سیکھنے کا تعمیراتی عمل

social-constructivism(Constructivism in Learnning)سیکھنے کا تعمیراتی عمل

سبط حسن

روایتی طورپر سمجھا جاتاہے کہ بچے کا دماغ ایک خالی ڈبہ ہے۔ اس ڈبے میں استاد معلومات بھرتاہے یا بچہ رٹّہ لگا کر معلومات کو اپنے طورپر اپنے دماغ کی تجوری میں بھر لیتا ہے۔ امتحان میں پرچۂ سوالات ایک چیک کا کام کرتاہے اور دماغ کا بینک، حسبِ فرمائش معلومات واپس لوٹا دیتا ہے۔ اس طرح آخر کار دماغ کی تجوری یا بینک خالی کا خالی رہ جاتاہے تحقیق کے مطابق اس طریقے سے بچہ کچھ نہیں سیکھتاکیونکہ سیکھنے کے عمل کی پہلی سیڑھی معلومات کو سمجھناہے۔
بچے کے ارد گرد جو کچھ بھی ہورہاہے، بچہ اس کا مشاہدہ کرتاہے۔ مختلف مشاہدات کے درمیان تعلق قائم کرکے ان میں نئے معانی تلاش کرتاہے۔ ضروری نہیں کہ مشاہدات کے درمیان تعلق اور ان سے نکالے گئے معانی درست ہوں مگر ایک بات یقیناًباعثِ اطمینان ہے کہ بچہ مختلف مہارتوں(سکلز)کو استعمال کرکے نئی معلومات پیدا کررہاہے۔ سیکھنے کا یہ خود مختارعمل دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو بچہ ایک دن بہت بڑا سائنس دان بن جائے گا۔ واضح رہے کہ ایک عام آدمی اور سائنس دان کے اردگرد کی دنیا کو دیکھنے کے زاویے میں بنیادی فرق یہی سائنسی عمل ہی ہے۔ اس عمل کی بنیاد سوال کرنے پر ہوتی ہے۔ جب تک سوالات کاسلسلہ جاری رہے گا، یہ عمل جاری رہے گا اور سادہ سے پیچیدہ معاملات کی طرف بڑھتاچلاجائے گا۔


بچہ کیوں کر معانی تعمیر کرتاہے؟
جانوروں کی زندگی کی سرگرمیوں کو جبلّی سطح پر طے کردیاگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھینس کی زندگی ہزاروں سالوں میں تبدیل نہیں ہوسکی۔ اس طے شدہ سکیم میں بھینس کے لیے اپنی زندگی اوراردگرد کی دنیا کو تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس کے برعکس انسان میں تخیّل اور تجسّس ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر وہ مسلسل اپنے اردگرد فطرت کو تبدیل کرتارہتاہے۔ فطرت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ وہ خود اپنے آپ کو بھی تبدیل کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا بچہ بھی فطری معاملات اورچیزوں کے ساتھ تعامل(انٹر ایکشن )کرکے ان کے اپنے ساتھ تعلق میں معانی تلاش کرتاہے۔ اس عمل کی بنیاد تجسّس پرہے اور تجسّس سے سوال پیدا ہونے اورسوالات کے جوابات تلاش کرنے کا عمل چلتارہتاہے۔
سیکھنے کے عمل کوتعمیر کرنے سے کیا مرادہے؟

ا۔ تاریخ اور بچوں کی تربیت
جیسے جیسے بڑوں نے اپنے بچوں کے بارے میں نظریات تبدیل کیے، ویسے ویسے ان کو سکھانے کے نظریات اور طریقے بھی تبدیل ہوتے گئے۔ مثال کے طورپر قدیم زمانے میں جانوروں کو سدھانے اور بچوں کی تربیت (سدھانے)میں خاطرخواہ تفریق موجود نہ تھی۔ سدھانے کا مقصد جانوروں میں مخصوص کام کرنے کی جسمانی اہلیت پیدا کرنا تھا۔ سدھانے کے اسی نظریے کو بچوں پر بھی لاگو کیا گیا۔ جانوروں میں مسلسل مشق کے ذریعے مخصوص جسمانی کام کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی تھی۔ اس طرح مسلسل مشق کو ہی بچوں کی ’تربیت‘ کا موزوں طریقہ مان لیا گیا۔ اگر جانور طے کردہ مشق میں کوتاہی برتتے تو ان کو جسمانی سزاد ی جاتی ، انھیں کوساجاتا اور گالیاں دی جاتیں۔ بچوں پر بھی یہی طریقہ نافذ کیا جاتا۔

جانوروں کو سدھاتے وقت ، اچھی کارکردگی کی صورت میں تھپکی یا کھانے کے لیے کچھ دیاجاتا اور اسی کی بنیاد پر بچوں کو سزا اورجزا کے اصول پر چلاتے ہوئے اس کی تربیت کی جاتی۔ تربیت کا یہ نظام محض بچوں کی تربیت تک محدود نہ تھا ۔ یہ ایک وسیع تر سماجی نظام کو قائم کرنے کی بنیادی کلا یعنی ٹول تھی۔ نہ صرف دنیاوی بلکہ مذہبی نظامات بھی اسی جزا و سزا کے اصول پر قائم ہوئے۔یہ ان معاشروں کے لیے کارآمد طریقہ تھا، جہاں افراد کی اپنی شعوری حیثیت اورانفرادیت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو اور ہرکام کو اجتماعی طورپر طے شدہ اسلوب کے مطابق گزارتے تھے۔

ا.ا۔ سیکھنے کے تعمیراتی عمل کی ابتدا۔ سوال اور مکالمہ
بیسویں صدی کے وسط میں یورپ میں روایتی طورپر اجتماعیت اور اس کی قربان گاہ پر افراد کی قربانیوں کی گنجائش ختم ہو گئی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی صارفانہ مزاج پرتھی اور صارفانہ مزاج کی روح انفرادیت پسندی پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب بڑوں نے بچوں کو جاننے کے بارے میں اپنے نظریات کو تبدیل کرنے کی کوشش شروع کی۔ انھوں نے بچے کی دنیا ، اس کی انوکھی حیثیت کو دریافت کرنے کے لیے تحقیقات شروع کیں۔ اس طرح وسیع تر معنوں میں انفرادی تربیت اور اجتماعی شعور سازی سے متعلق تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی دور میں سیکھنے کے عمل کو تعمیرکرنے کا تصوّر پیش کیا گیا۔ اس نظریے میں یہ بات سمجھائی گئی کہ سیکھنے والا بچہ سیکھنے کے عمل کو اپنے طورپر تعمیر کرتاہے۔ یہ عمل پہلے سے سیکھی گئی معلومات پر تعمیر کیا جاتاہے۔ مثال کے طورپر صفحہ نمبر ۔۔۔پر دیے گئے مکالمے میں بچہ مندرجہ ذیل کیفیات کے بارے میں بخوبی جانتاتھا۔
۔1۔بارش بادلوں سے ہوتی ہے۔
۔2۔بادلوں کی موجودگی کا پتا بجلی چمکنے اور بادل کی گرج سے ہوتاہے۔
۔3۔بادل، پانی کی ترسیل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
۔4۔بادلوں میں پانی سمندر سے آتاہے۔
۔5۔بادلوں کی حرکت میں ہواؤں کا کردا ر ہوتاہے۔

انہی تصوّرات کو بنیاد سمجھ کر بارش ہونے کے معاملے کو بھی کلی طورپر سمجھا جاسکتاہے۔ اس عمل میں بچہ اپنے پہلے سے موجود مشاہدات کو متحرک کرکے نئے معانی اور ان کے درمیان تعلق قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ یعنی یہ کہ بارش کیوں کر ہوتی ہے، کے عمل کو سمجھنے کا طریقہ وہ اپنے طورپر اختراع کرے گا۔ اس طرز کے سیکھنے اور اس سے پیداہونے والے عمل میں مرکزیت ، اوّل وآخر بچے میں متحرک ہونے والے تعمیراتی عمل کو حاصل ہے۔ اس عمل میں استاد ایک معاون یا مدد گار کاکردار اداتوکرسکتاہے، اس عمل کی قیادت نہیں کرسکتا۔ سیکھنے کا یہ تعمیراتی عمل ، بچے کی آزادروی اور خود مختاری کے بغیر ممکن نہیں۔
سیکھنے کے تعمیراتی عمل میں یہ بات مسلّمہ ہے کہ سیکھنے کا عمل محض معلومات کا اجتماع نہیں جو کسی بھی فرد کے ارد گرد کتابوں یا ویب سائٹس پر میسر ہیں۔ ان گونگی بہری اور بے جان معلومات میں زندگی اس وقت پیدا ہوگی جب کوئی شخص اپنی زندگی کے سابقہ تجربات اورحوالوں سے ان میں نئے معانی پیداکرے گا۔ یہ نئے معانی چونکہ کسی کی زندگی کے حوالے سے پیدا ہوئے ہیں، اس لیے یہ معانی زندگی کو سمجھنے یا تبدیل کرنے کی گنجائش بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کھانوں کی میسر تمام کتابیں پڑھ لیں۔ معلومات کو ازبر کرلیں۔ آپ کو یقین دلایا جاسکتاہے کہ آپ کبھی عمدہ کھانا نہیں پکاپائیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کھاناپکانے کی کوشش کریں۔ کھاناپکانے کی یہ کوشش آپ کے سابقہ تجربات میں پیوست ہوگی۔ آپ کی سابقہ معلومات ، مہارتیں اور کھانے کے آداب کے تناظر میں آپ کھانوں کے نئے ذائقے تلاش کریں گے۔ اسی طرح فنون لطیفہ میں مختلف اندازفکر اور اسلوب موجودہیں۔ ان تمام کی معلومات حاصل کرنے کے بعد شاید آپ بے رس گفتگو توضرور کرسکتے ہیں مگر آپ کبھی بھی فنکار نہیں بن سکتے۔ فن کار بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود سے اپنے پسندیدہ فن کی مشق کریں۔ اس سے آپ میں پہلے سے موجود فنی صلاحیّتوں کو جلا ملے گی۔ آپ نئی مہارتیں پیدا کریں گے اور آخرآپ کااپنا اسلوب سنورے گا جو آپ کی تخلیق ہو گا اور وہ آپ کی شخصیت کی توسیع ہوگا۔ ا س طرح کہا جاسکتاہے سیکھنے کے تعمیراتی عمل میں، سیکھنے والانیا علم پیدا کرتاہے۔

۔ Jean Piaget ۔1.2۔ ژاں پیاجے 1898-1980

قدیم زمانے سے بچے کو کوتاہ بالغ سمجھا جاتاتھا۔ اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بڑوں جیسے کام کرے۔ نہ کرنے کی صورت میں تشدّدکیا جاتاتھا۔ چونکہ بچے کی الگ دنیا کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتاتھا، اس لیے ان کے لیے الگ سائز کے کپڑوں کا بھی کوئی رواج نہ تھا۔
پیاجے نے یہ بات سمجھائی کہ جس طرح سمجھ سوچ کے حساب سے بڑوں کی ایک منفرد دنیا ہوتی ہے، اسی طرح بچوں کی بھی منفرداورممتاز دنیا ہوتی ہے۔ بچہ بڑوں کی سمجھ سوچ میں پیوست سوالات کو سمجھ نہیں سکتا۔ بچہ درجہ بدرجہ سیکھتاہے۔ ایک درجے پر، اُس درجے سے مخصوص باتیں سیکھنے کے بعد اس سے ارفع درجے کی باتیں سیکھتاہے۔ یہ نہیں ہو سکتاکہ پہلے ارفع درجے سے مخصوص معاملات سمجھے اور پھر نچلے درجے کے۔ پیاجے کاخیال ہے کہ اپنے اردگرد پودوں ، چیزو ں، انسانی رویّوں اوردیگر معاملات پر ردِّعمل ظاہر کرنا اور ان کے انفرادی اورآپسی تعلقات کے بارے میں بچے کا سیکھنا ایک فطری معاملہ ہے۔ اگر آپ بچے کو باقاعدہ طورپر نہ بھی سکھائیں توبھی بچہ خود سے سیکھتاچلاجاتاہے۔ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو جان کر اس کے ساتھ اپنے رشتے کو تعمیر کرتاچلاجاتاہے۔ یہ عمل کبھی رکتانہیں، وہ آسان سے پیچیدہ تر اعمال کی طرف بڑھتاچلا جاتاہے۔ اس سفر کے دوران وہ خود سے اصول بھی طے کرتاہے۔ مثلاً کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں اور کیا موزوں ہے اورکیا موزوں نہیں۔


۔1.3۔
سیکھنے کے تعمیراتی عمل کے بنیادی اصول کیاہیں؟
۔1۔
آپ جو نئی باتیں سیکھتے ہیں ان کی بنیاد ان باتوں پر ہوتی ہے ، جو آپ پہلے سے جانتے ہیں۔
-ii ۔2۔
جب آپ نئی باتیں سیکھ لیتے ہیں تو پرانی باتیں تبدیل ہو جاتی ہیں یعنی یہ کہ پرانی باتوں کے خاتمے یا ان میں ترمیم ہونا ، اس بات کی شہادت ہے کہ سیکھنے کا تعمیراتی عمل روپذیر ہواہے۔
۔3۔
سیکھنے کے عمل کی شروعات سوال کرنے سے ہوتی ہے۔ جب کوئی بھی موجود صورت حال آپ کے فکری تناظر میں ارتعاش پیدا کرے گی تو اس کی علامت سوال کی صورت میں ظاہر ہوگی۔ ایسی صورت حال جامدنہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ارد گرد تعلق داری کا ایک جال ہوتاہے۔ اسی تعلق داری کے باعث یہ صورت حال متحرک ہوتی ہے۔ جامد معلومات پر سیکھنے کا تعمیراتی عمل شروع نہیں ہوسکتا۔
۔4۔
سیکھنے کاتعمیراتی عمل چونکہ زندہ اور متحرک رشتوں پر ہوسکتاہے ، اس لیے اس میں تبدیلی کی گنجائش ہوتی ہے۔ تبدیلی ہوگی تو پرانے نظریات تبدیل ہوں گے۔ نئے نظریات پیدا ہوں گے تو نیا شعور پیدا ہوگااور اس طرح ایک مسلسل ،کبھی نہ رکنے والا عمل چلتا رہے گا۔

پیاجے کا خیال ہے کہ سیکھنے کا عمل اس وقت وقوع پذیر ہوتاہے جب متحرک سطح پر نئے معانی تعمیر کیے جائیں۔ یہ عمل محض مجہول سطح پر معلومات کو اخذ کرنے سے ممکن نہیں ہوتا۔ وہ اس پر زور دیتاہے کہ جب کوئی بھی صورت حال یا تحریک ہماری موجودہ/جاری صورت حال (جس میں ہم رہ رہے ہیں) پر اس طرح اثر انداز ہو کہ ایک طرح کا عدم توازن یا بحران پیدا کردے تو ہمیں اپنی سوچ اور نظریے کو تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے تاکہ توازن بحال کردیا جائے اور بحرانی صورت ختم ہو جائے۔ ایسا کرنے کے لیے ہم تحریک پیدا کرنے والی نئی معلومات کا اپنی موجود ہ سمجھ سوچ کے ساتھ تقابل کرتے ہیں، اس کے ساتھ تال میل کی گنجائش تلاش کرتے ہیں۔ اگر ایسا کرناممکن نہ ہو تو ہم تحریک پیدا کرنے والی نئی معلومات کی بنیاد پر اپنی سمجھ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح اس مخصوص معاملے کے بارے میں آپ کی سمجھ میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔

متحرک معلومات
سیب درخت سے زمین پر گرتاہے۔ یہ معلومات ہزاروں سالوں سے لوگوں کو معلوم تھی۔ آخر ایک شخص نے سوال کیا: سیب، درخت سے زمین پرہی کیوں گرتاہے؟ اب یہ معلومات متحرک ہوگئی۔ سوال کرنے والے کا گرنے کے اس عمل کے ساتھ تعلق قائم ہوگیا، کیونکہ وہ اس کو جاننا چاہتاہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہم کسی شخص سے تعلق قائم کرنے کے لیے اس کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔
بچے کو آپ بتاتے ہیں کہ پودوں کو زندہ رہنے کے لیے پانی، ہوا اور روشنی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کے لیے یہ معلومات جامد ہیں۔ اس وقت جامد ہیں جب تک بچہ خود اِن تمام عوامل کو خود اپنے مشاہدات سے سمجھ نہ لے۔ یعنی وہ ان عوامل کے پودے کی زندگی پر اثر کو اپنے طورپر تعمیر کرے گا تو یہ معلومات اس کے لیے متحرک ہو جائیں گی۔
واضح رہے کہ وہ معلومات جن کا تعلق کسی آئیڈیالوجی سے ہو، وہ بھی جامد ہی ہوتی ہیں۔ ایسی معلومات کی اشاعت کرنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان جامد معلومات کو جیسے ہیں ویسے ہی قبول کرکے ان پر عمل شروع کردیا جائے۔ چونکہ یہ معلومات متحرک نہیں ہوتیں، ان کی حقیقی حالات سے وابستگی نہیں ہوتی، اس لیے یہ لوگوں کے لیے دِقّت کا باعث بن جاتی ہیں۔
Misconceptions in Learning
سیکھنے سے مراد سکول کے مضامین کی کتابوں کو یاد کرنا ہے۔ریاضی کے تصورات سیکھناہے اور زبان کی مہارتیں سیکھنا ہے۔
جاری ہے)۔

سبط حسن، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہر مضمون کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

One Comment