زبانوں کو بھی جمہوریت چاہیے آمریت نہیں۔۔۔

شاداب مرتضٰی

961149-URDU-1442871787-222-640x480

میری مادری زبان اردو ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا اتفاق ہے جس پر میرا کوئی اختیار نہ تھا۔ اگر میں ایک سندھی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا تو اتفاق کے طور پر میری مادری زبان سندھی ہوتی۔ اگر کسی پنجابی یا بلوچی یا پشتون ماں مجھے جنم دیتی تو اسی کی بولی یا زبان اس کی نسبت سے میری مادری بولی یا زبان ہوتی۔ تمام دوسرے لوگوں کی طرح اپنی ماں کا انتخاب میرے اختیار میں نہیں تھا اور اسی نسبت سے اپنی مادری بولی یا زبان کے انتخاب کا بھی مجھے اختیار نہیں تھا۔ اس لئے اردو اتفاقیہ طور پر میری مادری زبان ہوئی۔

مجھے اردو اسی قدر پسند ہے جس قدر ہر شخص کو اپنی مادری زبان پسند ہوتی ہے،اچھی لگتی ہے۔ لیکن اگر مجھے اپنی مادری زبان پسند ہے، اچھی لگتی ہے تو مجھے دوسرے لوگوں کا اپنی مادری زبان کو پسند کرنے, اچھا سمجھنے کا حق بھی تسلیم کرنا ہو گا اور اس کا اسی طرح احترام کرنا ہو گا جس طرح میں اپنی مادری زبان کا احترام کرتا ہوں۔

تاہم اگر میں اپنی مادری زبان کو دوسری زبانوں سے زیادہ پیاری زبان سمجھتا ہوں اور دوسری زبانوں کو اس کے مقابلے میں کمتر سمجھتا ہوں تو پھر مجھے دوسری مادری زبانوں کے بولنے والوں کو بھی یہ حق دینا ہوگا کہ وہ میری مادری زبان کو اپنی مادری زبان کے مقابلے میں کمترسمجھیں۔ اور اپنی مادری زبان کی جانب ان کے کمتری کے اظہار کو خندہ پیشانی سے اسی طرح برداشت کرنا ہوگا جس طرح میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ دوسری مادری زبانیں بولنے والے اپنی مادری زبان کے حوالے سے میرے احساس تفاخرکوبرداشت کریں۔ اس پرحرف اعتراض نہ اٹھائیں۔ ایسا نہ کرنا برابری اور انصاف کی جانب میرے متضاد رویے اور خواہش کو ظاہر کرے گا۔

اگر ہم انسانی معاشرے کو ایک گلستان سمجھیں تو اس میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی مثال اس گلستان میں موجود رنگ برنگے پھولوں جیسی ہو گی جن میں سے ہر ایک اپنے آپ میں ایک منفرد خوبصورتی لئے ہوئے ہے۔گلستان کا حسن اس میں ہے کہ اس کا ہر پھول باقی پھولوں کے ساتھ مل کر اسے حسین بناتا ہے۔

لیکن انسانی معاشرے کے حسن و خوبصورتی کے دشمن کچھ عاقبت نااندیش ،سازشی عناصر اور ان کے بیانیوں کے اثر میں گرفتار بعض کند ذہن افراد بھانت بھانت کے حربوں سے کسی ایک یا دوسری زبان کو باقی زبانوں پر فوقیت دینے کی، اس زبان کی اجارہ داری قائم کرنے کی، گلستان کے کسی ایک پھول کو باقی پھولوں پر فوقیت دے کر گلستان کے حسن و خوبصورتی کو زائل کردینے کی فکر میں سازش کے جال بننے میں مصروف رہتے ہیں۔

زبان کے حق کے تسلیم و تحفظ کی تاریخ 1815 سے پہلے سے ملتی ہے. 1815 میں ویانا کے معاہدے میں پولینڈ کے لوگوں کا اپنی زبان پرحق تسلیم کیا گیا۔ پھر آسٹریا نے 1867 میں اپنے آئین میں تمام لسانی اقلیتوں کے قومی زبان کے حق کو تسلیم کیا۔

انسانوں کی اجتماعی دانش جب جمہوریت کا سفر طے کرتی ہوئی بیسویں صدی میں داخل ہوئی تو لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ نے بھی اپنی زبان کے انتخاب پر ہر فرد کا حق، لسانی اقلیتوں کا اپنی زبان پر حق اور ہر قوم کا اپنی زندگی کے جملہ معاملات میں اپنی قومی زبان کو استعمال کرنے کا حق تسلیم کیا. ساتھ ہی مادری زبان میں بچے کی ابتدائی تعلیم کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے مادری زبان میں ہی بچے کی ابتدائی تعلیم پر زور بھی دیا گیا۔ ماہرین تعلیم اس حقیقت پر متفق ہوئے کہ بچے کو ابتدائی تعلیم اوراس کی مادری زبان میں ہی دی جائے تو وہ زیادہ اچھی طرح اور جلدی علم حاصل کرتا ہے۔

لیکن ان عاقبت نااندیش افراد کا کیا کیجئے کہ جو اپنی ہوسِ اقتدار کی تسکین کے لئے جملہ جمہوری حقوق و استحقاق بزور جبرو طاقت کچل ڈالنے پر تلے رہتے ہیں اور ان کے حاشیہ بردار اہلِ علم و دانش جمہوری حقوق کی اس آبروریزی پر کبھی مفاہمت کی چادر ڈالنے اور کبھی علمی موشگافیوں کے ذریعے اس کے فوائد و فضائل گنوا کر سادہ لوحوں کو گمراہی پر مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیاسی اقتدار پر بزور طاقت براجمان رہنے کے لئے آمرانہ و غیر جمہوری مقتدر عناصر نے زبان کو بھی استحصال کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا. چھوٹی قوموں،لسانی اکائیوں اور اقلیتوں پر کبھی کوئی اقلیتی اور کبھی کوئی اکثریتی زبان مسلط کرنے کی کوشش کی۔

زبان کسی بھی قوم یا قومیت کے افراد کی تاریخ و ثقافت،علوم و فنون اوررسم و رواج کی مخزن ہوتی ہے۔ کوئی قوم نئی نسل کو اپنی زبان کے وسیلے سے ہی اپنی تاریخ و ثقافت منتقل کرتی ہے۔ نسل انسانی بحیثیت مجموعی اپنی مختلف زبانوں میں نئی نسل کو اپنی تاریخی ترقی کا خزانہ منتقل کرتی ہے۔

کسی قوم سے اس کی زبان کو چھین لینے کا نتیجہ اس قوم کے ذہن و دل کو اس کے جسمانی وجود سے جدا کردینے،اس کی اجتماعی یادداشت کو کھرچ کر اسے ایک بالکل نئے اور اجنبی ماضی وحال کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے جس کا مقصد کسی قوم یا مخصوص لوگوں کو جبرا اپنی منشاء کے مطابق مخصوص عقائد ونظریات، ثقافت اورنظام زندگی کا غلام بنانا ہوتا ہے ہم اسے کسی قوم کو غلام بنانے کے واسطے اس قوم کی برین واشنگ کرنے کے عمل سے مماثلت دے سکتے ہیں۔

وطن عزیز پاکستان بھی ایسے بوالہوس افراد کی دست درازیوں سے نہیں بچ سکا جنہوں نے اپنے غیر جمہوری اور آمرانہ اقتدار کو تقویت دینے کے لئے قومی استحصال کی خاطر ایک مخصوص زبان کو دیگر قومی زبانوں پر مسلط کرنے کے جابرانہ اقدام کو سیاسی حربے کے طورپراستعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں قومی ہم آہنگی اور باہمی محبت کے جذبوں کو شدید دھچکہ لگا اور قومی افتراق وانتشار نے اس حد تک تقویت پائی کہ ہمیں اپنے ملک کے اکثریتی حصے سے، مشرقی پاکستان کے ہموطنوں سے جدائی کا اذیت ناک صدمہ برداشت کرنا پڑا۔

لیکن ہمارے مقتدر حلقوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اورایک مخصوص زبان’ اردو زبان‘ کو پاکستان کی تمام قوموں پر مسلط کرنے کی روش اختیار کئے رکھی جس کے نتیجے میں دیگر سیاسی و معاشی وجوہات کے علاوہ, ملک میں قومی ہم آہنگی اور اخوت کے احساسات مزید مجروع ہوئے اورملک کی مختلف قوموں کے لوگوں میں ایک دوسرے کی جانب معاندانہ اورنفرت آمیزرویے پروان چڑھے۔

اس طرح اس ملک کے عوام کو قومی تعصب کے ذریعے تقسیم وتفریق کیا گیا تاکہ وہ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد وصف آراء ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں۔

غیر جمہوری اور آمرانہ روش اقتدار کے عادی مقتدر حلقوں اور ان کے دانشوران کی جانب سے ملک میں اردو زبان کو قومییا سرکاریزبان قرار دئے جانے کے حق میں جو دلیل سب سے زیادہ دہرائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک قومی یا سرکاری زبان سے ملکی ترقی کو فروغ حاصل ہوگا اور قومی ہم آہنگی اور بھائی چارا بڑھے گا۔

اس ضمن میں مؤدبانہ عرض یہ ہے کہ اول تو پاکستان کوئی ایک قومی ملک نہیں بلکہ اس میں کئی قومیں بستی ہیں مثلا سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتون، کشمیری، گلگتی، بلتی وغیرہ جن کی اپنی علیحدہ قومی زبانیں، تاریخ و ثقافت ہے۔

دوئم یہ گزارش ہے کہ ہم آہنگی کا فروغ ایک دوسرے کی انفرادیت و جداگانہ خصوصیات کو دل سے تسلیم کرنے اور اشتراک باہمی سے ایک دوسرے کی ترقی میں حصہ لینے سے مشروط ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ انفرادی خصوصیات کا پاس و احترام کرتے ہوئے مشترکہ قدروں کو اجاگر کیا جائے ۔

بجائے یہ کہ کسی ایک انفرادی قوم یا انفرادی زبان کو جبرا مسلط کر کے اشتراک عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے عمل کو بے حسی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جاری رکھا جائے تاکہ ملک کے عوام کو قومی اورلسانی بنیادوں پرتقسیم کا شکاررکھا جائے۔ گلستاں کے حسن و خوبصورتی کو برقرار اور اسے دیدہ زیب رکھنے کی خاطر اس کے ہر پھول کی انفرادیت کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ یکسانیت اس کے حسن کو ماند کردے گی۔

اردوزبان کوملک کی تمام قوموں پرمسلط کرنے کے عمل نے بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے اورملک کے عوام میں موجود قومی استحصال کے شکوے، اس کے خلاف غم وغصہ اورعلیحدگی کے بڑھتے جذبات اسی بات پردلالت کرتے ہیں۔

اگر ہم نے حقیقتاً قومی ہم آہنگی، اخوت و بھائی چارے کی پالیسی اپنائی ہوتی توآج ہمارے ملک میں موجود مختلف قومیں ان شکایات کا اظہارکرتی دکھائی نہ دیتیں۔

2 Comments