تمام طبقات شامل ہیں ۔

روزنامہ سیاست، حیدر آباد انڈیا

 

Tags: , , ,

Comments are closed.