جدید دنیا اور مسلمانوں کی فکری آوارگی۔ دوسراوآخری حصہ

سید نصیر شاہ

iqbal_azad

اب ہم ایک اور مسئلہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مذہب کوئی بھی ہو۔اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اُسی کو دنیا پر غالب آنا ہے کیونکہ اسی کے پاس انسان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے اسلام بھی یہی دعویٰ لے کر میدان عمل میں آیا یہ اپنے ’’زورِ دروں‘‘ سے جلدہی اس قابل ہوگیا کہ مختلف سلطنتوں کو زیر کرسکے۔

ابتدائی قبائلی معاشرت کے مسائل سادہ تھے قبائلی انداز میں انہیں حل کیا جاتا رہا۔ جب مسلمان قیصرروم کے علاقوں پر قابض ہوئے تو انہیں متمدن دنیا سے واسطہ پڑا۔ خوش قسمتی سے اس دور کا ترقی یافتہ قانونی نظام ’’رومن لاء‘‘ کی صورت میں ان کی رہنمائی کے لئے موجود تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اُن کے شاگردوں کی محنت سے قوانین مدون ہوئے ۔ان قوانین کی تدوین میں اسلام کے سادہ سے چند احکام اور ’’رومن لاء‘‘کا ذخیرہ ان کے پیش نظر تھا۔

اس طرح فقہ حنیفہ مرتب ہوئی یہ فقہ مسلمانوں کی حاکمیت کے دور میں مدون ہوئی اس لئے اس نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی کہ وہ پیدا ہی حکمرانی کے لئے ہوئے ہیں۔ دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارلکفر‘‘ جن علاقوں پر مسلمان حاکم تھے اور جہاں ان کا قانونی نظام برسرِ عمل تھا وہ ’’دارالسلام‘‘ قرارپائے اور جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں تھی انہیں ’’دارالکفر‘‘ شمار کیا گیا۔ ابتدائی معاشرت سادی تھی آبادیاں کم تھیں زمین وسیع تھی لوگوں کے لئے ہجرت آسان تھی’’پاسپورٹ‘‘ اور ’’ویزا‘‘ وغیرہ کی یہ پابندیاں نہ تھیں۔ قرآن حکیم میں یہ آیات وارد ہوئی تھیں

’’وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے اُن سے فرشتے کہتے ہیں ’تم کا ہے میں تھے‘ وہ کہتے ہیں ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے، تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برُی جگہ ہے پلٹنے کی، مگر وہ جودبالیے گئے مرد، عورتیں اور بچے جنہیں کوئی تدبیر بن نہ پڑے نہ راستہ جانیں تو قریب ہے اللہ ایسے لوگوں کو معاف فرمائے اور وہ معاف فرمانے والا بخشے والا ہے‘‘ (کنز الایمان 4/97-99)۔

ان آیات کی شان نزول بیان کرتے ہوئے مولانا نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں ’’یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے کلمہ اسلام کو زبان سے اداکیا مگر جس زمانہ میں ہجرت نہ کی اور جب مشرکین جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے گئے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہوئے اور کفار کے ساتھ ہی مارے بھی گئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ کفار کے ساتھ ہونا اور فرض ہجرت ترک کرنا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے‘‘ (حاشیہ آیت مذکورہ) مولانا مراد آبادی آگے کہتے ہیں ’’ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جو شخص کسی شہر میں اپنے دین پر قائم نہ رہ سکتا ہواور یہ جانے کہ دوسری جگہ جانے سے اپنے فرائض دینی ادا کرسکے گا اس پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے‘‘

’’دارالاسلام‘‘اور ’’دارالکفر‘‘کی اصطلاحات کے ساتھ ’’دارالامن‘‘ اور ’’دارالحرب‘‘ کی اصطلاحات بھی فقہ میں وضع ہوئیں اور مسلمانوں کے لئے فقہ مدون کرتے رہتے ہیں جہاں انہیں فرائض مذہبی (نماز، روزہ، حج، زکوٰہ) ادا کرنے کی آزادی ہے اور وہ حفظ وامان میں ہیں تو وہ ملک ’’دارالامن‘‘ ہیں وہاں مسلمان رہ سکتے ہیں مگر وہ کوشش کرتے رہیں کہ اس ملک میں اسلام کاغلبہ ہو اور یہ دارالاسلام بن جائے۔ رہے وہ ملک جہاں حکومتیں فرائض مذہبی کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالتی ہیں تو وہ ممالک ’’دارالحرب‘‘ ہیں یعنی حکومت کے ساتھ مسلح تصادم کیا جائے تو بھی جائز ہے لیکن اگر یہ طاقت نہ ہوتو ہجرت ضروری ہے۔

ہندوستان میں جب انگریزوں نے اقتدار حاصل کرلیا توکچھ علماء نے اسے ’’دارالحرب‘‘ قراردے دیا اور مسلمانوں کوہدایت کی کہ وہ یہاں سے ہجرت کرکے’’دارالسلام‘‘ چلے جائیں چنانچہ اسی ہدایت کے تحت کچھ علماء حجاز چلے گئے اور کچھ نے مسلمان ریاستوں میں رہائش اختیار کرلی بعض علماء نے تویہ کرلیا لیکن عوام مشکلات کاشکار تھے انہیں کسی طرح رزق کمانا تھا مسلمان سپاہی ہندو راجاؤں کے ہاں ملازم ہوگئے انہیں اگر مسلمان ریاستوں کے مسلمان سپاہیوں کے خلاف جنگ کرنا پڑتی تھی تو وہ ایسا کرتے اسی طرح انگریز کی ملازمت کا معاملہ تھا۔

شاہ عبدالعزیز فرزند شاہ ولی اللہ نے فتوٰی دے دیا کہ انگریزوں کی ملازمت جائز ہے ہندوستان ’’دارالحرب‘‘ نہیں مگر انگریز کی ملازمت میں یہ احتیاط کی جائے کہ اس کی فوج میں بھرتی نہ ہوا جائے کہ کہیں مسلمانوں سے جنگ کی نوبت نہ آجائے۔ جب ملازمت اختیار کی جائے تو وہ وفاداری سے اپنے فرائض سنبھالے جائیں لیکن انگریزوں کے ساتھ ثقافتی اور معاشرتی تعلقات نہ رکھے جائیں۔ ان کے برتنوں میں کھایا پیا جائے ان کے تہواروں اور عبادت گاہوں میں جانے سے بھی پرہیز کیا جائے۔

شاہ عبد العزیز کے اپنے بھتیجے شاہ عبدالحئ بھی اسی اجازت کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ہوگئے۔ مگر جیسا کہ پچھلی قسط میں ہم بتا چکے ہیں یہ بات علماء کے فتوؤں تک محدود رہی عام مسلمان معاشی و اقتصادی حالات کے پیش نظر انگریزوں کی فوج میں بھی ملازم ہوئے اور مسلمان سپاہیوں سے جنگ بھی کرتے رہے۔

فتوے اپنی جگہ رہے اور عام مسلمان اپنے حالات کے مطابق اپنی راہ نکالتے رہے انگریز پوری طرح ہندوستان پرچھاگئے اور ان کے اس تسلط میں بھی اہل ہند اور خود مسلمانوں نے بڑا کردار اداکیا۔ پھر پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ 1912تا1914میں بلقان کی جنگیں ہوئیں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کے تحفظ اور خود ترکی کا خلافت کے بچانے کا سوال پیدا ہوگیا۔ اس وقت مسلمان مفکرین کیا کرتے تھے؟

انہوں نے تحریک خلافت شروع کی اس میں علماء لمبی لمبی تقریریں کررہے تھے اور اپنی عادت کے مطابق مسلمانوں کے جذبات بھڑ کانے کے لئے طرح طرح کے الزامات گھڑ رہے تھے مہاتماگاندھی بھی تحریک خلافت میں شانہ بشانہ تھے ایک ہندومورخ بی۔ آرنندہ لکھتا ہے ’’قسم قسم کی افواہیں پھیل رہی تھیں برطانوی ہندوستان میں قرآن حکیم کی تعلیم پر پابندی لگنے والی ہے، مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا ہے، کعبہ کو تباہ کردیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ‘‘ )پان اسلامزم: امپیریلزم اینڈنیشنلزم ازبی آرنندہ)۔

بعض علماء نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا مولانا ابوالکلام آزاد نے فتویٰ جاری کیا اور ہجرت کی ہدایت کی۔’’تمام دلائل شرعیہ، حالات حاضرہ، مصالح مہمہ امت، مقتضیات صالحہ وموثرہ پر نظر ڈالنے کے بعد پوری بصیرت کے ساتھ اس اعتقاد پر مطمئن ہوگیا ہوں کہ مسلمانان ہند کے لئے بغیر ہجرت کے کوئی چارہ نہیں ان تمام مسلمانوں کے لیے جو اس وقت ہندوستان میں سب سے بڑا عمل انجام دینا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کرجائیں‘‘ ۔

اس فتویٰ کو مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی تائیدوحمایت بھی حاصل تھی اس فتویٰ کا اثر ہوا اور کئی مسلمان خاندان ہندوستان میں اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچ کر افغانستان کو ہجرت کرگئے۔ دس ہزار راستے کی صعوبتوں یا افغانستان میں دھکے کھاتے ہوئے لقمہ اجل بنے ۔افغانستان میں ان کے ساتھ بے انتہا بدسلو کی ہوئی یہ تحریک آوارگئ فکر کا بدانجام مظاہرہ ثابت ہوئی۔

ادھر مسلمانوں کے دوسرے حکیم الامت، مفکر اسلام علامہ اقبال کے متعلق بھی پڑھتے چلئے۔ لاہور کے ٹاؤن ہال میں جنگ عظیم کے مصارف کے لئے رقم جمع کرنے اور فوجی بھرتی کی ترغیب دینے کے لئے گورنر پنجاب سرمائیکل اوڈوائر کی صدارت میں جلسہ ہورہا تھا۔ ہمارے مفکر اسلام میں انگریز کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتے ہوئے اور ہدیہ عقیدت میں اپنی جان پیش کرتے ہوئے ایک خوبصورت نظم سنار رہے تھے جس کا ایک بند آپ بھی پڑھ لیجئے۔

اخلاص بے غرض ہے صداقت بھی بے غرض، خدمت بھی بے غرض ہے اطاعت بھی بے غرض
عہد وفاو مہرو محبت بھی بے غرض، تخت شہنشاہی سے عقیدت بھی بے غرض
ہنگامہ وغاء میں سرا سر قبول ہو، اہل وفا کی نذر محقر قبول ہو (سرودِ رفتہ)۔

بعد میں گورنر پنجاب سرمائیکل اوڈوائر نے پنجاب کے مسلمانوں کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی خود نوشت میں لکھا ’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پنجاب کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمان ہے اور جن لوگوں کو دیہاتی مسلمانوں کے متعلق صرف سطحی علم حاصل تھا وہ خیال کرتے تھے کہ ایسی جنگ کے لئے جو ترکوں کے خلاف ہے اور جو مصر، فلسطین اور عراق جیسے اسلامی ممالک میں جہاں اسلامی مقدس مقامات ہیں لڑی جارہی ہے مسلمان بھرتی نہیں ہوں گے مگر یہ سب مایوسانہ خیالات باطل ثابت ہوئے۔

جنگ کی ابتداء میں صرف ایک لاکھ پنجابی سپاہی تھے مگر جنگ کے اختتام تک یہ تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ دوران جنگ تقریباََ تین لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی بھرتی ہوئے جوکل ہندوستان کی بھرتی کے نصف سے زائد تھے اور ان میں سے نصف پنجاب کے مسلمان تھے جویہ جانتے ہوئے بھرتی ہورہے تھے کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کرنے جارہے ہیں‘‘ (’’انڈیا آیز آئی نیواٹ‘‘ ازسرمائیکل اوڈوائر ص415)۔

یہاں ایک اور بات بھی دیکھتے جائیں کہ اس وقت علماء نے ہجرت کو ضروری قراردیا کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان دارالحرب ہوگیا تھا جب تقسیم ہند ہوئی اور مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگے تو علماء کیا کہتے تھے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ کے ساتھ تھے وہ فرمارہے تھے ’’رسول خدانے بھی ہجرت کی تھی اور وہ بھی مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے اپنا سب کچھ چھوڑ گئے تھے لہٰذا مسلمانان ہند کو سنت رسول کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان جاکر پاکستان کو مدینہ بنایا چاہیے ‘‘۔

مولانا حسین احمد مدنی جو’’قوم پرست‘‘ علماء کے ساتھ تھے فرمارہے تھے ’’اپنے پیچھے اپنے آباواجداد کی قبریں ،اپنی مسجدیں، اپنی تاریخی عمارات اور اپنے ثقافتی اثاثے چھوڑ کرنہ جاؤ کہ تم چلے گئے تو ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور یہ سب کچھ برباد ہوجائے گا‘‘

اور وہی مولانا ابوالکلام آزاد جن کا تحریک خلافت کے دوران ہجرت کے لئے فتویٰ ابھی ابھی آپ نے پڑھا انہوں نے تقسیم ہند کے بعد اکتوبر 1947ء میں جامع مسجد دہلی میں اپنی وہ یادگار تقریر کی جوان کی دوسری تحریروں اور تقریروں کی طرح خطابت اور ادب عالیہ کی خوب صورت مثال ہے ،اس میں انہوں نے فرمایا

’’یہ فرار کی زندگی جو تم ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں، آخر کہاں جارہے ہواور کیوں جارہے ہو؟‘‘ گویا اب ہندوستان کی حیثیت کچھ اور ہوگئی تھی اور ہجرت غیر ضروری تھی جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے اب بھی ضروری قراردے رہے تھے۔۔

یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ مسلمان علماء جدید دنیا کو سمجھ نہ سکے تھے۔ ان کی سوچوں میں انتشار تھا۔ وہ دور جس میں مذہب کے نام پر جنگیں ہوتی تھیں کبھی محمود غزنوی بت خانے توڑرہا ہوتا تھا کبھی وحشی عیسائی صلیبی جنگوں کے نام پر انسانی لہو سے زمین کا چہرہ لال کررہے ہوتے تھے۔ وہ دور ختم ہوگیا تھا زمانہ آگے بڑھ گیا تھا اب جنگوں کے اسباب کچھ اور ہوگئے تھے اب وہ بات نہیں رہی تھی کہ زمین وسیع ہے جہاں مرضی آئے چلے جاؤ ۔اب ایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں لاکھوں قسم کی پابندیاں ہیں۔ ہر ملک ایک خاص خطہء ارض میں محدود ہے وہ بمشکل پہلے سے موجود آبادی کا بوجھ سہارسکتا ہے۔

ہم نے پاکستان بنا لیا بہت سے مسلمان ہجرت کرکے ادھر آگئے لیکن اب بھی بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی آباد ی سے زیادہ ہے۔ کیا پاکستان میں اتنی گنجائش ہے کہ ان تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہاں بسالے جو بھارت میں ہیں؟ اس سوال کا جواب یقیناًنفی میں ہے۔ پاکستان نے تو اپنے دروازے ان غریب بہاری مسلمانوں پر بھی بند کررکھے ہیں جنہوں نے پاکستان کے لئے ووٹ دئیے تھے۔ ان حالات میں’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ والی فقہ کیا رہنمائی کرسکے گی اور مسلمان ’’دارالکفر‘‘ سے ہجرت کرکے کہاں جاسکیں گے؟

آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد یورپ ایشیاء اور دیگر براعظموں میں بکھری ہوئی ہے وہاں سیکولر قوانین کے تحت زندگی بسر کررہی ہے ہمارے تنگ نظر فقہاء صدیوں پہلے کی ’’دارالسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ والی تقسیم پر اب بھی جان دیتے ہیں ہم انہیں معذورسمجھتے ہیں مگر ہمیں حیرت ہوتی ہے حکیم الامت علامہ اقبال پر جنہوں نے جدید دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھی مگر ’’واہ واہ‘‘ کرانے کے لئے ایسی شاعری کرتے رہے۔

ان غلاموں کو یہ فتویٰ ہے کہ ناقص ہے کتاب، کہ سکھاتی نہیں مومن کوغلامی کے طریق

حضرت علامہ سے کون کہتا کہ قبلہ غلام بے چارے کیا فتویٰ دیں گے؟ وہ تو آپ سے اور آپ کے شعروں پر گزارہ چلانے والے علماء سے پوچھتے ہیں کہ آج مسلمان بہتر روزگار،بہترحالات کار، بہتر زندگی اور امن وسکون کی تلاش میں مسلمان ملکوں سے ہجرت کرکے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کوجارہے ہیں یہ وہاں جاکر کیا کریں، ان ملکوں سے وفاداری نبھائیں جہاں سے یہ پرُ سکون طریقہ سے محنت کا صحیح معاوضہ وصول کرتے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے بفراخی رزق کماتے ہیں یاوہاں اپنی خداوندی آقائی کاڈنکا بجانے کے لئے کلاشنکوفیں اٹھالیں۔

اسلام کی طرف رجوعکی تحریکوں کو بڑھاوا دینے میں ہمارے حکیم الامت علامہ اقبال کی شاعری کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے شاہینوں اور عقابوں والی شاعری سے مسلمانوں کا لہوخوب گرمایا اور طارق بن زیاد کے پردے میں خداسے یہ دعاکی۔

دل مرد مومن میں پھر زندہ کردے، وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ’’لا تذر‘‘ میں

’’لا تذر‘‘ کی تلمیح سمجھنے کے لئے ہم کچھ اجمالی اشارات کئے دیتے ہیں ۔قرآن حکیم میں حضرت نوح علیہ اسلام کی دعا درج ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے مایوس ہوکر کی تھی اس دعا ’’یابددعا‘‘ میں انہوں نے کہا’’رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا (اے میرے پروردگار زمین میں ایک کافر بھی نہ چھوڑ) یہلا تذر (نہ چھوڑ) نوح علیہ اسلام کی تو دعا تھی، علامہ اقبال نے اسے نعرہ بناکر اپنے غازیوں اور خدا کے پراسرار بندوں کے ہونٹوں پر جمادیا اور اپنے آپ کو ’’دارلاسلام ‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ کی فقہ مرتب کرنے والوں کا سرخیل بنالیا۔

ان ہی عجیب وغریب تعلیمات نے آج دنیا میں’’مسلمانوں‘‘ کہ بحیثیت قوم ’’فسادپسند‘‘ مشہور کردیا ہے اور حالت یہ ہے کہ دنیا کے جس ملک میں کوئی مسلمان نظر آتا ہے لوگ چیخ اٹھتے ہیں
روکو اسے یہ شخص پھرلے کر خدا کا نام، شجرزقوم بوئے گاپھولوں کے شہرمیں

ہمارے لفافہ گیر کالم نگار بڑے جوش و خروش سے کہتے ہیں کہ یہ اسلام دشمن لوگوں کا پروپیگنڈا ہے مگر انھیں یہ پراپیگنڈہ کرنے کے شواہد ہم نے ہی دنیا کو اسی طرح تقسیم کرکے اور ’’لا تذر‘‘ کے نعرے تخلیق کرکے فراہم کئے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد 1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی اس کے بعد جسٹس منیر کا تحقیقاتی کمیشن بیٹھا ۔اس کمیشن نے علماء سے مختلف سوالات کئے ۔ایک آدھ سوال کے علمائے پاکستان کی طرف سے دئیے گئے جوابات ملاخطہ فرمائیے اور پھر سوچئے کہ کیا اس طرح کے نظریات رکھنے والے لوگ جدید دنیا میں مسلمانوں کے رہنما ہوسکتے ہیں۔

کمیشن کی طرف سے ایک سوال اٹھایا گیا’’ان مسلمان اقلیتوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو غیر مسلمان ممالک میں ہیں؟‘‘ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ان علماء میں شامل تھے جو قوم پر ست کہاتے تھے اور جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر جب پاکستان بن گیا تو انھوں نے کہا عوام نے ہماری تائید نہیں کی ، مسلم لیگ کا ساتھ دیاہے اس لیے ہم نے عوام کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہے اب ہم پاکستان کے وفادار شہری ہیں۔
انہوں نے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں فرمایا ’’یہ ناممکن ہے کہ ایک مسلمان غیر مسلمان ملک کاوفادار شہری ہوسکے‘‘ جب پوچھا گیا ’’کیا بھارت کے مسلمانوں کایہ فرض نہیں کہ وہ اپنے ملک کے وفادار شہری ہوگی تو بخاری صاحب نے فرمایا ’’ہرگز نہیں‘‘۔

امیر جماعت اسلامی مولانا سیدابوالاعلی مودودی سے پوچھا گیا ’’آپ اپنے ملک کا دستور اپنے مذہب کے مطابق بناتے ہیں اور اقلیتوں کو اپنی رائے دینے کاحق نہیں دیتے کیا ہندوؤں کواجازت دیں گے کہ وہ بھی اپنے ملک کا دستور اپنے مذہب کے مطابق بنائیں؟‘‘ تو مولانا نے کہا ’’یقیناًہندوؤں کو یہ حق حاصل ہوگا اور مجھے اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔اگرمنو کے شاستروں کے مطابق ہندوؤں کی حکومت میں مسلمانوں کو شودراور ملیچھ کے طور پر رکھا جائے، انہیں حکومت میں حصہ دار نہ بننے دیا جائے اور بطور شہری انہیں حقوق نہ دئیے جائیں‘‘۔

منیر کمیشن نے ایک اور سوال پوچھا ’’اگر پاک بھارت جنگ ہوجائے تو بھارتی مسلمانوں کاکیا فرض ہوگا وہ کس کا ساتھ دیں؟ بریلوی عالم مولانا ابوالحسنات نے فرمایا ’’ان کافرض ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں اور بھارت کے خلاف لڑیں جب یہی سوال مولانا مودودی سے کیا گیا تو انہوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا’’انہیں پاکستان کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے اور نہ ہی کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہیے جس سے پاکستان کے تحفظ کو نقصان پہنچے‘‘۔

غور کیجئے اگر مسلمانوں کے نظریات یہ ہوں تو کیا غیر مسلم حکومتیں انہیں اپنے شہریوں کے طور پر قبول کر سکتی ہیں؟ اور خاص طور پر جب غیر مسلم ارباب سیاست کے ذہن میں بٹھا دیا جائے کہ ’’مسلمانوں کی کتاب‘‘ مسلمانوں کی صرف ’’آقائی وخداوندی‘‘ سکھاتی ہے۔ اس لیے یہ جہاں بھی رہیں گے اس ملک کے وفادار شہری نہیں ہوسکتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نظریاتی سیاست کی حامل جو پارٹی ہووہ اپنے نظریات کوغالب کرکے قیادت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہے لیکن آج کی دنیامیں جمہوری طریقہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت عوام کو اپنے اعلیٰ منشور کے ذریعے اپنے ساتھ ملائے اور پھر اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے برسراقتدار آئے لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کو مذہبی رہنماؤں نے علم ودانش سے آراستہ کر کے لوگوں کے دماغوں کو فتح کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا کیونکہ وہ خود ان باتوں سے دور معین الدین اجمیری نے اسی راستے سے اسلام کی اشاعت کی تھی۔

مگر ہمارے علماء ان چیزوں کوبھی نہیں جانتے وہ صرف ایک طریقہ سے واقف ہیں اور وہ یہ کہ مسلح جدوجہد یاکسی طریقہ سے اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے اور پھر بزورشمشیر اسلام نافذ کیا جائے اور اسلام کی طرف رجوع اکثر تحریکیں یہی عمل کرتی ہیں یا یہی عمل کرنے پر اکساتی ہیں۔

One Comment