شام میں فوجی مشن تین تا چار ماہ جاری رہنے روس کا ادعا

russia-619x330

ماسکو ۔ روسی پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں ان کے ملک کی جانب سے شروع کی گئی فوجی کارروائی تین سے چار ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں روسی فوج شام میں فضائی حملوں میں مزید شدت لائے گی۔ “یورپ 1” ریڈیو سے بات کرتے ہوئے روسی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ شام میں فوجی مشن کے طول پکڑنے کے امکانات اور خطرات موجود ہیں مگر فی الحال ماسکو کا ارادہ تین سے چار ماہ تک آپریشن جاری رکھنے تک محدود ہے۔

تاہم آنے والے دنوں میں مخصوص اہداف پر حملے تیز کیے جائیں گے۔ روسی عہدیدار کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روسی صدر ولادیمیر پوتن پیرس میں فرانسیسی، جرمن اور یوکرینی رہنمائوں سے ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

درایں اثناء امریکی حکومت نے شام میں روسی فوج کے فضائی حملوں پر ایک بار پھرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی فوج کا ہدف دولت اسلامیہ نہیں بلکہ روس اعتدال پسند انقلابی قوتوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کے خیال میں داعش صدر بشارالاسد کو تحفظ دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے ماسکو داعش کو اپنے حملوں کا ہدف نہیں بنا رہا ہے۔ وائیٹ ہائوس کا مزید کہنا ہے کہ روسی حکومت کو شام میں فضائی حملوں کے اخراجات کا تعین کرنا چاہیے۔ تاہم روسی عہدیدار بوشکوف نے امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزام کو مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ روس ان تمام انتہا پسند گروپوں کو نشانہ بنائے گا جو شام میں صدر بشارالاسد کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس کو میدان میں اس لیے اترنا پڑا ہے کیونکہ امریکہ کی قیادت میں اتحادی ممالک کی جانب سے شام میں داعش کے خلاف آپریشن بے ثمر ثابت ہو رہا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ داعش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آپریشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے ایک سال سے ہم سن رہے ہیں کہ امریکا شام میں داعش کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے مگر ہمیں اس آپریشن کے نتائج بھی بتائے جائیں کہ آیا اب تک داعش کو کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے۔

الیکسی بوشکوف نے کہا کہ امریکہ کی قیادت میں شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں میں صرف 20 فی صد اہداف کو بمباری سے نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ 80 فی صد اہداف پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔

روسی رکن پارلیمنٹ نے شام کے بحران کے حل کے لیے ایران اور صدر بشارالاسد کی شمولیت پر مبنی بین الاقوامی کانفرنس کی تجویز کی حمایت کی اورکہا کہ بحران کے حل کے لیے یہ ایک منطقی خیال ہے۔

دوسری طرف جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق صدر بشار الاسد کی حمایت میں سینکڑوں ایرانی فوجی اہم زمینی کارروائی میں شرکت کے لیے شام پہنچ گئے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں روس اور امریکا بھی ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔

لبنان کے دو ذرائع نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ گزشتہ دس روز سے ایرانی زمینی دستے ہتھیاروں سمیت شام پہنچ رہے ہیں اور اہم زمینی کارروائی کرنے جا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس مبینہ زمینی کارروائی میں ایرانی دستوں کو لبنانی شیعہ جماعت حزب اللہ اور عراق کے شیعہ جنگجوؤں کی بھی حمایت حاصل رہے گی۔ منصوبے کے مطابق اس زمینی کارروائی کے دوران روس انہیں فضائی مدد فراہم کرے گا۔

ایک دوسرے لبنانی ذریعے کا کہنا تھا، ’’ایران کی زمینی فورسز نے شام پہنچنا شروع کر دیا ہے۔ فوجی اور افسر خاص طور پر جنگ میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ یہ مشیر نہیں ہیں، ہمارا کہنے کا مطلب ہے کہ یہ سازو سامان اور اسلحے کے ساتھ پہنچ رہے ہیں۔ ان کے بعد مزید بھی آئیں گے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں روس کی اچانک بمباری اور ایران کی بڑھتی ہوئی مداخلت گزشتہ کئی برسوں سے جاری شامی خانہ جنگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا بھر کی بڑی فوجیں طاقتیں شامی جنگ میں شامل ہو رہی ہیں۔

دوسری طرف روس کے جنگی طیاروں نے شام میں ان باغیوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے، جنہیں امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے صدر بشار الاسد کے خلاف جنگی تربیت فراہم کر رہا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن حکومتیں کسی تنازعے میں اس طرح کھل کر آمنے سامنے آ گئی ہوں۔ امریکی محکمہٴ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ عالمی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے دونوں ملکوں کے فوجی حکام کے مابین ویڈیو رابطہ ہوگا تاکہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے، جس سے فضائی بمباری کے دوران دونوں ملکوں کے طیاروں کا آمنا سامنا نہ ہو۔

فضائی بمباری کے دوسرے روز روس نے آج شامی شہر حمص اور حما میں مختلف مقامات پر حملے کیے۔ روس کے مطابق اس نے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جبکہ مخالفین کے مطابق ان جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن کو امریکا، عرب ممالک اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔

شام کے ایک عسکری گروپ ’لواء صقورالجبل‘ کے سربراہ حسن حج علی نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس نے صوبہ ادلب میں دو مختلف مقامات پر بیس میزائل داغے ہیں۔ حسن حج علی کے بقول جن باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، انہیں سی آئی اے نے قطر اور سعودی عرب میں تربیت فراہم کی تھی۔ یہ مبینہ طور پر وہ جنگجو تھے، جو صدر اسد اور داعش دونوں کے خلاف کام کر رہے تھے۔

، ڈوئچے ویلے و روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا

Comments are closed.